• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انسان اور موجودہ دور میں نفسیاتی غلامی

imran shahzad tarar

مبتدی
شمولیت
اگست 30، 2016
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
16
*انسان اور موجودہ دور میں نفسیاتی غلامی*

(تالیف عمران شہزاد تارڑ)

انسان جب پیدا ھوتا ھے تو گھر والے چھوٹے موٹے کپڑے لیئے تیار بیٹھے ھوتے ھیں ،جن میں مؤنث مذکر کا فرق بھی نہیں کیا جاتا کیونکہ نومولود چند ماہ تک دونوں جنس کی ضرورت پوری کرتا ھے،کبھی بیٹا لگتا ھے تو کبھی بیٹی،، والدہ بھی بیٹے کو پیار کرتے ھوئی بیٹی بنا کر پیار کرتی ھے اور بیٹی کو بیٹا کہہ کر دل خوش کرتی ھے،، پھر بچہ جب ذرا بڑا ھوتا ھے تو اس کے کپڑوں اور جوتوں میں فرق واضح ھونا شروع ھوتا ھے،، کپڑے ھوں یا جوتے ایک مخصوص وقت تک ھوتے ھیں پھر بچہ وہ کپڑے اور جوتے پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جاتا ھے،اب وہ کپڑے اور جوتے نشانی کے طور پر تو استعمال ھو سکتے ھیں مگر بچے کا جسم اور قد کاٹھ ان کو قبول نہیں کرتا ، وہ یہ تسلیم کر کےبھی کہ وہ کپڑے اور جوتے اس کے ھیں، انہیں پہن کر چل کر نہیں دکھا سکتا کیونکہ اب وہ اس کے حال کے مطابق نہیں، پھر ایک وقت آتا ھے کہ اس کا اسٹینڈرڈ سائز مکمل ھو جاتا ھے، اب اس کے قد کا بڑھنا رک گیا ھے، اب جوتا یا کپڑا پھٹ سکتا ھے مگر اس کے سائز میں فرق نہیں آتا،، جب بھی لے گا وھی اسٹینڈرڈ سائز اور مخصوص نمبر خریدے گا ! یہی حال دین کا ھے، انسانیت جب اپنے بچپن سے چلی تو اس کی عقلی و سماجی عمر کو دیکھتے ھوئے نبی بھی بھیجے گئے اور شریعتیں بھی بنائی گئیں ،مگر نہ وہ نبی ھمیشہ کے نبی تھے نہ ان کے معجزے ھمیشہ کے معجزے تھے اور نہ وہ شریعتیں دائمی شریعتیں تھیں وہ تکمیل کی منزل کی راہ کے پڑاؤ تھے،، وہ شریعتیں عارضی تھیں، حکم دینے والے کو پتہ تھا کہ وہ ٹرانزٹ دور کی قانون سازی ھے، اس لیے اس کی حفاظت کا بندوبست بھی نہیں کیا گیا،، نہ وہ معجزے محفوظ اور نہ اس دور کی کتابیں محفوظ اور نہ شریعتیں محفوظ !! تا آنکہ وہ وقت آ گیا جب انسانیت اپنے بلوغ کو پہنچی اس کی عقل نے جو جولانیاں دکھانی تھیں وہ دکھا بیٹھی، جو سوال پیدا کرنے تھے وہ پیدا کر لیے اور جو فتنے سوچنے تھے سوچ لیے ! تب اللہ پاک نے وہ نبی بھیجا جس کی شریعت اور کتاب بھی محفوظ کی اور قبر اور معجزہ بھی محفوظ کر دیا ! جس کی سنت دائمی سنت قرار پائی ،جن کی کتاب انسانیت کے نام اللہ کا آخری خطاب قرار دی گئ اور جس پر لیا گیا عہد،، فائنل ٹیسٹامنٹ قرار پایا ! جو لوگ بھی جو سوال بھی کر رھے ھیں اور جو شبہ اور فتنہ اٹھانا چاہ رھے ھیں یہ باسی کڑھی کا ابال ھے ورنہ ھم جنسوں کے نکاح سے لے کر خدا کے انکار اور دھریت و الحاد تک سب کچھ کیا جا چکا اور اس کا جواب بھی دیا جا چکا،، ھر سوال کا جواب قرآن حکیم نے سوال پڑھ کر پھر اس کا جواب دیا ھے،، اور قوموں کی بربادی کی تاریخ بیان کر کے اس کا انجام بھی دکھا دیا ھے ! اب نہ تو پچھلے رسولوں کی پیروی مشروع ھے اور نہ ھی ان کی شریعت قابلِ عمل ھے ! اب قیامت تک تمام انسانوں اور تمام زمانوں کے لئے ایک ھی نبی کی سنت اور ان کی ھی شریعت قابلِ عمل ھے ! جس دین کا نام دینِ اسلام جو اپنے عروج اور جوانی کو پہنچ چکا ،، الیوم اکملت لکم دینکم دین کی تکمیل ھے و اتممت علیکم نعمتی ، رسالت کی تکمیل ھے اور رضیت لکم الاسلام دیناً۔۔، اسلام اور اس کے پیروکاروں کے لئے رب کی رضا کا سرٹیفیکیٹ ھے ! یہاں سے دوسرا مسئلہ شروع ھوتا ھے، وھی بچہ جو جب پیدا ھوا تھا تو کامل اور مکمل تھا ،جسمانی اعضاء سارے وھی تھے جو اس کے مرتے دم تک رھیں گے ،ان میں تعداد کے لحاظ سے تو کوئی اضافہ نہیں ھو گا اور اسی کو الیوم اکملت لکم دینکم کہا گیا ھے ،مگر اس جوان کو جب تک کہ وہ جیتا ھے عمر بھر ان ھی اعضاء اور دل و دماغ کے ھزاروں مسائل درپیش ھونگے جس کے لئے ڈاکٹر بھی ضروری ھونگے ،دوائیاں بھی ایجاد ھونی ھیں اور مصلح بھی کچھ صلح کا فریضہ سر انجام دیں گے ، اسی کامل اور مکمل انسان کے لئے عدالتیں پولیس اور وکیل و جج بھی درکار ھونگے ، نئے ضابطے بھی درکا ھونگے ،یہاں سے ائمہ کا کردار شروع ھوتا ھے ، محدثین کا کام شروع ھوتا ھے ،، دین میں یہی کام فقہا اور مجتہد کا ھوتا ھے،سوشیو پولیٹیکل اور سوشیو کلچرل معاملات جن میں اللہ پاک نے تبدیلی کی گنجائش قیامت تک رکھ دی ھے وہ اس گنجائش کو دیکھ کر ضرورت کے مطابق استعمال کرتے ھیں، خود قرآن حکیم کے بارے میں نبی پاک ﷺکا فرمان موجود ھے کہ اس کے خزانے قیامت تک خالی نہیں ھونگے اور یہ اپنے اندر غوطہ زن عاقل کو کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹائے گا، علماء کبھی اس سے سیر نہیں ھونگے،اسی کا اظہار ھمارے ماضی میں ھوا، امام مالک کے قدموں میں بیٹھ کر علم حاصل کرنے والے امام شافعی نے ان کے احترام کو ملحوظِ خاطر رکھتے ھوئے ان کے بالمقابل اپنی فقہ دی اور وقت کی ضرورت کے مطابق دینی لباس کو سائز کے مطابق کیا،، اگرچہ تنگ نظروں اور اندھے مقلدوں کے ھاتھوں عین مسجد کے بیچ سنگسار کر دئیے گئے،اور کثرت سے خون بہہ جانے کی وجہ سے شہادت کا رتبہ پایا، پھر وہ وقت بھی آیا کہ فقہ شافعی کے مقلدین تعداد میں فقہ مالکی پر غلبہ پا گئے، اس کے علاوہ امام ابوحنیفہ نے وقت کے درزی کا کام سنبھالا اور اپنے زمانے کے مسائل کے مطابق حل پیش کیئے، وقت تبدیل ھوا ،سوشیو پولیٹیکل حالات تبدیل ھوئے تو ان کے اپنے شاگردوں نے آگے بڑھ کر اپنے امام کے احترام کے علی الرغم ان کے 90٪ مسائل کو تبدیل کر دیا، کسی سے مسائل میں اختلاف کا مطلب اس کی بے عزتی اور بےحرمتی نہیں بلکہ ھمارے زمانے کے لوگوں کی پست خیالی ھے، جو اندھی تقلید کو ادب و احترام کا درجہ دیتے ھیں،حالانکہ یہ دین کے لیئے سخت نقصان دہ ھے، یہ اسی طرح کا مرض ھے جو دل کا والو پھنس جانے سے پیدا ھوتا ھے،تازہ خون کی فراہمی رک جاتی ھے اور کارڈیک اریسٹ ھو کر بندہ مر جاتا ھے،ذرا ذرا سی بات پہ جو لوگ کہتے ھیں کہ اگر کوئی تبدیلی لانی ھے تو جاؤ پہلے لاؤ ابوحنیفہ کے پائے کا انسان تو ان سے گزارش ھے کہ امام ابو حنیفہ اگر امام ابو یوسف اور امام محمد کو دستیاب نہیں ھوئے تو آج وہ کہاں سے تشریف لائیں گے، اور تشریف لائیں گے تو امام نہیں رھیں گے، جس طرح بقول آپ کے عیسی علیہ السلام واپس آ کر نبی نہیں رھیں گے بلکہ امتی بن جائیں گے، امام کی امامت اپنے زمانے میں ھی چمکتی ھے کیونکہ وہ اپنے زمانے کے ھی ایکسپرٹ ھوتے ھیں،اپنے زمانے کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے صادر کرتے ہیں-لیکن بعد کے زمانہ والے ان کی بات کو حرف آخر تسلیم نہیں کر سکتے-
بلکہ اپنے اپنے زمانہ کے مطابق کتاب و سنت کو سامنے رکهتے ہوئے مسائل اخذ کریں ہیں-
اور نہ ہی اللہ اور اس کے رسول نے آئمہ عظام کے اقوال کو حرف آخر کہا ہے بلکہ یہ ضرور کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر شخص کی بات کو قبول بهی کیا جا سکتا ہے اور رد بهی-
اگر قیامت تک کسی کی بات حرف آخر ہے تو وہ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے-
کوئی فقہی امام اپنے زمانہ کا امام تو ہو سکتا ہے بلکہ اپنے زمانہ کا امام بهی نہیں ہو سکتا اگر ایسا ہوتا تو ان کے اپنے شاگرد ان کے مسائل میں اختلاف نہ کرتے-ہم یہ بهی نہیں کہتے کہ ان کی ہر بات کو پس پشت ڈال دیا جائے بلکہ جو کتاب و سنت کے عین مطابق ہو اسے قبول کر لیا جائے-
پھر کیا امام ابو حنیفہ کو اپنے زمانے میں اتفاقِ رائے سے امام چنا گیا تھا...؟
ان کے معارض موجود تھے اور ان پر اعتراضات آج بھی موجود ھیں اور کل بهی تهے اور بہت سارے معقول بھی ھیں،،
ھمارا سب سے بڑا المیہ وہ چشمے ھیں جو ھم نے اپنے اپنے مسالک اور اکابر کے نام پر چڑھا رکھے ھیں، ھم اپنے اپنے مسلک کے چشمے سے دنیا کو دیکھتے ھیں اور بد قسمتی سے وہ ھمیں ویسی ھی نظر آتی ھے ،جیسی کہ ہم دیکھنا چاھتے ھیں،، کتاب و سنت کا چشمہ کوئی خوش قسمت ھی چڑھاتا ھے، اپنے اکابر کو مافوق الفطرت اور خطا سے مبرا ھستیاں بنا کر پیش کیا جاتا ھے اور شخصیتوں کو کوٹ کوٹ کر دل و دماغ میں گھسایا جاتا ھے،نتیجہ یہ ھے کہ ھم یہ مطالبہ کرتے ھیں کہ اگر فقہی طور پر کوئی تبدیلی لازمی بھی ھے تو اس کے لئے ویسی ھی خطا سے معصوم اور مافوق الفطرت ھستیاں لے کر آؤ، اب ایسی افسانوی شخصیات نہ تو کبھی تھیں اور نہ اب اور نہ کبھی مستقبل میں لائی جا سکتی ھیں، جو بھی اٹھے گا اگر نو باتیں درست کرے گا تو ایک غلط بھی ضرور کرے گا اور اس غلطی کو درست کرنے والا بھی اللہ پیدا کر دے گا،،یہی سابقہ اماموں کی ھسٹری ھے اور اللہ کی سنت بھی اور یہی موجودہ اور آنے والے اماموں کے ساتھ ھو گا،، انسان کی امامت کا فیصلہ ھم عصر نہیں کرتے' آنے والا وقت اور مستقبل کی نسلیں کرتی ھیں !!
جب کوئی شخص حق کو تسلیم نہ کرنے کا ذہنی فیصلہ کر چکا ہو تو اگر وہ فرشتوں کو آسمان سے اترتا دیکھ لے یا مردے اس سے بات کرنے لگیں تب بهی وہ حق کو تسلیم نہیں کرتا-
اس فساد ذہن کی مختلف وجوہات میں سے ایک بنیادی وجہ غلوالدین ہے-جس سے قرآن و حدیث میں بڑی شدومد سے روکا گیا ہے-
یہ غلو ہی کی تو کرشمہ سازیاں ہیں کہ یہود نے عزیز علیہ السلام کو اور انصاری نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہا-شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے بارہ امام معصوم ہیں-بریلویہ مسلک اعلیٰ حضرت پر سختی سے کاربند ہیں-ان کا عقیدہ ہے کہ اولیاء کرام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور کائنات میں تصرف کرتے ہیں-اور طلب مدد پر مدد کرتے ہیں-
