• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انبیاء علیہ السلام کے اجسام کے بارے میں صحیح عقیدہ

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!

سب سے پہلے میں نے یہ بات الحدیث میں پڑھی اور مجھے حیرت ہوئی کہ کوئی عقیدہ بغیر دلیل کے بھی ہوسکتا ہے! ملاحظہ فرمائیں:

ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر 14، جولائی 2005، ص6 پر سنن ابی داود کی حدیث کہ انبیاء کے جسم کو کھانا اللہ نے مٹی پر حرام کر دیا ہے کو شیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی انوار الصحیفہ کے تحت ضعیف قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے فوراً بعد لکھا ہے: یاد رہے کہ نبی کریم ﷺ کا جسم مبارک بعینہ صحیح سلامت و محفوظ ہے۔

یہ سوال میں نے شیخ محترم جناب رفیق طاہر حفظہ اللہ کی خدمت میں پیش کیا اور اس بے دلیل دعویٰ کی دلیل طلب کی لیکن جواب سے مجھے تسلی نہیں ہوئی۔ دیکھئے: اس دعوى کی کیا دلیل ہے کہ انبیاء کے جسموں کو مٹی نہیں کھاتی - URDU MAJLIS FORUM

شیخ محترم نے کہا ہمارے نزدیک سنن ابی داود کی حدیث صحیح مسلم کی شرط پر صحیح ہے لیکن چونکہ میں حدیث کی تحقیق نہیں کرسکتا تھا اس لئے مجبورا خاموشی اختیار کی اور سمجھا کہ ہوسکتا ہے کہ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ سے حدیث کی تحقیق میں غلطی ہوئی ہو اور ایک صحیح حدیث کو ضعیف قرار دے دیا ہو۔واللہ اعلم

لیکن جب حال ہی میں اہل حدیث کے اکابر محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی ایک تحریر نظر سے گزری جس سے حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے موقف کی تائید ہوتی ہے۔ تو پرانا سوال دوبارہ ذہن میں ابھر آیا۔ اسماعیل سلفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے اپنی گزارشات میں عرض کیا تھا کہ حیات انبیاءعلیہم السلام پر اجماع امت ہے گو احادیث کی صحت محل نظر ہے تاہم ان کا مفاد یہ ہےکہ انبیا علیہم السلام کے اجسام مبارکہ کو مٹی نہیں کھاتی۔ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء (مسئلہ حیات النبی از مولانا اسماعیل سلفی، ص52)

حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ اور مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی بات میں زرہ برابر بھی کوئی فرق نہیں دونوں کے نزدیک انبیاء علیہ السلام کے اجسام کو مٹی نہ کھانے والی حدیث ضعیف ہے لیکن عقیدہ یہی ہے جو کہ ضعیف حدیث میں ذکر ہوا ہے۔ میرا اہل علم سے سوال ہے کہ انبیاء علیہ السلام کے اجسام کے بارے میں صحیح عقیدہ کیا ہے جو نص سے ثابت ہو؟

محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے انبیاء علیہ السلام کے اجسام کو مٹی نہیں کھاتی، حدیث کے ضعف پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے تفصیل کے لئے مذکورہ کتاب کا مطالعہ کریں یہ رسالہ کتاب تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی میں شامل ہے۔
تحریک آزادی فکر اور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی - اہل حدیث - کتاب و سنت کی روشنی میں لکھی جانے والی اردو اسلامی کتب کا سب سے بڑا مفت مرکز
مولانا حدیث کے ضعف کے بارے میں لکھتے ہیں: جہاں تک ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء ٹکڑے کا تعلق ہے وہ صرف تین سندوں سے مروی ہے اور تینوں مخدوش ہیں۔(حاشیہ مسئلہ حیات النبی از مولانا اسماعیل سلفی، ص37)

