• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انجمن ترقی پسند مصنفین

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
آں جہانی 'انجمن ترقی پسند مصنفین' نے، جب تک اس کی جان میں جان رہی، کوئی انقلاب برپا کیا، تولے دے کے بس'ترقی انجمن پسند مصنفین' ہی کاکارنامہ سر انجام دیا۔'آپ بیتیوں' اور پاپ بیتیوں میں جب ہم بائیں بازو کے رہنماؤں کی سوانح حیات پڑھتے ہیں اور ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی زندگی کے واقعات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان میں ایک 'ترقی' بڑی نمایاں نظر آتی ہے۔شراب و شباب سے لطف اندوزی میں ترقی۔ ترقی پسند تحریک کے تحت بڑی لاجواب قسم کی انقلابی نظمیں لکھی گئیں۔ خوب خوب خونی شاعری کی گئی۔ نہایت اعلیٰ معیار کے افسانے ، کہانیاں اور ناول لکھے گئے۔ محلوں میں رہ کر 'جھونپڑوں' کے خواب دیکھے گئے اور دکھائے گئے۔ مگر 'انقلاب' کو آنا تھا نہ آیا۔اجتماعی زندگی میں تو کیا آتا؟کسی 'کامریڈ' کی انفرادی زندگی میں بھی 'سرخ انقلاب' نہ آسکا۔بقول شاعر 'کسی سُرخے کا نہ کردار مثالی نکلا'۔ ساری انقلابی نظمیں زاہدؔ ڈار کے الفاظ میں:''جھوٹی ہیں ساری باتیں، سب فلسفے، کتابیں، سب گیت اور نظمیں، لفظوں کے سلسلے ہیں ، لفظوں کے سلسلے ہیں''۔۔۔ قرار پاکر 'زبانی جمع خرچ' یایوں کہہ لیجیے کہ 'زنانی جمع خرچ'ہو کر رہ گئیں۔ مردوں والا کوئی کام کیا ہوتا تو کہیں نظر بھی آتا۔صاحب طرز مزاح نگار کنہیا لال کپور نے بھی بڑے دلچسپ انداز میں اس 'خونی انقلابی' شاعری کا مذاق اُڑایاہے:

لکھنؤ میں خون، کلکتے میں، لدھیانے میں خون
بمبئی میں خون، امرتسر میں، ہریانے میں خون​

مسجدوں میں خوں، سنیما گھر میں، میخانے میں خون
گھر میں خوں، بازار میں خون اور شفا خانے میں خون​

آسماں سے خون برسا، خون کے اُٹّھے حباب​
مژدہ اے مزدور! پھر آیا جہاں میں انقلاب​

مگر جہاں آیا تھا انقلاب۔۔۔ یعنی رُوس میں ۔۔۔وہاں پھر ایسا 'خونم خون انقلاب' آگیا کہ 'سارے ترقی پسندے' فی الفور'تحویلِ قبلہ' کرکے منہ اپنا 'کریملن شریف' سے طرف 'واشنگٹن شریف' کے موڑ بیٹھے۔ ہمارے یہاں کے لیڈروں اور ادیبوں میں سے فقط دو افراد ایسے تھے جنہوں نے 'اسقاطِ سوویت یونین' کے بعد سچی توبہ کی۔ ایک جام ساقی اوردوسرے شیخ ایاز ۔

