محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ كَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ۰ۭ وَاللہُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۲۶۱ اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَآ اَذًى۰ۙ لَّھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۰ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۲۶۲ قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَۃٌ خَيْرٌ مِّنْ صَدَقَۃٍ يَّتْبَعُہَآ اَذًى۰ۭ وَاللہُ غَنِىٌّ حَلِيْمٌ۲۶۳ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى۰ۙ كَالَّذِيْ يُنْفِقُ مَا لَہٗ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۰ۭ فَمَثَلُہٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَكَہٗ صَلْدًا۰ۭ لَا يَقْدِرُوْنَ عَلٰي شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْا۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ۲۶۴
۱؎ ان آیات میں بتایا ہے کہ جس طرح فطرت کا قانون ہردانے کو جو بویاجائے،کمیت وکیفیت میں بڑھاتا رہتا ہے، اسی طرح ہمارے اعمال میں بھی ثمر جاری رہتا ہے اور یہ نموواضافہ اللہ کی رحمت بے پایاں پر موقوف ہے ورنہ ہمارے اعمال ہرگز اس درجہ کے نہیں ہوتے کہ انھیں قبول بھی کیاجائے۔
۲؎ اچھے سے اچھا عمل اگر سوء نیت کا نتیجہ ہے تو اللہ تعالیٰ کی نظرمیں کوئی قیمت نہیں رکھتا۔مال ودولت کے ڈھیر بھی خدا کی راہ میں خرچ کردیے جائیں اور دل میں خلوص نہ ہوتو اجر نہیں ملے گا۔ لکل امرء مانویٰ۔
۳؎ ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ اگر دل میں وسعت نہ ہو اور فراخ دلی سے خدا کی راہ میں خرچ نہ کرسکو تو یہی بہتر ہے کہ نرمی سے سائل کو مطمئن کردو۔ اسے جھڑکنا اور گالیاں دینا اور دل آزار کلمات سے مخاطب کرنادرست نہیں۔
وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ کہہ کے یہ بتایا ہے کہ خدا کی راہ میں دینا اپنے نفس کی پاکیزگی کے لیے ہے۔خدا کوتمہارے صدقات کی ضرورت نہیں۔ اس لیے جب کبھی بھی دوتو یہ دیکھ لو کہ تمہارے دل کی اصلاح کس حد تک اس سے وابستہ ہے۔
۴؎ پیشتر کی آیات میں انفاق فی سبیل اللہ کے ساتھ ساتھ خلوص وحسن نیت کی بزور تاکید کی ہے اور فرمایا ہے کہ احسان جتلاکر اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو۔ ان آیات میں معیارِ اعمال کی نہایت بلیغ مثال سے تشریح کی ہے۔فرمایا ہے کہ وہ شخص جو خدا پر ایمان نہیں رکھتا۔ جس کا آخرت پر عقیدہ نہیں، اس کے اعمال ہرگز درخور اعتنا نہیں۔ اس کے اعمال کی مثال پتھر کی ایک چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑ ی ہو اور مینہ کا ایک پرزور چھینٹا اسے بہاکر لے جائے اور وہ لوگ جو خدا کی رضاجوئی کے لیے اور دل کی پاکیزگی وطہارت کے لیے روپیہ صرف کرتے ہیں، ان کا فعل ثمر آوری میں اس سرسبز وشاداب باغ کی طرح ہے جو عام زمین سے ذرا بلندی پر واقع ہو، تاکہ کھلی ہوا اور تازہ روشنی ہروقت وہاں پہنچ سکے۔ وہاں پانی برسے اور باغ میں شان دار تازگی پیدا کردے۔ پیداوار کے اعتبار سے وہ دوگنا چوگنا ہوجائے ۔ یعنی اعمال کا معیار حسن نیت وارادہ ہے ۔ نہ حسن عمل ،ریاکاری کی چٹان پرحسن اعمال کے بیج نہیں بوئے جاسکتے، البتہ خلوص وللہیت کے جذبات اعمال کی خوبصورتی میں اضافہ کردیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کے ہاں مشقت وکوفت کی کوئی قدر نہیں، وہاں تو دلی کوائف کی عزت ہے ۔ وہ جودل کا پاک اور سخی ہے ، اس کا تھوڑا بھی بہت ہے اور وہ جو خلوص وحسن نیت کی نعمت سے محروم ہے ، وہ اگر سیم وزر کے انبار بھی تقسیم کرے تو لائق اجر نہیں،کیوں کہ اس طرح کے ریاکارانہ صدقات سے اس کی طبیعت میں کوئی اصلاح نہیں ہوتی۔اعمال حسنہ کے لیے قرآن حکیم نے ایمان باللہ کو ضروری قرار دیا ہے، اس لیے کہ جب تک ایمان صحیح موجود نہ ہو، دنیا میں اخلاق کا کوئی معیار ہی نہیں رہتا اورہرشخص حالات وظروف کے ماتحت اپنے اعمال کی کوئی نہ کوئی تاویل کرلے گا۔ غور کرو۔ اگرنظام آخرت پر اعتقاد نہ ہوتو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھراعمال صالحہ کا ارتکاب ہی کیوں کیاجائے ؟ صرف اس لیے کہ لوگ اچھا کہیں؟ اور وہ سوسائٹی جس میں ہم رہتے ہیں،خوش رہے ۔ یا یہ کہ دنیا کا نظام برقرار رہے اور اس میں کوئی برہمی پیدا نہ ہو مگرسوال یہ ہے کہ ہم اپنی مسرتوں کو دوسروں کی اغراض کے لیے کیوں قربان کریں۔ سوسائٹی کی ناخوشی سے ہم ذاتی لذائذ وحظوظ کی شادکامی سے کیوں محروم رہیں۔کیا یہ سراسر بے وقوفی نہیں؟ اور اس کا کیوں فکرکریں کہ دنیا کا نظام برقرار رہے۔کیا ہم کائنات کے اجارہ دار ہیں؟ جس نے دنیا کو بنایا ہے ، وہ اس کی خود حفاظت کرے گا۔ ہم تووہی کریں گے جس سے ہم کو فائدہ ہو۔ تو گویا اللہ تعالیٰ کے انکار کے بعد '' انفرادیت'' اور ''ذاتیت'' کا دور دورہ شروع ہوجاتا ہے اورنیک اعمال کا کوئی معیار ہی قائم نہیں رہتا، اس لیے ضروری ہے کہ ایمان باللہ کی قید کو بڑھایاجائے ۔ جس سے اعمال کی قیمت مقرر ہو اور دلوں میں نیکی کے لیے ترغیب پیداہواور نصب العین بلند ہوجائے ۔شہرت وریا کاری نہایت پست قسم کے جذبات ہیں۔وَتَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ صدقات اس طرح کے ہونے چاہییں کہ ان سے واقعی نفس سے ایک جنگ کرنا پڑے اور بالآخر ضمیر مطمئنہ نفس خادعہ پر غالب آجائے۔ نہ یہ کہ کم قیمت اورغیر ضروری چیزیں اللہ کی راہ میں دے دی جائیں۔
ان کی مثال جو راہِ خدا میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں، اس دانہ کی مثال ہے جس سے سات بالیں اُگیں اور ہربال میں سو دانے۱؎ ہوں اور خدا جس کے لیے چاہے بڑھاتا ہے اور خدا کشائش والا ہے سب جانتا ہے۔(۲۶۱) وہ جوخدا کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتاتے ہیں اور نہ ایذا دیتے ہیں ۔ انھیں کے لیے ان کے رب کے پاس بدلہ ہے۔ نہ ان کو کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔۲؎ (۲۶۲) بھلی بات کہنی اور درگزر کرنا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد ایذا ہو اور اللہ بے پروا برد بار ہے۔۳؎ (۲۶۳) مومنو ! احسان جتاکر اور ایذا ۴؎ دے کر اپنی خیرات کو ضائع نہ کرو۔ جیسے وہ جو اپنا مال لوگوں کے دکھلانے کو خرچ کرتا ہے اور خدا پر ایمان نہیں رکھتا۔ سو اس کی مثال اس صاف پتھر کی مانند ہے جس پر کچھ مٹی پڑی ہو۔پھر اس پر موسلادھار پانی برسے اور وہ اس کو صاف کر چھوڑے(ریاکار) اپنی کمائی پر کچھ اختیار نہیں رکھتے اورخدا منکروں کو ہدایت نہیں کرتا۔(۲۶۴)
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت۔
۲؎ اچھے سے اچھا عمل اگر سوء نیت کا نتیجہ ہے تو اللہ تعالیٰ کی نظرمیں کوئی قیمت نہیں رکھتا۔مال ودولت کے ڈھیر بھی خدا کی راہ میں خرچ کردیے جائیں اور دل میں خلوص نہ ہوتو اجر نہیں ملے گا۔ لکل امرء مانویٰ۔
۳؎ ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ اگر دل میں وسعت نہ ہو اور فراخ دلی سے خدا کی راہ میں خرچ نہ کرسکو تو یہی بہتر ہے کہ نرمی سے سائل کو مطمئن کردو۔ اسے جھڑکنا اور گالیاں دینا اور دل آزار کلمات سے مخاطب کرنادرست نہیں۔
وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ کہہ کے یہ بتایا ہے کہ خدا کی راہ میں دینا اپنے نفس کی پاکیزگی کے لیے ہے۔خدا کوتمہارے صدقات کی ضرورت نہیں۔ اس لیے جب کبھی بھی دوتو یہ دیکھ لو کہ تمہارے دل کی اصلاح کس حد تک اس سے وابستہ ہے۔
۴؎ پیشتر کی آیات میں انفاق فی سبیل اللہ کے ساتھ ساتھ خلوص وحسن نیت کی بزور تاکید کی ہے اور فرمایا ہے کہ احسان جتلاکر اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو۔ ان آیات میں معیارِ اعمال کی نہایت بلیغ مثال سے تشریح کی ہے۔فرمایا ہے کہ وہ شخص جو خدا پر ایمان نہیں رکھتا۔ جس کا آخرت پر عقیدہ نہیں، اس کے اعمال ہرگز درخور اعتنا نہیں۔ اس کے اعمال کی مثال پتھر کی ایک چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑ ی ہو اور مینہ کا ایک پرزور چھینٹا اسے بہاکر لے جائے اور وہ لوگ جو خدا کی رضاجوئی کے لیے اور دل کی پاکیزگی وطہارت کے لیے روپیہ صرف کرتے ہیں، ان کا فعل ثمر آوری میں اس سرسبز وشاداب باغ کی طرح ہے جو عام زمین سے ذرا بلندی پر واقع ہو، تاکہ کھلی ہوا اور تازہ روشنی ہروقت وہاں پہنچ سکے۔ وہاں پانی برسے اور باغ میں شان دار تازگی پیدا کردے۔ پیداوار کے اعتبار سے وہ دوگنا چوگنا ہوجائے ۔ یعنی اعمال کا معیار حسن نیت وارادہ ہے ۔ نہ حسن عمل ،ریاکاری کی چٹان پرحسن اعمال کے بیج نہیں بوئے جاسکتے، البتہ خلوص وللہیت کے جذبات اعمال کی خوبصورتی میں اضافہ کردیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کے ہاں مشقت وکوفت کی کوئی قدر نہیں، وہاں تو دلی کوائف کی عزت ہے ۔ وہ جودل کا پاک اور سخی ہے ، اس کا تھوڑا بھی بہت ہے اور وہ جو خلوص وحسن نیت کی نعمت سے محروم ہے ، وہ اگر سیم وزر کے انبار بھی تقسیم کرے تو لائق اجر نہیں،کیوں کہ اس طرح کے ریاکارانہ صدقات سے اس کی طبیعت میں کوئی اصلاح نہیں ہوتی۔اعمال حسنہ کے لیے قرآن حکیم نے ایمان باللہ کو ضروری قرار دیا ہے، اس لیے کہ جب تک ایمان صحیح موجود نہ ہو، دنیا میں اخلاق کا کوئی معیار ہی نہیں رہتا اورہرشخص حالات وظروف کے ماتحت اپنے اعمال کی کوئی نہ کوئی تاویل کرلے گا۔ غور کرو۔ اگرنظام آخرت پر اعتقاد نہ ہوتو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھراعمال صالحہ کا ارتکاب ہی کیوں کیاجائے ؟ صرف اس لیے کہ لوگ اچھا کہیں؟ اور وہ سوسائٹی جس میں ہم رہتے ہیں،خوش رہے ۔ یا یہ کہ دنیا کا نظام برقرار رہے اور اس میں کوئی برہمی پیدا نہ ہو مگرسوال یہ ہے کہ ہم اپنی مسرتوں کو دوسروں کی اغراض کے لیے کیوں قربان کریں۔ سوسائٹی کی ناخوشی سے ہم ذاتی لذائذ وحظوظ کی شادکامی سے کیوں محروم رہیں۔کیا یہ سراسر بے وقوفی نہیں؟ اور اس کا کیوں فکرکریں کہ دنیا کا نظام برقرار رہے۔کیا ہم کائنات کے اجارہ دار ہیں؟ جس نے دنیا کو بنایا ہے ، وہ اس کی خود حفاظت کرے گا۔ ہم تووہی کریں گے جس سے ہم کو فائدہ ہو۔ تو گویا اللہ تعالیٰ کے انکار کے بعد '' انفرادیت'' اور ''ذاتیت'' کا دور دورہ شروع ہوجاتا ہے اورنیک اعمال کا کوئی معیار ہی قائم نہیں رہتا، اس لیے ضروری ہے کہ ایمان باللہ کی قید کو بڑھایاجائے ۔ جس سے اعمال کی قیمت مقرر ہو اور دلوں میں نیکی کے لیے ترغیب پیداہواور نصب العین بلند ہوجائے ۔شہرت وریا کاری نہایت پست قسم کے جذبات ہیں۔وَتَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ صدقات اس طرح کے ہونے چاہییں کہ ان سے واقعی نفس سے ایک جنگ کرنا پڑے اور بالآخر ضمیر مطمئنہ نفس خادعہ پر غالب آجائے۔ نہ یہ کہ کم قیمت اورغیر ضروری چیزیں اللہ کی راہ میں دے دی جائیں۔
{صفوان} چٹان۔ بعض کے نزدیک جمع ہے اور بعض کے نزدیک مفرد{ وَابِلٌ} موسلادھار بارش {صلداً}صاف پتھر۔حل لغات