• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انتہا پسندی روکيے

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

انتہاپسندی_روکيۓ#

انتہا پسند سوچ کی تشہير کے ذريعے نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنا ہميشہ سے داعش جيسی دہشت گردی تنظيموں کا طريقہ واردات رہا ہے۔ حاليہ عرصے ميں مختلف سوشل ميڈيا پليٹ فارمز کی مقبوليت اور خاص طور پر نوجوانوں کی ان ميں بے پناہ دلچسپی نے اس مسلۓ کو پيچيدہ کر ديا ہے کيونکہ نوجوان عمومی طور پر ہيجان پر مبنی تشہيری مواد سے زيادہ اثر ليتے ہيں۔

عراق اور شام ميں ايسی بے شمار کہانياں اور رپورٹس سامنے آئ ہيں جن سے يہ حقیقت آشکار ہوئ کہ داعش نے اپنی صفوں ميں بھرتی کے ليے دانستہ بچوں اور نوجوانوں کو ٹارگٹ کيا۔

ان بچوں کو ايک منظم طریقے سے بے گناہ انسانوں کو ہلاک کرنے کی ترغيب دی جاتی ہے اور ان کے اکثر شکار مسلمان ہی ہوتے ہيں۔


سات سالہ بچے کا روح فرسا انکشاف:

”داعش کے شدت پسند مجھے اور دیگر بچوں کو لڑائی کی تربیت دیتے اورسکھاتے تھے کہ خنجر سے لوگوں کے سرکیسے قلم کرتے ہیں ۔“

http://www.dailymail.co.uk/news/article-4399000/Yazidi-boy-reveals-horrors-held-captive-ISIS.html?ito=social-twitter_mailonline


https://s1.postimg.org/4k2j3pg7j/7_yr_old_isis_child.jpg


ايک اور رپورٹ ميں داعش کے ٹريننگ کیمپ سے بازياب ہونے والے بچوں کی المناک داستانيں

https://s13.postimg.org/hdf9207xj/Better_future.jpg


يہ بچے ايک بہتر زندگی اور شاندار مستقبل کے مستحق ہيں




اب جبکہ داعش پاکستان اور خطے ميں اپنے پنجے جمانے کی کوشش کر رہی ہے، وقت کی اہم ضرورت يہی ہے کہ اجتماعی سطح پر داعش کی خونی اور پرتشدد سوچ کو مسترد کر کے اس کے خلاف کاوشوں کو تيز کيا جاۓ۔

حاليہ دنوں ميں ايک پاکستانی طالبہ نورين لغاری کی کہانی جو انتہا پسندی پر مبنی مواد سے مرعوب ہو کر اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے کے ليے آمادہ ہو گئ، جہاں سب کے ليے اجتماعی طور پر ايک لمحہ فکريہ ہے وہيں اس حقيقت کو بھی اجاگر کرتی ہے کہ عالمی سطح پر معاشروں کو پہلے سے زيادہ ہوشيار اور باشعور رہنے کی ضرورت ہے تا کہ اس سوچ کو مسترد کر کے اسے پنپنے سے روکا جا سکے جو صرف تبائ و بربادی کا پيش خيمہ ہی ثابت ہوتی ہے۔

https://s27.postimg.org/eotjxytzn/Noureen_Laghari_2_1.jpg



اس بارے ميں کوئ ابہام نہيں رہنا چاہيے۔ آئ ايس آئ ايس اور اس تنظيم کی جاری بربريت کے خلاف اپنے موقف ميں ہم تنہا ہرگز نہيں ہيں۔

اس عفريت کی زد ميں تو ہر وہ ذی روح آيا ہے جس نے ان ظالموں کی محضوص بے رحم سوچ سے اختلاف کيا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ عالمی برادری بشمول اہم اسلامی ممالک نے مشترکہ طور پر اسے "ہماری جنگ" قرار ديا ہے۔ ہر وہ معاشرہ جو رواداری اور برداشت کا پرچار چاہتا ہے اور اپنے شہريوں کی دائمی حفاظت کو مقدم سمجھتا ہے وہ اس مشترکہ عالمی کوشش ميں باقاعدہ فريق ہے۔

