• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ان روایات کی تحقیق درکار ھے

بلال 243

رکن
شمولیت
دسمبر 30، 2014
پیغامات
111
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
46
حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : يُكْرَهُ خُرُوجُ النِّسَاءِ فِي الْعِيدَيْنِ.

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّهُ كَانَ لاَ يُخْرِجُ نِسَاءَهُ فِي الْعِيدَيْنِ

حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ؛ أَنَّهُ كَانَ لاَ يَدَعُ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِهِ تَخْرُجُ إِلَى فِطْرٍ ، وَلاَ إِلَى أَضْحَى

حوالہـ مصنف ابن ابی شیبہ حدیث#5844 5845 5846
ناشر دار القبلہ جدہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : يُكْرَهُ خُرُوجُ النِّسَاءِ فِي الْعِيدَيْنِ.

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّهُ كَانَ لاَ يُخْرِجُ نِسَاءَهُ فِي الْعِيدَيْنِ

حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ؛ أَنَّهُ كَانَ لاَ يَدَعُ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِهِ تَخْرُجُ إِلَى فِطْرٍ ، وَلاَ إِلَى أَضْحَى

حوالہـ مصنف ابن ابی شیبہ حدیث#5844 5845 5846
ناشر دار القبلہ جدہ
ان آثار میں عورتوں کے عید گاہ جاکر نماز عید ادا کرنے سے روکنے کے کوئی خاص اسباب ،و ظروف ہو سکتے ہیں ؛کسی وقتی وجہ سے منع کیا ہوگا ؛
لیکن جہاں تک ۔۔عورتوں کے عید گاہ جاکر نماز عید کی ادائیگی ۔۔کی شرعی حیثیت کا سوال ہے ،تو صحیح احادیث سے عورتوں کو عید گاہ جاکر نماز عید کی ادائیگی کا حکم ثابت ہے :
فی الحال صحیح بخاری کی دو حدیثیں دیکھئے :

صحیح البخاری ، باب خروج النساء والحيض إلى المصلى:
باب: عورتوں اور حیض والیوں کا عیدگاہ میں جانا
حدیث نمبر: 974
عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ "أَمَرَنَا أَنْ نُخْرِجَ الْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ"،‏‏‏‏ وَعَنْ أَيُّوبَ،‏‏‏‏ عَنْ حَفْصَةَ بِنَحْوِهِ،‏‏‏‏ وَزَادَ فِي حَدِيثِ حَفْصَةَ قَالَ أَوْ قَالَتِ الْعَوَاتِقَ:‏‏‏‏ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ وَيَعْتَزِلْنَ الْحُيَّضُ الْمُصَلَّى.
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہمیں حکم تھا کہ پردہ والی دوشیزاؤں کو عیدگاہ کے لیے نکالیں اور ایوب سختیانی نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے بھی اسی طرح روایت کی ہے۔ حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ دوشیزائیں اور پردہ والیاں ضرور (عیدگاہ جائیں) اور حائضہ نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح البخاری ، باب موعظة الإمام النساء يوم العيد:
باب: امام کا عید کے دن عورتوں کو نصیحت کرنا.
حدیث نمبر: 978
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ "قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفِطْرِ فَصَلَّى فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ،‏‏‏‏ ثُمَّ خَطَبَ فَلَمَّا فَرَغَ نَزَلَ فَأَتَى النِّسَاءَ فَذَكَّرَهُنَّ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى يَدِ بِلَالٍ،‏‏‏‏ وَبِلَالٌ بَاسِطٌ ثَوْبَهُ يُلْقِي فِيهِ النِّسَاءُ الصَّدَقَةَ"،‏‏‏‏ قُلْتُ لِعَطَاءٍ:‏‏‏‏ زَكَاةَ يَوْمِ الْفِطْرِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ لَا،‏‏‏‏ وَلَكِنْ صَدَقَةً يَتَصَدَّقْنَ حِينَئِذٍ تُلْقِي فَتَخَهَا وَيُلْقِينَ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ أَتُرَى حَقًّا عَلَى الْإِمَامِ ذَلِكَ وَيُذَكِّرُهُنَّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ لَحَقٌّ عَلَيْهِمْ وَمَا لَهُمْ لَا يَفْعَلُونَهُ.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر کی نماز پڑھی۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اس کے بعد خطبہ دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے فارغ ہو گئے تو اترے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ میں منبر نہیں لے کر جاتے تھے۔ تو اس اترے سے مراد بلند جگہ سے اترے) اور عورتوں کی طرف آئے۔ پھر انہیں نصیحت فرمائی۔ آپ اس وقت بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کا سہارا لیے ہوئے تھے۔ بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلا رکھا تھا جس میں عورتیں صدقہ ڈال رہی تھیں۔ میں نے عطاء سے پوچھا کیا یہ صدقہ فطر دے رہی تھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ نہیں بلکہ صدقہ کے طور پر دے رہی تھیں۔ اس وقت عورتیں اپنے چھلے (وغیرہ) برابر ڈال رہی تھیں۔ پھر میں نے عطاء سے پوچھا کہ کیا آپ اب بھی امام پر اس کا حق سمجھتے ہیں کہ وہ عورتوں کو نصیحت کرے؟ انہوں نے فرمایا ہاں ان پر یہ حق ہے اور کیا وجہ ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتے۔‘‘
 

