• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انٹرویو ود مہ جبین

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
س۔ آپ کے خیال میں کس عمر کی لڑکی کی شادی کی کامیابی کے امکانات نسبتاً زیادہ روشن ہوتے ہیں۔ 17-20؛ 21-25؛ 26-30 یا تیس سے اوپر؟

جواب۔ میرے خیال میں لڑکیوں کی شادی کےلئے بہترین عمر 20 سے 25 کے درمیان ہوتی ہے ، اِس سے چھوٹی عمر کی لڑکیاں ذہنی طور پر ناپختہ ہوتی ہیں تو سسرال کے معاملات کو ٹھیک طریقے سے سمجھ نہیں پاتیں۔ اور قدم قدم پر پریشانیوں کا سامنا کرتی ہیں جس کی وجہ سے وہ ذہنی انتشار کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ جب کہ 20 سے 25 کے درمیان لڑکیوں میں ذہنی طور پر پختگی آجاتی ہے اور وہ سسرال کے معاملات کو اچھے طریقے سے سمجھ لیتی ہیں اور پھر سمجھداری سے اپنے گھر کو چلاتی ہیں۔ (ویسے سمجھداری کا تعلق عمر سے ہی نہیں ہوتا بلکہ تعلیم و تربیت بھی اس میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے)

س۔ لڑکیوں کی رسمی تعلیم (بی اے، ایم اے وغیرہ) کی تکمیل زیادہ ضروری ہے یا اس قسم کی تعلیم کے دوران اگر مناسب رشتہ مل جائے تو تعلیم کی تکمیل پر شادی کو ترجیح دی جائے؟
جواب: تعلیم تو ہمیشہ ہی بہت ضروری ہے لیکن آج کے دور میں تو بے حد اہم ہے، کم از کم بی اے تو ضرور مکمل ہونا چاہئے اور ایم اے کر لیں تو اور بھی اچھا ہے ، کیونکہ مہنگائی کے اِس دور میں صرف شوہر کی کمائی پر گھر کو چلانا انتہائی دشوار ہو گیا ہے ، یہ وہ وقت ہے کہ میا ں بیوی کو مل کر گھر کی گاڑی کو چلانا پڑتا ہے، اگر تو لڑکی کی تعلیم ادھوری رہ جائے تو بعد میں اُس کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ( حالانکہ میں لڑکیوں کی ملازمت کے سخت خلاف ہوں ) اگر کوئی اچھا رشتہ اس دوران آتا ہے تو ان لوگوں سے اس بات پر سمجھوتہ کیا جاسکتا ہے کہ پہلے تعلیم مکمل ہوجائے پھر شادی کریں یا پھر یہ طے کرلیں کہ بعد میں لڑکی کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہے ( ایسا بھی بہت کم گھرانوں میں ہوتا ہے) بہر حال لڑکی کے سیلف کانفیڈنس کے لئے بھی تعلیم کی بڑی اہمیت ہے، اس پر شادی کو ترجیح دینا ٹھیک نہیں ہے ۔
س۔ اگر لڑکی پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کر رہی ہو، جیسے، طب، انجینئرنگ، لاء وغیرہ تو کیا گریجویشن کرتے ہی شادی کردینا زیادہ مفید ہے یا لڑکیوں کی خواہش پر اسپیشیلائزیشن ، پریکٹس اور کیریئر وغیرہ میں ”قدم جمانے“ کے بعد شادی کرنا بہتر ہوگا۔

جواب: میرا خیال ہے گریجویشن کرتے ہی شادی کرنا مناسب ہوتا ہے کیونکہ لڑکیوں پر جتنی جلدی جوانی آتی ہے تو واپسی کا سفر بھی اُسی مناسبت سے شروع ہوجاتا ہے، پھر لڑکیوں کے رشتے بھی ایک مناسب وقت تک آتے ہیں اور پھر عمر ذرا بھی زیادہ ہوجائے تو لڑکوں کے تو نہیں پھر "بابوں" کے رشتے آتے ہیں یا پھر آتے ہی نہیں۔اسپیشلائزیشن ، پریکٹس اور کیرئیر میں "قدم جمانے" کے بعد لڑکی کی عمر یقیناً "30 تک تو لازمی پہنچے گی تو ایسی صورت میں کبھی قسمت سے کوئی اچھا رشتہ آبھی سکتا ہے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ آڑھے ٹیڑھے رشتے آئیں جو لڑکی اور اسکے گھر والوں کے لئے ذہنی اذیت کا سبب بن سکتے ہیں اسلئے مناسب یہی ہے کہ مناسب عمر میں اچھے رشتوں کو انکار محض اس بنیاد پر نہ کیا جائے بس اللہ کا نام لیکر شادی کردینا ہی اچھا ہوتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر اچھے رشتوں کو ٹھکرانا کفرانِ نعمت بھی ہوتا ہے جس سے حتی الامکان بچنا بہتر ہے ۔
س ۔ کیا تعلیم یافتہ اور بر سر روزگار مسلمان لڑکیاں ہمارے معاشرے میں شادی کے بغیر بھی خوش و خرم یا مطمئن یا کسی قسمی کی پریشانیوں اور دشواریوں کے بغیر زندگی گذار سکتی ہیں؟