دیوبند یہ زبان سے تو نہیں کہتے مگر دل سے مانتے ہیں کہ ان کے امام ابو حنیفہ معصوم تهے اور ان کے تمام اجتہادات صحیح ہیں-
فقہ کی مشہور کتاب شامی میں ہےکہ اس پر ریت کے برابر ہمارے رب کی لعنت ہو جو ابو حنیفہ کا قول رد کرے-ایک غالی حنفی نے یہاں تک کہہ دیا جو حدیث ہمارے امام ابو حنیفہ کے قول کے خلاف ہو وہ یا تو موئول ہے یا منسوخ-
موجودہ دور میں اگرچہ جسمانی غلامی کی لعنت کا خاتمہ ہو چکا ہے مگر ذہنی غلامی اور نفسیاتی غلامی کا معاملہ اب بهی موجود ہے-خاص طور پر مسلم دنیا میں یہ مسئلہ اتنی گھمبیر صورت اختیار کر چکا ہے کہ مذہبی اور غیر مذہبی مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ اس لعنت کا شکار نظر آتا ہے-جو فکری اور نظریاتی غلامی میں پهنس کر اندهی تقلید کا شدائی بن چکا ہے-
ہمارا یہ مضمون چونکہ تصوف نہیں بلکہ اندهی تقلید (غلامی)ہے، اس وجہ سے ہم یہاں مروجہ تصوف کے اس پہلو کا مختصر جائزہ لیں گے جس نے ذہنی نفسیاتی غلامی کو فروغ دیا-
مروجہ تصوف کے تمام سلسلوں میں یہ عقیدہ متفقہ طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ہر شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ کسی" ایک ہی مرشد "کو اپنا راہنما
بنائے ، اس سے تربیت حاصل کرے اور اس کی نگرانی میں تصوف اور سلوک کی منازل طے کرے-
پیری مریدی کے اس تعلق کی تفصیل بیان کرنے کے لیے ہمیں تاریخ میں دور تک جانے کی ضرورت نہیں ہے-بلکہ ہمارے برصغیر تصوف کی روایت اتنی مضبوط ہے کہ ہم ان کی تفصیلات کو قریبی دور کے صوفی علماء کی کتب میں دیکھ سکتے ہیں-چونکہ ہمارے ہاں دلائل کی بجائے شخصیات کی بنیاد پر حق و باطل کا فیصلہ کیا جاتا ہے-اس وجہ سے ہم جان بوجھ کر شخصیات کے ناموں اور حوالوں کو حزف کررہے ہیں تا کہ کسی قسم کا تعصب قارئین کو متاثر نہ کر سکے-
بر صغیر کے ایک بہت بڑے صوفی عالم لکهتے ہیں:
بیت اردات یہ ہے کہ مرید اپنے ارادہ اختیار ختم کر کے خود کو شیخ و مرشد ہادی برحق کے بالکل سپرد کر دے، اسے مطعقا اپنا حاکم و متصرف جانے ، اس کے چلانے پر راہ سلوک چلے، کوئی قدم بغیر اس کی مرضی کے نہ رکهے -اس کے لئے مرشد کے بعض احکام 'یا اپنی ذات میں خود اس کے کچھ کام'
اس کے نزدیک صحیح نہ بهی ہوں تو انہیں افعال خضر علیہ السلام کی مثل سمجهے ، اپنی عقل کا قصور جانے، اس کی کسی بات پر دل میں اعتراض نہ لائے، اپنی ہر مشکل اس پر پیش کر دے-
یہ معاملات اہل تصوف کے کسی ایک مکتب فکر تک محدود نہیں رہے ہیں بلکہ یہ تصوف کی متفق علیہ روایت کا حصہ رہے ہیں-
ایک اہم صوفی بزرگ فرماتے ہیں:
جس نے اپنے شیخ پر اعتراض کیا اور اس کو حقارت کی نظر سے دیکھا وہ کبهی فلاح نہیں پا سکتا-
پچهلی کئی صدیوں سے مسلم دنیا کا سوچنے' لکهنے 'بولنےاور عوام الناس کا طبقہ کسی نہ کسی طرح اندهی تقلید (ذہنی و نفسیاتی غلامی) کا شکار ضرور رہا ہے-جو اب تک اسی تقلید میں جکڑا ہوا ہے-کوئی آئمہ کے نام پر تو کوئی تصوف کے نام پر کسی نہ کسی کی اندهی تقلید ضرور کرتا ہے-
مسلم دنیا کی پوری تاریخ میں ایسے افراد کی شدید کمی رہی ہے جنہوں نے طے شدہ دائرے سے ہٹ کر سوچنے کی کوشش کی ہو-
بعض جلیل القدر اہل علم نے کسی حد تک روایتی طریقے سے ہٹ کر غور و فکر کی کوشش کی لیکن ان حضرات کی فکر کو بالعموم مسلم معاشروں میں قبول عام حاصل نہیں ہوا-
تقلید یعنی ذہنی ،فکری اور نفسیاتی غلامی کا وہ پودا جو اب ایک گهنہ درخت بن چکا ہے اس کو جڑ سے اکھاڑ پهینکنے کے لے کافی محنت اور وقت درکار ہے-
اس تفصیل سے پوری طرح یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہےکہ مسلم دنیا میں غلامی(تقلید) کے خاتمے کی کوئی خاص تحریک شروع کیوں نہ ہو سکی ؟جب معاشرے کے ذہین ترین طبقے سے لے کر عام آدمی تک ہر شخص نفسیاتی ذہنی فکری تقلیدی غلامی میں نہ صرف مبتلا ہو بلکہ اس غلامی کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتا ہو تو یہ خیال کسے سوجھ سکتا ہے کہ وہ غلامی (تقلید)کے خاتمے کی بات کرنے کی جرات کر سکے-یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشروں میں اگرچہ غلامی (تقلید)کے خاتمے کی بعض تحریکیں موجود رہی ہیں لیکن کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکیں-لیکن اپنا اثر ضرور چهوڑا ہے جس کی بدولت غلامی کے اس کهوکلے درخت کی جڑیں ہل چکیں ہیں کسی وقت بهی اندهی تقلید کا یہ درخت گر سکتا ہے-کیونکہ باطل تو ہے ہی مٹنے والا-