مزید فرماتے ہیں: حافظ ابن القیم نے بھی جلاء الافہام میں ابن حاتم کی جرح کے جواب میں کوشش فرمائی ہے جس کی بنیاد عبدالرحمنٰ بن یزید بن جابر اور عبدالرحمن بن یزید بن تمیم کے اسشتباہ پر رکھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جلاء الافہام کی ساری بحث پڑھنے کے بعد بھی ذہن صاف نہیں ہوتا۔اجلہ محدثین رحمہم اللہ کی تنقید ایسی نہیں جو مناظرانہ احتمالات کی نذر کر دی جائے۔( مسئلہ حیات النبی از مولانا اسماعیل سلفی، ص38)

انبیاء علیہ السلام کے اجسام کو مٹی نہیں کھاتی والی روایت اس صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے جسے حافظ نورالدین ہیثمی نے مجمع الزواید جلد 10 ص170 پر ابویعلی اور طبرانی سے بروایت حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نقل فرما کر صحیح کہا اور جس میں آیا ہے: حضرت موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کے ہمراہ رات مصر سے نکلے تو راستہ بھول گئے۔ جب تشویش ہوئی تو علمائے بنی اسرائیل نے فرمایا، یوسف علیہ السلام نے ہم سے پختہ وعدہ لیا تھا کہ جب وہ مصر سے جائیں تو میری ہڈیاں اپنے ہمراہ لیتے جائیں۔چناچہ انہوں نے ہڈیاں نکال لیں اور اپنے ہمراہ لے گئے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مٹی انبیاء علیہ السلام کے اجسام کے ساتھ تصرف کرتی ہے۔واللہ اعلم

میں چاہونگا کہ محترم مجتہد رفیق طاہر حفظہ اللہ بھی اس بارے میں اپنی گزارشات ضرور پیش کریں کیونکہ شیخ ایک اصولی آدمی ہیں اور اکثر ان کی تحقیق پر دل مطمئن ہو جاتا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
امام دار قطنی، امام ابن حبان، امام ابن خزیمہ، امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم اور علامہ البانی رحمہم اللہ کے نزدیک یہ روایت صحیح درجہ کی ہے۔
امام منذری، امام شوکانی اور علامہ عجلونی رحمہم اللہ نے اس کی سند کو جید کہا ہے۔
امام سیوطی اور شیخ بن باز رحمہما اللہ نے اس روایت کو حسن درجہ کی روایت قرار دیا ہے۔
امام ابن کثیر، امام سخاوی، امام عراقی اور ابن القطان رحمہم اللہ نے اس کی سند پر جرح کرتے ہوئے اسے منقطع روایت قرار دیا ہے۔
تفصیل کے لیے لنک دیکھیں:
الدرر السنية - الموسوعة الحديثية
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیا اپنی قبروں میں زندہ ہے اور ان کی یہ زندگی برزخی ہے جو اللہ تعالی نے انہیں دنیوی وفات کے بعد عطا کی ہے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات حضرت موسی علیہ السلام کو اپنی قبر میں نماز پڑھتے دیکھا، یہ روایت بھی اس کی شاہد ہے کہ انبیا کے اجسام کو قبر کی مٹی نہیں کھاتی ہے۔ حضرت موسی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین تقریبا اڑھائی ہزار سال کا وقفہ ہے۔

السوال : هل نستطيع أن نقول إن النبي صلى الله عليه وسلم ما زال حياً، إستنادا إلى الأدلة الواردة مثل ( أعمال أمتي تعرض عليّ ) وكذلك أن النبي صلى الله عليه وسلم يرد السلام على من صلى عليه ومثل أن الشهداء أحياء كما قال الله عزوجل (بل أحياء عند ربهم ) والنبي من باب أولى ؟