جواب: شادی کرنا تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے تو اس مذہبی فریضے کو ادا کرنا ایسے بھی ضروری ہے اور ویسے بھی یہ معاشرہ اکیلی عورت کا جینا محال کردیتا ہے قدم قدم پر ایک تنہا عورت کو مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور وہ ایک اکیلی اس معاشرے کے ناسوروں سے نہیں نمٹ سکتی، وہ چاہے تعلیم یافتہ اور برسرِ روزگار ہو اور بظاہر خوش و خرم اور مطمئن ہو تب بھی اس کو مرد کے سہارے کی ضرورت رہے گی ( میری اس بات پر آزادیء حقوقِ نسواں کی تنظیموں کے پتنگے لگ جائیں گے اور کچھ ایسے مرد حضرات بھی بہت جز بز ہونگے جنہوں نے عورت کو انکے حقوق کے نام پر مادر پدر آزاد بنادیا ہے)
ہم عورتیں برابری کے بلند وبانگ دعوے تو کرتی ہیں لیکن مرد کی طرح بوجھ نہیں اٹھا سکتی ہیں ، جہاں بھاری کام کی بات آجائے تو کسی مرد کو دیکھتی ہیں کہ کوئی ہمارا بوجھ اٹھا کر رکھ دے ، ایسے ہی گاڑی تو ہم چلالیتی ہیں لیکن راستے میں گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو جائے تو راہ چلتے "بھائیوں " کو آوازیں لگائیں گی کہ ذرا ٹائر بدل دیں اور "بھائی" حضرات فوراً دوڑے چلے آتے ہیں۔۔۔ ۔۔ سوری میں ذرا تلخ ہوگئی ۔۔۔ ۔ تو بات یہ ہے کہ یہ حقیقت تسلیم کر لینا چاہئے کہ مرد کے بغیر عورت ادھوری اور عورت کے بغیر مرد۔۔۔ ۔۔ لہٰذا عورت کو تنہا رہنے کے بجائے شادی کرلینی چاہئے کہ کڑی دھوپ میں شوہر ایک سائبان کی مانند ہوتا ہے (اور لوگوں کا متفق ہونا ضروری نہیں )

س ۔ جن لڑکیوں کی کسی بھی وجہ سے شادی نہ ہوسکی ہو، وہ اور ایج ہوچکی ہوں، مطقہ یا بیوہ ہوں، انہیں اپنی بقیہ زندگی بآسانی گزارنے کے لئے کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے؟ ہمارے معاشرے مین ایسی لڑکیوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے

جواب: ایسی لڑکیوں اور عورتوں کو سماجی بہبود کے کاموں میں تن من دھن سے مشغول ہوجانا چاہئے کہ یہ ہماری زندگی کا بہترین مصرف ہے کسی کی فلاح و بہبود کے کاموں میں لگ جانا بذاتِ خود بہت بڑی نیکی ہے ، یہ کام صرف ایسے ہی لوگوں کے لئے ہی نہیں بلکہ معاشرے کے تمام افراد کو بقدرِ استطاعت اپنا حصہ ڈالنا چاہئے لیکن چونکہ شادی شدہ افراد اپنے گھر گرہستی میں جڑ جاتے ہیں تو وہ ذمہ داریاں انکی پہلی ترجیح ہوجاتی ہیں ، اسلئے غیر شادی شدہ لوگ اس کام کو خوش اسلوبی سے نبھا سکتے ہیں تو اس میں وقت کا زیاں بھی نہیں ہے اور دین و دنیا میں فوز و فلاح کا باعث بھی ہے ۔ اللہ ایسی لڑکیوں اور عورتوں پر اپنا فضل و کرم فرمائے اور انکی جان ، مال، عزت و آبرو کی حفاظت فرمائے آمین
 
Top