• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انجمن سرفروشانِ اسلام کا تعارف

شمولیت
اکتوبر 04، 2012
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
78
پوائنٹ
0
اس کا بانی ریاض احمد گوہر شاہی ہے، ابتداء میں اس شخص نے اپنے آپ کو بریلوی مسلک کا ماننے والا بتایا، مگر پھر بہت ہی جلد اس کی تحریک اور اس کے افعال و کردار سے معلوم ہوا کہ یہ ایک بددین آدمی ہے اور یہ کسی ایجنسی کا شاخسانہ ہے اور یہ کسی مسلک کا ماننے والا نہیں ہے بلکہ اپنی خواہشات پر عمل کرنے والا ہے، اس لئے اس نے عورتوں سے ملنا جلنا، شراب و چرس پینا، جیسے حرام کام کو حلال بتایا۔
مال و دولت کی ریل پیل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی ایجنسی کا آدمی تھا جو مسلمانوں کے درمیان انتشار ڈالنے کے لئے آمادہ کیا گیا تھا، اسی جوہ سے اس نے کھلے عام اور بلا خوف و خطر غلط عقائد و نظریات کا پرچار کیا، پھر دیکھتے ہی دیکھتےاس نے ایک فتنہ کی حیثیت اختیار کرلی اور پورے ملک میں اس کے جراثیم پھیل گئے، پھر اس غلط فتنہ و عقائد پر اور نظریات کے خلاف ہر مسلک کے لوگ کھڑے ہوگئے اور ہر مسلک والوں نے اس کے خلاف کفر کا فتویٰ دیا۔
یہ فرقہ ۱۹۸۰ء میں وجود میں آیا، ابتدائی مرکز اس کا شہر کوٹری حیدرآباد سندھ کی خورشید کالونی تھا۔
فرقہ انجمن سرفروشانِ اسلام کے بانی ریاض احمد گوہر شاہی کے حالات
نام: ریاض احمد گوہر شاہی، والد کا نام: فضل حسین مغل، سرکاری ملازم تھے۔
پیدائش: راولپنڈی میں ۲۵/نومبر ۱۹۴۱ء میں گاؤں ڈھوک گوہر شاہ میں ہوئی۔
تعلیم: اپنے گاؤں ڈھوک گوہر شاہ میں ہی ۸ کلاس تک پڑھی اور پھر پرائیوٹ طور پر میٹرک کیا اور پھر ویلڈنگ اور موٹر میکانیک کا کام سیکھا، پھر موٹر میکانیک کی دُکان کھولی، مگر اس میں کوئی نفع حاصل نہیں ہوا، حصولِ روزگار کے لئے پریشانی ہوئی تو اس نے سوچا کہ پیری مریدی کا دھندا شرور کردیا جائے، اس کے لئے ابتداءًا خانقاہ کے چکر لگائے۔
گوہر شاہی خود لکھتے ہیں کہ میں کئی سال تک سیہون شریف کے پہاڑوں اور لال باغ میں چلے اور مجاہدے کئے مگر گوہرِ مراد حاصل نہ ہوا۔
اور پھر حام داتاراور بری امام کے دربار پر بھی رہا، مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا اور روحانی سفر میں ایک اور جگہ پر وہ لکھتے ہیں کہ بیس سال کی عمر سے تیس سال تک ایک گدھے کا اثر رہا، نماز وغیرہ سب ختم ہوگئی، جمعہ کی نماز بھی ادا نہ ہوسکی، پیروں اور عالموں سے جدائی ہوگئی، اکثر محفلوں میں ان پر طنز کرتا، شادی کرلی، تین بچے ہوگئے اور کاروبار میں مصروف ہوگیا، زندگی کا مطلب سمجھ گیا کہ تھوڑے دن کی زندگی ہے، عیش کرلو، فالتو وقت سینماؤں اور تھیٹروں میں گذرتا، روپیہ اکھٹا کرنے کے لئے حلال و حرام کی تمیز بھی جاتی رہی، کاروبار میں بے ایمانی، فراڈ اور جھوٹ شعار بن گیا ہے، سمجھتے کہ نفس امارہ کی قید میں زندگی کٹنے لگی، سوسائٹیوں کی وجہ سے برائی کا اثر ہوگیا۔
(روحانی سفر:۱۳ تا ۱۶)
پھر اس شخص نے پیری مریدی شروع کردی اور اس کے لئے اس نے سندھ کے پسماندہ اور غیر تعلیم یافتہ علاقہ جام شورو ٹیکسٹ بک بورڈ کے ساتھ میں جھونپڑی ڈال دی وار جن بھوت نکالنے کا دھندا شروع کردیا، کمزور عقیدے والے لوگوں کا ہجوم ہونے لگا اور جام شورو کے میڈیکل کالج کے طلبہ نے بھی آنا جانا شروع کردیا، مگر پرنسپل نے اس کا ٹھکانہ ختم کروادیا، تو اس نے حیدرآباد سرے گھاٹ پر اپنا اڈّہ قائم کرلیا۔
یہ واقعہ گوہر شاہی نے خود اپنی کتاب ’’روحانی سفر‘‘ میں لکھا اس کی تحریر میں پڑھیں، گوہر لکھتا ہے:
’’روحانی حکمہوا کہ حیدرآباد واپس چلے جاؤ اور خلقِ خدا کو فیض پہنچاؤ، میں نے کہا اگر وہاں واپس کرنا ہے تو راولپنڈی بھیج دو، وہاں پر بھی خلق خدا ہے اور جب دنیا میں رہنا ہے تو پھر بال بچوں سے دوری کیا؟ حکم ہوا کہ بال بچے یہیں منگوالو، جواب میں میں نے کہا ان کی معاش کے لئے نوکری کرنی پڑے گی جبکہ میں اب دنیوی دھندوں سے الگ تھلگ رہنا چاہتا ہوں، جواب آیا جو اللہ کے دین کی خدمت کرتے ہیں اللہ ان کی مدد کرتا ہے اور اللہ انہیں وہاں سے رزق پہنچاتا ہے جس کا انہیں گمان بھی نہیں ہوتا، جام شورومیں ٹیکسٹ بک بورڈ کے عقب میں جھونپڑی ڈال کر بیٹھ گئے اور ذکر قلبی اور آسیب وغیرہ کا سلسلہ شروع ہوتی، وہ لوگ جو سیہون سے واقفیت رکھتے تھےآنا جانا شروع ہوگئے اور میری ضروریات کا وسیلہ بن گئے، اب یہاں بھی لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے، سیکیورٹی پولیس پیچھے تک لگ گئی اور چھپ چھپ کر حرکات کا جائزہ لیتی، حتی کہ ایک کیمرہ بھی قریبی درخت میں فٹ ہوگیا، یونیورسٹی اور میڈیکل کے طلبہ آئے، ذکر و فکر کی باتیں سنتے، ان کو بھی ذکر کا شوق پیدا ہوا، پرنسپل کو پتہ چلا جو دوسری عقائد کا تھا، ان کو سختی سے منع کیا، لیکن وہ باز نہ آئے اور ایک دن پرنسپل نے چوکیداروں کو حکم دیا کہ جھونپڑیاکھاڑدویا استعفیٰ دیدو، صبح کے وقت کچھ چوکیدار میرے پاس آئے اور کہا ہمیں جھونپڑی اکھاڑنے کا حکم ملا ہے، ہم نے کوئی مداخلت نہ کی اور جھونپڑی اکھاڑ کر سامان دور پھینک دیا۔
(روحانی سفر:۸)
اب حیدرآباد سرے گھاٹ میں رہنے لگا، یہاں بھی لوگ آنا شروع ہوگئے، لوگ بڑی عقیدت سے ملتے، سوچا کیوں نہ ان سے دین کا کام لیا جائے، سب سے پہلے عمر رسیدہ بزرگوں سے ذکر قلب کا شروع کریں، انہوں نے تسلیم کیا اور خوب تعریف بھی کی، لیکن عمل کے لئے کوئی تیار نہ ہوا، پھر سوچا علماء دین سے مدد لی جائے کئی عالموں سے ملا یہ لوگ ظاہر ہی کو سب کچھ سمجھتے تھے، ان کے نزدیک ولایت بھی علم ظاہری تھی، بلکہ اکثر عامل قسم کے مولوی پیر فقیر بنے بیٹھے تھے، بہت کم عالموں نے علم باطن کے بارے میں صرف گردن ہلائی، اکثر مخالفت پر اتر آئے، پھر ان عابدوں اور زاہدوں سے بڑھ کر نوجوانوں کی طرف رخ کیا، چونکہ ان کے قلب ابھی محفوظ تھے، دلوں نے دل کی بات تسلیم کرلی اور انہوں نے عملاً لبیک کہا اور پھر وہ نسخہ روحانیت بازاروں میں بیچنا شروع ہوگئے، پھر وہ نکتہ اسم ذات گلیوں محلوں اور مسجدوں میں گونجا، پھر لوگوں کے قلبوں میں گونجا، جب اس کے خریدار زیادہ ہوگئے تو نظام سنبھالنے کے لئے انجمن سرفروشانِ اسلام پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔
(روحانی سفر:۳۸)
پھر اس کے بعد اس نے اپنے عقائد ونظریات کا پرچار کرنا شروع کردیا، کچھ عقائد کا ذکر آگے صفحات پر آرہا ہے۔
فرقہ انجمن سرفروشان اسلام کے عقائد و نظریات
۱۔ نبی کریم ﷺ جو کچھ مجھ کو بتاتے ہیں وہی میں بتاتا ہوں۔
(حق کی آواز:۴)
۲۔ اسلام کے پانچوں ارکان میں روحانیت نہیں، روحانیت تو ذکر میں ہے۔
(حق کی آواز:۳)
۳۔ قرآن کے چالیس پارے ہیں۔
(حق کی آواز:۵۲)
۴۔ آپﷺ کی زیارت کے بغیر امتی نہیں ہوتا۔
(مینارۂ نور:۳۴)
۵۔ روحانیت سیکھو، خواہ تمہارا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو خواہ مسلمان ہو یا عیسائی ہو، ہندو اور سکھ ہو، بغیر کلمہ پڑھے بھی اللہ تک رسائی ہوسکتی ہے۔
(مینارۂ نور)
۶۔ انبیاء علیہ السلام کی توہین کرنا۔
۷۔ میں امام مہدی ہوں اور میرے طریقے سے دنیا کو ہدایت حاصل ہوگی۔
(حق کی آواز:۴)
۸۔ کلمہ میں لا الہ الا اللہ ہو، محمد رسول اللہ کی جگہ پر گوہر شاہی رسول اللہ کہنا چاہئے۔
(اشتہار)
۹۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کا دعویٰ۔
۱۰۔ عورتوں سے مصافحہ و معانقہ وغیرہ کرنا صحیح ہے۔
 
Top