جو دہشت گرد ان معصوم بچوں کے ذہنوں کی کايا پلٹ رہے ہيں وہ اپنے شکار ميں کسی قسم کا امتياز نہيں برتتے۔ يہ حقيقت بار بار سب پر عياں ہو چکی ہے کہ ان دہشت گردوں کی کاروائيوں کا شکار ہونے والوں ميں اکثريت مسلمانوں اور ان معصوم لوگوں پر مشتمل ہے جو کسی بھی عسکری جدوجہد کا حصہ نہيں ہوتے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

https://www.instagram.com/doturdu/

https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

حاليہ دنوں ميں داعش کی جانب سے آن لان تشہيری مواد کے ذريعے ميڈيکل اسٹوڈنٹ نورين لغاری کو خود کش حملے کے ليے استعمال کی کوشش کے واقعے کو پاکستانی ميڈيا کے ساتھ ساتھ پاک فوج نے بھی اجاگر کيا ہے۔

اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ يہ واقعہ ان لوگوں کی آنکھيں بھی کھول دے گا جو داعش کے پاکستان ميں اثرات اور اس کی موجودگی سے انکار پر بضد ہيں۔ تاہم يہ نشاندہی بھی ضروری ہے کہ يہ کو‏ئ پہلا واقعہ نہيں ہے جس کے ذريعے داعش کا پاکستان ميں ايجنڈہ بے نقاب ہوا ہے۔ بلکہ حقيقت تو اس سے بھی زيادہ سنگين ہے۔ داعش کے متحرک کارندوں نے بارہا اپنی کاروائيوں سے يہ ثابت کيا ہے کہ وہ پاکستانی نوجوانوں کو ٹارگٹ کر کے معاشرے ميں اسی خون خرابے کو فروغ دينا چاہتے ہيں جس کے ليے وہ دنيا بھر ميں بدنام ہيں۔ اس ضمن ميں ان کے ارادے اور اہداف مخفی نہيں ہيں۔

داعش کی پاکستان ميں کاروائيوں کے حوالے سے ايک تفصيلی جائزہ پيش ہے جس سے پاکستان اور خطے ميں اس گروہ سے لاحق خطرات واضح ہو جاتے ہيں۔

https://www.geo.tv/latest/131484-Timeline-Daesh-in-Pakistan

داعش کی پرتشدد انتہا پسندی پر مبنی سوچ اور اس سے ممکنہ خطرات ايک ايسی تلخ حقيقت ہے جسے نظرانداز نہيں کیا جا سکتا ہے۔
اس خونی سوچ کے تباہ کن اثرات اب پوری دنيا پر عياں ہيں اور عراق اور شام کے بچوں پر ان واقعات کے دوررس منفی اثرات بھی کسی سے پوشيدہ نہيں ہيں۔

ہميں اس سوچ کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنا ہے جو کم سن بچوں کو خودکش حملہ آور بنا کر نا صرف يہ کہ ايک پوری نسل کو برباد کر رہے ہيں بلکہ اس آئين، قومی اقدار اور ان اداروں کو بھی نيست ونابود کرنے کے درپے ہيں جن کی تشکيل ميں جناح اور ان کے ساتھيوں کی کئ دہائيوں کی قربانيوں شامل ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

https://www.instagram.com/doturdu/

https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/
 
شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
@فواد اچھا؟

Social media کے جو نت نئے طریقہء ایجاد کس کی ہے؟ "child pornography" کس کی ایجاد ہے ،

Same sex marriage کے نام پر

"equality love" تو شاید مریخ کی ایجاد ہے -

Gay pride کے نام پر جو کھلے عام آدمی آدمی ،
عورت عورت دنیا کے سامنے sex کرتے ہیں
وہ کہا کی "آزادی اظہار" ہے!
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
لڑکا بغل میں، ڈھنڈورا شہر میں !
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
@فواد اچھا؟

Social media کے جو نت نئے طریقہء ایجاد کس کی ہے؟ "child pornography" کس کی ایجاد ہے ،

Same sex marriage کے نام پر

"equality love" تو شاید مریخ کی ایجاد ہے -

Gay pride کے نام پر جو کھلے عام آدمی آدمی ،
عورت عورت دنیا کے سامنے sex کرتے ہیں
وہ کہا کی "آزادی اظہار" ہے!


