• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"انسانی قتل ایک سنگین جرم،،، اور اتباع سنت"

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069

فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 11 شعبان 1436 کا خطبہ جمعہ بعنوان "انسانی قتل ایک سنگین جرم،،، اور اتباع سنت" ارشاد فرمایا جس کے اہم نکات یہ تھے:


٭نیکیوں اور گناہوں کی درجہ بندی

٭ سب سے بڑا گناہ شرک
٭ شرک کے بعد سنگین ترین جرم، قتل
٭ قتل کی تباہ کاریاں
٭ قتل سماجی جرم
٭ قتل کی سنگینی
٭ ایک مؤمن کا قتل اللہ کے ہاں عظیم ترین جرم
٭ قیامت کے دن سب سے پہلے فیصلہ خون کا
٭ اسلحہ سے اشارہ کرنا بھی حرام
٭ خود کشی کی سزا
٭ پر امن زندگی سب کا حق
٭ جانوروں کو بھی زندگی کا حق حاصل ہے
٭ جانوروں کا فضول قتل بھی جرم ہے
٭ قیامت کے دن جانوروں کا آپس میں قصاص
٭ مسلم علاقوں میں غیر مسلموں کے حقوق
٭ ایک مسلمان پر غیر مسلم علاقوں میں واجبات
٭ سعودی عرب میں دہشتگردوں کی کاروائیاں
٭ سکیورٹی فورس کو خراج تحسین
٭ فرقہ واریت سے اجتناب اور اتباع و اقتدا کی ترغیب
٭ تفرقہ کی سزا
٭ جنت کا راستہ
٭ بدعات میں کوئی خیر نہیں۔

پہلا خطبہ:


تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، اسکے تمام اسماء و صفات پاکیزہ ہیں، اسی کی شان اعلی و ارفع ہے، اسی کی گفتگو کامل ہے، میں اپنے رب کی بے شمار نعمتوں پر حمد خوانی و شکر بجا لاتا ہوں، اور میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ یکتا ہے ، اسکی وحدانیت کے دلائل روشن اور عظیم ہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپکے معجزات بہت زیادہ اور اخلاق و خوبیاں عظیم الشان ہیں، یا اللہ! اپنے بندے ، اور رسول محمد ، انکی اولاد اور صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:


کما حقہ تقوی الہی اختیار کرو ، اور اسلام کے مضبوط کڑے کو تھام لو؛ جو تقوی الہی اختیار کریگا اسے اللہ تعالی برائی و ہلاکت سے بچا لے گا، اور جو خواہش پرستی میں لگ کر اپنے پروردگار کی نافرمانی اور اسکے ساتھ کفر کریگا اسے بدبختی اپنے پنجوں میں دبوچ کر تباہ و برباد کر دے گی ۔

اللہ کے بندو!

اللہ تعالی نے نیکیاں مقرر فرما کر انکی درجہ بندی فرمائی ہے، اور ناجائز و مہلک گناہوں کو حرام قرار دیا، اور ان کی خرابیاں ، ضرر، اور مفاسد بھی بیان فرمائے، اسی طرح گناہوں میں بھی درجہ بندی فرمائی۔
چنانچہ عظیم ترین اور بد ترین گناہ : اللہ کیساتھ شرک ہے، جو کہ عبادت، دعا، فریاد رسی، توکل، حاجت روائی، اور مشکل کشائی میں اللہ تعالی کیساتھ کسی اور کو شامل کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے، یہ ایسا گناہ ہے جسے اللہ تعالی توبہ کے بغیر کبھی معاف نہیں فرمائے گا۔

شرک کے بعد سنگین ترین جرم ناحق قتل ہے، چنانچہ کسی کو قتل کرنا باعثِ عار، خسارہ، اور دائمی جہنمی بننے کا سبب ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا}


اور جو کوئی بھی کسی مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اسکا بدلہ دائمی جہنم ہے، وہ اس میں ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالی کا غضب اور لعنت ہوگی، اور اس کیلئے عظیم عذاب تیار ہے۔[النساء : 93]

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:

"اللہ کے رسول! سب سے بڑا گناہ کونسا ہے؟" تو آپ نے فرمایا: (تم اللہ کیساتھ کسی کو شریک بناؤ، حالانکہ وہی تمہارا خالق ہے) میں نے عرض کیا اس کے بعد؟ تو آپ نے فرمایا: (اپنی اولاد کو اس اندیشے سے قتل کر دو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائیں گے) میں نے عرض کیا اس کے بعد؟ تو آپ نے فرمایا: (اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو) بخاری ومسلم


چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام گناہوں کی اقسام میں سے قبیح ترین گناہ کا ذکر فرمایا، اور اس کی تصدیق اللہ تعالی کے فرمان میں بھی ہے:

{وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا (68) يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا (69) إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا }


اور جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے، اور نہ ہی کسی کو ناحق قتل کرتے ہیں، اور نہ ہی زنا کرتے ہیں، اور جو کوئی بھی یہ کام کریگا، وہ گناہ پائے گا، [68] قیامت کے دن اسے بڑھا چڑھا کر عذاب دیا جائے گا، اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا [69] الّا کہ کوئی توبہ کر لے، اور نیک صالح عمل کرے [الفرقان : 68 - 70]

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

( کبیرہ ترین گناہ: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، ناحق قتل کرنا، اور جھوٹ بولنا ہے) بخاری و مسلم


کسی کو قتل کرنا انسانیت پر زیادتی، قاتل و مقتول کیلئے ظلم اور زمین میں فساد کا باعث ہے، اس سے معاشرے میں خوف و ہراس پھیلتا ہے، اور آبادیوں کی آبادیاں تباہ، اور زندگی اجیرن ہو جاتی ہے، قتل کی وجہ سے قاتل کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی درد ناک عذاب سے دو چار ہونا پڑتا ہے، قتل کے باعث مقتول کے ورثاء اور دیگر افراد کے حقوق تلف ہو جاتے ہیں، اسی کی وجہ سے امن و امان داؤ پر لگ جاتا ہے، یہ قاتل کے دل میں دنیاوی اور اخروی ، دائمی و سرمدی ندامت کا باعث ہے، قاتل کا ضمیر کبھی بھی سکون و چین کے ساتھ نہیں رہتا، اور زندگی بد مزہ ہو جاتی ہے، قتل بدترین جرم، اور قاتل بد ترین مجرم ہے۔ قتل جانی و مالی تباہی کا باعث ہے، اسی کی وجہ سے زمین پر بے برکتی پیدا ہوتی ہے، آفتیں نازل ہوتی ہیں، اور دین و دنیا کیساتھ ساتھ آخرت بھی برباد ہو جاتی ہے۔

ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مؤمن اس وقت تک دینی کشادگی میں رہتا ہے، جب تک ناحق قتل نہ کرے) بخاری


اور عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(اللہ تعالی کے ہاں دنیا کی تباہی ایک مسلم کے قتل کے مقابلے میں بہت ارزاں ہے)ترمذی، یہ روایت صحیح ہے۔


ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(اگر آسمان و زمین والے ایک مؤمن کے قتل میں شریک ہوں تو اللہ تعالی ان سب کو جہنم میں اوندھے منہ ڈالے گا) یہ حدیث صحیح ہے، ترمذی نے اسے روایت کیا ہے۔


خون مسلم کی اہمیت کے باعث اللہ تعالی سب سے پہلے انہی کے بارے میں فیصلہ فرمائے گا، چنانچہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا) بخاری و مسلم


قتل کی سنگینی کے باعث اسلام نے اسلحہ کے ذریعے مذاق ، اور اسلحہ کیساتھ کسی معصوم کی طرف اشارے سے بھی منع فرما دیا، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(کوئی بھی اپنے بھائی کی طرف اسلحہ سے اشارہ مت کرے، کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ شیطان اسکے ہاتھ کو چوک لگا دے، اور وہ جہنم کے گڑھے میں جا گرے) بخاری و مسلم


ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ:

(جو شخص اپنے کسی بھائی کی طرف خنجر سے بھی اشارہ کرے تو فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں، چاہے وہ اسکا سگا بھائی کیوں نہ ہو) مسلم، ترمذی


