• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ان اقوال کے بارے میں وضاحت کریں

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
{علم حدیث کو طلب کرنا ساری عبادتوں سے افضل عبادت ہے}
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نہیں جانتا کہ روئے زمین پرکوئی عمل علم حدیث کی طلب سے افضل ہو اس کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی چاہتا ہو۔
آپ کافرمان ہے کہ میرے نزدیک حدیث سے بڑھ کر بوجھل اور اس سے افضل چیز کوئی اور نہیں۔ افضل تو اس کے لئے ہے جس کا ارادہ آخرت کا ہے اگر یہ ارادہ نہ ہوتوبڑا خوف ہے۔
فرماتے ہیں جو شخص اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا چاہتا ہومیرے علم میں تو اس کے لئے حدیث سے افضل اور کوئی چیز نہیں۔ دیکھو تو تمام مسلمانوں کو اپنے کھانے پینے تک میں اس کی ضرورت رہاکرتی ہے۔
امام وکیع بن جراح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کوئی عبادت اللہ تعالیٰ کے نزدیک حدیث کے پڑھنے پڑھانے سے زیادہ افضل نہیں۔
بشر بن حارث رحمہ اللہ فرماتے ہیں جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو اور نیک نیت ہو میں نہیں جانتا کہ روئے زمین پر اس کے لئے کوئی عمل طلب حدیث سے بھی افضل ہو رہا۔ رہا میں، سو میں تو اپنے ہر قدم پر جو میں نے اس میں اٹھایا ہو استغفار کرتا ہوں۔

{حدیث کی روایت تسبیح خوانی سے بھی افضل ہے}
امام وکیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر روایت حدیث میرے نزدیک تسبیح خوانی سے بہتر نہ ہوتی تو میں ہرگز روایت حدیث میں مشغول نہ ہوتا۔
(امام وکیع کے اس قول پر اہل علم حضرات روشنی ڈالیں)

{حدیث کی روایت کا درجہ درس قرآن جیسا ہے}
سلیمان تیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم ابو مجلز رحمہ اللہ کے پاس تھے اور وہ ہمیں حدیثیں سنا رہے تھے تو ایک شخص نے کہا کاش کہ آپ قرآن پاک کی کوئی سورت پڑھتے؟ تو ابو مجلز رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ میرے نزدیک علم حدیث بھی کسی سورت کی تلاوت سے کم نہیں۔
(اس قول پر اہل علم حضرات روشنی ڈالیں)


{حدیث کی روایت کا ثواب نماز پڑھنے کے برابر ہے}

محمد بن عمرو بن عطا کہتے ہیں کہ موسیٰ بن یسار ہمیں حدیثیں سنا رہے تھے تو سیدنا ابن عمررضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا جب آپ حدیث بیان کرنے سے فارغ ہوںتب سلام کیجئے گا۔ اس لئے کہ آپ گویا نماز میں ہیں۔
(اس قول پر اہل علم حضرات روشنی ڈالیں)

{حدیث کی روایت نفل نماز سے افضل ہے}
امام وکیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر میں جانتا کہ نفل نماز کا پڑھنا حدیث بیان کرنے سے افضل ہے تومیں ہر گز حدیث بیان نہ کرتا۔
امام قعبنی رحمہ اللہ سے بھی یہی فرمان منقول ہے۔
عمر بن سہیل رحمہ اللہ سے معافی ابن عمران اہلحدیث سوال کرتے ہیں کہ اے ابو عمران! آپ کے نزدیک یہ افضل ہے کہ حدیث لکھوں؟ آپ نے جواب دیا کہ ایک حدیث کا لکھنا میرے نزدیک رات بھر کی نماز سے افضل ہے۔
محمد بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پاس ابو زرعہ رحمہ اللہ کا مکتوب وصیت کے بارے میں آیا انہوں نے صبح سے لے کر جمعہ کی نماز کے وقت تک اسکو پڑھا۔ پھر جمعہ کے دو فرض پڑھ کر اسے پڑھنے لگ گئے۔ عصر تک پڑھتے رہے عصر کے بھی صرف فرض پڑھے۔ اس دن نوافل پڑھے ہی نہیں اور ان حدیثوں کے پڑھنے میں مشغول رہے اسلئے کہ حدیث کا پڑھنا نفل نماز سے افضل ہے۔
(اس قول پر اہل علم حضرات روشنی ڈالیں)