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

عام شہريوں کے خلاف دانستہ تشدد کی ترغيب اور اس ضمن ميں اپنے موقف کی تشہير کا تقابل معاشرے کے مختلف طبقوں کی جانب سے اپنے طرز زندگی کے حق ميں دلائل اور اپنے حقوق کے ليے آواز بلند کرنے کے عمل سے نہيں کيا جا سکتا ہے۔

يہ بات بالکل قابل فہم ہے کہ مغربی معاشروں ميں بعض طبقوں کی طرز زندگی، طور اطوار اور اقدار سے آپ متفق نہيں ہيں اور اس سے شديد اختلاف رکھتے ہيں۔ تاہم اجتماعی سطح پر معاشروں ميں انسانوں کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے ليے تمام مواقع فراہم کرنا اور اپنی سوچ اور راۓ کی تشہير کے ليے آزادی دينا ايسے عوامل ہيں، جنھيں دہشت گرد تنظيموں کی بربريت پر مبنی کاروائيوں سے نہيں جوڑا جا سکتا جو اپنی سوچ زبردستی مسلط کرنے کے ليے عام شہريوں کو نشانہ بناتے ہيں۔

امريکہ ميں اظہار راۓ کی آزادی اور اس ضمن ميں موجود قوانين ہر شہری کو يہ حق فراہم کرتے ہيں کہ وہ ہر قسم کی متنازعہ، غير مقبول اور عمومی تاثر سے ہٹ کر سوچ اور راۓ کا اظہار کر سکتا ہے جو دوسروں کے ليے نا صرف يہ کہ ناقابل قبول ہوتی ہے بلکہ بعض معاملات ميں انتہائ تکليف کا باعث بھی ہوتی ہے۔

اپنے خيالات اور نظريات کےاظہار کا حق، چاہے وہ کتنے ہی ناپسنديدہ اور متنازعہ کيوں نہ ہوں اس عمل سے مختلف ہے جس ميں دانستہ مذہب يا سياسی سوچ کا سہارا لے کر ايک منظم لائحہ عمل کے تحت پرتشدد نظريات کی ترويج کے ذريعے تشدد کی ترغيب دی جاتی ہے۔

امريکی معاشرے ميں راۓ کی آزادی کے حوالے سے يہ واضح رہے کہ اگر ايک امريکی شہری دانستہ اور جانتے بوجھتے ہوۓ کسی بھی آبادی يا انسانوں کے گروہ کے خلاف تشدد کی ترغيب جيسے عمل کا حصہ ہو گا تو پھر ايسے شخص کو يقينی طور پر ملک ميں رائج قوانين کے تحت قانونی جارہ جوئ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

يہ حقيقت بھی واضح رہے کہ امريکی فيڈرل حکومت اور اسٹيٹ کی سطح پر حکومتی نظام پر امريکی آئين کے اظہار راۓ کی آزادی سے متعلق شق کی بدولت يہ پابندی ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی تقرير يا بيان پر قدغن لگائيں۔ يہاں تک کہ وہ تقارير جو غير قانونی تشدد کی حوصلہ افزائ کرتی ہيں ان کے حوالے سے سے صرف وہی عمل جرم سے تعبير کيا جاتا ہے جہاں تشدد کے حوالے سے خطرات ناگزير ہو جائيں۔

جہاں تک نفرت پر مبنی تقرير يا بيان بازی اور اس سے متعلق امريکی قوانين اور اس ضمن ميں ان افراد کے خلاف ہماری مبينہ ناکامی کا تعلق ہے جو متنازعہ سياسی اور مذہبی سوچ کی تشہير کے عمل کا حصہ ہيں، تو يہ واضح رہے کہ ان قوانين کا اطلاق صرف اسی صورت ميں ہوتا ہے جب کوئ فرد يا گروہ دانستہ کسی دوسرے گروہ کے خلاف تشدد کی ترغيب اور تلقين کريں۔

قانون کی درست تشريح کے مطابق نفرت پر مبنی تقرير يا بيان وہی ہوتا ہے جو پرتشدد کاروائ يا نفرت پر مبنی عمل کا موجب بنے۔

میں آپ کو يقين دلا دوں کہ امريکی حکومت يقينی طور پر اظہار راۓ کی آزادی کا مکمل احترام کرتی ہے ليکن ملک کے اندر مسلمانوں سميت کسی بھی گروہ کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کی روک تھام کے ليے پوری طرح پرعزم ہے۔​

 
شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
اپنے خيالات اور نظريات کےاظہار کا حق، چاہے وہ کتنے ہی ناپسنديدہ اور متنازعہ کيوں نہ ہوں
یعنی کے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی آپ کہ مطابق اپنے خیالات کا اظہار ہے؟
انا لله و انا اليه راجعون ، شرم سے ڈوب مرو تم!
 
شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
میں آپ کو يقين دلا دوں کہ امريکی حکومت يقينی طور پر اظہار راۓ کی آزادی کا مکمل احترام کرتی ہے
آپ موضوع کو غلط سمت لے کر جارہے ہیں!
آپ نے میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں،
 
شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
میں آپ کو يقين دلا دوں کہ امريکی حکومت يقينی طور پر اظہار راۓ کی آزادی کا مکمل احترام کرتی ہے
یہ آزادی ہے اظہار رائے کی؟
امریکا میں اعلیٰ اور مقتدر شخصیات کے جنسی جرائم کی تفتیش کرنے والے ادارے میں ایک اعلیٰ فوجی جنرل کو کمسن بچوں سے جنسی زیادتی کے الزام میں گرفتار کرلیا گیاہے۔امریکی ذرائع کے مطابق ڈائین کارپورریشن کے سابق نائب صدر میجر جنرل جیمز گریزیوپلین کو 1983 سے1989 کے دوران متعدد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام میں گرفتار کیاگیاہے۔جنرل گریزیوپلین کی گرفتاری کوامریکا میں جنسی زیادتی میں ملوث اعلیٰ اور مقتدر شخصیات کے خلاف جاری تازہ ترین مہم کے دوران میں سب سے زیادہ بااثر شخص کی گرفتاری تصور کیاجارہاہے۔
امریکی فوج کی جانب سے جنرل گریزیوپلن پر لگائے گئے الزامات کی تفصیلات ابھی تک جاری نہیں کی گئی ہیں کہ انھیں ان کے جنسی جرائم کے اتنے طویل عرصے کے بعد کس طرح گرفتار کیااور وہ کس انداز اور کس حیثیت میں ان جنسی جرائم میں ملوث ہوئے تھے۔ نیویارک کے اخبار ڈیلی نیوز نے امریکی جنرل گریزیوپلن کی گرفتاری کی خبر دیتے ہوئے لکھاہے کہ گریزیوپلن کاتعلق ریاست ورجینیا سے ہے انھوںنے امریکی فوجی اکیڈمی ویسٹ پوائنٹ نیویارک سے گریجویشن کیا اور 1972 میں آرمر افسر کی حیثیت سے فوج میں شامل ہوئے اور2005 میں فوج سے ریٹائر ہوگئے ،ریٹائرمنٹ کے وقت وہ پنٹا گون کے’’ جوائنٹ وار فائٹنگ کیپے بلیٹیز اسیسمنٹ ‘‘ یعنی مشترکہ جنگ کی صلاحیتوں کا تجزیہ کرنے اور اندازہ لگانے والے شعبے میں فورس ڈیولپمنٹ کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے۔
گریز یوپلن کے لنک پیچ سے ظاہرہوتاہے کہ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے فوجی ٹھیکیدار اداروں ڈائین کارپوریشن انٹرنیشنل اور مشن ریڈی نس ایل ایل سی میں بھی خدمات انجام دیں ۔ یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ جب گریزیوپلن نے ڈائین کارپوریشن میں ملازمت اختیار کی تو اس وقت ان کے اس فیصلے پر بہت انگلیاںاٹھی تھیں کیونکہ اس دورمیں ڈائین کارپوریشن مختلف طرح کے اسکینڈلز کی لپیٹ میں تھا جس میں بچوں کے جنسی استحصال، جنسی زیادتی کے لئے بچوں کو دوسروں کے حوالے کرنا اورامریکا کے سابق صدر بل کلنٹن کے دورمیں جنسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی خاطر بوسنیا سے بچوں کی اسمگلنگ کے الزامات شامل تھے۔
ڈائن کارپوریشن میں بچوں سے زیادتی اور ان کی اسمگلنگ کے حوالے سے سرگرمیوں کاانکشاف کارپوریشن کے ایک سابق ملازم بین جانسٹن نے بوسنیا کے تنازع کے دوران کارپوریشن کے ملازمین کی جانب سے کارپوریشن میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کی اطلاعات باہر پہنچانے کے الزام میں برطرف کیے جانے کے بعد کارپوریشن کے خلاف دائر کیے گئے مقدمے کے دوران کیاتھا۔