الإجابة



الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:
فلاشك أن النبي صلى الله عليه وسلم توفي كما توفي غيره في التاريخ المعروف كما قال تعالى: [/COLOR] إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ {الزمر:30}. وقال أبو بكر رضي الله عنه: طبت حيا وميتا... ولاشك أنه صلى الله عليه وسلم حي في قبره حياة برزخية الله أعلم بكيفيتها، فلا ندري عنها إلا ما جاء في نصوص الوحي ونحن نتوقف عند ذلك، فقد روى الإمام أحمد وأبو داود وصححه النووي والألباني من حديث أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ما من أحد يسلم علي إلا رد الله الله علي روحي حتى أرد عليه السلام. ولما أخبرهم أن صلاتهم عليه معروضة عليه قالوا: يارسول الله وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت!" أي يقولون قد بليت" قال: إن الله عز وجل قد حرم على الأرض أن تأكل لحوم الأنبياء. وروى أبو نعيم في حلية الأولياء من حديث أنس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن أعمال أمتي تعرض علي في كل يوم جمعة... وفي عون المعبود نقلا عن السيوطي وغيره: إن الأدلة متواترة على حياة الأنبياء في قبورهم وأنهم يصلون. ونقل عن البيهقي قوله: الأنبياء بعد ما قبضوا ردت إليهم أرواحهم فهم أحياء عند ربهم كالشهداء، ثم قال: وقال السيوطي: ولفظ الرد لا يدل على المفارقة بل كنى به عن مطلق الصيرورة، وحسن هذا مراعاة المناسبة اللفظية بينه وبين قوله: حتى أرد عليه السلام فجاء لفظ الرد في صدد الحديث لمناسبة ذكرها بآخره، وليس المراد بردها عودها بعد مفارقة بدنها. وعلى هذا فلا يجوز أن نقول إنه صلى الله عليه وسلم ما زال حيا. ولكن نقول إنه صلى الله عليه وسلم توفي ثم أحياه الله تعالى حياة برزخية. [/FONT]
والله أعلم.


[/SIZE][/h]
http://www.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=58991
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
شرح حديث مررت على موسى وهو يصلي في قبره

ذُكر في أحد أحاديث صحيح مسلم أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى موسى عليه السلام يصلي في قبره . أرجو شرح هذا الحديث بالتفصيل .

الجواب :
الحمد لله
هذا الحديث من الأحاديث الصحيحة التي يوردها العلماء في فضائل نبي الله موسى عليه السلام ، يرويه الصحابي الجليل أنس بن مالك رضي الله عنه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : (أَتَيْتُ – وفي رواية : مررت - عَلَى مُوسَى لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ ) رواه مسلم (2375) .

وفي هذا الحديث مسائل ، يمكن إجمالها فيما يأتي :
أولا :
اختلف العلماء في مكان قبر موسى عليه السلام ، وهذا الحديث يدل على أنه في طريق بيت المقدس عند الكثيب الأحمر ، وهذا وصف مبهم بعض الشيء ، وليس وصفا محددا ، ولعل الحكمة من ذلك ألا يتخذ قبره معبدا .

قال القرطبي رحمه الله :
" الكثيب : هو الكوم من الرمل ، وهذا الكثيب هو بطريق بيت المقدس " انتهى.
" المفهم " (6/192)

وقال أيضا :
" وهذا يدل على أن قبر موسى أخفاه الله تعالى عن الخلق ، ولم يجعله مشهورا عندهم ، ولعل ذلك لئلا يعبد ، والله أعلم " انتهى.
" المفهم " (6/222) . وانظر: " عمدة القاري " للعيني (12/474)

ثانيا :
في هذا الحديث دليل على حياة الأنبياء بعد موتهم ، وأنهم يتميزون عن سائر الأموات ، إلا الشهداء ، بأن الله يحييهم مرة أخرى حياة خاصة ، فيها من النعيم والكرامة ما لا يتعرض له أحد من الناس .

وقد دلت على ذلك أدلة أخرى كثيرة ، من أصحها وأشهرها حديث الإسراء والمعراج ، حيث جاء فيه أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى الأنبياء في السماوات ، وصلى بهم إماما في بيت المقدس.

ومنها حديث أنس بن مالك رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال :
( الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون )
رواه البزار (256)، وحسنه الألباني في " السلسلة الصحيحة " (621)

وقد قرر ذلك أهل العلم في كتبهم ، حتى صنف الإمام البيهقي في هذه المسألة جزءًا بعنوان : " حياة الأنبياء بعد وفاتهم "، وصنف الإمام السيوطي جزءًا بعنوان : " إنباء الأذكياء بحياة الأنبياء " .