"گر نہیں ہے جستجو ئے حق کا تجھ میں ذوق و شوق 'امتی کہلا کے پیغمبر کو تو رسوا نہ کر 'ہے فقط توحید و سنت امن و راحت کا طریق'فتنہء جنگ و جدل تقلید سے پیدا نہ کر "

(موجودہ دور میں نفسیاتی غلامی )
انتباہ: لفظ تقلید کی بجائے ''نفسیاتی غلامی ''اپنی تحریر میں شامل کریں گے۔

موجودہ دور میں مسلم معاشرے بالعموم نفسیاتی غلامی کے سخت شکنجے میں مبتلا ہیں۔جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ نفسیاتی غلامی،غلامی کی ایسی صورت ہے جس میں قانونی اور معاشرتی طور پر تو کوئی شخص بالکل آزاد ہوتا ہے لیکن وہ کسی شخصیت سے متاثر ہو کر یا متاثر کر دیے جانے کے نتیجے میں اس کا غلام بن کر رہ جاتا ہے ۔اب اس شخص کی اپنی کوئی سوچ اور فکر باقی نہیں رہ جاتی۔اس کا آقا اسے جنت میں لے جائے یا جہنم میں،اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔
انسان اپنی فطرت میں آزاد پیدا ہوا ہے۔یہ آزاد رہنا چاہتا ہے لیکن بعض طالع آزما افراد انہیں اپنی ذہنی غلامی میں دھکیل دیتے ہیں۔بعض انسان فطرتاً حساس ہوتے ہیں اور کسی کا اثر قبول کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ لوگ ذہنی غلام بنانے والوں کاخاص شکار ہوتے ہیں۔ذہنی غلام بنانے والے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جن کے نتیجے میں ایک اچھا بھلا ہوشیارشخص آہستہ آہستہ ان کے نرغے میں پھنستا چلا جاتا ہے۔
ضروری نہیں کہ غلام بنانےوالے تمام افراد انہیں شعوری طور پر غلام بنانا چاہتے ہوں۔ان میں سے بعض لوگ دین اور انسانیت سے مخلص بھی ہوتے ہیں لیکن وہ لا شعوری طور پر دوسروں کو اپنا ذہنی غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔
''فکری غلام بنائے جانے کا طریق کار''
انسانوں کو ذہنی غلامی میں دھکیلنے کے جو طریق ہائے کار استعمال کئے جاتے ہیں۔وہ وہی ہیں جو دنیا بھر میں برین واشنگ کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں۔اس موقع پر ضروری ہے کہ ان طریق ہائے کو تفصیل سے بیان کر دیا جائے تا کہ قارئین اس طریق کار سے اچھی طرح واقف ہو جائیں کہ ان کے رہنما کس طرح سے برین واشنگ کیا کرتے ہیں۔
یہاں یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ تمام کے تمام راہنما ایک جیسے نہیں ہوتے ،بعض راہنما لوگوں کی برین واشنگ کرتے ہیں اور بعض اسے برا سمجھتے ہیں۔جو لوگ برین واشنگ کا طریقہ اختیار کرتے ہیں،وہ کسی مخصوص مکتب فکر،مسلک،فرقے،قوم یا مذہب تک محدود نہیں ہیں بلکہ ہر فرقے اور ہر قوم میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو برین وشنگ کے ذریعے لوگوں کو اپنا فکری غلام بنانے کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔
یہ تفصیلات بیان کرنے کا مقصد کسی مخصوص گروہ یا لیڈر کو نشانا بنانا نہیں ہے۔یہ کام ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ وہ جس گروہ یا مسلک سے وابستہ ہیں،اس میں ان تفصیلات کا عملی مشاہدہ خود کریں اور دیکھیں کہ انہیں بے وقوف کس طرح بنایا جاتا ہے ۔فکری غلام بنانے کے طریق کار مندرجہ ذیل ہیں۔