بلکہ اللہ اور اسکے رسول نے خود کشی کو بھی بڑی سختی کیساتھ حرام قرار دیا، اسی لئے خود کشی کرنے والے کو جہنمی قرار دیا چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو، اور وہ خود کشی کیلئے خنجر، زہر، یا خود کش جیکٹ ، بارود سے بھری گاڑی، دھماکہ خیز مواد، یا بم کچھ بھی استعمال کرے سب کا یہی حکم ہے، فرمانِ الہی ہے:

{ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا (29) وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا }


اپنی جانوں کا قتل مت کرو، بیشک اللہ تعالی تم پر نہایت رحم کرنے والا ہے، اور جو کوئی ظلم و زیادتی کرتے ہوئے ایسا کرے گا، ہم اسے آگ میں ڈالیں گے، اور یہ اللہ تعالی کیلئے نہایت آسان ہے۔[النساء : 29 - 30]

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(جس شخص نے پہاڑ سے گر کر اپنا خاتمہ کر لیا، تو وہ جہنم میں ہمیشہ گرتا ہی رہے گا، اور جس شخص نے زہر پی کر اپنے آپ کو قتل کیا تو وہ جہنم میں ہمیشہ زہر پیتا رہے گا، اور جس شخص نے خنجر سے خود کشی کی تو وہ بھی جہنم میں ہمیشہ اپنے پیٹ پر خنجر زنی کرتا رہے گا) بخاری و مسلم


یہ سخت ترین عذاب اس شخص کیلئے ہے جس نے خود کشی کی، تو دوسروں کو قتل کرنے والے کو کتنا سخت عذاب ملے گا؟! کیونکہ انسانی جان کسی کی اپنی ملکیت نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ تعالی کی ملکیت ہے، اس لئے شریعتِ الہی کے مطابق ہی انسان اس میں تغیر و تبدّل کر سکتا ہے۔

پر امن زندگی ہر انسان کا حق ہے، اللہ تعالی نے یہ زندگی زمین کو آباد کرنے کیلئے دی ہے، بلکہ پر امن زندگی جانوروں کا بھی حق ہے، اس لئے جانوروں کو بھی انسانیت کے فائدے کیلئے ہی قتل کیا جائے گا، چنانچہ جانوروں کا فضول قتل بھی جرم ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہما چند نوعمر لڑکوں کے پاس سے گزرے تو وہ مرغی پر نشانہ بازی کر رہے تھے، تو انہوں نے سب کو سخت ڈانٹ پلائی اور سب کو وہاں سے بھگا کر فرمایا:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں پر نشانہ بازی سے منع فرمایا ہے"


اور عمرو بن شرید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :

جس شخص نے کسی چڑیا کو بھی فضول میں قتل کیا تو وہ قیامت کے دن اللہ کے ہاں فریاد کرے گی: یا اللہ! مجھے فلاں شخص نے بے فائدہ اور فضول میں قتل کیا تھا ) احمد، نسائی


کیونکہ ایک چڑیا کو بھی زندہ رہنے کا پورا حق ہے، اور اللہ تعالی ہی عدل و انصاف کرنے والا معبود ہے، وہ کسی پر ایک ذرہ کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا، اسی لئے ظلم و زیادتی پسند بھی نہیں فرماتا۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(تمام مخلوقات کو ایک دوسرے سے قصاص لے کر دیا جائے گا، حتی کہ بے سینگ والی بکری کا سینگ والی بکری سے، اور چیونٹی کا چیونٹی سے بدلہ لیا جائے گا) یہ حدیث صحیح ہے، احمد نے اسے روایت کیا ہے۔


کونسی تعلیمات اسلامی تعلیمات سے بلند، مُشفق، منصف، اور محکم ہو سکتی ہیں!؟

اللہ اور اسکے رسول نے جن لوگوں کا قتل حرام قرار دیا اور ناحق قتل کرنے والوں کو سخت عذاب کی وعید سنائی ان میں تمام مسلمان، اور ایسے غیر مسلم شامل ہیں جو ذمی یا معاہد یا پناہ گزین ہوں۔
عصر حاضر کی اصطلاحات کے مطابق : غیر مسلم ہم وطن، یا حکومتی ذمہ داروں کی طرف سے رہائشی اجازت نامے کا حامل شخص ، یا کسی مسلمان ملک میں پاسپورٹ کے ذریعے آنے والا شخص، یا رزق کی تلاش میں آنے والے افراد ان میں شامل ہونگے ۔