انہی 'ترقی پسندوں' نے جو اپنی جون بدل کر اب 'روشن خیال اور جدت پسند سیکولرسٹ' ہوچکے تھے، مارے کھسیاہٹ کے 'جہادِ افغانستان' کو 'امریکی سپانسرڈ جنگ' قرار دے کر ۔۔۔ 'یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے' ۔۔۔ کا عملی مظاہرہ کرڈالا۔ تاریخ و تحقیق کو چھوڑیے کہ۔۔۔ روس افغانستان میں کیوں کودا؟ کب کودا؟ اور کس جواز کے تحت کودا؟ عام شہریوں،عورتوں اور بچوں پر 'نیپام بم' کس 'شریعت' کے تحت برسائے؟ پھر اس کا اوّلین مقابلہ کس نے کیا؟ کیسے کیا؟ کس حد تک کیا؟ امریکا نے اپنے 'ڈنگ مار' (Stinger) میزائیلوں کی فراہمی، کیا دیکھ کر کیوں اور کس مرحلے پر شروع کی؟۔۔۔ مگر اس حقیقت سے تو روس اور امریکا ہی نہیں 'سیکولر دُنیا' میں سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ مشینوں کی بجائے اپنے کندھوں پر میزائیل رکھ کر پہاڑی مورچوں سے روسی فضائیہ کا مقابلہ کرنے والے وہی 'مجاہدین' تھے جو بعد کو 'دہشت گرد' قرار پائے۔ 'سرخ انقلاب' کو خونم خون کردینے والے لوگ وہ تھے جن کی زندگیاں ایک 'انقلاب' کی جیتی جاگتی اور 'عملی' تصویر تھیں۔ انہوں نے 'محلوں' کی پُرلطف اور پُر آسائش زندگیاں تج کر 'جہادِ افغانستان' کے دوران میں جھونپڑوں اور غاروں میں بود و باش اختیار کی۔ حیرت ہے کہ کسی 'انجمن ترقی پسند مصنفین' کسی ترقی پسندانہ شاعری اور کسی 'ترقی پسند ادب' کے بغیر ہی یکایک اُن کی زندگیوں میں اتنا بڑا انقلاب کیسے آگیا؟ 'گھس بیٹھیے' اور جارح روسی سامراج کوکس نے ایسا مکا رسید کیا کہ دُنیا کے دو براعظموں میں پھیلی ہوئی 'یونین آف سوویت سوشلسٹ

ری پبلک' کسی حادثہ زدہ گاڑی کے 'ونڈ سکرین' کی طرح پاش پاش ہو کر رہ گئی؟ یہ انقلابی مصرع بطور مرثیہ گاتے ہوئے کہ ۔۔۔' 'ماسکو میں خون، بیلارس میں، 'لتھوانے' میں خون''۔۔۔ (کنور شاہد خورشید صاحب سے 'استفتا' ہے کہ لتھوانیا (Lithuania)کو ضرورتِ شعری کے تحت'لتھوانے' لکھا جا سکتا ہے یا نہیں؟)

عبدالکریم عابدؔ مرحوم نے اپنی خودنوشت میں، جس کا نام 'سفرآدھی صدی کا'ہے، اپنے قیامِ بمبئی کے حوالے سے انجمن ترقی پسند مصنفین اورترقی پسند تحریک پر ایک دلچسپ باب باندھا ہے۔ باب کا عنوان ہے: 'بمبئی کی ترقی'۔ اس باب میں وہ ترقی پسند تحریککے متعلق بتاتے ہیں کہ یہ تحریک صرف دو قسم کے افراد پر مشتمل تھی:''۔۔۔ ایک کمیونسٹ اور دوسرے جنس اور فحاشی کے قائل۔ اُس دور میں چرس پینا بھی ترقی پسندی کی علامت تھی۔چرس والے سگریٹ ادیبوں میں عام تھے۔ جنسی بے راہ روی اور کج روی بھی قابل فخر بات تھی۔ فراق گورکھپوری نے اپنے ذوقِ ہم جنسی کا اعتراف اپنی تحریرمیں کیا اور اس کا جواز بھی پیش کیا''۔

عابد صاحب مزید لکھتے ہیں:''تاریخ، معاشیات، سائنس کے علوم پڑھ کر سوشلسٹ ہونے والے ہندو تھے، مسلمان سوشلسٹ یا کمیونسٹ، ترقی پسند ادب کی نظموں اور افسانوں کے اُبال کے ساتھ آئے۔ان میں سطحیت تھی اور کردار بھی نہیں تھا۔یہ بحیثیت ادیب کے زندہ بھی نہیں رہ سکے۔بیشتر نے بمبئی کی فلمی دُنیا کا سہارا لیا اور کافی روپیہ کمایا۔آج ان میں کئی لوگ کروڑ پتی ہیں۔ترقی پسندوں کا ایک گروہ اعلیٰ ملازمتوں کی طرف گیا اور انہیں پاکستان میں بڑے عہدے بھی ملے۔ن ۔م راشد، اختر حسین رائے پوری اس کی ایک مثال ہیں۔یہ ترقی پسند ادیب اپنے زمانے میں تنقیدی مقالات کے ذریعہ (سے) ثابت کرنا چاہتے تھے کہ اقبالؔ نطشے سے متاثر ہیں اور فاشسٹ ہیں۔ اختر حسین رائے پوری بھی ان میں سے ایک تھے۔ان کے بھائی مظفر حسین شمیم بمبئی اور حیدرآباد (دکن) میں اکثر ہمارے گھر مہمان رہے۔ پاکستان میں انہیں نہایت خستہ و خوار حالت میں دیکھا''۔

