• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اوباما کیوں ایران کو کھلی چھوٹ دے رہے ہیں؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اوباما کیوں ایران کو کھلی چھوٹ دے رہے ہیں؟

ڈاکٹر ماجد رفیع زادہ

ایران مسلسل عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے مگر امریکی صدر اوباما اس کے باوجود تہران کے تمام مطالبات کے سامنے جھکتے جارہے ہیں۔ انہوں نے ایران کی جانب سے شام میں اپنی فوجی مداخلت میں اضافہ کرنے کے جواب میں کیا کیا؟ انہوں نے تہران کو شام کے تنازع پر ایک امن کانفرنس میں شرکت کی دعوت دے دی۔

ایران نے کئی امریکی شہریوں کو قید کر لیا مگر تہران پر دباؤ ڈالنے کے بجائے اوباما نے ایٹمی مذاکرات جاری رکھے۔ پھر ایران نے دبئی میں امریکی بزنس مین سیامک نامازی کو گرفتار کر لیا۔ اوباما نے تہران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کیا جس نے ایران کو عالمی پابندیوں سے آذاد کیا مگر ایرانی پاسداران انقلاب کور نے اس کے فوری بعد اس معاہدے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بیلسٹک میزائلوں کے مزید کئی تجربات کر لیے۔

اوباما نے کانگریس سے کہا کہ نئی پابندیاں ایران کے گیارہ اداروں اور افراد پر عاید کی جائیں گی۔ ایران نے اس کا جواب اس طرح دیا کہ اس نے اعلان کیا کہ وہ اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام کو تیزی سے مکمل کرے گا، اور اوباما نے ایران پر نئی پابندیوں کا اطلاق ملتوی کر دیا اور اس کے خلاف مزید سفارتی اقدامات بھی معطل کر دیے۔

اس ہفتے کئی ممالک نے ایران کی جانب سے سعودی سفارتخانے اور قونصل خانے کو جلانے کے جواب میں تہران سے سفارتے تعلقات منقطع یا محدود کر دیے، مگر تہران نے سرکشی جاری رکھتے ہوئے ایک نئے زیر زمین میزائل ’عماد‘ کی رونمائی کی جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کو صلاحیت رکھتا ہے۔ مزید برآں ایرانی پاسدارن انقلاب کے نائب کمانڈر بریگیڈیر جنرل حسین سلامی نے دنیا کو بتایا کہ ایران کے پاس کتنے میزائل ہیں۔ یہی نہیں، مزید اشتعال انگیزی کرتے ہوئے ایران نے ایک راکٹ داغا جو آبنائے ہرمز میں لنگر انداز امریکی طیارہ بردارجہاز ہیری ٹرومین کے قریب جا گرا۔ ایران اشتعال دلاتا رہا مگر اوباما اور ان کے مغربی اتحادی اسے نظرانداز کرتے ہوے دوسری جانب دیکھتے رہے۔

چھڑی نہیں، صرف گاجر

ایران کی جانب اوباما کی چھڑی کے بجائے صرف گاجر پیش کرنے کی پالیسی نے دنیا کو یہ یقین کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ایران کی تمام جارحیت اور غیر قانونی اقدامات کے کوئی تادیبی نتائج نہیں ہوں گے، اور اس سرکشی میں تمام اعتدال پسند اور سخت گیر سمجھے جانے والے لیڈروں کا تعاون شامل ہے۔

ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کو اوباما اپنی خارجہ پالیسی کی کی معراج اور مشرق وسطی کی پالیسی کی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے ایسے کسی اقدام سے گریز کیا ہے جو اس معاہدے کے لیے نقصان دہ ہو۔ مگر اس طرح ایران کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے کہ وہ کھلے اور چھپے جارحیت جاری رکھے۔ اس کے امریکی قومی اور علاقائی سلامتی پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔

اوباما یہ دیکھنے میں ناکام رہے کہ ایٹمی معاہدے کی امریکہ سے زیادہ ایران کو ضرورت تھی تاکہ وہ اپنے اقتصادی بحران پر قابو پاسکے۔ ان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایران کو ہاتھ پکڑاؤ تو وہ بازو پکڑ لیتا ہے پھر سر پر سوار ہو جاتا ہے۔ اس لیے تہران کو صرف گاجر دکھانے کی پالیسی کبھی مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکے گی۔

ایرانی سرکشی پر عالمی طاقتوں کی جانب سے موزوں رد عمل کی غیر موجودگی میں علاقائی طاقتیں اس پر مجبور ہوں گی کہ متحد ہو کر ایرانی توسیع پسندی اور جارحانہ عزایم کا مقابلہ کریں۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہوگی کیونکہ اس سے ایسی علاقائی قیادت ابھرے گی جو عالمی طاقتوں کے اثرونفوز اور ان کے مفادات کی رسہ کشی سے آزاد ہو گی۔

اس کا مطلب یہ نہیں کو عالمی طاقتیں خطے میں مداخلت بند کر دیں گی بلکہ خود مختار علاقائی اتحاد کی موجودگی میں وہ کسی یکطرفہ اقدام سے قبل اپنی پالیسیوں کا مزید باریک بینی سے جائزہ لیں گی۔
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ​


نا تو امريکی حکومت کی ايسی کوئ خواہش ہے اور نا ہی اس تاثر ميں کوئ صداقت ہے کہ امريکہ خطے ميں کئ دہائيوں سے جاری سياسی کشيدگی کو ختم کرنے کے ليے حتمی اختيارات يا اثرورسوخ کا حامل ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ حاليہ دنوں ميں ايران سے پابنديوں کا ہٹايا جانا ايک سفارتی کاميابی ہے جو کئ ماہ کے مذاکرات کے بعد ممکن ہو سکی ہے۔

تاہم يہ قدم اس بات کا آئينہ دار نہيں ہے کہ شام ميں اسد کی حکومت سميت ديگر عالمی معاملات اور ان ميں ايران کے کردار کے حوالے سے امريکی موقف ميں کوئ بڑی تبديلی رونما ہو چکی ہے۔

علاوہ ازيں ايران پر موجود پابنديوں ميں نرمی صرف اسی وقت ممکن ہو سکی ہے جب عالمی تفتيشی ٹيم کی جانب سے اس بات کی تصديق کی گئ ہے کہ ايرانی حکومت نے اپنے جوہری پروگرام کے بڑے حصوں کو غير فعال کرنے کے اپنے وعدے کی پاسداری کی ہے۔

يہ درست ہے کہ امريکہ نے ايران کے خلاف جوہری پابنديوں ميں نرمی پر آمادگی ظاہر کی ہے تاہم دہشت گردی کی حمايت اور انسانی حقوق کے ضمن ميں ايران کی پاليسيوں کے حوالے سے عائد کی گئ پابندياں بدستور فعال ہيں۔ ان پابنديوں کی وجہ سے امريکی شہريوں اور کمپنيوں پر ملک ميں تجارت اور سرمايہ کاری کے اکثر مواقعوں کے ضمن ميں قدغن ہے۔

امريکی محکمہ خزانہ کے معاشی اثاثوں کے کنٹرول سے متعلق دفتر نے يہ واضح کيا ہے کہ ايران سے متعلق کسی بھی قسم کی ادائيگی اور اس کی ترسيل امريکی معاشی نظام سے ممکن نہيں ہے۔

سال 2012 امريکہ سميت کئ ممالک کی جانب سے ايران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے ليے معاشی قدغنيں لگائ گئ تھيں۔

اب بھی ہمارا مقصد اور واضح ہدف يہی ہے۔

اس فيصلے کا سعودی حکومت کے ساتھ ہمارے تعلقات اور مختلف اسلامی حکومتوں اور ممالک کے درميان کشيدگی پيدا کرنے کی ہماری مبينہ خواہش سے کوئ تعلق نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ​