مذہبی راہنما کو مقدس بنائے جانے کی مہم:

نفسیاتی غلامی کا آغاز اس طریقے سے کیا جاتا ہے کہ کسی ایک شخص کو غیر معمولی اہمیت دے دی جاتی ہے۔یہ شخص عموماً جماعت،مدرسے،تنظیم،یا فرقے کا سربراہ یا روحانی پیشوا ہوتا ہے۔لازمی طور پر یہ جس شخص کو راہنما کا درجہ دیا جاتا ہے،اس کی شخصیت میں بذاتِ خود کچھ اچھی صفات پائی جاتی ہیں۔ان صفات کے علاوہ اس شخص کے ساتھ کچھ اور صفات بھی منسوب کر دی جاتی ہیں جو اس میں موجود نہیں ہوتیں۔
لوگوں کو راہنما سے متاثر کرنے کے لیے ایک پروپیگنڈا مشینری کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔جو لوگ اس سے متاثر ہونے لگیں،انہیں سختی سے تلقین کی جاتی ہے کہ وہ صرف اسی امام یا راہنما کی تقاریر سنیں ،اسی کی کتب پڑھیں، کسی اور جانب دیکھیں بھی نہیں ۔اگر انہوں نے ایسا کیا تو وہ حضرت جی کے فیض سے محروم رہیں گے ،یا اصل راستے سے بهٹک جائیں گے-
لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ حق وہی ہے جو ہمارے اس راہنما یا امام نے دریافت کر لیا ہے اور اس کے علاوہ اور جو بھی لوگ ہیں ،اگرچہ وہ کتنے بھی اچھے ہیں لیکن ان میں ہمارے راہنما (امام،پیر)جیسی بات نہیں ہے۔
بعض حلقے جو شخصیت پرستی سے بچنے کا دعوی ٰ کرتے ہیں ،ان کے ہاں عام طور ایک شخصیت کی بجائے متعدد شخصیات کی پروموشن مہم چلائی جاتی ہیں ہے۔ایسے حلقوں کے ساتھ یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ دو راہنماوں میں اختلاف پیدا ہو جائے تو ہر راہنما اپنے اپنے پیروکاروں کو لے کر جماعت کو تقسیم کر دینے کا باعث بن جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت کم گروہوں میں ایک سے زائد شخصیات پر سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔
اپنی شخصیت کو مزید موثر بنانے کے لیے مذہبی راہنما یہ کام کرتے ہیں کہ وہ نہایت ہی عجزو انکسار کا مظاہرہ کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ میں تو کچھ بھی نہیں ،یہ سب میرے فلاں استاذ ،شیخ ،امام ،مرشد کا فیض ہے۔بسا اوقات یہ حضرات قدیم زمانے کی کسی شخصیت جیسے رسول اللہ ﷺ ،کسی صحابی یا بڑے عالم سے اپنے تعلق کا دعویٰ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو فلاں ہستی کے خوشہ چین ہیں اور انہی کے نظریات وافکار کو پیش کر رہے ہیں،ان میں سے بعض حضرات تو اس ہستی سے بذریعہ کشف براہ راست تعلق کا دعویٰ کرتے ہیں اور نسبتاً معقولیت پسند ہوتے ہیں ،وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میں اس ہستی کی کتابوں سے یہ نظریات حاصل کر کے پیش کر رہا ہوں۔اور اس طرح بے شمار من گھرت جھوٹے نظریات اس ہستی کی طرف منسوب کر دیے جاتے ہیں جس سے وہ مکمل طور پر لا علم ہوتا ہے۔عام لوگ اتنا وسیع علم نہیں رکھتے جس کی بنا پر وہ تحقیق کیے بغیر اپنے راہنما کی بات پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے ہیں۔
مقربین خاص کی ٹیم کی تیاری:

کسی راہنما کے لیے یہ ایک مشکل کام ہوتا ہے کہ وہ اجتماعات میں اپنی تعریف خود کرے۔اس وجہ سے شخصیت کو مقدس بنانے کی مہم کے لیے ایک باقاعدہ پروپیگنڈا ٹیم تیار کی جاتی ہے ،اس ٹیم کے اراکین کو راہنما کے مقرب خاص یا قریبی ساتھی کا نام دیا جاتا ہے۔
اس ٹیم کے اراکین عام اجتماعات ،تنظیمی اجلاسوں ،نجی محفلوں غرض ہر جگہ حضرت جی کے تقویٰ،شخصی اوصاف اور کرامات کا پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔ایسے ایسے واقعات سنائے جاتے ہیں کہ جس سے لوگ جھوم اٹھیں ،جو لوگ اس شخصیت سے متاثر ہوتے ہیں ،وہ بذاتِ خود اس مہم کا حصہ بنتے ہوئے انہی واقعات اور کرامات کو دوسروں تک سینہ بہ سینہ منتقل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔اور آہستہ آہستہ اس ہستی کی کرامات ومسائل کو تواتر درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔
اور پھر اس راہنما کی ہستی کو بالعموم عوام سے دور کر کے اس کے اور عام لوگوں کے درمیان تقدس کا ایک پردہ پیدا کر دیا جاتا ہے۔اس راہنما سے رابطہ کرنا کسی عام مرید کے لیے ممکن نہیں رہتا بلکہ یہ صرف "مقربین خاص"کے حلقے سے توسط سے ہی ممکن ہو سکتا ہے ،مقربین خاص کا یہ گروہ راہنما کی بھی راہنمائی کرتے ہوئے اسے بتاتا ہے کہ اسے کس طریقے سے عوام کےسامنے پیش ہونا ہے۔کس کے سامنے کس بات کا خیال رکھنا ہے،کس کے سامنے کون سی بات کرنی ہے اور کون سی نہیں کرنی ۔راہنما کی ذاتی زندگی کو عام لوگوں کی نظر سے مکمل طور پر اوجھل کر دیا جاتا ہے۔
راہنما سے وابستہ عجیب و غریب اور محیر العقول کرامتیں اور کہانیاں تخلیق کی جاتی ہیں ۔اگر کبھی کوئی واقعہ محض اتفاق سے بھی پیش آ جائے تو مقربین خاص کی ٹیم اسے بھی اپنے راہنما کی کرامت قرار دیتے ہوئے اس کا بھر پور پروپیگنڈا کرتے ہیں۔اگر کوئی واقعہ ذہن تسلیم نہ بھی کرے تو اس کو کرامت یا حکمت کا نام دے دیا جاتا ہے۔