وقال البيهقي رحمه الله :
" لِحياة الأنبياء بعد موتهم صلوات الله عليهم شواهدُ من الأحاديث الصحيحة " انتهى.
" حياة الأنبياء " (ص/77)

وقال السيوطي رحمه الله :
" حياة النبي صلى الله عليه وسلّم في قبره هو وسائر الأنبياء معلومة عندنا علماً قطعياً ؛ لما قام عندنا من الأدلة في ذلك ، وتواترت به الأخبار " انتهى.
" الحاوي للفتاوي " (2/139)

ثالثا :
قال القرطبي رحمه الله :
" وهذا الحديث يدل بظاهره على : أنه صلى الله عليه وسلم رأى موسى رؤية حقيقية في اليقظة ، وأن موسى كان في قبره حيا ، يصلي فيه الصلاة التي كان يصليها في الحياة ، وهذا كله ممكن لا إحالة في شيء منه ، وقد صح أن الشهداء أحياء يرزقون ، ووجد منهم من لم يتغير في قبره من السنين ، وإذا كان هذا في الشهداء كان في الأنبياء أحرى وأولى " انتهى.
" المفهم " (6/192)

وقال ابن القيم رحمه الله :
" الأنبياء إنما استقرت أرواحهم هناك – يعني في السماء - بعد مفارقة الأبدان ، وروح رسول الله صلى الله عليه وسلم صعدت إلى هناك في حال الحياة ثم عادت – يعني في الإسراء والمعراج - ، وبعد وفاته استقرت في الرفيق الأعلى مع أرواح الأنبياء عليهم الصلاة والسلام ، ومع هذا فلها إشراف على البدن ، وإشراق ، وتعلق به ، بحيث يرد السلام على من سلم عليه ، وبهذا التعلق رأى موسى قائما يصلى في قبره ، ورآه في السماء السادسة ، ومعلوم أنه لم يعرج بموسى من قبره ثم رد إليه ، وإنما ذلك مقام روحه واستقرارها ، وقبره مقام بدنه واستقراره إلى يوم معاد الأرواح إلى أجسادها ، فرآه يصلى في قبره ، ورآه في السماء السادسة ، كما أنه صلى الله عليه وسلم في أرفع مكان في الرفيق الأعلى مستقرا هناك ، وبدنه في ضريحه غير مفقود ، وإذا سلم عليه المسلم رد الله عليه روحه حتى يرد عليه السلام ، ولم يفارق الملأ الأعلى .

ومن كَثُف إدراكه وغلظت طباعه عن إدراك هذا ، فلينظر إلى الشمس في علو محلها ، وتعلقها وتأثيرها في الأرض ، وحياة النبات والحيوان بها ، هذا وشأن الروح فوق هذا ، فلها شأن ، وللأبدان شأن ، وهذه النار تكون في محلها ، وحرارتها تؤثر في الجسم البعيد عنها ، مع أن الارتباط والتعلق الذي بين الروح والبدن أقوى وأكمل من ذلك وأتم ، فشأن الروح أعلى من ذلك وألطف " انتهى.
" زاد المعاد " (3/40-41)

وقال الشيخ الألباني رحمه الله :
" حياته صلى الله عليه وسلم بعد وفاته مخالفة لحياته قبل الوفاة ، ذلك أن الحياة البرزخية غيب من الغيوب ، ولا يدري كنهَها إلا الله سبحانه وتعالى ، ولكن من الثابت والمعلوم أنها تختلف عن الحياة الدنيوية ، ولا تخضع لقوانينها ، فالإنسان في الدنيا يأكل ويشرب ويتنفس ويتزوج ويتحرك ويتبرز ويمرض ويتكلم ، ولا أحد يستطيع أن يثبت أن أحدا بعد الموت حتى الأنبياء عليهم السلام - وفي مقدمتهم نبينا محمد صلى الله عليه وسلم - تعرض له هذه الأمور بعد موته.

