• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انوار البدر۔۔۔ چند تبصرے

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
شیخ محترم نے چوتھا اور آخری اثر حضرت عبد اللہ بن جابر البیاضی رضی اللہ عنہ کا پیش فرمایا ہے:
رأيت عبد الله بن جابر البياضي صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم يضع إحدى يديه على ذراعه في الصلاة
شیخ فرماتے ہیں: "اب اگر دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے "ذراع" (کہنی کے بیچ سے انگلی تک کے پورے حصے) پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خود بخود سینے پر آجائیں گے۔"
معروض تو پرانی ہی ہے کہ "ذراع" کا مکمل معنی لے کر "ید" کا مکمل معنی کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟ اگر ید کا بھی مکمل معنی لیں تو ان کو کبھی ایک دوسرے پر رکھنا ہی ممکن نہ ہو۔ لیکن ہم شیخ محترم سے چپکے سے یہ بھی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے خود بھی یہ تجربہ کر کے دیکھا اور ادھر ادھر کے اور افراد سے بھی کروایا لیکن کسی کے ہاتھ شیخ محترم کے قول کے مطابق سینے پر نہیں پہنچے بلکہ پیٹ کے اوپری حصے تک ہی پہنچ پائے۔ جب تک ہاتھ اوپر اٹھائے نہ جائیں، کندھے سکیڑے نہ جائیں یا بازو کسی پیدائشی نقص کی وجہ سے عام سائز سے چھوٹے نہ ہوں ان کا سینے تک اس طرح پہنچنا ناممکن ہے۔ چونکہ آپس کی بات چل رہی ہے اس لیے ہم شیخ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ سینہ وہ ہوتا ہے جس میں پسلیاں ہوتی ہیں اور پسلیوں کے نیچے کا نرم حصہ پیٹ کہلاتا ہے۔
بہرحال یہ آپس کی بات ہے اور ہم کسی کو نہیں بتائیں گے کہ ہاتھ سینے تک نہیں پہنچ رہے۔ ممکن ہے کہ شیخ کے علاقے کے لوگوں کے بازو چھوٹے ہی ہوتے ہوں لیکن شیخ کو ایسی دلیل دینی چاہیے جو ساری دنیا کے لوگوں کے لیے ہو نہ کہ صرف ان کے اپنے علاقے کے افراد کے لیے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شیخ محترم کے پیش کردہ چاروں آثار میں سے کوئی ایک بھی ان کے موقف پر دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ شیخ جابجا حنفیوں اور دیوبندیوں کے اقوال سے دلیلیں دیتے ہیں۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ شیخ نے اگر اپنا مسلک ثابت کرنا ہے تو پھر اہل دیوبند یا احناف کے اقوال سے دلیل کا انہیں کیا فائدہ ہے؟ اور اگر شیخ کا مقصود الزام خصم ہے یعنی احناف کو یہ بتانا ہے کہ ان کے علماء کا بھی یہ قول ہے تو احناف اپنے علماء کی "تحت السرۃ" کی ترجیح کو بھی مانتے ہیں۔ وہ آدھے کو مان کر آدھے کا انکار نہیں کرتے، اس لیے ان اقوال و دلائل کا کوئی فائدہ نہیں۔

ہم بات کر رہے تھے اس پر کہ کیا سینے پر ہاتھ باندھنا کسی عالم کا قول ہے؟ اس کے ضمن میں آثار صحابہ کی بات آئی تھی۔ آگے محترم شیخ فرماتے ہیں: "نیز گزشتہ سطور میں ہم بتا چکے ہیں کہ امام شافعیؒ سے بھی یہ قول منقول ہے، بلکہ بعض روایات کے مطابق امام احمدؒ سے بھی یہ قول منقول ہے اور معنوی طور پر یہی قول امام مالکؒ سے بھی منقول ہے۔"
ہم بھی اسی انداز میں عرض کرتے ہیں: گزشتہ سطور میں ہم نہ صرف بتا چکے ہیں بلکہ ثابت بھی کر چکے ہیں کہ ائمہ ثلاثہ میں سے کسی کا قول بھی سینے پر ہاتھ باندھنے کا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس امام احمدؒ کی مضبوط روایت ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی ہے۔
شیخ آگے فرماتے ہیں: "علاوہ بریں امام بیہقیؒ نے اپنی سنن میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا باب قائم کیا ہے۔"
عرض ہے کہ امام بیہقیؒ متفقہ طور پر شافعی عالم ہیں۔ انہیں ابن الملقنؒ، ابن خلکانؒ، سبکیؒ، ابن کثیرؒ، نواب صدیق حسن خانؒ اور حاجی خلیفہؒ نے باقاعدہ طور پر شافعی قرار دیا ہے۔ علامہ ذہبیؒ اور ابن الملقنؒ نے ان کے شافعی ہونے پر اقوال نقل کیے ہیں۔ ان کو بعض نے امام الحدیث کہا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی خدمات کی وجہ سے حدیث کے حوالے سے یہ امام ہیں اور مسلک کے حوالے سے یہ شافعی فقیہ ہیں۔ انہوں نے جو باب قائم کیا ہے یہ مجمل ہے اور شوافع کے نزدیک "علی الصدر" کا مطلب ہم واضح کر چکے ہیں کہ وہ علی الصدر کی روایات کو "فوق السرۃ" اور "تحت الصدر" پر محمول کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے یہاںبھی "علی الصدر" کا یہی مطلب ہوگا جب تک کہ ان کی جانب سے اس کے خلاف صراحت نہ آ جائے۔