مذہبی راہنماؤں کا ظاہری مشن اور خفیہ ایجنڈا:

راہنما بالعموم کسی نہایت ہی اعلی مقصد جیسے دعوت دین ،عوام کی فلاح وبہبود وغیرہ کو اپنا مشن قرار دے کر اپنے پیروکاروں کو متحرک کرتا ہے۔ وہ راہنما خود کبھی تو حقیقی اور کبھی مصنوعی عجزوانکسار کے ساتھ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اس مشن کا نہایت ہی ادنی خادم ہے اور اس مشن کے لیے اگر اس کی جان بھی چلے جائے تو اسے پرواہ نہیں۔
اس ظاہری مشن سے ہٹ کر ایک ایک خفیہ مشن بھی ہوتا ہے اس خفیہ مشن کو نہ تو کہیں تحریر کیا جاتا ہے اور نہ ہی بیان کیا جاتا ہے لیکن تحریک سے تعلق رکھنے والے تمام رکن اس خفیہ مشن کے بارے میں علم رکھتے ہیں اور اس کے حصول کی جدوجہد میں شریک ہوتے ہیں ۔مثال کے طور پر بہت سی تحریکوں میں ظاہری مشن اسلام کی تبلیغ ہوتا ہے لیکن اس کے پردے میں اپنے نظریات اور مسلک کی تبلیغ حقیقی مشن کے طور پر موجود ہوتی ہے۔
عقل رکھنے والا کوئی بھی شخص ان تحریکوں کے ساتھ تھوڑا سا وقت گزار کر اس خفیہ مشن سے واقفیت حاصل کر سکتا ہے۔

اپنے پیغام کو خدا کا پیغام بنا کر پیش کرنے کا عمل:

اس کے بعد وہ راہنما قرآن سے ،رسول اللہﷺ کی احادیث اور قدیم بزرگوں کے حوالے پیش کر کے بتاتا ہے کہ جو بات میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں وہ خدا کا پیغام ہے اور نبی ﷺ کا طریقہ کار ہے۔

علم دین پر جارہ داری :

راہنما کو یہ خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ کوئی شخص اس کے دعویٰ کو پرکھنے کے لیے قرآن وسنت کا مطالعہ کرنا شروع کر دے ،اس وجہ سے علم کا رجحان رکھنے والے افراد کے لیے بطور خاص یہ تاکید کی جاتی ہے کہ خبردار! قرآن کا مطالعہ نہ کرنا ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے۔
قرآن کا مطالعہ کرنے کے لیے اکیس علوم پر کامل عبور حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے ۔اگر تم قرآن وحدیث کا مطالعہ کرنے کا بہت ہی شوق ہے تو پھر صرف اور صرف اپنے ہی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے کسی عالم کی زیرنگرانی ایسا کرو۔
جب وہ شخص ایسا کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں اسی راہنما کے پیروکار وہ عالم ،قرآن وسنت کی حقیقی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر اس راہنما کے عقائد و نظریات کے مطابق ڈھال کر اسے تعلیم دیتے ہیں۔ اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اس موضوع پر ہم اپنی بات کرنے کی بجائے پچھلی صدی کے ایک بڑے عالم اور مورخ کے الفاظ نقل کر رہے ہیں :

عقل کے استعمال کی حوصلہ شکنی :

عقل کے استعمال کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور اس نظریے کو بار بار بیان کیا جاتا کہ شیطان اپنی عقل کے باعث گمراہ ہوا،اگر تم نے عقل کو استعمال کیا تو تم بھی گمراہ ہو جاؤ گے۔یہ حضرات شاید یہ نہیں جانتے کہ شیطان عقل کو استعمال کرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے تکبر کے جذبے کے باعث گمراہ ہوا۔اگر وہ عقل استعمال کر لیتا تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مردود نہ ٹھہرتا۔
عجیب بات یہ ہے کہ یہ حضرات اپنے پیرو کاروں کو تو عقل کے استعمال سے روکتے ہیں مگر خود ہر معاملے میں اپنی عقل کو بھر پور طریقے سے استعمال کرتے ہیں ،ان کے پیروکا بھی اگر اپنی عقل کو ان حضرات کی پیروی میں ان ہی کے خفیہ مشن کے لیے استعمال کیا جائے تو اس شخص کی بھر پور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے لیکن اگر کوئی شخص اپنی عقل کو اس راہنما کے نظریات کا کسی دوسرے راہنما کے نظریات سے تقابل کرنے کے لیے استعمال کرے تو اس پر گمراہی سے لے کر کفر ،ارتداد اور الحاد کے فتوے عائد کر دیے جاتے ہیں۔

اختلاف رائے کی مخالف :

پیروکاروں کے ذہنوں میں یہ بات اتاری جاتی ہے کہ راہنما سے اختلاف رائے کرنا ایک بہت بڑا گناہ ہے۔جو شخص ایسا کرے گا ،وہ جہنم کا سزا وار ہو گا۔اختلاف رائے کو اتحاد کا مخالف قرار دے کر اس پر مکمل پابندی عائد کر دی جاتی ہے ۔راہنما کی آراء کو مقدس قرار دے دیا جاتا ہے اور اس سے معمولی سا اختلاف رائے بھی برداشت نہیں کیا جاتا ۔اگر کوئی شخص ذرا سا بھی اختلاف رائے کر لے تو اس کے خلاف طوفان کھڑا کر دیا جاتا ہے ،اسے نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ،راہنما کی نارضگی سے اسے حلقہ سے اخراج کی سزا تک سنا دی جاتی ہے ،بعض لوگوں کو تو حلقے کے بھائیوں کی جانب سے جسمانی تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