بلال 243

رکن
شمولیت
دسمبر 30، 2014
پیغامات
111
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
46
ان آثار میں عورتوں کے عید گاہ جاکر نماز عید ادا کرنے سے روکنے کے کوئی خاص اسباب ،و ظروف ہو سکتے ہیں ؛کسی وقتی وجہ سے منع کیا ہوگا ؛
لیکن جہاں تک ۔۔عورتوں کے عید گاہ جاکر نماز عید کی ادائیگی ۔۔کی شرعی حیثیت کا سوال ہے ،تو صحیح احادیث سے عورتوں کو عید گاہ جاکر نماز عید کی ادائیگی کا حکم ثابت ہے :
فی الحال صحیح بخاری کی دو حدیثیں دیکھئے :

صحیح البخاری ، باب خروج النساء والحيض إلى المصلى:
باب: عورتوں اور حیض والیوں کا عیدگاہ میں جانا
حدیث نمبر: 974
عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ "أَمَرَنَا أَنْ نُخْرِجَ الْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ"،‏‏‏‏ وَعَنْ أَيُّوبَ،‏‏‏‏ عَنْ حَفْصَةَ بِنَحْوِهِ،‏‏‏‏ وَزَادَ فِي حَدِيثِ حَفْصَةَ قَالَ أَوْ قَالَتِ الْعَوَاتِقَ:‏‏‏‏ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ وَيَعْتَزِلْنَ الْحُيَّضُ الْمُصَلَّى.
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہمیں حکم تھا کہ پردہ والی دوشیزاؤں کو عیدگاہ کے لیے نکالیں اور ایوب سختیانی نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے بھی اسی طرح روایت کی ہے۔ حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ دوشیزائیں اور پردہ والیاں ضرور (عیدگاہ جائیں) اور حائضہ نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح البخاری ، باب موعظة الإمام النساء يوم العيد:
باب: امام کا عید کے دن عورتوں کو نصیحت کرنا.
حدیث نمبر: 978
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ "قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفِطْرِ فَصَلَّى فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ،‏‏‏‏ ثُمَّ خَطَبَ فَلَمَّا فَرَغَ نَزَلَ فَأَتَى النِّسَاءَ فَذَكَّرَهُنَّ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى يَدِ بِلَالٍ،‏‏‏‏ وَبِلَالٌ بَاسِطٌ ثَوْبَهُ يُلْقِي فِيهِ النِّسَاءُ الصَّدَقَةَ"،‏‏‏‏ قُلْتُ لِعَطَاءٍ:‏‏‏‏ زَكَاةَ يَوْمِ الْفِطْرِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ لَا،‏‏‏‏ وَلَكِنْ صَدَقَةً يَتَصَدَّقْنَ حِينَئِذٍ تُلْقِي فَتَخَهَا وَيُلْقِينَ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ أَتُرَى حَقًّا عَلَى الْإِمَامِ ذَلِكَ وَيُذَكِّرُهُنَّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ لَحَقٌّ عَلَيْهِمْ وَمَا لَهُمْ لَا يَفْعَلُونَهُ.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر کی نماز پڑھی۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اس کے بعد خطبہ دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے فارغ ہو گئے تو اترے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ میں منبر نہیں لے کر جاتے تھے۔ تو اس اترے سے مراد بلند جگہ سے اترے) اور عورتوں کی طرف آئے۔ پھر انہیں نصیحت فرمائی۔ آپ اس وقت بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کا سہارا لیے ہوئے تھے۔ بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلا رکھا تھا جس میں عورتیں صدقہ ڈال رہی تھیں۔ میں نے عطاء سے پوچھا کیا یہ صدقہ فطر دے رہی تھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ نہیں بلکہ صدقہ کے طور پر دے رہی تھیں۔ اس وقت عورتیں اپنے چھلے (وغیرہ) برابر ڈال رہی تھیں۔ پھر میں نے عطاء سے پوچھا کہ کیا آپ اب بھی امام پر اس کا حق سمجھتے ہیں کہ وہ عورتوں کو نصیحت کرے؟ انہوں نے فرمایا ہاں ان پر یہ حق ہے اور کیا وجہ ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتے۔‘‘
اصل میں یہ آثار 1 دیوبندی نے بھیجے تھے میں چاھتا تھا کہ اسکی تحقیق ھوجائے کہ کیا صییح ھیں یا نھیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : يُكْرَهُ خُرُوجُ النِّسَاءِ فِي الْعِيدَيْنِ.