2002 میں جانسٹن نے اپنی رپورٹ بعنوان ‘‘ڈائین کارپوریشن کی بدعملیاں‘‘ میں لکھاتھا کہ ڈائین کارپوریشن اور سربیا مافیاکی جانب سے لائی جانے والی کوئی لڑکی جنسی زیادتی سے محفوظ نہیں رہی تھی۔اس دور میں ڈائین کارپوریشن کی قیادت مکمل طورپر مافیا کے زیر اثر تھی اور کارپوریشن کے ملازم کہتے تھے کہ اس اختتام ہفتہ ہم سربیا سے مزید تین لڑکیاں لے کر آئیں گے۔
سالون کی ایک رپورٹ میں جانسٹن کے چشم دید واقعات کی مزید تفصیلات دی گئی ہیں، ان میں بتایاگیا ہے کہ جانسٹن نے بتایا کہ یہ سن 2000 کے اوائل کی بات ہے کہ ایک دن میں بوسنیا میں تزلہ کے قریب واقع امریکی فوجی اڈے پر تعینات اپنے ساتھ ہیلی کاپٹر میکنک کی باتیں سن کر پریشان ہوگیا ۔وہ کہہ رہاتھا کہ میں جو لڑکی لایاہوں اس کی عمر 12 سال سے ایک دن بھی زیادہ نہیں ہے، یہ سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے کہ اس نے 12 سالہ بچی کو جنسی غلام بنالیاہے یہ سننے کے بعد میں نے فیصلہ کرلیا کہ اس کے خلاف مجھے کچھ کرنا چاہئے ،کیونکہ اب اس کاروبار میں کمسن بچوں کو گھسیٹا جارہاتھا ۔جانسٹن کا کہنا ہے کہ میری چلائی ہوئی مہم کے نتیجے میں بوسنیا میں تعینات ڈائین کارپوریشن کے کم از کم 13ملازمین کو لڑکیوں اور خواتین کی خریدوفروخت عصمت دری اوراس سے متعلق دوسرے غیر اخلاقی اور غیر قانونی کاموں میں ملوث ہونے کے الزام میں بوسنیا سے واپس امریکا بھیجاگیالیکن وافر ثبوت موجود ہونے کے باوجود ڈائین کارپوریشن کی جانب سے امریکا واپس بھیجے گئے کسی بھی ملازم کے خلاف مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں کوئی مقدمہ نہیں چلایاگیا۔
ڈائین کارپوریشن کے ملازمین کی جانب سے سرکاری سرپرستی میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے الزامات کی گونج ایوان بالا تک پہنچ چکی تھی جس کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ 2006 میں محکمہ کے دفاعی بجٹ کی سماعت کے دوران جارجیا سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن کانگریس سنتھیا مک کین نے اس کے وزیر دفاع ڈونلڈ رمسفیلڈ سے اس بارے میں سولات کیے تھے ۔
وزیردفاع سے ان کاپہلا سوال یہ تھا کہ جناب اعلیٰ کیا خواتین اور کمسن لڑکیوں کی اسمگلنگ اور ان کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث کمپنیوں کو انعامات سے نوازنا امریکی حکومت کی پالیسی ہے ۔ان سخت سوالات کے بعد ڈائین کارپوریشن کا اصل چہرہ کھل کر سامنے آیا لیکن حکومت متعدد ای میلز بھیجے جانے کے باوجود جو وکی لیکس اور چیرل ملز کے درمیان ای میلز کے تبادلے کے حوالے سے سامنے آنے والے انکشافات اور پھر وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کو بھیجی گئی ای میلز کے سامنے آنے کے باوجود اپنے ملازمین کی جانب سے جنسی زیادتیوںکی روک تھام کے لیے مناسب قانون سازی نہیں کرسکی جس کی وجہ سے ڈائین کارپوریشن بھی امریکی حکومت کے ساتھ پہلے کی طرح کاروبار میں مصروف ہے اور خوب منافع کمارہی ہے۔
