حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : يُكْرَهُ خُرُوجُ النِّسَاءِ فِي الْعِيدَيْنِ.
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّهُ كَانَ لاَ يُخْرِجُ نِسَاءَهُ فِي الْعِيدَيْنِ
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ؛ أَنَّهُ كَانَ لاَ يَدَعُ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِهِ تَخْرُجُ إِلَى فِطْرٍ ، وَلاَ إِلَى أَضْحَى
حوالہـ مصنف ابن ابی شیبہ حدیث#5844 5845 5846
ناشر دار القبلہ جدہ
امام ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب ’’ المصنف ‘‘ میں پہلے ۔۔’’ عورتوں کا نماز عید کیلئے باہر جانے کی اجازت ‘‘ کا باب باندھا ہے (مَنْ رَخَّصَ فِي خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى الْعِيدَيْنِ) ، جس میں انہوں نے ’’ مرفوع ، اور موقوف روایات سے اسے ثابت کیا ہے ،
اور پھر اگلے باب میں صحابہ و تابعین کی تین چار روایتیں منع کی بیان کی ہیں ؛۔
اور منع میں کوئی روایت مرفوع نہیں( یعنی خود نبی کریم ﷺ کا ارشاد نہیں )
اور اصول کی بات یہ ہے کہ مرفوع کے مقابل موقوف نہیں مانی جاتی :
احناف کے اصول ملاحظہ ہوں :
1۔ علامہ ابن ھمام حنفی فرماتے ہیں: یعنی ہمارے نزدیک صحابی کا قول حجت ہے جب تک سنت سے کوئی چیز اس کی نفی نہ کرے۔(فتح القدیر ص37، ج2، باب صلاۃ الجمعۃ)
2۔ علامہ ظفر احمد تھانوی دیوبندی فرماتے ہیں: یعنی صحابی کا قول ہمارے نزدیک حجت ہے جب مرفوع حدیث کے خلاف نہ ہو(اعلاء السنن ص126،ج1)
مزید فرماتے ہیں: یعنی صحابی کا قول جب مرفوع حدیث کے معارض ہو تو حجت نہیں ہوتا بالخصوص جب وہ مسئلہ صحابہ کرام میں مختلف فیہ ہو۔(اعلاءالسنن،ص438،ج01، باب آداب الاستنجاء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا پیش کردہ پہلا اثر مشہور تابعی ابراہیم نخعی کا ہے،کہ وہ عورتوں کا نماز عید کیلئے باہر جانا مکروہ سمجھتے تھے ؛
حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : يُكْرَهُ خُرُوجُ النِّسَاءِ فِي الْعِيدَيْنِ.
ایک تابعی کا قول صحیح مرفوع حدیث کے مقابل تسلیم نہیں کیا جا سکتا ؛اور ہو سکتا ہے انکے مکروہ سمجھنے کی وجہ کوئی خاص حالات ہوں
دوسرا اثر صحابی جلیل جناب عبد اللہ بن عمر ؓ کا ہے ،
جنہوں نے خواتین کو مسجد سے روکنے پر اپنے بیٹے کو بہت برا بھلا کہا تھا :درج ذیل حدیث دیکھئے ؛
عن الاعمش عن مجاهد قال: قال عبد الله بن عمر قال النبي صلى الله عليه وسلم: " ائذنوا للنساء إلى المساجد بالليل فقال ابن له: والله لا ناذن لهن فيتخذنه دغلا والله لا ناذن لهن قال: فسبه وغضب وقال: اقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ائذنوا لهن وتقول: لا ناذن لهن ".
مجاہد کہتے ہیں: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”تم عورتوں کو رات میں مسجد جانے کی اجازت دو“، اس پر ان کے ایک لڑکے (بلال) نے کہا: قسم اللہ کی! ہم انہیں اس کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اسے فساد کا ذریعہ بنائیں، قسم اللہ کی، ہم انہیں اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ مجاہد کہتے ہیں: اس پر انہوں نے (اپنے بیٹے کو) بہت سخت سست کہا اور غصہ ہوئے، پھر بولے: میں کہتا ہوں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”تم انہیں اجازت دو“، اور تم کہتے ہو: ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۱۳(۸۹۹)، صحیح مسلم/الصلاة ۳۰(۴۴۲)، سنن الترمذی/الصلاة ۴۸ (۵۷۰)، (تحفة الأشراف: ۷۳۸۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۶، ۴۳، ۴۹، ۹۸، ۱۲۷، ۱۴۳، ۱۴۵) (صحیح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو ایسا صحابی خود نماز کیلئے عورتوں کو جانے سے کیسے روک سکتا ہے ؟
اسلئے ان کا منع کا قول یا سنداً صحیح نہیں ۔۔۔یا۔۔ان کا منع کرنا کسی مخصوص وقتی وجہ سے ہو گا ؛