چوتھی دلیل کے تحت شیخ فرماتے ہیں: "سینے پر ہاتھ باندھنا اجتہادی معاملہ نہیں ہے بلکہ اس بارے میں میں نص صریح موجود ہے جس کے سامنے اجتہاد کی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں ہے۔"
شیخ محترم! نص صریح کے ثبوت پر ہی تو بات چل رہی ہے۔ ہم دعوی کرتے ہیں کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر نص صریح ہے جو مصنف ابن ابی شیبہ میں موجود ہے۔ شیخ نے اس پر تحریف کا جو الزام لگایا ہے وہ سراسر غلط ہے۔ ہم ان شاء اللہ آگے اس روایت کے بارے میں بات کریں گے۔
 
شمولیت
جنوری 02، 2017
پیغامات
175
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
اشماريه جی آپ سے ٹیلگرام پر رابطہ ہوسکتا ھے؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
مصنف ابن ابی شیبہ کی تحریف شدہ روایت یا۔۔۔۔۔؟
شیخ محترم کفایت اللہ صاحب نے "مصنف ابن ابی شیبہ کی تحریف شدہ روایت" کا عنوان لگایا ہے۔ اس عنوان کے تحت حضرت شیخ نے جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس سے شیخ کو ملی ہوئی چار خدا داد صلاحیتوں کا پتا چلتا ہے:
1۔ کہانی نگاری
2۔ گزرے ہوئے علماء کے بارے میں برے الفاظ کا استعمال اور سوء ظن
3۔ مخطوطات کی تحقیق کے اصول سے مکمل ناواقفیت
4۔ ناواقفیت کے باوجود کئی صفحات تحریر کرنے کا ہنر
اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان چار صفات کو "خدا داد" کہنا جائز بھی ہے یا نہیں، بہر حال اللہ پاک ہمیں اور شیخ کو ان صفات سے بچائیں۔ شیخ محترم نے جو کہانی تخلیق کی ہے اور جو الفاظ استعمال کیے ہیں اس کے لحاظ سے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ شیخ کی باتوں کا اقتباس لیے بغیر اپنی بات مکمل وضاحت اور تفصیل سے رکھ دی جائے اور شیخ محترم کے اعتراضات کے جوابات بھی ساتھ ساتھ دے دیے جائیں۔

