• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انکارِ حدیث حق یا باطل؟

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
انکارِ حدیث … حق یا باطل؟

ایک منکر ِحدیث کے شبہات کے جوابات​
مولانا صفی الرحمن مبارکپوری​
کیا قرآن میں سب کچھ ہے اور حدیث کی ضرورت نہیں؟
انکارِ حدیث کے لئے سب سے اہم اور بنیادی نکتہ یہ تلاش کیا گیا ہے کہ قرآنِ مجید میں ہر مسئلہ کی تفصیل بیان کردی گئی ہے، اس لئے حدیث کی ضرورت نہیں ۔اس کے ثبوت میں قرآن مجید کے متعلق تبيانا لکل شيئ اور تفصيلا لکل شيئ والی آیات پیش کی جاتی ہیں۔ جن کا مطلب توڑ مروڑ کر اور غلط ملط بیان کرکے یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ قرآن میں ہر مسئلہ کی تفصیل موجود ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال نمبر1۔
منکرین حدیث اب ہمارا سوال سنیں؛ قرآن میں مردہ، خون، سؤر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور حرام قرار دیا گیا ہے اور بہیمۃ الأنعام حلال کیا گیا ہے۔ بہیمۃ الأنعام کی تفسیر قرآن میں ان جانوروں سے کی گئی ہے: اونٹنی، اونٹ، گائے، بیل، بکری، بکرا، بھیڑ اور مینڈھا۔ لغت میں بھی بہیمۃ الأنعام کی فہرست میں یہی جانور بتائے گئے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ان کے علاوہ دنیا کے بقیہ جانور حلال ہیں یا حرام؟ مثلاً کتا، بلی، گیڈر، بھیڑیا، چیتا، شیر، تیندوا، بندر، ریچھ، ہرن، چیتل، سانبھر، بارہ سنگھا، بھینسا، خرگوش، کوا، چیل، باز، شکرہ، کبوتر، مینا، فاختہ وغیرہ وغیرہ؛ یہ سارے جانور حلال ہیں یا حرام؟ یا ان میں سے کچھ حلال ہیں اور کچھ حرام؟ آپ جو جواب بھی دیں، اس کا ثبوت قرآن سے پیش کریں۔ آپ کی عقلی تک بندیاں نہیں مانی جائیں گی، یعنی آپ چونکہ دعویدار ہیں کہ ہر مسئلہ قرآن میں موجود ہے اس لئے ان جانوروں میں سے جس کو حلال مانیں،اس کے حلال ہونے کا ثبوت قرآن سے دیں اور جس کو حرام مانیں، اس کے حرام ہونے کا ثبوت قرآن سے دیں اور اگر آپ قرآن سے نہ دے سکیں (اور یقینا نہیں دے سکیں گے) تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن میں ہر مسئلہ بیان نہیں کیا گیا ہے اور حدیث کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان جانوروں کے حلال و حرام ہونے کا قاعدہ حدیث میں بیان کردیا گیاہے جس سے فوراً معلوم ہوجاتا ہے کہ کون سا جانور حلال ہے اور کون سا حرام…!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال نمبر2۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ قرآن میں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نمازکی حالت میں کھڑے ہونے، رکوع کرنے اور سجدہ کرنے کا ذکر بھی قرآن میں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ نماز میں پہلے کھڑے ہوں یا پہلے رکوع کریں یا پہلے سجدہ کریں؟ پھر کھڑے ہوں تو ہاتھ باندھ کرکھڑے ہوں یا لٹکا کر؟ ایک پاؤں پرکھڑے ہوں یا دونوں پر ؟
لغت میں ’رکوع‘ کا معنی ہے جھکنا،
سوال یہ ہے کہ آگے جھکیں ، یا دائیں جھکیں یابائیں جھکیں؟پھر جھکنے کی مقدار کیا ہو؟ ذرا سا سرنیچا کریں یا کمر کے برابر نیچا کریں یا اس سے بھی زیادہ نیچا کریں؟پھر رکوع کی حالت میں ہاتھ کہاں ہوں؟ گھٹنوں پر ٹیکیں؟ یا دونوں رانوں کے بیچ میں رکھ کر بازؤوں کو ران پر ٹیکیں؟ یا ڈنڈے کی طرح لٹکنے دیں؟