غیر مسلموں کے معاملات اور احکامات ملکی حکمرانوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، کسی کو انفرادی طور پر غیر مسلموں کے امور میں دخل اندازی کی اجازت نہیں ہے۔

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(جس شخص نے ذمی افراد میں سے کسی کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا، اور اسکی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے سونگھی جاسکتی ہے) یہ حدیث صحیح ہے، احمد، نسائی


یہ بات غیر مسلم ہم وطن کے بارے میں ہے، تو مسلمان ہم وطن کے بارے میں کتنی بڑی سزا ہوگی!؟

اور کوئی مسلمان کسی غیر مسلم علاقے میں سکونت اختیار کرے، یا صرف رزق کی تلاش میں پاسپورٹ کے ذریعے سفر کر کے جائے تو اس کیلئے شرعی طور پر وہاں کسی کا خون بہانا جائز نہیں ہے، وہ کسی کی اشیاء چوری یا ڈاکہ کے ذریعے نہیں ہتھیا سکتا، اور نہ ہی انکی املاک کو نقصان پہنچا سکتا ہے، عوامی جگہوں پر دھماکے نہیں کر سکتا، اسی طرح کسی کی عزت بھی پامال نہیں کر سکتا ہے، کیونکہ یہ دھوکہ اور خیانت کیساتھ بڑی نافرمانی بھی ہے، اللہ تعالی نے اس سے منع فرمایا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ} بیشک اللہ تعالی خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔[الأنفال : 58]


ہمارے ملک کو ایک منحرف گروہ کی دہشت گردی کا سامنا ہے، انہوں نے املاک تباہ اور معصوم جانوں کا خون بہایا ہے، ان کا ہدف یہ ہے کہ امن سبوتاژ کر دیں، یہاں استحکام نہ رہے، بے چینی اور غیر یقینی صورت حال پیدا ہو جائے، لوگوں میں فتنے جنم لیں، لیکن ان کی مکاریاں انہی کے خلاف ثابت ہوئیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

{إِنَّ اللَّهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ} بیشک اللہ تعالی فسادی لوگوں کی کارستانیاں درست نہیں ہونے دیتا۔ [يونس : 81]


اسی طرح فرمایا:

{ وَمَكْرَ السَّيِّئِ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ} مکاریاں صرف مکاروں کو ہی اپنے گھیرے میں لیتی ہیں۔[فاطر : 43]


دہشتگردی پر مشتمل یہ کاروائیاں مسلمانوں سے علیحدگی، اور حکمران کے خلاف بغاوت ہے، اور حدیث میں ہے کہ :

(جو شخص بھی جماعت سے الگ ہو، اس نے اسلام کا کڑا اپنی گردن سے اتار دیا)


پوری قوم کیلئے دہشتگردی کے خلاف کھڑا ہونا لازمی ہے، تا کہ پورے معاشرے کو اس کے نقصانات سے محفوظ رکھا جا سکے۔

سکیورٹی کے جوان اس ملک کی حفاظت کیلئے اپنی ذمہ داری بخوبی نبھا رہے ہیں، وہ اس قسم کی کاروائیوں سے تحفظ دینے کیلئے اپنی شرعی ذمہ داری بھی ادا کر رہے ہیں، ان کی اس جانثاری پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں، اور وہ یقیناً ثواب کے بھی مستحق ہیں، اللہ تعالی ان کی حفاظت فرمائے، اور جان نچھاور کرنے والوں کو شہداء میں قبول فرمائے۔

دینی تحفظ اور ملکی سلامتی کیلئے یکجہتی، اتحاد اور اتفاق ہر وقت لازمی چیزیں ہیں، لیکن موجودہ حالات میں انکی ضرورت مزید اشد ہو جاتی ہے تا کہ لڑائی جھگڑوں اور فتنوں کے سبب ہونے والے نقصانات سے بچا جا سکے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا} اور اللہ کی رسی کو تمام مضبوطی سے پکڑ لو، اور گروہ بندی میں مت پڑو[آل عمران : 103]