ابتداء مسئلہ:
اس مسئلے کی ابتداء بارہویں صدی ہجری میں ہوئی جب ایک حنفی عالم علامہ حیات سندھیؒ نے سینے پر ہاتھ باندھنا شروع کیے اور اپنے استاد سے متاثر ہو کر ان کا یہ خیال ہوا کہ اس سلسلے میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والوں کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ انہی کے زمانے کے ایک اور جید حنفی عالم مولانا ہاشم سندھی ٹھٹھویؒ نے ان کا اس پر رد کیا اور اس سلسلے میں ایک رسالہ تحریر کیا۔ علامہ حیات سندھیؒ نے اس کے جواب میں دو رسالے تحریر فرمائے۔ ایک انہوں نے غالباً جلدی میں لکھا اور دوسرا اپنے استاد سے مشورہ کرنے کے بعد تحریر فرمایا۔ یہ رسالے جب سندھ پہنچے تو ہاشم ٹھٹھویؒ نے ان کے رد میں دو رسالے مزید تصنیف فرمائے۔ ان رسائل کا کوئی جواب علامہ حیات سندھیؒ کی جانب سے نہیں آیا۔
علامہ ہاشمؒ نے جو پہلا رسالہ تحریر کیا اس کا نام "درہم الصرۃ" رکھا۔ اس میں انہوں نے دیگر دلائل کے ساتھ ایک روایت نقل فرمائی جو مصنف ابن ابی شیبہ میں تھی۔ یہ وہی روایت ہے جس کے بارے میں ہم گفتگو کر رہے ہیں۔ اس روایت کے الفاظ ہاشمؒ کی نقل کے مطابق یہ تھے:
عن علقمۃ بن وائل بن حجر عن ابیہ رضی اللہ عنہ قال: رأیت النبی ﷺ وضع يمينه علي شماله في الصلاة تحت السرة
یہاں علامہ ہاشمؒ کا انداز دیکھیں تو انہوں نے اس رسالے میں اس روایت کی سند پر تو بحث کی ہے لیکن نسخوں کےاختلاف پر بات نہیں کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں سندھ میں یہ روایت انہی نسخوں سے موجود تھی جن میں یہ "تحت السرۃ" کی زیادتی موجود تھی اور یہ یہاں معروف روایت تھی۔ پھر جب علامہ حیات سندھیؒ نے اس روایت پر بعض نسخوں میں موجود نہ ہونے کا اعتراض کیا تو ہاشم سندھیؒ نے اس کے جواب میں تین نسخوں کا ذکر کیا جن میں یہ زیادتی موجود تھی:
1۔ وہ نسخہ جس سے علامہ قاسم بن قطلوبغا نے یہ روایت نقل فرمائی ہے۔
2۔ شیخ محمد اکرم نصر پوری کا نسخہ جس میں ہاشمؒ نے یہ روایت خود دیکھی۔ یہ نسخہ سندھ میں تھا۔
3۔ مکہ کے مفتی شیخ عبد القادر کا نسخہ۔ یہ بھی ہاشمؒ نے خود دیکھا تھا۔
علامہ قاسم بن قطلوبغاؒ نویں صدی ہجری کے سوڈان کے حنفی عالم تھے۔ وہ کئی فنون میں ماہر تھے اور کئی بڑے علماء سے انہوں نے علم حاصل کیا۔ ان کی تصانیف پچاس سے زائد ہیں جن کے نام "ہدیۃ العارفین" میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ علامہ سخاویؒ ان کی تعریف میں فرماتے ہیں:
وهو إمام علامة قوي المشاركة في فنون ذاكر لكثير من الأدب ومتعلقاته واسع الباع في استحضار مذهبه وكثير من زواياه وخباياه متقدم في هذا الفن طلق اللسان قادر على المناظرة وإفحام الخصم لكن حافظته أحسن من تحقيقه
(الضوء اللامع، 6۔188، ط: دار مکتبۃ الحیاۃ)
ترجمہ: "وہ امام، علامہ، فنون کی مشارکت میں مضبوط، ادب اور اس کے متعلقات کو یاد رکھنے والے، اپنے مسلک کے اور اس سے متعلق چیزوں کے استحضار میں کشادہ سینے والے، اس فن میں مقدم، خوش بیان، مناظرے اور مخالف کو خاموش کروانے میں مہارت رکھنے والے تھے لیکن ان کا حافظہ ان کی تحقیق سے زیادہ اچھا تھا۔"
بعض لوگ ان پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ علامہ سخاویؒ نے ان کے بارے میں بقاعیؒ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ "یہ جھوٹے تھے اس لیے ان کی کسی بات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔" عرض یہ ہے کہ اس قول کو نقل کرنے سے پہلے سخاویؒ نے فرمایا ہے: "بقاعی نے ان کو اذیت دینے میں مبالغہ کیا ہے" یعنی سخاویؒ کے نزدیک بقاعی کا یہ قول اذیت دینے کے لیے ہے۔ ان کی شان سخاویؒ کے نزدیک جو ہے وہ اوپر بیان ہوچکی ہے۔
ان رسائل میں موجود اس تفصیل کے بعد علامہ حیاتؒ کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔ علامہ حیات سندھیؒ حدیث مبارکہ پر عمل کا جتنا شوق رکھتے تھے اس کی وجہ سے غالب گمان یہ ہے کہ یہ حدیث ملنے کے بعد انہوں نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا ہوگا۔ البتہ اس پر کوئی تاریخی شہادت ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
علامہ حیات سندھیؒ اور علامہ ہاشم ٹھٹھویؒ کا یہ واقعہ گیارہویں صدی کا ہے۔ بارہویں صدی ہجری میں مولانا عابد سندھیؒ نے مصنف ابن ابی شیبہ کا اپنا نسخہ نقل کروایا تو اس میں بھی یہ روایت اسی طرح "تحت السرۃ" کے اضافے کے ساتھ نقل ہوئی۔ یہاں یہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ مولانا عابد سندھیؒ کہلاتے تو سندھی ہیں لیکن ان کی پرورش اور رہائش یمن اور عرب ممالک کی ہے۔ ان کے دادا یمن ہجرت کر گئے تھے۔
ہندوستان میں مصنف ابن ابی شیبہ کا پہلا نسخہ اس واقعے کے کم از کم دو سو سال بعد ابو الکلام آزاد اکیڈمی سے چھپا۔ اس نسخے کے لیے کس قلمی نسخے کو دیکھا گیا؟ یہ نامعلوم ہے۔
اس نسخے کے بعد اگلا نسخہ دار السلفیہ سے چھپا۔ یہ نسخہ بھی پچھلے نسخے سے نقل کیا گیا تھا۔ پھر اس کے بعد مختلف محققین مختلف نسخوں سے نقل کرتے رہے۔
اسی دوران ادارۃ القرآن والوں نے دار السلفیہ کا نسخہ لے کر مصنف کا نسخہ چھاپنے کا ارادہ کیا۔ جب وہ یہ نسخہ چھاپنے لگے تو انہیں ایک جید عالم غلام رسول بدخشانی صاحب (جو بعد میں اہل حدیث حضرات کے مدرسے "جامعہ دار الحدیث رحمانیہ" میں پڑھاتے بھی رہے) نے اس روایت اور اس کے بارے میں ان رسائل کا بتایا۔ چنانچہ ادارۃ القرآن والوں نے ان رسائل، ان میں مذکور نسخوں اور علامہ قاسم بن قطلوبغاؒ کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہوئے اس روایت میں اس لفظ کا اضافہ کر دیا تاکہ یہ روایت اپنی اصلی حالت پر برقرار رہے۔ ادارۃ القرآن کے اس عمل کی یہ ساری تفصیل درہم الصرہ کے مقدمہ ناشر میں موجود ہے جو خود ادارۃ القرآن والوں کی چھپی ہوئی ہے۔ چونکہ شیخ الدرہم الصرۃ سے جو حوالے دیتے ہیں وہ اسی کتاب کے مطابق ہوتے ہیں اس لیے یہ تفصیل یقیناً شیخ کی نظروں سے گزری ہوگی۔ اگر ایسا ہے تو ما شاء اللہ محترم شیخ کا ہاضمہ بہت مضبوط ہے۔
عبد السلام محمد ہارون "تحقیق النصوص و نشرہا" میں کہتے ہیں:
سبق فى الفصل الماضى أن المحقق قد يجد فى تخالف روايات النسخ ما يعينه على استخراج الصواب من نصوصها ، فيختار من بينها ما يراه مقيما للنص ، مؤديًا إلى حسن فهمه. والأمانة تقتضيه أن يشير فى الحواشى إلى النصوص التى عالجها لينتزع من بينها الصواب، والا يغفل الإشارة إلى جميع الروايات الأخرى التی قدیجد القاری ء فیها وجها اصوب من الوجه الذی ارتآه.
(تحقیق النصوص و نشرہا، 1۔73، ط: مکتبۃ الخانجی)
ترجمہ: "پچھلی فصل میں یہ بات گزر گئی ہے کہ محقق کبھی نسخوں کی روایات کے اختلاف میں وہ دلائل پاتا ہے جو نصوص سے درست بات اخذ کرنے میں اس کی مدد کرتے ہیں، لہذا وہ اس نسخے کو چنتا ہے جسے وہ نص کی درستگی کرنے والا اور اس نص کو سمجھنے میں بہتر بنانے والا سمجھتا ہے۔ اور امانت اس کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ حاشیے میں ان نصوص کی طرف اشارہ کر دے جنہیں اس نے درست بات اخذ کرنے کے لیے دیکھا ہے اور ان تمام روایات کی طرف اشارہ نہ چھوڑے جن سے قاری کبھی کوئی صورت اس کی صورت سے زیادہ درست سمجھتا ہے۔"
اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ ادارۃ القرآن والوں کی غلطی صرف اتنی تھی کہ انہوں نے حاشیے میں مرجوح نسخے کی جانب اشارہ نہیں کیا تھا ورنہ ان کا باقی عمل اصول تحقیق کے مطابق تھا اور قطعاً کوئی تحریف نہیں تھی۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنی سی غلطی پر تحریف تحریف کا اتنا شور مچانا آخر کس بات کی نشان دہی کرتا ہے؟ کہیں اس کی تو نہیں کہ اصل مقصد تحریف کا نام لے کر سرے سے اس روایت کا انکار کرنا ہے کہ جو بھی اس روایت کی تحقیق کرے گا اور اسے کسی نسخے سے ثابت کرے گا اس پر فوراً تحریف کا الزام لگا دیا جائے گا؟ اور اس کے نسخے سے لوگوں کو اسی طرح ڈرایا جائے گا جس طرح اہل مکہ باہر سے آنے والوں کو نبی کریم ﷺ کی بات سننے سے ڈراتے تھے؟