ومما يؤكد هذا أن الصحابة رضي الله عنهم كانوا يختلفون في مسائل كثيرة بعد وفاته ، ولم يخطر في بال أحد منهم الذهاب إليه صلى الله عليه وسلم في قبره ومشاورته في ذلك وسؤاله عن الصواب فيها لماذا ؟

إن الأمر واضح جدا وهو أنهم كلهم يعلمون أنه صلى الله عليه وسلم انقطع عن الحياة الدنيا ، ولم تعد تنطبق عليه أحوالها ونواميسها ، فرسول الله صلى الله عليه وسلم بعد موته حي أكمل حياة يحياها إنسان في البرزخ ، ولكنها حياة خاصة لا تشبه حياة الدنيا ، ولعل مما يشير إلى ذلك قوله صلى الله عليه وسلم : ( ما من أحد يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى أرد عليه السلام )، وعلى كل حال فإن حقيقتها لا يدريها إلا الله سبحانه وتعالى ، ولذلك فلا يجوز قياس الحياة البرزخية أو الحياة الأخروية على الحياة الدنيوية ، كما لا يجوز أن تعطى واحدة منها أحكام الأخرى ، بل لكل منها شكل خاص ، وحكم معين ، ولا تتشابه إلا في الاسم ، أما الحقيقة فلا يعلمها إلا الله تبارك وتعالى " انتهى.
" التوسل " (ص/60)

رابعا :
صلاة موسى عليه السلام وسائر الأنبياء في قبورهم ليست على وجه التكليف ، إذ التكليف منقطع بالموت ، وإنما هي على وجه التنعم والتلذذ بعبادة الله وإقامة ذكره .

قال القرطبي رحمه الله :
" فإن قيل : كيف يصلون بعد الموت وليس تلك الحال حال تكليف ؟

فالجواب : أن ذلك ليس بحكم التكليف ، وإنما ذلك بحكم الإكرام لهم والتشريف ، وذلك أنهم كانوا في الدنيا حببت لهم عبادة الله تعالى والصلاة بحيث كانوا يلازمون ذلك ، ثم توفوا وهم على ذلك ، فشرَّفهم الله تعالى بعد موتهم بأن أبقى عليهم ما كانوا يحبون ، وما عرفوا به ، فتكون عبادتهم إلهامية كعبادة الملائكة ، لا تكليفية ، وقد وقع مثل هذا لثابت البناني رضى الله عنه ؛ فإنه حببت الصلاة إليه حتى كان يقول : اللهم إن كنت أعطيت أحدا يصلي لك في قبره ، فأعطني ذلك ، فرآه مُلَحِّدُهُ بعدما سوى عليه لحده قائما يصلي في قبره ، وقد دل على صحة ذلك كله قول نبينا صلى الله عليه وسلم : ( يموت المرء على ما عاش عليه ، ويحشر على ما مات عليه )، وقد جاء في الصحيح : ( أن أهل الجنة يلهمون التسبيح كما تلهمون النفس ) انتهى.
" المفهم "

وقال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله:
" هذه الصلاة ونحوها مما يتمتع بها الميت ويتنعم بها كما يتنعم أهل الجنة بالتسبيح ، فإنهم يلهمون التسبيح كما يلهم الناس في الدنيا النَّفَس ؛ فهذا ليس من عمل التكليف الذي يطلب له ثواب منفصل ، بل نفس هذا العمل هو من النعيم الذي تتنعم به الأنفس وتتلذذ به " انتهى.
" مجموع الفتاوى " (4/330)

خامسا :
حياة الأنبياء بعد موتهم ، وخصائصها ، وكيفيتها ، وما يتعلق بذلك : كله أمر غيبي لا يرجع المرء من تكلف التنقير عنه بطائل ، فالتسليم أولى ، وتفويض العلم إلى الله هو الواجب ابتداء وانتهاء .