اسی طرح سجدہ کیسے کریں؟ یعنی زمین پر سر کا کون سا حصہ ٹیکیں، پیشانی کا ٹھیک پچھلا حصہ یا دایاں کنارہ یا بایاں کنارہ؟ سجدہ کی حالت میں ہاتھ کہاں رکھیں؟ رانوں میں گھسا لیں؟ یا زمین پرٹیکیں؟ اور اگر زمین پر ٹیکیں تو صرف ہتھیلی زمین پر ٹیکیں یا پوری کہنی زمین پر ٹیکیں؟ سجدہ ایک کریں یا دو کریں؟
ان سوالات کا آپ جو بھی جواب دیں، اس کا ثبوت قرآن سے دیں۔ ان مسائل کے بارے میں آپ کی عقلی تک بندیاں نہیں مانی جائیں گی اور اگر قرآن سے ان سوالات کاجواب نہ دے سکیں (اور یقینا نہیں دے سکتے) تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حدیث کے بغیر قرآن کے حکم پر بھی عمل نہیں ہوسکتا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال نمبر3۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ قرآن میں زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نہ دینے والوں کو سخت عذاب کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔جس جس قسم کے لوگوں پر زکوٰۃ خرچ کرنی ہے، انہیں بھی بتا دیا گیا ہے
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ زکوٰۃ کب کب وصول کی جائے؟ یعنی زکوٰۃ روز روز دی جائے؟ یا سال بھر میں ایک مرتبہ دی جائے؟ یا پانچ سال یا دس سال یا بیس سال میں ایک مرتبہ دی جائے؟ یا عمر بھر میں ایک مرتبہ دی جائے؟ پھر یہ زکوٰۃ کس حساب سے دی جائے اور کتنی کتنی دی جائے ؟ یعنی غلہ کتنا ہو تو اس میں زکوٰۃ دی جائے؟ اور کتنے غلہ پر کتنی زکوٰۃ دی جائے؟ سونا چاندی کتنی ہو تو زکوٰۃ دی جائے؟ اور کس حساب سے دی جائے؟
یہ سارے مسئلے قرآن سے ثابت کیجئے۔ اگر آپ قرآن میں یہ مسائل نہ دکھلا سکیں (اور ہرگز نہیں دکھلا سکتے) تو ثابت ہوگا کہ حدیث کو مانے بغیر قرآن کے حکم پر بھی عمل ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ ان سارے مسائل کا بیان حدیث ہی میں آیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال نمبر4۔
چوتھا سوال: قرآن میں حکم ہے کہ مسلمان جنگ میں کفار کا جو مالِ غنیمت حاصل کریں، ا س کے پانچ حصے کرکے ایک حصہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے نام پر الگ نکال دیا جائے جو یتیموں ، مسکینوں اور حاجت مندوں وغیرہ میں بانٹ دیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ باقی چار حصے کیا کئے جائیں؟ تمام مجاہدین پر برابر برابر بانٹ دیئے جائیں یافرق کیا جائے؟ کیونکہ بعض لوگ اپنا ہتھیار، گھوڑا، تیر، کمان، نیزہ، بھالا، زرہ، خود، سواری کا جانور اور کھانے کا سامان خود لے کر جاتے تھے اور بعض کو اسلامی حکومت کی طرف سے یہ سامان فراہم کیا جاتا تھا۔
اسی طرح بعض لوگ بڑی بہادری اور بے جگری سے لڑتے تھے، بعض دبکے رہتے تھے، کچھ اگلی صف میں رہتے تھے، جن پر براہِ راست دشمن کا وار ہوتا تھا۔ کچھ پیچھے رہتے تھے جو خطرہ سے دور رہتے تھے۔ اب اگر ان سب کو برابر دیں تو کیوں دیں؟ اور اس کا ثبوت قرآن میں کہاں ہے؟ اور اگر فرق کریں تو کس حساب سے فرق کریں؟ قرآن سے اس کا حساب بتائیے۔ اور اگر کمانڈر کی رائے پر چھوڑ دیں تو قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ کمانڈر کی رائے پر چھوڑ دیں؟ ا س کی دلیل دیجئے۔ اگر قرآن میں ان مسئلوں کا کوئی حل نہیں ہے تو کیسے کہا جاتا ہے کہ قرآن میں سارے مسئلے بیان کردیئے گئے ہیں…!!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال نمبر5
پانچواں سوال: قرآن میں حکم ہے کہ چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھوں کو کاٹ دو۔