ان میں سے ایک ای میل میں واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کاحوالہ دیاگیاتھا جس میں انکشاف کیاگیاتھا کہ ڈائین کارپوریشن نے کس طرح ’’ لیپ ڈانس‘‘ کیلئے ایک 15 سالہ لڑکے کی خدمات حاصل کیں اور لڑکے کو اپنے کپڑے مکمل طورپر اتارنے پر مجبور کرنے کے لیے ڈائین کارپوریشن کے ملازمین نے کس طرح اس پر ڈالر نچھاور کیے۔وکی لیکس نے جو انکشافات کیے ہیں اس میں یہ بھی شامل ہے کہ کس طرح صحافیوں کو یہ خبریں شائع کرنے سے روکنے کے لیے ایک بچے کی خدمات حاصل کی گئیں اور یہ تاثر دیاگیا کہ اس طرح کی خبروں کی اشاعت سے بہت سے جانوں کو خطرات لاحق ہوجائیں گے۔
اگرچہ ہلیری کلنٹن اور ملز کے درمیان ای میلز کے تبادلے کے دوران کسی طرح کی جنسی زیادتی کاذکر نہیں ہے لیکن افغانستان میں روایتی ہم جنس پرستی کی اطلاعات میں عصمت دری، کمسن لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور کمسن لڑکوں اور لڑکیوں کی باقاعدہ نیلامی کی خبروں پر بھی امریکی حکومت نے کوئی توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔اس حوالے سے سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ پارٹیوں اور تقریبات کے بعد لڑکوں اور کمسن لڑکیوں کو ہوٹل لے جایاجاتاتھا اور وہاں ان کوجنسی زیادتیوںکا نشانابنایاجاتاتھا۔بی بی سی نے بھی افغانستان سے اس طرح کے واقعات کی رپورٹیں دی تھیں اور ان رپورٹوں میں کہاگیاتھا کہ اس قبیہہ فعل میں امریکا اور افغانستان کے انتہائی بااثر افراد اور افسران ملوث رہے ہیں۔
ان تمام قابل نفرت اور مذمت سرگرمیوں کے باوجود ڈائین کارپوریشن کو بدستور امریکی ٹھیکے دئے جاتے رہے اور دسمبر 2016 میں امریکی بحریہ نے ڈائین کارپوریشن کوانسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی ، بنیادی شہری سہولتوں کی فراہمی ،ہنگامی ضرورت کیلئے فوج کیلئے چھوٹی موٹی تعمیرات اور امریکی فوجی مشقوں میں مدد کی فراہمی جیسے خدمات کی انجام دہی کیلئے94 ملین ڈالر مالیت کا ایک ٹھیکہ دینے کے ڈاکومنٹس پر دستخط کئے تھے۔ اس صورت حال پر ہمیں امریکی خاتون رکن کانگریس سنتھیا مک کن نے کی جانب سے امریکی وزیر دفاع رمسفیلڈسے کیا گیا وہ سوال یاد آتاہے کہ کیا جنسی جرائم میں ملوث کمپنیوں کو نوازا امریکی حکومت کی پالیسی کاحصہ ہے ۔ اگر ایسانہیں ہے تو بھی ان کمپنیوں کو مسلسل ایسے ٹھیکے کیوں دیے جارہے ہیں-
بشکریہ- wikileaks.org.
 
شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
جہاں تک نفرت پر مبنی تقرير يا بيان بازی اور اس سے متعلق امريکی قوانين اور اس ضمن ميں ان افراد کے خلاف ہماری مبينہ ناکامی کا تعلق ہے جو متنازعہ
اس ضمن ہیں یہ بھی بتا دیتے کے "ایک تہائی" امریکی لوطی ہے!

اپنے خيالات اور نظريات کےاظہار کا حق، چاہے وہ کتنے ہی ناپسنديدہ اور متنازعہ کيوں نہ ہوں
انا لله و انا اليه راجعون!
آپ کا مطلب ہے کہ کسی کو بھی آزادی ہے جو چاہے بچوں کا "ریپ" کرے ، اور جو چاہے بچیوں کا جیسے وٹیکن والے کرتے ہیں -

میں آپ کو يقين دلا دوں
میرے پیارے بھائی آپ کیوں لوطی قوم کا دفاع کرتے ہیں؟ آخر کیوں @فواد
 
Top