ترقی پسندوں کی اکثریت واقعی 'ترقی پسند' تھی۔ ان میں سے کچھ توپہلے مفلس تھے، پھر صرف 'بربنائے ترقی پسندی' ترقی کر کے خوشحال، مالامال اور 'رُوبلوں روبل' بلکہ 'روبلوں روبال' ہوگئے ۔چند ایسے تھے جو پہلے مفلس تھے، پھر شراب پی پی کر مزید مفلس ہوگئے۔ لوگوں سے مانگتے پھرے۔ بقول عابد صاحب: ''ایک ہمارے دوست کامریڈ نیاز حیدر بھی تھے جو انقلابی نظمیں لکھتے تھے مگر شراب پینے کے لیے ہر وقت ہر ایک سے پیسوں کے طلبگار رہتے تھے۔ ترقی پسند ادیبوں میں اس طرح کے کردار بہت تھے''۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے کردار کم ازکم ہمارے معاشرے میں کوئی 'عملی انقلاب' نہیں لاسکتے۔ انقلاب صرف ایسے لوگ لا سکتے ہیں جو پہلے خود اپنی زندگی میں انقلاب لاسکیں۔اپنی زندگیاں خود بدل ڈالنے والے لوگ کہاں ملتے ہیں؟ اپنے ارد گرد دیکھیے نظر آجائیں گے!

بہت سے دلچسپ قصے سنانے کا جی چاہ رہا تھا، مگرکالم تمام ہوا، پھر سہی۔ آج صرف ایک چھوٹاسا ترقی پسندانہ قصہ سن لیجیے۔ ایک مشہور و مقبول و مفلس و ترقی پسند انقلابی شاعر کا واقعہ ہے(ہمیں نام بتانے کی کیا ضرورت ہے؟ پہچاننے والے خود پہچان لیں گے!) فیضؔ صاحب لینن پرائز لے کر ماسکو سے واپس آئے تو یہ اُن کے گھرجا پہنچے۔ پوچھا: ''پرائز کے ساتھ روبل بھی ملے ہوں گے؟'' فیض ؔ صاحب نے جواب دیا: ''نہیں، روبل ابھی نہیں ملے''۔ انہوں نے کہا: ''روبل ملے ہوں یا نہ ملے ہوں مجھے 200روپئے دو''۔ فیضؔ صاحب کو معلوم تھا کہ اس کے بغیر ٹلیں گے نہیں۔200روپئے نکالے اور انہیں تھما دیے۔فوراً بوتل منگائی اور پورے200روپئے غٹاغٹ چڑھا گئے۔ ایسے لوگ انقلابی شاعری نہ کریں تو اور کیا کریں؟ (ابو نثر کا کالم، روزنامہ نئی بات )
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بہت خوب ۔
ابو نثر صاحب اسلام پسند معلوم ہوتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
بہت خوب ۔
ابو نثر صاحب اسلام پسند معلوم ہوتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
ابو نثر پکے ”جماعتی“ تو ہیں، اب یہ نہیں معلوم کہ ”اسلام پسند“ بھی ہیں کہ نہیں (واللہ اعلم) کئی عشروں سے جماعت اسلامی کے اخبار جسارت میں اور اب جسارت کے ساتھ ساتھ روزنامہ نئی بات میں بھی کالم نویسی کر رہے ہیں۔ شعر و ادب کا بہت اعلٰی ذوق اور ادیبوں کی رگ رگ سے واقفیت رکھتے ہیں۔
 
Top