اب سوال یہ ہے کہ دونوں ہاتھ کاٹیں یا ایک ہاتھ؟ اور اگر ایک ہاتھ کاٹیں تو داہنا کاٹیں یا بایاں؟ پھراسے کاٹیں تو کہاں سے کاٹیں؟ بغل سے یا کہنی سے یا کلائی سے؟ یا ان کے بیچ میں کسی جگہ سے؟ آپ جو جواب بھی دیں، اس کا ثبوت قرآن سے دیں اور اگر قرآن سے اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتے توکیسے کہتے ہیں کہ قرآن میں ہر مسئلہ بیان کردیا گیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال نمبر6۔
چھٹا سوال: قرآن میں یہ ارشاد ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لئے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔
سوال یہ ہے کہ جمعہ کے دن کب پکارا جائے؟ کس نماز کے لئے پکارا جائے؟ کن الفاظ کے ساتھ پکارا جائے؟ جس نماز کے لئے پکارا جائے، وہ نماز کیسے پڑھی جائے؟ ان ساری باتوں کا ثبوت قرآن سے دیجئے۔ ورنہ تسلیم کیجئے کہ قرآن میں ہر مسئلہ بیان نہیں کیا گیا ہے۔
صاف بات یہ ہے کہ قرآن میں رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور جو باتیں ہم نے پوچھی ہیں، ان باتوں میں اور اسی طرح زندگی کے بہت سارے مسئلے میں تنہا قرآن سے کسی طرح بھی معلوم نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ کیا تھا۔ یہ طریقہ صرف حدیث سے معلوم ہوسکتا ہے۔ اس لئے جب تک حدیث کو نہ مانیں، خود قرآن پر بھی عمل نہیں کرسکتے۔ فی الحال یہی سوال پیش کرکے ہم آگے بڑھتے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
انکارِ حدیث کے اُصولی دلائل
اس ایک اصولی دلیل کا حال جان لینے کے بعد آئیے اب مدھوپوری محقق صاحب (مدھو پور،بہار،ہندوستان کے ایک نام نہاد محقق،جنہوں نے مقالہ نگار کو احادیث پر مبنی اعتراضات کے خطوط ارسال کیے) کی زبانی چند اور اُصولی دلیلیں سنئے۔ اس کے بعد ہمارا جواب ملاحظہ فرمائیے۔ موصوف نے خود ہی سوال قائم کیا ہے اور خود ہی جواب بھی دیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’سوال:دین میں مصطلح ’حدیث‘ کا کیا مقام ہے؟
جواب:کچھ نہیں،کیونکہ…
الف
دین حق ہے اور ا س کی بنا علم و یقین پر ہے ۔ جس کی شہادت خود اللہ اور اس کے سچے فرشتے دیتے ہیں:
’’ لٰکِنِ اللّٰهُ يَشْهَدُ بِمَا اُنْزِلَ إِلَيْکَ أنْزَلَهٗ بِعِلْمِه ٖوَالْمَلاَئِکَهُ يَشْهَدُوْنَ وَکَفٰی بِاللّٰهِ شَهِيْدًا‘‘ (النسائ: ۱۶۶)
ب
دین عملاً محمد رسول اللہ ﷺ والذین معہ کے ذریعہ بطریق احسن مکمل ہوچکا:
’’ اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الإسْلَامَ دِيْنًا ‘‘ (المائدۃ: ۳)
ج
دین لوحِ قرآن پر لفظاً لفظاً اور حرفاً حرفاً بدرجہ اکمل محفوظ ہوگیا ہے:
’’ بَلْ هُوَ قُرآنٌ مَّجِيْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ ‘‘ (البروج:۲۱، ۲۲)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
برعکس اس کے ہماری حدیثیں سب کی سب یکسر ظنی، غیر یقینی اور روایت بالمعنی ہیں۔ دین سے اس کا کیا تعلق؟:
’’ إنَّ الظَّنَّ لاَ يُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ‘‘ (النجم: ۲۸)
یعنی حق کے مقابلے میں ’ظن‘ کا کوئی مقام نہیں ہے:
’’ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ إلاَّ الظَّنَّ وَمَا تَهْوَی الاَنْفُسُ وَلَقَدْ جَآءَ هُمْ مِنْ رَّبِّهِمُ الْهُدٰی ‘‘ (النجم:۲۳)
یعنی ’’یہ لوگ محض ’ظن‘ کے پیچھے دوڑتے ہیں، دراصل وہ اپنی من مانی کرتے ہیں۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ان کو ہدایت پہنچ چکی ہے۔‘‘