اسی طرح فرمایا:

{وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ}


اور اس فتنے سے بچو جو تم میں سے صرف مخصوص لوگوں کو نہیں پہنچے گا، اور یہ جان لو کہ بیشک اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے۔[الأنفال : 25]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو بیشک وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے ۔

دوسرا خطبہ :


تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں وہی علیم و حکیم اور رحمن و رحیم ہے، میں اپنے رب کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں، اسی کی طرف توبہ کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اسکے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا اور یکتا ہے ، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد عظیم اخلاق کے مالک اسی کے بندے اور رسول ہیں ، یا اللہ !اپنے بندے اور رسول محمد ،ان کی اولاد ، اور مضبوط منہج والے صحابہ کرام پر اپنی رحمت ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:


تقوی الہی ایسے اختیار کرو جیسے تقوی اختیار کرنے کا حق ہے، متقی لوگ بہت ہی سعادت مند ہیں، اور بد بخت لوگوں کا راستہ اپنانے والوں کیلئے ہلاکت و تباہی ہے۔

اللہ کے بندو!
ہمیں اللہ تعالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا و اتباع کیلئے ترغیب دلاتا ہے، چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا}


اور جو کوئی بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے تو وہ انبیاء، صدیقین، شہداء، صالحین سمیت ان لوگوں کیساتھ ہوگا جن پر اللہ کا انعام ہوا، ان لوگوں کی صحبت بہت ہی اچھی چیز ہے۔[النساء : 69]

اور ہمیں فرقہ واریت و بدعات سے منع فرماتا ہے:

{وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ}


اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو فرقہ واریت اور اختلافات میں اس وقت پڑے جب ان کے پاس نشانیاں آ گئیں، اور انہیں لوگوں کیلئے عظیم عذاب ہوگا۔[آل عمران : 105]

اسی طرح ہمیں لڑائی جھگڑے اور اختلافات کی سزائیں سنا کر ان سے خبردار بھی کرتا ہے:

{قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ انْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ}


آپ ان سے کہئے: کہ اللہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ تم پر تمہارے اوپر سے کوئی عذاب نازل کرے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے تم پر کوئی عذاب مسلط کردے یا تمہیں فرقے فرقے بنا کر ایک فرقے کو دوسرے سے لڑائی [ کا مزا] چکھا دے۔ دیکھئے ہم کس طرح مختلف طریقوں سے آیات بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں [الأنعام : 65]

جس وقت یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کا ایک جملہ پڑھا اور پھر فرمایا:

(أَعُوْذُ بِوَجْهِكَ، أَعُوْذُ بِوَجْهِكَ)[میں تیرے چہرے کے صدقے تیری پناہ چاہتا ہوں، میں تیرے چہرے کے صدقے تیری پناہ چاہتا ہوں] پھر جب یہ حصہ تلاوت فرمایا: (أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ) فرمایا : (یہ قدرے کم ہے) اس روایت کو بخاری نے ابو ہریرہ سے بیان کیا ہے۔


عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ :

"ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الوداع کہنے کے انداز سے آئے، اور فرمایا: (جب مجھے [یہاں سے] لے جایا گیا تو تم اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لینا)" احمد


ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

(تقوی الہی اختیار کرو، پانچوں نمازیں ادا کرو، ماہِ [رمضان] کے روزے رکھو، اپنے اموال کی زکاۃ ادا کرو، اور اپنے حکمران کی اطاعت کرو، تو تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے) احمد، ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔


عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :

"جو شخص جنت کی خوشبو پانا چاہتا ہے وہ جماعت کیساتھ رہے" احمد


نوجوانوں کو سلف صالحین کے منہج سے متصادم کوئی بھی دعوت دے تو اس سے بچیں، کیونکہ خود ساختہ منہج میں کوئی خیر نہیں ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(اپنے آپ کو [دین میں] نئے امور سے بچاؤ، کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے)


اللہ کے بندو!

(إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا) یقینا اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو[الأحزاب: 56]،

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔

اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو۔

اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد. وسلم تسليما كثيرا۔

یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان ، علی ،انہوں نے حق کے ذریعے عدل و انصاف کیا، اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے راضی ہو جا، تابعین کرام اور قیامت تک انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہوجا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت، فضل، اورکرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! کفر اور کافروں کو ذلیل فرما دے، یا رب العالمین !

یا اللہ! اپنے دین، قرآن، اور نبی کی سنت کو غالب فرما، یا ذالجلال و الاکرام! یا اللہ! پوری دنیا میں قیامت تک اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا بول بالا فرما، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! مسلمانوں سے گمراہ کن فتنوں کا خاتمہ فرما دے، یا اللہ! تمام مسلمانوں سے فتنوں کو دور ہٹا دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! دلوں کو پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت و عبادت کیلئے ثابت قدم بنا یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمیں حق بات اچھی طرح دکھا کر اس کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرما، اور ہمیں باطل بھی اچھی طرح دکھا کر اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما، اور اپنی رحمت کے صدقے ہمیں باطل میں مت الجھانا کہ کہیں گمراہ ہی نہ ہو جائیں۔

یا اللہ! تیرے اور تیرے دین کے دشمنوں کی جلائی ہوئی آگ بجھا دے، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! مسلمانوں سے مہنگائی، وبائی امراض، زنا، زلزلے، ظاہری و باطنی فتنے تمام چیزیں ختم فرما دے۔

یا اللہ! تیرے دین سے متصادم بدعات کو نیست و نابود فرما، یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے تیرے دین اور سنت نبوی سے متصادم بدعات کو قیامت تک کیلئے نیست و نابود فرما دے، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! مقروض مسلمانوں کے قرضے چکا دے، یا اللہ! مقروض مسلمانوں کے قرضے چکا دے، یا اللہ! تمام مسلمان بیماروں کو شفا یا ب فرما، یا اللہ! تمام مسلمان بیماروں کو شفا یا ب فرما۔

یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان اور شیطانی چیلوں اور شیطانی لشکروں سے محفوظ رکھ، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان اور شیطانی چیلوں اور شیطانی لشکروں سے محفوظ رکھ، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، تو ہی پناہ دے سکتا ہے، تجھ سے کوئی پناہ نہیں دے سکتا، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمارے گناہوں کو معاف فرما، اور ہماری زیادتیوں سے بھی درگزر فرما، ہمارے قدموں کو ثابت بنا اور کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔

یا اللہ! دین کے دشمنوں کی مکاریاں ختم فرما، یا اللہ! دین کے دشمنوں کی منصوبہ بندیاں ختم فرما، یا اللہ! کافروں کی دین مخالف منصوبہ بندیاں غارت فرما ، یا رب العالمین! یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے انکی دین اور اسلام مخالف مکاریاں اور چالبازیاں نیست و نابود فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے!

یا اللہ! ہمیں ہمارے ملکوں میں امن و امان نصیب فرما، اور ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرما۔

یا اللہ! اپنے بندے خادم الحرمین الشریفین کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ! اُسکی تیری مرضی کے مطابق راہنمائی فرما اور اسلام و مسلمانوں کیلئے سود مند کام کرنے کی توفیق دے ، اور اپنی رحمت کے صدقے اسکے تمام اعمال اپنی رضا کیلئے قبول فرما، یا اللہ! ہر اچھے نیکی کے کام کی انہیں توفیق دے،

یا اللہ! اسکے دونوں ولی عہد کو بھی تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، اور انکی تیری مرضی کے مطابق راہنمائی فرما،بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی سے نواز، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! تمام مسلمانوں کے دلوں میں الفت ڈال دے، اور آپس میں جھگڑے ہوئے لوگوں کی صلح کروا دے، اور انہیں سیدھے راستے پر گامزن فرما، اور انہیں حق بات پر جمع فرما دے۔

یا اللہ! ہمیں اور تمام مسلمانوں کو سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر کار بند فرما دے۔

اللہ کے بندو!

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ


اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کاحکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو[90] اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے۔ [النحل: 90، 91]

اللہ عز وجل کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور جو تم کرتے ہو اسے اللہ تعالی جانتا ہے ۔
 
Last edited:
Top