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّهُ كَانَ لاَ يُخْرِجُ نِسَاءَهُ فِي الْعِيدَيْنِ

حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ؛ أَنَّهُ كَانَ لاَ يَدَعُ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِهِ تَخْرُجُ إِلَى فِطْرٍ ، وَلاَ إِلَى أَضْحَى

حوالہـ مصنف ابن ابی شیبہ حدیث#5844 5845 5846
ناشر دار القبلہ جدہ
امام ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب ’’ المصنف ‘‘ میں پہلے ۔۔’’ عورتوں کا نماز عید کیلئے باہر جانے کی اجازت ‘‘ کا باب باندھا ہے (مَنْ رَخَّصَ فِي خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى الْعِيدَيْنِ) ، جس میں انہوں نے ’’ مرفوع ، اور موقوف روایات سے اسے ثابت کیا ہے ،
اور پھر اگلے باب میں صحابہ و تابعین کی تین چار روایتیں منع کی بیان کی ہیں ؛۔ اور منع میں کوئی روایت مرفوع نہیں( یعنی خود نبی کریم ﷺ کا ارشاد نہیں )
اور اصول کی بات یہ ہے کہ مرفوع کے مقابل موقوف نہیں مانی جاتی :
احناف کے اصول ملاحظہ ہوں :
1۔ علامہ ابن ھمام حنفی فرماتے ہیں: یعنی ہمارے نزدیک صحابی کا قول حجت ہے جب تک سنت سے کوئی چیز اس کی نفی نہ کرے۔(فتح القدیر ص37، ج2، باب صلاۃ الجمعۃ)

2۔ علامہ ظفر احمد تھانوی دیوبندی فرماتے ہیں: یعنی صحابی کا قول ہمارے نزدیک حجت ہے جب مرفوع حدیث کے خلاف نہ ہو(اعلاء السنن ص126،ج1)
مزید فرماتے ہیں: یعنی صحابی کا قول جب مرفوع حدیث کے معارض ہو تو حجت نہیں ہوتا بالخصوص جب وہ مسئلہ صحابہ کرام میں مختلف فیہ ہو۔(اعلاءالسنن،ص438،ج01، باب آداب الاستنجاء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ کا پیش کردہ پہلا اثر مشہور تابعی ابراہیم نخعی کا ہے،کہ وہ عورتوں کا نماز عید کیلئے باہر جانا مکروہ سمجھتے تھے ؛
حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : يُكْرَهُ خُرُوجُ النِّسَاءِ فِي الْعِيدَيْنِ.
ایک تابعی کا قول صحیح مرفوع حدیث کے مقابل تسلیم نہیں کیا جا سکتا ؛اور ہو سکتا ہے انکے مکروہ سمجھنے کی وجہ کوئی خاص حالات ہوں

دوسرا اثر صحابی جلیل جناب عبد اللہ بن عمر ؓ کا ہے ،
جنہوں نے خواتین کو مسجد سے روکنے پر اپنے بیٹے کو بہت برا بھلا کہا تھا :درج ذیل حدیث دیکھئے ؛
عن الاعمش عن مجاهد قال:‏‏‏‏ قال عبد الله بن عمر قال النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " ائذنوا للنساء إلى المساجد بالليل فقال ابن له:‏‏‏‏ والله لا ناذن لهن فيتخذنه دغلا والله لا ناذن لهن قال:‏‏‏‏ فسبه وغضب وقال:‏‏‏‏ اقول:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ ائذنوا لهن وتقول:‏‏‏‏ لا ناذن لهن ".

مجاہد کہتے ہیں: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”تم عورتوں کو رات میں مسجد جانے کی اجازت دو“، اس پر ان کے ایک لڑکے (بلال) نے کہا: قسم اللہ کی! ہم انہیں اس کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اسے فساد کا ذریعہ بنائیں، قسم اللہ کی، ہم انہیں اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ مجاہد کہتے ہیں: اس پر انہوں نے (اپنے بیٹے کو) بہت سخت سست کہا اور غصہ ہوئے، پھر بولے: میں کہتا ہوں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”تم انہیں اجازت دو“، اور تم کہتے ہو: ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۱۳(۸۹۹)، صحیح مسلم/الصلاة ۳۰(۴۴۲)، سنن الترمذی/الصلاة ۴۸ (۵۷۰)، (تحفة الأشراف: ۷۳۸۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۶، ۴۳، ۴۹، ۹۸، ۱۲۷، ۱۴۳، ۱۴۵) (صحیح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو ایسا صحابی خود نماز کیلئے عورتوں کو جانے سے کیسے روک سکتا ہے ؟
اسلئے ان کا منع کا قول یا سنداً صحیح نہیں ۔۔۔یا۔۔ان کا منع کرنا کسی مخصوص وقتی وجہ سے ہو گا ؛
 
Top