اور ایک مقام پر تو خاص کرمؤمنوں کو خطاب کرکے زیادہ ظن و گمان سے کوسوں دور رہنے کا حکم صادر کردیا گیا ہے۔ بلکہ یہاں تک متنبہ کردیا گیا ہے کہ بعض قیاس آرائیاں’صریح‘ گناہ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہیں۔
’’ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ إنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إثْمٌ ‘‘ (الحجرات: ۱۲)
(ظن کے نام پر مغالطے کی وضاحت کےلیے پڑھیں ’’حدیث کے ظنی ہونے کا مفہوم‘‘ محدث اگست 2001 صفحہ 11 تا 22)
وفاتِ نبویؐ کے سینکڑوں سال بعد بعض ایرانیوں نے ادھر ادھر کی محض سنی سنائی اَٹکل پچو باتوں (جنہیں اقوالِ رسولؐ و اصحابِ رسول سے منسوب کیا جاتا تھا) کا ذخیرہ جمع کرکے انہیں متفرق ومتضاد روایتوں کو ’صحیح حدیث‘کا نام دے دیا اور بعد والوں نے بعض دینی اور سیاسی مصالح کی بنا پراس کو ( بزعم خویش) جزوِ دین سمجھ لیا، اور اس طرح تفقہ فی الدین اور تدبر فی القرآن کا دروازہ اپنے اوپر بند کرلیا۔ اس سے قبل یہی روایتیں جب تک زید، عمرووبکر کی زبانوں پر بے روک ٹوک گشت کرتی رہیں، ان کی کوئی خاص اہمیت نہ تھی، لیکن قید ِکتابت میں آنے اور ان پر ’صحیح‘کا لیبل چپکانے کے بعد انہیں ’فلاں نے فلاں سے کہا‘ اور ’فلاں نے فلاں سے سنا‘…
روایتوں کوبدقسمتی سے دین کی اصل واساس سمجھ لیا گیا، حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ
یہ مجموعہ ہائے روایات زیادہ سے زیادہ ایک طرح کے نیم تاریخی مواد کی حیثیت رکھتے ہیں اور بس۔ نیم تاریخی ہم نے اس لئے کہا کہ اولاً یہ فن ِتاریخ کے معیار پرپورے نہیں اُترتے، اور دوسرے یہ کہ ان کتب احادیث کی اکثر روایات قصہ گویوں، واعظوں اور داستان سراؤں کی خود ساختہ روایات اور من گھڑت کہانیاں ہیں۔ نیز ان جھوٹی روایات اور فرضی واقعات کا عوام میں خوب خوب پرچار کرنے کے ذمہ دار بھی یہی وعاظ و قصاص کا گروہ رہا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ہماری’حدیث‘ کا ایک دوسرا تاریک پہلوبھی ہے جو پہلے سے زیادہ افسوس ناک ہے۔ اور جسے ’اسلامی تاریخ‘ کا ’المیہ‘ کہنا چاہئے۔ مثلاً حدیث کے مجموعوں میں ایسی روایتیں بھی بکثرت ملتی ہیں جو الزام تراشی، دروغ بافی اور فحش نگاری کا مرقع ہیں ۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ ان مخرب اخلاق اور حیا سوز ’حدیثوں‘ کو منسوب کیا جاتا ہے قرآن کی برگزیدہ شخصیتوں کی طرف (جیسے خود آنحضرت ﷺ آپ کی ازواجِ مطہراتؓ، خصو صاً حضرت عائشہ صدیقہ ؓاور حضرت حفصہؓ اور اصحابِ رسول علیٰ الخصوص حضرت ابوبکر ؓ، عمر ؓاور عثمانؓ)۔ یا پھر سب و شتم کے تیر چلائے جاتے ہیں تو اگلی آسمانی کتابوںکی مثالی ہستیوں پر جیسے حضرت ابراہیم ؑ، یوسف ؑ، داؤد ؑ، سلیمان ؑ، اور مریم ؑ وغیرہم۔ غرض صحف ِاولیٰ کی منتخب شخصیتیں ہوں یا صحیفہ آخر کی پسندیدہ ہستیاں، کسی کی بھی عزت و آبرو راویانِ حدیث کی مشق ستم کا نشانہ بننے سے نہ بچ سکی: ’’ وَيْلٌ يَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِيْنَ ‘‘ (المرسلات:۱۹)
واضح رہے کہ یہ روایتیں مسیلمہ کذاب یا ملا معین واعظ کاشفی جیسے مشہور دروغ گویوں کی نہیں ہیں بلکہ عام مسلمانوں کے ’مایہ ناز‘ اور ’فخر روزگار‘ اماموں کے ’ثقہ‘ راویوں کی ہیں جو آج تقریباً ہزار سال سے ان کتابوں کی زینت بنی ہوئی ہیں جو ’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘ اور ’مثلہ معہ‘ سمجھی جاتی رہی ہیں… وائے گر درپس امروز بود فروائے !‘‘
 
Top