جاء في "فتاوى اللجنة الدائمة":
" كل ذلك حق يجب الإيمان به والتسليم له ، وإثبات أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى موسى عليه السلام في قبره يصلي ، ورآه أيضا في السماء ، والله على كل شيء قدير ، ولا يجوز إنكار ما ثبت في النصوص الصحيحة عن النبي صلى الله عليه وسلم لحيرة العقول فيه ، أو قياس عالم الغيب وعالم البرزخ على عالم الشهادة ، أو دعوى أن ذلك من مختلقات اليهود ، فكل ذلك خطأ وضلال ، وانحراف عن الصراط المستقيم " انتهى.
عبد العزيز بن باز – عبد العزيز آل الشيخ – عبد الله غديان – صالح الفوزان – بكر أبو زيد.
"المجموعة الثانية" (1/175)

وجاء في " الدرر السنية " (1/548):
" سئل الشيخ إسحاق بن عبد الرحمن بن حسن أيضا - رحمهم الله - عما ورد أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى موسى وهو يصلي في قبره ، ورآه يطوف بالبيت ، ورآه في السماء ، وكذلك الأنبياء .

فأجاب : هذه الأحاديث وأشباهها تُمَرُّ كما جاءت ويُؤمَن بها ، إذ لا مجال للعقل في ذلك ؛ ومن فتح على نفسه هذا الباب هلك في جملة من هلك ; وقد غضب مالك بن أنس لمَّا سأله رجل عن الاستواء ، فقال : الاستواء معلوم ، والكيف مجهول ، إلى آخر كلامه ، ثم قال : وما أراك إلا رجل سوء ، فأمر بإخراجه ; هذه عادة السلف " انتهى.

وقال العلامة محمد الأمين الشنقيطي رحمه الله :
" قوله تعالى: ( وَلا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ ) الآية ، هذه الآية تدل بظاهرها على أن الشهداء أحياء غير أموات , وقد قال في آية أخرى لمن هو أفضل من كل الشهداء صلى الله عليه وسلم : ( إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ )

والجواب عن هذا :
أن الشهداء يموتون الموتة الدنيوية ، فتورث أموالهم ، وتنكح نساؤهم بإجماع المسلمين , وهذه الموتة التي أخبر الله نبيه أنه يموتها صلى الله عليه وسلم ، وقد ثبت في الصحيح عن صاحبه الصِّدِّيق رضي الله عنه أنه قال لما توفي صلى الله عليه وسلم : ( بأبي أنت وأمي والله لا يجمع الله عليك موتتين , أما الموتة التي كتب الله عليك فقد متها ) وقال : ( من كان يعبد محمدا فإن محمدا قد مات ) ، واستدل على ذلك بالقرآن ورجع إليه جميع أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم
وأما الحياة التي أثبتها الله للشهداء في القرآن ، وحياته صلى الله عليه وسلم التي ثبت في الحديث أنه يرد بها السلام على من سلم عليه : فكلتاهما حياة برزخية ، ليست معقولة لأهل الدنيا .

أما في الشهداء فقد نص تعالى على ذلك بقوله : ( وَلَكِنْ لا تَشْعُرُونَ ), وقد فسرها النبي صلى الله عليه وسلم بأنهم : ( تجعل أرواحهم في حواصل طيور خضر ترتع في الجنة وتأوي إلى قناديل معلقة تحت العرش فهم يتنعمون بذلك )
وأما ما ثبت عنه صلى الله عليه وسلم من أنه ( لا يسلم عليه أحد إلا رد الله عليه روحه حتى يرد عليه السلام ) و ( أن الله وَكَّل ملائكته يبلغونه سلام أمته ) فإن تلك الحياة أيضا لا يعقل حقيقتها أهل الدنيا ؛ لأنها ثابتة له صلى الله عليه وسلم مع أن روحه الكريمة في أعلى عليين مع الرفيق الأعلى ، فوق أرواح الشهداء ، فتعلق هذه الروح الطاهرة التي هي في أعلى عليين بهذا البدن الشريف الذي لا تأكله الأرض يعلم الله حقيقته ، ولا يعلمها الخلق ، كما قال في جنس ذلك : ( وَلَكِنْ لا تَشْعُرُونَ )، ولو كانت كالحياة التي يعرفها أهل الدنيا لما قال الصديق رضي الله عنه أنه صلى الله عليه وسلم مات ، ولما جاز دفنه ، ولا نصب خليفة غيره ، ولا قتل عثمان ، ولا اختلف أصحابه ، ولا جرى على عائشة ما جرى ، ولسألوه عن الأحكام التي اختلفوا فيها بعده ، كالعول ، وميراث الجد ، والإخوة ، ونحو ذلك .