جاری ہے۔۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
حضرت شیخ کفایت اللہ صاحب نے تحریف کے ثبوت کے لیے کئی مطبوعہ نسخوں کے اسکین دیے ہیں جن میں اس روایت میں "تحت السرۃ" کی زیادتی موجود نہیں ہے۔ کوئی بھی نسخہ جب چھپتا ہے تو وہ یا تو کسی قلمی نسخے سے چھپتا ہے اور یا کسی مطبوعہ نسخے سے۔ اگر یہ نسخہ کسی مطبوعہ نسخے سے چھپا ہوتا ہے تو وہ مطبوعہ نسخہ بھی یا کسی قلمی نسخے سے چھپا ہوتا ہے یا مطبوعہ نسخے سے۔ آخر میں کہیں نہ کہیں جا کر بات قلمی نسخوں پر ہی آتی ہے۔ جب کسی کتاب کے بڑی تعداد میں قلمی نسخے موجود ہوں اور مطبوعہ نسخے انہیں سے چھپے ہوں تو پھر ان مطبوعہ نسخوں کو الگ الگ ظاہر کرنے کی کوئی تک نہیں بنتی کیوں کہ وہ مطبوعہ نسخے تو دراصل قلمی نسخوں کی جانب اشارہ کر رہے ہوتے ہیں۔ الا یہ کہ ان کو الگ الگ ظاہر کر کے تعداد بڑھانے کی کوشش کی جائے۔
چنانچہ اب ہم مصنف ابن ابی شیبہ کے قلمی نسخوں کا جائزہ ان کے محققین کے بیانات کی روشنی میں لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم تین طبعات (علوم القرآن، الفاروق، الرشد) کے محققین (شیخ اسامہ، شیخ عوامہ، شیخ جمعہ اور شیخ لحیدان) کی تحقیقات کو مدنظر رکھیں گے۔ شیخ اسامہ کے لیے "ا"، شیخ عوامہ کے لیے "ع" اور شیخ جمعہ اور لحیدان کے لیے "ل" کے حروف استعمال کریں گے۔
مصنف ابن ابی شیبہ کے چھ قلمی نسخے ایسے ہیں جن میں یہ روایت زیادتی کے ساتھ یا بغیر زیادتی کے مروی ہے:
1۔ شیخ محمد عابد سندھیؒ کا نسخہ:
اس نسخے کا تعلق مدینہ منورہ کے مکتبہ محمودیہ سے ہے۔ (ع ا ل)
اس کے لکھنے والے کا نام محسن بن محسن الزراقی ہے۔ (ا ل ع)
یہ دو جلدوں میں ہے۔ (ا ل)
مصنف کا سب سے مشہور نسخہ ہے۔ (ا)
کئی اہل علم نے اسے پڑھا ہے۔ (ا)
اس کا خط انتہائی واضح ہے۔ (ا ل)
مصنف کا کامل نسخہ ہے- (ا ل)
شیخ عابدؒ کی اس پر بعض تعلیقات بھی ہیں۔ (ا)
اس میں عیب یہ ہے کہ جدید نسخہ ہے۔ (ا)
دوسرا عیب یہ ہے کہ اس میں کئی سقط اور تصحیفات ہیں۔ (ل)
اس کا خط بہت باریک ہے۔ (ل)
اس کی تاریخ 1229ھ ہے۔ (ل)

2۔ مرتضی زبیدیؒ کا نسخہ:
اس کا تعلق تونس سے ہے۔ (ا ل ع)
اس کی سات جلدیں ہیں جن میں سے دوسری جلد مفقود ہے۔ (ع ا ل)
مرتضی زبیدیؒ نے اس سے اپنی احیاء العلوم کی احادیث کی تخریج میں مدد لی ہے اور اس کا ناسخ کے نام کے ساتھ ذکر کیا ہے۔(ع)
اس کی پہلی جلد 741ھ میں لکھی گئی۔ (ع ا ل)
اس کے ناسخ یوسف بن عبد اللطیف الحرانی ہیں۔ (ع ا ل)
خط کے اعتبار سے متوسط ہے۔ (ع)
علامہ بدر الدین عینیؒ کے پاس رہا ہے اور ان کے اس پر بعض حواشی بھی ہیں۔ (ع)
واضح اور اچھا نسخہ ہے۔ (ا)
اس کا خط بہت واضح ہے۔ (ل)
مضبوط نسخہ ہے۔ (ل)
تقابل شدہ نسخہ ہے۔ (ل)
غلطیاں حاشیے میں صحیح کی ہوئی ہیں۔ (ل)
اس پر کوئی علماء کرام کی سماعات موجود نہیں ہیں۔ (ل)

