- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
عَن أَبِي قَتَادَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:
«إِنِّي لَأَقُومُ فِي الصَّلاَةِ أُرِيدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ، فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلاَتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمِّهِ»
(صحیح البخاری رقم 707)
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے:
بےشک میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں، اور میراارادہ ہوتا ہے کہ لمبی نماز پڑھاؤں، پھر مجھے بچے کے رونے کی آواز سنتی ہے، تو میں نماز مختصر کردیتا ہوں، اس ناپسندیدگی سے کہ میں اس کی ماں کےلیے مشقت پیدا کردوں۔
امام بخاری رحمہ اللہ اس پر باقاعدہ باب باندھتے ہیں:
بَابُ مَنْ أَخَفَّ الصَّلاَةَ عِنْدَ بُكَاءِ الصَّبِيِّ
اس بات کا بیان: جو آدمی بچے کے رونے پر نماز مختصر کر لے
نماز سے بڑھ کر ظاہر ہے کوئی چیز اعمال میں اہم نہیں۔ نماز با جماعت، مسجد نبوی کے اندر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں… اتنی بڑی جماعت محض ایک بچے کے رونے کی آواز پر مختصر کر دی جاتی ہے!
دین کی فطرت اور مزاج کو سمجھانے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک سادہ اور بےساختہ بیان ہزار نصوص پر بھاری ہے۔ مسئلہ’نماز‘ تک محدود نہیں؛ یہ دراصل اِس ’’دین‘‘ ہی کا ایک تعارف ہے۔ انسان کو سمجھنا، اس کی سرشت سے واقف اور اس کی فطرت سے ہم آہنگ ہونا اِس دین کے ساتھ خاص ہے۔ نفوس کو آسودگی دینا،’’خدا سے تعلق‘‘ کو کبھی بوجھ نہ بننے دینا، ’’خدا کی پرستش‘‘ کو ہمیشہ ایک خوشگوار عمل ہی بنا کر رکھنا…غرض نرمی، آسانی اور رحمت بذاتِ خود دین ہیں؛ اور دین کی تشریعات میں گوندھ دی گئی اشیاء ہیں۔ لوگوں کی زندگی اجیرن کرنا کبھی ’’دین‘‘ نہ ہو گا؛ بلکہ دین کی ایک غلط ترجمانی کہلائےگا۔ دین ہو اور لوگوں کےلیے الجھنیں پیدا کرے!!! تو پھر الجھنیں دور کون کرے گا؟ ’’دین‘‘ لوگوں کو مسائل سے نکالنے کا نام ہے نہ کہ مسائل پیدا کر کے دینے کا!ایسی دینداری ’’انسان‘‘ سے پہلے خود ’’دین‘‘ کے ساتھ زیادتی ہے۔ زندگی کو کسی تنگ یا بند گلی میں دھکیل آنا، انسانی جذبوں کو بےاعتنائی اور سردمہری سے لینا اور بھاری بھاری مسئلے بتا کر لوگوں کو خدا سے بدظن کرنا’دینداری‘ کی ایک خوفناک تعبیر ہے… گو آج اِسی کا دور دورہ ہے۔
سبحان اللہ! صرف بچے کا خیال رکھنے کی بات نہیں ہوئی…مامتا کا ذکر ہوا ہے!
ماں جس کا بچہ رو رہا ہے، اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے کا شرف حاصل کرنے آئی ہوئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس ماں پر نماز کی ساعتیں طویل نہیں ہونے دینا چاہ رہے؛ نماز کو وہیں پر مختصر کر دیتے ہیں!