وإذا صرح القرآن بأن الشهداء أحياء في قوله تعالى : ( بل أحياء ) ، وصرح بأن هذه الحياة لا يعرف حقيقتها أهل الدنيا بقوله : ( وَلَكِنْ لا تَشْعُرُونَ ), وكان النبي صلى الله عليه وسلم أثبت حياته في القبر بحيث يسمع السلام ويرده ، وأصحابه الذين دفنوه صلى الله عليه وسلم لا تشعر حواسهم بتلك الحياة ، عرفنا أنها حياة لا يعقلها أهل الدنيا أيضا , ومما يقرب هذا للذهن حياة النائم ، فإنه يخالف الحي في جميع التصرفات ، مع أنه يدرك الرؤيا ، ويعقل المعاني والله تعالى أعلم " انتهى.
" دفع إيهام الاضطراب " (24-25)

والله أعلم .

الإسلام سؤال وجواب
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
ذیل میں نقل کیا گیا جواب مولانا رفیق طاہر صاحب کی طرف سے شاہد نذیر صاحب کو دیا گیا ہے:

پہلے تو اس سوال کا مختصر سا جواب ملاحظہ فرمائیں
مذکورہ حدیث کی سند میں اختلاف صرف ایک راوی پر ہے ، ابن ابی حاتم نے یہ کہا ہے کہ " جعفی نے ابن تمیم سے روایت کی ہے ابن جابر سے نہیں " جبکہ دوسری طرف ایک ثقہ محدث جعفی از ابن جابر کی سند سے روایت بیان کر رہا ہے ۔ تو اس بارہ میں زیادہ گہرائی میں جائے بغیر بھی یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ انکار کرنے والا ، لاعلمی کی بنا پر ہی انکار کرتا ہے ۔ اور جب اثبات سامنے آجائے تو اثبات کو انکار پر مقدم کیا جاتاہے یہی علم اصول کا معروف قاعدہ ہے کہ " المثبت مقدم على النافی " ، لہذا یہ جرح مردود ہے ۔
نیز اسکے علاوہ بھی مصنف ابن ابی شیبہ میں ایک باسند صحیح مرفوع روایت موجود ہے کہ وَالْأَرْضُ لَا تَأْكُلُ الْأَنْبِيَاءَ جلد ۷ ص ۴ ح ۳۳۸۲۰
یعنی "زمین انبیاء کو نہیں کھاتی" ۔
یہ روایت بھی سابقہ روایت کی تائیید کرتی ہے ۔
لہذا یہی درست موقف ہے کہ زمین انبیاء (کے اجساد) کو نہیں کھاتی ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
محترم طالب نور صاحب کی طرف سے شاہد نذیر صاحب کو یہ جواب دیا گیا ہے:

محترم شاہد نذیر بھائی نے لکھا:
سب سے پہلے میں نے یہ بات الحدیث میں پڑھی اور مجھے حیرت ہوئی کہ کوئی عقیدہ بغیر دلیل کے بھی ہوسکتا ہے! ملاحظہ فرمائیں:
ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر 14، جولائی 2005، ص6 پر سنن ابی داود کی حدیث کہ انبیاء کے جسم کو کھانا اللہ نے مٹی پر حرام کر دیا ہے کو شیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی انوار الصحیفہ کے تحت ضعیف قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے فوراً بعد لکھا ہے: یاد رہے کہ نبی کریم ﷺ کا جسم مبارک بعینہ صحیح سلامت و محفوظ ہے۔
شیخ محترم حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ اپنی کتاب "فضائل درود و سلام" میں اپنے اس نقطہ کی وضاحت با دلیل پہلے ہی پیش کر چکے ہیں۔ اپنی طرف سے کچھ کہنے کی بجائے میں متعلقہ صفحہ کا اسکین پیش کر رہا ہوں۔ والسلام
 
Top