3۔ جامعۃ الامام محمد بن سعود کا نسخہ:
یہ نسخہ دو افراد کا لکھا ہوا ہے۔ ایک کا نام فتح اللہ نظامی اور دوسرے کا عنایت اللہ ہے۔ (ل ع)
واضح خط میں ہے۔ (ل)
اغلاط اور سقط سے بھرا ہوا ہے۔ (ل)
عابد سندھیؒ کے نسخے سے لکھا گیا ہے (ل)
اس میں تحریفات اور زیادتیاں بھی ہیں۔ (ل)
فتح محمد نظامی والا حصہ مولانا شمس الحق عظیم آبادیؒ کے نسخے سے لکھا گیا ہے۔ (ع) یہ نسخہ بھی عابد سندھی والا نسخہ ہی ہے۔ (ل) فتح محمد نظامی والے حصے اور عابد سندھیؒ والے نسخے میں فرق ہے۔ (ع)
کئی جگہیں خالی ہیں۔ (ع)

جاری ہے۔۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
4۔ ابن الخراز یمنی کا نسخہ:
اس کی پہلی دو جلدوں کے اختتام پر ناسخ کا نام محمد بن عمر بن عبد اللہ الیمنی ابن الخراز درج ہے۔ (ا ل ع)
اس کی تاریخ نسخ چھ سو اڑتالیس ہجری ہے۔ (ا ع) تاریخ نسخ نو سو اڑتالیس ہجری ہے۔ (ل)
اس کا خط بڑا اور واضح ہے۔ (ل ا ع)
نقطے اور اعراب بھی موجود ہیں۔ (ل ا ع)
انتہائی مضبوط ہے اور غلطیاں بہت کم ہیں۔ (ل)
اصل (جس سے نسخہ لکھا گیا ہے) سے اس کا تقابل اور تصحیح ہوئی ہے اور ہر روایت کے بعد اس کا نشان ہے۔ (ل ع)
اگر یہ کامل ہوتا تو سب سے افضل نسخہ ہوتا۔ (ل)
اس کا ناسخ مضبوط ہے۔ (ع)
اس نسخے میں کئی تحریفات موجود ہیں لیکن دوسرے نسخوں سے کم ہیں۔ (ع)

از ناقل: یہ ایک عمدہ نسخہ ہے۔ اس کی تاریخ نسخ کے بارے میں اختلاف ہے کہ چھ سو اڑتالیس ہے یا نو سو اڑتالیس۔ ہماری رائے میں اس کی تاریخ چھ سو اڑتالیس ہے اور اس لحاظ سے یہ سب سے قدیم نسخہ ہے۔ چونکہ ہماری بحث کا تعلق اس کی پہلی دو جلدوں سے ہے اس لیے صرف ان کا ذکر کیا ہے۔ یہ دو جلدیں مکتبہ مراد ملا میں موجود ہیں اور غالباً یہی وہ نسخہ ہے جس سے مولانا حبیب الرحمان اعظمیؒ نے ابراہیم نخعیؒ کا اثر نقل کیا ہے۔

5۔ مکتبہ ظاہریہ کا نسخہ:
یہ دو نسخے ہیں۔ (ع ا)
پہلے نسخے کی پہلی دو جلدوں کا خط الگ اور باقی چار کا الگ ہے۔ (ع)
چار جلدوں کے آخر میں ناسخ کا نام عبد اللہ بن محمد بن ابراہیم المھندس الحنفی تحریر ہے۔ (ع ل)
نسخے کی تاریخ نسخ معلوم نہیں ہے۔ (ل)
خط واضح ہے، بغیر نقطوں کے ہے۔ (ل)
دوسرے نسخے کی تاریخ نسخ 735 ھ تحریر ہے۔ (ع ا)
اس پر امام نوویؒ کے حاشی موجود ہیں۔ (ع ا)
اصل سے اس کے تقابل کا ذکر موجود ہے۔ (ع)
اس کے ابواب کی ترتیب دوسرے نسخوں سے مختلف ہے۔ (ا

جاری ہے۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
6۔ نور عثمانیہ کا نسخہ:
یہ نسخہ دو ٹکڑوں میں ہے۔ (ع)
پہلی پانچ جلدیں متصل ہیں۔ (ع)
چھٹی جلد ابن الخراز یمنی کی تحریر کردہ ہے۔ (ع)
یہ کئی خطوط میں لکھا گیا ہے۔(ع)

ان چھ نسخوں میں سے پہلے دو نسخوں یعنی مرتضی زبیدی کے نسخے اور عابد سندھیؒ کے نسخے میں تحت السرۃ کی زیادتی موجود ہے اور باقی چار نسخوں میں یہ زیادتی موجود نہیں۔ شیخ محترم نے یہاں یہ ظاہر کرنے کی کوشش فرمائی ہے کہ اکثر نسخوں میں زیادتی نہیں ہونے کی وجہ سے اس کو ثابت نہیں مانا جانا چاہیے۔ لیکن بات یہ ہے کہ نسخے ایک دوسرے سے نقل ہوتے ہیں یا کئی نسخے کسی ایک ہی نسخے سے نقل ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اگر ایک نسخے میں ایک غلطی ہو اور اس سے دس نسخے نقل ہو جائیں تو وہ غلطی اب گیارہ نسخوں میں آ جائے گی۔ اس سے وہ غلطی صحیح نہیں ہو سکتی۔ اس لیے نسخوں کی ترجیح کے لیے باقاعدہ اصول مقرر ہیں۔ ہم کچھ متعلقہ اصول تحریر کرتے ہیں:
1۔ ان النسخ الکاملۃ افضل من النسخ الناقصۃ
2۔ والواضحۃ احسن من غیر الواضحۃ
3۔ و القدیمۃ افضل من الحدیثۃ
4۔ و النسخ التی قوبلت بغیرہا احسن من التی لم تقابل
و القاعدتان الاخیرتان اھم من غیرھما
(اصول نقد النصوص و نشر الکتب للبرجسترائر، 1۔15)
ترجمہ: "1۔ کامل نسخے ناقص نسخوں سے افضل ہوتے ہیں۔
2۔ واضح نسخے غیر واضح نسخوں سے افضل ہوتے ہیں۔
3۔ قدیم نسخے جدید نسخوں سے افضل ہوتے ہیں۔
4۔ وہ نسخے جن کا دوسروں سے تقابل کیا جائے ان نسخوں سے اچھے ہوتے ہیں جن کا تقابل نہ ہوا ہو۔
آخری دو قاعدے دوسروں سے زیادہ اہم ہیں۔"