مخالفین کی تخلیق:

ان حضرت کی دعوت کی ایک خاصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ س میں کسی مخصوص شخص
،گروہ،فرقے،ملک،یا مذہب کو مصنوعی طور پر اپنا ہدف بنا لیتا ہے اور اس کے خلاف تقریروں اور تحریروں کی صورت میں الفاظ کا ایک طوفان کھڑا کر دیا جاتا ہے ۔جو الزام کچھ حقیقت کے حامل ہوتے ہیں ،ان میں زبردست مبالغہ کر کے ان کی شدت کو کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے الزامات بھی عائد کئے جاتے ہیں جو یقیناً کوئی وجود نہیں رکھتے ۔اس عمل کو فلاں کے خلاف جہاد کا مقدس نام دے دیا جاتا ہے۔

برین واشنگ کا عملی نظام:

راہنما کی شخصیت کے بے پناہ تقدس اور اس نظریاتی فریم ورک کو رگوں میں اتارنے سے پیروکار کی برین واشنگ کر کے انہیں راہنما کا مکمل غلام بنا لیا جاتا ہے۔خاص طور پر درس گاہوں میں زیر تعلیم طالب علموں پر یہ ہی حربہ استعمال کیا جاتا ہے ۔اس مقصد کے لیے جو طریق ہائے کار اختیار کئے جاتے ہیں،مضمون کے طوالت کے پیش نظر چیدہ چیدہ علامات بیان کی جاتی ہیں ،

• تربیتی نشستوں اور ان کے علاوہ دیگر مواقع پر راہنما کے مقربین خاص کے حلقے سے تعلق رکھنے والے خاص مبلغین کی تقاریر کراوئی جاتی ہیں ،جس میں قدیم لٹریچر کے حوالے دیے جاتے ہیں۔

• بہت سے مذہبی حلقوں میں اگرچہ موسیقی کے آلات کو گناہ سمجھا جاتا ہے لیکن نثری تقریر کے ساتھ ساتھ بغیر آلات کے شعرو نغمہ کا بھر پور استعمال کیا جاتا ہے۔کیونکہ موسیقی اثر جذبات پر زیادہ گہرا ہوتا ہے۔

• اس تحریک کے مختلف اجتماعات اور نشستوں میں عام طور پر حقائق کی بجائے فینٹسی پر زور دیا جاتا ہے،مکمل معلومات فراہم نہیں کی جاتی بلکہ ادھوری بات بتائی جاتی ہے۔عقلی اور منطقی دلائل اگر بیان بھی کیے جائیں تو ان پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا بلکہ اس کی بجائے واقعات بیان کر کے اندھی تقلید پر زور دیا جاتا ہے۔

• سادہ لوح پیروکار ایک دوسرے کی حقیقی برادرانہ محبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں جبکہ چالاک لیڈر مصنوعی طور پر ان سے محبت کا ناٹک رچاتے ہیں،اور ایک دوسرے کو پیر بھائی،فقہی بھائی ،مسلکی بھائی کہہ کر تعارف کرواتے ہیں۔

• عام طور پر راہنما ،اپنے پیروکاروں کی عقل کی بجائے ان کے جذبات کو اپیل کرتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی کو عقلی طور پر اپنی بات پر قائل کرنے کے لئے دلائل کی ضرورت ہوتی ہے جو ان حضرات کا کمزور پہلو ہوتے ہیں۔اس کے برعکس یہ بڑا آسان کام ہوتا ہے کہ کسی کے مخصوص جذبات جن میں غیرت ،غصہ ،محبت۔عقیدت،سیکس وغیرہ شامل ہیں ،انہیں بھڑکا کر اس پیروکار کو اپنے مکمل کنٹرول میں لے لیا جائے۔

• پیروکار کے جذبے کو تحریک دینے کے لیے مختلف مناظروں یا میدانوں میں اپنی فتوحات اور مخالف کی شکست کے واقعات کو نمک مرچ لگ کر بیان کیا جاتا ہے۔یہ کام مقربین خاص کا حلقہ زبردست انداز میں اور راہنما عجزوانکسار کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔

• مختلف درجے کے راہنما کبھی کبھار اپنے پیروکاروں کی وفاداری کا امتحان بھی لے لیتے ہیں،اس امتحان میں انہیں یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ واقعی اپنے راہنما کے وفادار ہیں،یہ امتحان چھوٹی موٹی قربانیوں سے لے کر جان کی قربانی پر بھی مشتمل ہو سکتا ہے۔موجودہ دور میں خودکش حملے اسی قربانی کی انتہائی صورت ہے۔

• پیروکار کے ذہن میں اس ہستی کا اثر ڈالنے کے لئے اس کا نام تبدیل کر کے ایسے نام تجویز کیے جاتے ہیں جس سے لوگ متاثر ہوں،مثلاً اعلی حضرت،امام اعظم،گنج بخش ،داتا، دستگیر،غریب نواز وغیرہ ،اور بعض ایسے واقعات بیان کر کے مختلف اشیاء کو تبرک بنا دیا جاتا ہے مثلاً ٹاہلی ،بیر،کنواں،غار،پہاڑی،کتاب،قبر، جانور یا مختلف مقام وغیرہ

• بہت سے گروہوں میں زیادہ سوالات پوچھنے اور بول چال پر پابندی بھی عائد کر دی جاتی ہے ۔جس سوال کا جواب راہنما نہ دے سکتے ہوں اس سوال کو احکمانہ قرار دے دیا جاتا ہے،