{حدیث کا لکھنا نفلی روزوں سے افضل ہے}
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سوال ہوتا ہے کہ ایک شخص تو نفلی روزوں اور نفلی نمازوں میں مشغول ہے او ردوسرا شخص حدیث کے لکھنے میں مشغول ہے۔ فرمائیے آ پ کے نزدیک کون افضل ہے ؟آپ نے فرمایا حدیث لکھنے والا۔سائل نے کہا آپ نے اسے اس پر فضیلت کیسے دیدی؟ فرمایا اس لئے کہ کوئی یوں نہ کہے کہ لوگوں کو ہم نے ایک چیز پر پایا اور ان کے ساتھ ہولئے 1
امام ابوبکر احمد بن علی خطیب رحمہ اللہ رحمہ اللہ اس کتاب کے مصنف فرماتے ہیں کہ بالخصوص اس زمانہ میں تو حدیث کا سیکھنا ہر قسم کی نفلی عبادت سے افضل اور بہتر ہے۔ اسلئے کہ سنتیں مٹتی چلی جارہی ہیں ان پر سے عمل اٹھتا چلا جارہا ہے اور بدعت اور بدعتی بڑھتے چلے جارہے ہیں۔
یحییٰ یمان رحمہ اللہ کا بھی قول ہے کہ آج کل طلب حدیث بہترین عبادت اور خیروبرکت کا باعث ہے لوگوں نے کہا امام صاحب ان طالب علموں کی نیت نیک کہاں ہوتی ہے ؟آپ نے فرمایا طلب حدیث خود نیک نیتی ہے۔
1۔ یعنی حدیثیں نہیں ہونگی تولوگ دوسروں کی تقلید اور پیروی کرینگے۔
(اس قول پر اہل علم حضرات روشنی ڈالیں)
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نہیں جانتا کہ روئے زمین پرکوئی عمل علم حدیث کی طلب سے افضل ہو اس کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی چاہتا ہو۔
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَخْبَرَنِي الْقَاضِي أَبُو نَصْرٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الدِّينَوَرِيُّ، بِهَا قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ السُّنِّيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلْمٍة الْكَاتِبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ إِسْحَاقَ بْنَ الْبُهْلُولِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا، يَقُولُ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ، يَقُولُ: «مَا أَعْلَمُ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ مِنَ الْأَعْمَالِ أَفْضَلَ مِنْ طَلَبِ الْحَدِيثِ لِمَنْ أَرَادَ بِهِ وَجْهَ اللَّهِ»[شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 81 واسنادہ ضعیف جدا]۔

اس کی سند ضعیف ہے اس میں ’’جَعْفَرُ بْنُ عَامِ‘‘ ہے ۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى:748)نے کہا:
جعفر بن عامر البغدادي.عن أحمد بن عمار أخى هشام بخبر كذب.اتهمه به ابن الجوزى.[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 411]۔


لیکن درج ذیل محدثین نے اسے صحیح سندسے روایت کیا ہے۔

امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى:290)نے کہا:
سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ حَكِيمٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا، يَقُولُ: قَالَ سُفْيَانُ: «مَا شَيْءٌ أَخْوَفُ عِنْدِي مِنَ الْحَدِيثِ وَمَا شَيْءٌ أَفْضَلُ مِنْهُ لِمَنْ أَرَادَ مَا عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»[الزهد لابن حنبل ص: 366 واسنادہ صحیح عال]۔

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
نا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ رِزْقٍ الْبَزَّازُ، أنا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نُصَيْرٍ الْخُلْدِيُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْحَضْرَمِيُّ، نا عَلِيُّ بْنُ حَكِيمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ وَكِيعًا، يَقُولُ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ، يَقُولُ: «مَا شَيْءٌ أَخْوَفُ عِنْدِي مِنْهُ يَعْنِي الْحَدِيثَ، وَمَا مِنْ شَيْءٍ يَعْدِلُهُ لِمَنْ أَرَادَ اللَّهَ بِهِ»[الجامع لأخلاق الراوي 1/ 82 واسنادہ صحیح]۔

امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى:463)نے کہا:
حَدَّثَنِي خَلَفُ بْنُ أَحْمَدَ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَحْيَى قَالَا: نا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ، نا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، نا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مَرْوَانَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الضَّرِيرَ يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ يَقُولُ: «مَا مِنْ شَيْءٍ أَخْوَفَ عِنْدِي مِنَ الْحَدِيثِ وَمَا مِنْ شَيْءٍ أَفْضَلَ مِنْهُ لِمَنْ أَرَادَ بِهِ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ»[جامع بيان العلم وفضله (الزهيري): 1/ 251 وصححہ المحقق]۔

امام رامہرمزي الفارسي (المتوفى: 360)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ غَنَّامٍ الْكُوفِيُّ، ثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ يَقُولُ: «مَا شَيْءٌ أَخْوَفُ عِنْدِي مِنَ الْحَدِيثِ، وَلَا شَيْءَ أَفْضَلُ مِنْهُ لِمَنْ أَرَادَ بِهِ مَا عِنْدَ اللَّهِ»[المحدث الفاصل بين الراوي والواعي للرامهرمزي :ص: 177 صحیح بالشاہد واسنادہ ضعیف ’’عبد الله بن غنام الكوفي‘‘ لم اعرفہ]۔

امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْمَوْصِلِيُّ، وَأَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَيَّانَ، قَالَا: ثَنَا جَعْفَرٌ الْفِرْيَابِيُّ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الْحَوَارِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ الثَّوْرِيَّ، يَقُولُ: مَا مِنْ عَمَلٍ أَفْضَلُ مِنْ طَلَبِ الْحَدِيثِ إِذَا صَحَّتِ النِّيَّةُ فِيهِ، قَالَ أَحْمَدُ: قُلْتُ لِلْفِرْيَابِيِّ: وَأَيُّ شَيْءٍ النِّيَّةُ؟ قَالَ: تُرِيدُ بِهِ وَجْهَ اللهِ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ[حلية الأولياء وطبقات الأصفياء 6/ 366 واسنادہ صحیح]۔

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458):
أخبرنا أبو الحسن بن الفضل القطان أبنا اسماعيل بن محمد الصفار ثنا جعفر بن محمد بن شاكر ثنا أبو معاوية الغلابي حدثني وكيع بن الجراح قال سمعت سفيان الثوري يقول لا أعلم شيئا من الأعمال أفضل من العلم أو الحديث لمن حسنت فيه نيته [المدخل إلى السنن الكبرى ص: 309 واسنادہ صحیح]۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top