مراتب النسخ تکون کما یلي :
1۔ أحسن نسخة تعتمد للنشر نسخة كتبها المؤلف نفسه، فهذه هي الأم.
2۔ عند العثور على نسخة المؤلف يجب أن نبحث إذا كان المؤلف ألف كتابه على مراحل أو دفعة واحدة، لنتأكد أن النسخة التى بين أيدينا هي آخر صورة كتب المؤلف بها كتابه.
3۔ بعد نسخة المصنف تأتى نسخة قرأها المصنف أو قرئت عليه، وأثبت بخطه أنه قرئت عليه.
4۔ ثم نسخة نقلت عن نسخة المصنف أو عورضت بها وقوبلت عليها.
5۔ ثم نسخة كتبت في عصر المصنف عليها سماعات على علماء .
6۔ ثم نسخة کتبت بعصر الصنف، لیس علیها سماعات.
7۔ نسخ أخرى كتبت بعد عصر المؤلف. وفي هذه النسخ يفضل الأقدم
على المتأخر، والتي كتبها عالم أو قرئت على عالم.​
(قواعد تحقيق المخطوطات لصلاح الدين المنجد، 1۔13)
ترجمہ: "نسخوں کے مراتب کچھ یوں ہیں:
1۔ سب سے اچھا نسخہ جس پر اشاعت کے لیے اعتماد کیا جاتا ہے وہ نسخہ ہوتا ہے جسے مصنف نے خود لکھا ہو۔ اسے ام کہتے ہیں۔
2۔ مصنف کا نسخہ ملنے کے بعد یہ تحقیق کرنا لازم ہے کہ مصنف نے اپنی کتاب مختلف مراحل میں لکھی ہے یا ایک ساتھ؟ تاکہ ہمیں یقین ہو سکے کہ جو نسخہ ہمارے سامنے ہے یہی آخری شکل ہے جس میں مصنف نے کتاب لکھی ہے۔
3۔ مصنف کے نسخے کے بعد وہ نسخہ آتا ہے جسے مصنف نے پڑھا ہو یا اس پر پڑھا گیا ہو اور اس نے اپنی تحریر میں لکھا ہو کہ اس پر پڑھا گیا ہے۔
4۔ پھر وہ نسخہ جو مصنف کے نسخے سے نقل کیا گیا ہو یا اس پر پیش کیا گیا ہو اور اس سے تقابل کیا گیا ہو۔
5۔ پھر وہ نسخہ جو مصنف کے زمانے میں لکھا گیا ہو اور اس پر علماء کی سماعات ہوں۔
6۔ پھر وہ نسخہ جو مصنف کے زمانے میں لکھا گیا ہو اور اس پر سماعات نہ ہوں۔
7۔ دیگر نسخے جو مصنف کے زمانے کے بعد لکھے گئے ہوں۔ ان نسخوں میں قدیم کو جدید پر فضیلت حاصل ہوتی ہے اور اسے جسے کسی عالم نے لکھا ہو یا جوکسی عالم پر پڑھا گیا ہو۔"

ثم ان لکل عالم مشہور طالباً نقل عنہ سماعاً او استملاءاً او استنساخاً، و ھذہ الطرق کلہا جیدۃ کافیۃ بشرط ان یبذل الاستاذ جہدہ فی التصحیح، و ان یبذل الطلبۃ جہدہم فی الکتابۃ، و ان لا یجیز الاستاذ الکتاب الا بعد قراءتہ کلہ، اذ ان بعض المؤلفین القدماء کانوا یجیزون المؤلفات لاناس لم یحضروا الیہم فی دروسہم، فامثال ھذہ الاجازات لا فائدۃ فیہا، فان لم نجد مثل ہذا المخطوط فالمخطوط الذی نسخہ عالم ثقۃ او کان فی حوزۃ عالم او اکثر من الثقاۃ، فقد کان یعتبر بہ انہ یشتمل علی نص موثوق بہ
(اصول نقد النصوص و نشر الکتب، 1۔17)
ترجمہ: "پھر ہر مشہور عالم کا ایسا طالب علم ہوتا ہے جو اس سے سماعاً یا املاء کے طور پر یا لکھوا کر نقل کرتا ہے۔ اور یہ تمام طرق کافی ہیں بشرطیکہ استاد تصحیح کی پوری کوشش کرے اور طلبہ لکھنے کی پوری کوشش کریں اور استاد کتاب کی اجازت پوری پڑھنے کے بعد ہی دے۔ اس لیے کہ بعض پرانے مصنفین ایسے لوگوں کو بھی تصنیفات کی اجازت دے دیتے تھے جو ان کے دروس میں نہیں آتے تھے۔ اس طرح کی اجازتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ پھر اگر ہمیں یہ مخطوطہ نہ ملے تو وہ مخطوطہ ہوگا جسے کسی ثقہ عالم نے لکھا ہو یا وہ ایک یا زیادہ ثقات علماء کے پاس رہا ہو۔ اس کا بھی یہ سمجھ کر اعتبار کیا جائے گا کہ یہ درست نص پر مشتمل ہے۔"
ان اصولوں سے ایک بات معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ نصوص کی تصحیح کے لیے ہم اس امکان کو ملحاظ رکھا جائے گا جو صحت پر دلالت کرتا ہو۔ جو نسخہ قدیم ہوگا اسے ترجیح ہوگی، جس کا تقابل ہوا ہوگا اسے ترجیح ہو گی، جو کسی عالم نے لکھا ہوگا اسے ترجیح ہوگی، جو کسی عالم کے پاس رہا ہوگا اسے ترجیح ہوگی وغیرہ۔ یہ سب قواعد زیادہ سے زیادہ تصحیح کو ممکن بنانے کے لیے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔

 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ہمارے پاس ایسا کوئی نسخہ موجود نہیں ہے جو ابن ابی شیبہؒ نے خود لکھا ہو، ان پر پڑھا گیا ہو، مصنف کے نسخے سے اس کا تقابل ہو یا اسی سے نقل ہوا ہو یا مصنف کے زمانے میں لکھا گیا ہو۔ ہمارے پاس موجود سارے نسخے بعد میں تحریر شدہ ہیں۔ ان بعد میں تحریر شدہ نسخوں کے بارے میں کسی نسخے کو مقدم کرنے کے کچھ اہم اعتبارات ہیں:
1۔ قدیم نسخہ مقدم ہوگا۔
2۔ جسے کسی عالم نے لکھا ہو یا اس پر پڑھا گیا ہو وہ مقدم ہوگا۔
3۔ جس کا تقابل ہوا ہو وہ مقدم ہوگا۔
4۔ جو کسی عالم کے پاس رہا ہو وہ مقدم ہوگا۔

ہمارے پاس موجود نسخوں میں سے قدیم ترین نسخے تین ہیں:
1۔ ابن الخراز یمنی کا نسخہ
2۔ مرتضی زبیدی کا نسخہ
3۔ مکتبہ ظاہریہ کا دوسرا نسخہ

ان قدیم نسخوں میں مکتبہ ظاہریہ کے دوسرے نسخے کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ امام نوویؒ کے پاس رہا ہے۔ لیکن یہ ممکن ہی نہیں ہے کیوں کہ یہ نسخہ 735 ھ میں لکھا گیا ہے جیسا کہ اس پر تحریر ہے اور امام نوویؒ کی وفات 676 ھ میں ہو چکی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ امام نوویؒ نے شروع کیا ہوگا اور پھر مکمل کسی اور نے کیا ہوگا اور مکمل کرنے والے نے تاریخ لکھ دی ہوگی تو یہ فقط امکانیات ہیں اور ہم ثابت شدہ اور موجود چیزوں کی بات کر رہے ہیں۔

ان تین نسخوں میں سے کسی عالم کے لکھے نسخوں کے حوالے سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکیں کہ یہ فلاں ثقہ عالم نے لکھا ہے۔ البتہ مکتبہ ظاہریہ کے نسخے کا ناسخ بھی غیر معلوم ہے۔ اس لحاظ سے کم از کم حد یعنی ناسخ معلوم ہو تاکہ اس پر بعد میں تحقیق کی جاسکے، کو دو نسخے پورے کرتے ہیں:
1۔ ابن الخراز کا نسخہ
2۔ مرتضی زبیدی کا نسخہ

اصل سے تقابل کے حوالے سے تینوں نسخے برابر ہیں کہ ان میں اصل سے تقابل کی علامات موجود ہیں یا تقابل کا بیان ہے۔ یہاں بھی ابن الخراز اور مرتضی زبیدی کے نسخوں میں تقابل کی باقاعدہ علامات موجود ہیں جب کہ ظاہریہ کے نسخے کے فقط آخر میں تحریر ہے کہ اس کا تقابل ہوا ہے۔
چنانچہ ہمارے پاس ایک جیسی قوت کے دو نسخے رہ جاتے ہیں:
1۔ ابن الخراز کا نسخہ
2۔ مرتضی زبیدی کا نسخہ

اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں سے کون سا نسخہ کسی عالم کے پاس رہا ہے۔ ایسا نسخہ ہمارے پاس فقط ایک ہے اور وہ ہے مرتضی زبیدی کا نسخہ۔ یہ دو عالموں کے پاس رہا ہے:
1۔ علامہ عینیؒ کے پاس۔
2۔ مرتضی زبیدیؒ کے پاس۔
اور اگر علامہ قاسم بن قطلوبغاؒ کے پاس موجود نسخہ یہی والا مان لیں تو یہ ان کے پاس بھی رہا ہے۔

اب آئیے ان دو اعتبارات کی جانب جو نسبتاً کم اہم ہیں:
1۔ واضح نسخہ غیر واضح سے مقدم ہوتا ہے۔
2۔ کامل نسخہ ناقص سے مقدم ہوتا ہے۔

وضاحت میں ابن الخراز کے نسخے کا کوئی مقابل نہیں۔ یہ انتہائی خوبصورت لکھائی والا اور واضح ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مرتضی زبیدی والا نسخہ واضح نہیں۔ وہ اگرچہ واضح ہونے میں ابن الخراز کے نسخے جیسا نہیں ہے لیکن بہرحال واضح ہے اور ہم صرف واضح ہونے کی بات کر رہے ہیں۔

کامل نسخہ ان دونوں میں صرف مرتضی زبیدی کا ہے۔ ابن الخراز کا نسخہ کامل نہیں ہے۔

اب ہمارے پاس دونوں نسخے ان چیزوں میں مشترک ہیں:
1۔ قدامت میں
2۔ ناسخ کے معلوم ہونے میں
3۔ تقابل میں
4۔ وضاحت میں

دو چیزوں میں مرتضی زبیدیؒ کا نسخہ افضلیت رکھتا ہے:
1۔ کسی عالم کے پاس ہونے میں
2۔ کامل ہونے میں

ان اصولوں کی روشنی میں ہم مرتضی زبیدیؒ کے نسخے کو اصل مانتے ہیں۔ اس میں ہماری مطلوبہ روایت "تحت السرۃ" کے اضافے کے ساتھ موجود ہے:

عن علقمۃ بن وائل بن حجر عن ابیہ رضی اللہ عنہ قال: رأیت النبی ﷺ وضع يمينه علي شماله في الصلاة تحت السرة
اس کے فوراً بعد ایک اثر یہاں موجود نہیں ہے جسے ہم "ابراہیم نخعیؒ کا اثر کہتے ہیں"۔ اس اثر کے الفاظ یہ ہیں:

حدثنا وكيع، عن ربيع، عن أبي معشر، عن إبراهيم قال: يضع يمينه على شماله في الصلاة تحت السرة
یہ اثر دوسرے نسخوں میں موجود ہے۔
ہم نے مرتضی زبیدیؒ کے نسخے کو اصل مانا ہے اور یہ اثر اس میں نہیں ہے لیکن اس کا اضافہ کرنے سے اس نسخے میں موجود کسی نص میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اس لیے ہم اس اثر کا اضافہ کر دیتے ہیں۔
لیکن شیخ عابد سندھیؒ کے نسخے کے علاوہ کسی اور نسخے میں اس روایت میں "تحت السرۃ" کا اضافہ نہیں ہے۔ اگر یہ لفظ ہم کم کرتے ہیں تو ہمارے اصل مرتضی زبیدیؒ والے نسخے کی نص میں تبدیلی ہوتی ہے۔ لیکن ہم اسے پھر بھی فوراً رد نہیں کرتے بلکہ دیگر قرائن کی روشنی میں اس کا جائزہ لیتے ہیں:
1۔ ابن ابی شیبہ کے علاوہ اس روایت کو امام احمدؒ اور اییک یا دو اور راویوں نے بھی روایت کیا ہے اور اس میں یہ زیادتی موجود نہیں ہے لیکن اس سے کوئی حرج نہیں ہوتا۔ اگر ہم اس زیادتی کو موجود مانیں تو ابن ابی شیبہ ثقہ اور ماہر محدث ہیں اور ثقات کی زیادتی مقبول ہوتی ہے۔
2۔ یہ زیادتی ایک اور جدید لیکن کامل اور واضح نسخے میں موجود ہے یعنی عابد سندھیؒ کے نسخے میں۔ اور یہ نسخہ بھی ایک عالم (عابد سندھیؒ) کی ملکیت میں تھا اور انہوں نے اسے پڑھ کر اس کے عنوانوں کی فہرست خود مرتب کی ہے۔ اس کے علاوہ اس نسخے کے بارے میں اور علماء کے پاس ہونے کا بھی کہا گیا ہے۔
3۔ اس زیادتی کی تائید میں چند مزید نسخوں کے بارے میں ہاشم سندھیؒ نے اطلاع دی ہے:
الف۔ شیخ محمد اکرم نصر پوری کا سندھ میں موجود نسخہ
ب۔ مفتی مکہ شیخ عبد القادر کا مکہ میں موجود نسخہ
ج۔ قاسم بن قطلوبغاؒ کا نسخہ (اس صورت میں جب ہم قاسم بن قطلوبغاؒ کے نسخے کو مرتضی زبیدیؒ والے نسخے سے الگ سمجھیں)
اس اطلاع کا رد بحث کے جاری ہونے کے باوجود شیخ حیات سندھیؒ نے نہیں کیا جبکہ وہ عرب میں تھے اور کم از کم مکہ والے نسخے کی تو فوری تصدیق کروا سکتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے سندھ میں روابط سندھی ہونے کی وجہ سے باقی تھے۔
4۔ اس زیادتی کو اپنے وقت کے ایک بڑے عالم قاسم بن قطلوبغاؒ نے نہ صرف قبول کیا ہے بلکہ باقاعدہ اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے۔

ان قرائن کے مقابلے میں صرف ایک احتمال اور ایک قرینہ اس زیادتی کے خلاف ہے:
احتمال: ممکن ہے کہ کاتب سے ابراہیم نخعیؒ والا اثر رہ گیا ہو اور اس کے آخر میں موجود "تحت السرۃ" پچھلی روایت سے مل گیا ہو۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اسی طرح یہ بھی احتمال ہے کہ جن کاتبوں نے اس زیادتی کو ذکر نہیں کیا انہیں امام احمدؒ کی روایت معلوم ہو اور اس کی بنا پر انہوں نے اس روایت کو غلط سمجھتے ہوئے غلطی درست کرنے کے لیے اس زیادتی کو غائب کر دیا ہو۔ ایک نے ایسا کیا ہو اور باقی اسی سے نقل کرتے گئے ہوں۔
جس طرح یہ ایک احتمال ہے اسی طرح پچھلی والی بات بھی ایک احتمال ہی ہے اور اس طرح کے احتمالات سے کچھ ثابت نہیں ہوتا۔

قرینہ: علامہ عینیؒ اور مرتضی زبیدیؒ نے اس روایت کو کہیں دلائل میں ذکر نہیں کیا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ عدم ذکر عدم وجود کو لازم نہیں ہوتا یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ جس چیز کا ذکر نہ ہو وہ موجود بھی نہ ہو۔ ان کے ذکر نہ کرنے کی کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے اور بغیر واضح وجہ کے صرف گمان کی بنیاد پر اس زیادتی کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس کو رد کرنے کے لیے واضح دلیل ہونی چاہیے۔

ان قرائن کی روشنی میں ہم مرتضی زبیدیؒ کے نسخے میں مذکور اس زیادتی کو باقی رکھیں گے (جب کہ وہ نسخہ بذات خود بھی افضلیت رکھتا ہے اور ہم نے اسے اصل سمجھا ہے) اور یہ روایت اس زیادتی کے ساتھ سمجھی جائے گی۔

نہ یہ اصول ہمارے بنائے ہوئے ہیں اور نہ یہ نسخے ہمارے لکھے ہوئے ہیں۔ سب کچھ پڑھنے والے کے لیے واضح ہے۔
اب ذرا شیخ محترم انصاف کا دامن تھامیں اور بتائیں کہ یہ تحریف ہے یا تحقیق؟؟؟
 
Top