• بعض گروہوں میں تو مختلف نقطہ نظر رکھنے والوں کو گستاخ ،کافر بے دین جیسے القاب سے پکارا جاتا ہے اور اسلام کرنے کی صورت میں نکاح ٹوٹ جانے کا فتوی تک دے دیا جاتا ہے۔

• بعض گروہوں میں یہ طریق کار اختیار کیا جاتا ہے کہ پیروکاروں کو ایک مخصوص وضع قطع اختیار کرنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے ،اس وضع قطع کو سنت ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے اور اس سے مختلف کسی بھی سنت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔بعض حلقوں میں تو یہ ترغیب دلائی جاتی ہے کہ اسے کفن بھی اسی وضع قطع میں دیا جائے۔

• یہ تصور دنیا کے بہت سے مذاہب میں موجود ہے کہ بندہ اپنے خدا سے براہ راست رابطہ نہیں کر سکتا بلکہ ایسا کرنے کے لیے اسے کسی اللہ والے کا سہارا لینا بہت ضروری ہے،اگرچہ قرآن مجید میں اور صحیح احادیث میں واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ ہرشخص اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کر سکتا ہے گڑ گڑا کر توبہ کر سکتا ہے،اپنی حاجات کو صرف اور صرف اسی سے مانگ سکتا ہے،لیکن اس سے قطع نظر بہت سے گروہوں میں اس نظریے کو پروان چڑھایا گیا کہ ایسا کرنا کافی نہیں بلکہ کسی اللہ والے کا دامن پکڑنا ضروری ہے۔جس کے لیے کسی بزرگ کی بیعت کرنا ضروری ہے۔

• بہت سے مذہبی راہنما لوگوں کو اپنی اطاعت پر مجبور کرنے کے لئے امیر سے متعلق احادیث کو ان کے سیاق سباق سے ہٹا کر اپنے لئے استعمال کرتے ہیں۔قرآن مجید نے جنت کا مستحق ان لوگوں کو قرار دیا ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں اور آخرت پر ایمان لائیں اور اپنی عملی زندگی میں اخلاقی اصولوں اور ان کی بنیاد پر نازل کردہ شریعت کی پیروی کریں۔لیکن مذہبی راہنما اس نظریے کو اپنے حق میں اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ اس راہنما /پیر /امام کی اطاعت کی صورت میں جنت اور اس کی نافرمانی کی صورت میں جہنم لازم ہو جاتی ہے۔

• کیتھولک عیسائیوں میں مذہبی راہنما کے سامنے اپنے گناہ کا اعتراف کر کے اس کے توسط سے توبہ کرنے کا تصور موجود ہے۔اسلام میں اعتراف کا کوئی تصور تو موجود نہیں،لیکن بعض مذہبی راہنماوں نے اجتماعی توبہ کی صورت میں یہ سلسلہ مسلمانوں کے ہاں بھی جاری کر دیا ہے ۔اور کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یونہی کسی کو معاف نہیں کرتا ،صحیح راستہ یہ ہے کہ حضرت جی کے توسط سے توبہ کی جائے،اس طرح توبہ کی قبولیت کا امکان بڑھ جاتا ہے،اگر حضرت جی زندہ نہیں ہیں تو اس کی قبر پر جا کر اس کے وسیلے سے توبہ کرے۔

• صرف پیروکاروں ہی کو غلام بنا لینے پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں اس بات کی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو بھی راہنما کی محفلوں میں لایا کریں ،یا ان کے متعلق بتایا کریں،اس طریقے سے برین واشنگ کا یہ عمل کچی ذہن کے بچوں پر بھی دوہرایا جاتا ہے۔

• دنیا کے بہت سے مذاہب میں لوگ راہنما کے زیر تربیت روحانی تجربات حاصل کرتے ہیں
جن میں کشف، مراقبہ،مقدس مقامات ،خانہ کعبہ ،روضہ رسول یا کسی ہستی کا تصور وغیرہ شامل ہے،پھر چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے مقدس مقامات یا ہستی کی شبیہ ان کے ذہن میں رہتی ہے،جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اگر کبھی کبھار خواب میں یہی مقدس مقامات یا ہستی نظر آ جائے ،تو پھر اس زیارت کو یہ لوگ حضرت جی کا فیض قرار دیتے ہیں۔

• نفسیاتی غلامی یعنی اندھی تقلید کو فروغ دینے کے لیے اس عمل کی بہت سی تفصیلات ابھی باقی ہیں ،لیکن ہم انہی پر اکتفا کرتے ہیں۔یہ تفصیلات بیان کرنے کا مقصد صرف یہی تھا کہ لوگ اپنے مذہبی اور سیاسی راہنماؤں کے مکروفریب سے آگاہ ہو کر ان سے بچ سکیں۔ہماری یہ دعوت فکر کسی مخصوص مسلک یا گروہ کو نہیں بلکہ تمام مسالک اور گروہوں کے پیروکاروں کو ہے کہ وہ اپنی
زندگی کا ایک بار جائزہ ضرور لیں۔،
نوٹ:اس نفسیاتی غلامی/یعنی اندھی تقلید کے طوق کو اپنے گلے سے اتارنے کا طریقہ کار اگلے مضمون میں پڑھیں، جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
اس مضمون کا پہلا حصہ
استاذ جلال الدین القاسمی فاضل دارالعلوم دیوبند کی کتاب :رفع الشکوک والا دهام بہ جواب بارہ مسائل بیس لاکھ انعام سے مضمون تیار کیا-جبکہ دوسرا حصہ مسلم دنیا میں ذہنی ،فکری اور نفسیاتی غلامی سے تیار گیا ہے۔

ہماری پوسٹس پڑھنے کیلئے ہمارا بلاگ یا ہمارا گروپ جوائن کریں
whatsApp:0096176390670
whatsApp:00923462115913
fatimapk92@gmail.com
http://www.dawatetohid.blogspot.com/
www.facebook.com/fatimaislamiccenter
------------------------
 
Top