• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انقلاب کے سوداگر یا سٹیٹس کوکے پشت پناہ

غزنوی

رکن
شمولیت
جون 21، 2011
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
659
پوائنٹ
76
انقلاب کے سوداگر یا سٹیٹس کوکے پشت پناہ


ابوزید​

لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی، انتہا درجے کی کرپشن، بے قابو ہوتا ہوا تشدد، غیر ملکی آقاؤوں کی عملداری، غنڈہ گردی اور بھتہ خوری کی سیاست سے سمجھوتے، عدالتی نظام کے ساتھ مستقل محاذ آرائی، صوبائیت کے بڑھتے ہوئے سائے، بلوچستان میں حکومت کی ناکامی، عوامی مقامات پر دھماکے، سرکاری محکموں پر حملے، تقریباً ہر معاملے میں عوام اور سیاست دانوں کے نکتۂ نظر میں فرق، عالمی سیاسی منظر نامے پر پاکستانی عوام کا مؤقف اور پاکستانی اشرافیہ کے موقف میں پائی جانے والی خلیج اور تبدیلی کے دعوے کے باوجود صورت حال کا بد سے بد تر ہونا، اس صورت حال کا ایک فطری تقاضا تبدیلی کا ایک شدید داعیہ ہی ہوسکتا ہے۔

ایسے میں ایک بات اور واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ پاکستان کا سیکولر طبقہ اور کرپٹ اور بدقماش اشرفیہ یاتو ایک ہی ہے یا باہم شیر و شکر ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر ایک طرف تو کسی ایسے عوامی انقلاب کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے جو کہ اس وقت کے اشرافیہ کے حق میں شدید نقصان دہ ہو اور دوسری طرف یہ بھی خطرہ ہے کہ یہ تبدیلی جوہری اعتبار سے کہیں "اسلامی" نہ نکل آئے۔

ایسے میں ایک طرف تو عمران خان اپنی سونامی کے ساتھ سیاسی میدان میں جھنڈا گاڑے ہوئے ہیں تو دوسری طرف مختلف قسم کے انقلاب کے سوداگر عوام کے اندر تبدلی کی امنگوں کو تھپک تھپک کے سلانے کے لئے میں میدان میں کود پڑے ہیں۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا کہ تکمیل پاکستان کے نام پر زید حامد نام کے ایک مہرے نمودار ہو کر پٹ بھی چکے ہیں۔ اب طاہرالقادری صاحب "سیاست نہیں ریاست بچاؤ" کے نعرہ مستانہ کے ساتھ سات سمندر پار سے انقلاب کے اس دستر خوان پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ لندن میں بیٹھے ہوئے پرویز مشرف صاحب بھی ہیں جو بار بار پاکستان کی واپسی کی خواہش کا اظہار کر کے اپنی باری کے انتظار میں ہیں، لیکن لگتا ہے کہ ابھی "اوپر" سے حکم نہیں آیا۔
ان سب انقلاب کے سوداگروں میں ایک چیز مشترک ہے۔ ان کے ماضی کے بارے میں کچھ ایسے سوالات ہیں جن کا کوئی جواب نہیں ہے اور ان جوابات کے ملنے کا امکان بھی نہیں ہے۔

عرب ممالک میں اندر ہی اندر جو لاوا پک رہا تھا وہ غیر متوقع طور پر ابل پڑا جس کی وجہ سے بڑی طاقتوں کو اپنی حکمت عملی پر دوبارہ غور کرنا پڑا اور نئے سرے سے صف بندی کرنی پڑی۔ اس پورے عمل میں بظاہر انہیں اپنے کچھ مقاصد پر سمجھوتے بھی کرنے پڑے۔ پاکستان میں بھی اگر ایسی کوئی صورت حال پیش آئے تو پاکستانی کی جغرافیائی اور سیاسی صورت حال کے پیش نظر ان طاقتوں کو کچھ زیادہ ہی سمجھوتے کرنے پڑیں گے۔ اس صورت حال کے پیش نظر ان" سٹیٹس کو" کی پشت پناہ طاقتیں اس بات کو افورڈ نہیں کر سکتیں کہ یہاں کوئی ایسی تبدیلی آئے جو "غیر متوقع" یا ان کے اپنے منصوبے کے مطابق نہ ہو۔ اس لئے ان کے لئے یہی راستہ رہ جاتا ہے کہ اس تبدیلی کے شدید داعیے کو اپنے پلان کے مطابق انقلاب میں تبدیل کر دیا جائے۔

لیکن براہو قحط الرجال کا کہ "بے داغ ماضی" والے ملتے ہی نہیں اور اگر ملتے ہیں تو خریدے نہیں جاتے۔​
 
Top