 
شمولیت
فروری 04، 2016
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
27
اتنا عرصہ پابندی میں گزارتے ہوئے ایرانی قیادت نے یہ بھی سوچا تھا کہ حطے میں کوئی بھی کام کرنے سے پہلے امریکہ کی رضامندی شامل ہونا ضروری ہے۔ اِس لیے انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اب امریکہ کو ہر قیمت پر خوش کرنے کی کوشش کریں گے چاہے اپنا ایٹمی پروگرام ہی کیوں نا روکنا پرے۔ آج ایران کی یہ چال قامیاب ہو چُکی ہے امریکہ نے اپنی نظرِ کرم سعودی عرب سے ہٹا کر ایران پر کر دی ہے۔ سعودی عرب کو اب اِس بات کا بہت غم لگ گیا ہے۔ لیکن اب سعودی عرب نے امریکہ کی نظرِ کرام اپنے اورپر کرنے کے لیے بھی ایک چال چلی ہے ماضی قریب میں ہی سعودی عرب نے ایک بیان دیا ہے کہ اگر اتحادی مملک (امریکہ) چاہے تو وہ اپنی افوج شام میں دہشتگردوں کے خلاف ذمینی جنگ میں اُتار سکتے ہیں۔ امریکہ نے سعودی عرب کے اِس بیان پر اُس کی بہت حوصلہ افزائی کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ کو خوش کرنے میں کون سا ملک سبقت لے جاتا ہے۔ اِس کا جواب جاننے کے لیے ہمیں مستقبل کے خالات پر گہری نظر رکھنی پڑے گی۔
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
امریکہ اگر ایران کے ساتھ ہے تو سعودیہ کو نئے اتحادی ڈھونڈنے چاہیے جیسے چائنہ ، روس ۔۔ ضروری نہیں کہ روس ہمیشہ اسد کی حمایت جاری رکھے جو اب اس کی مجبوری ہے سعودیہ کے ساتھ روس کے تعلقات اچھے ہوں تو پاکستان اور ترکیہ کے لئے بہت اچھا موقعہ ہوگا امریکی چنگل سے آزاد ہونے کا ، روس کے ہماری بندرگاہ گوادر بھی چین جتنا اہم ہے۔۔۔ اس لئے سعودیہ اور بالخصوص عرب مملک کو اس پر سوچنا چاہئے ۔۔ اور اب امریکہ اکیلہ ہاتھی نہیں رہا ۔تیل ان کی ملکیت ہے اسے ریال میں ہی فروخت کرنا چاہئے۔امریکہ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں وہ جارحیت کریں گے تو اس سے دوست دشمن کا پتا چل جائے گا کہ کون آپ کا دشمن ہے کون دوست ، اللہ سے مدد مانگنیں۔۔ اس کے علاوہ یورپیوں کو مشرقی یورپ کے حالات کی پیش نظر پریشانی ہے اور ان کی توجہ انہیں پر ہے یعنی روس کی توسیع ۔ اس کا ثبوت برطانوی فوجوں کی مشقیں جو یوکرین کے بحران کے پیش نظر کی گئی ہیں ، عربوں کو سمجھنا ہوگا کہ ان کو اب راحت و آرام سے نکل کر ایک زبردست فوج تیار کرنی ہوگی اور دہڑا دہڑ یورپی ناکارہ ہٹھیار خریدنے کے بجائے اپنے ملکوں میں ہتھیار بنانے کی کوشش کرنی چاہئے ٹیکنالوجی پر پیسہ خرچ کرنا چاہئے بجائے یورپی ملکوں میں پیسہ ضائع کرنے سے۔ اور خارجہ پالیسی اپنے خطہ کی پیش نظر بنانا ہوگی ، اور اس زمانے کوئی بھی دشمن نہیں ہوتا اور کوئی دوست بھی نہیں یہی پالیسی ہونی چاہئے۔۔۔
 
Last edited:
Top