• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اولاد کی تربیت !!!

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
::::::: چوتھا سبق ::::::: اللہ کی عبادت کرنا ، اور ، ::::::: پانچواں سبق ::::::: صبر کے ذریعے دُنیا کی حقیقت کی معرفت :::::::
(((((( يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ::: اے میرے بیٹے نماز قائم کرو اور نیکی کرنے کا حُکم دو اور برائی سے روکو اور تمہیں جو کچھ تکلیف ہو اس پر صبر کرو کیونکہ ایسا کرنا قوت ارادی کی مضبوطی ہے )))))) آية 17
اس مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں لُقمان رحمہ اللہ نے اپنے بیٹے کو اسی خوش اسلوبی اور محبت سے جس کا ذکر ہم نے آغاز میں کیا مخاطب کرتے ہوئے یہ ترتبیت دی کہ اللہ کی عبادت میں سے سب سے پہلی اور اہم عبادت نماز کو ہمشیہ ادا کرتے رہو ، اور اللہ کے احکام کے مطابق نیکیوں کو پہچاننا اور ان کا حکم کرتے رہنا ، اور اللہ کے احکام کے مطابق ہی برائیوں کو پہچاننا اور ان سے روکتے رہنا کہ یہ بھی اللہ کی عبادات میں شمار ہوتا ہے ، اور ایسا کرنے میں اور اسکے علاوہ بھی زندگی میں جو کچھ تکالیف پیش آئیں ان پر اللہ کی رضا کے لیے صبر کرنا کہ دُنیا اور اسکی نعمتوں اور اس کے مصائب کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ وہ سب فانی ہیں لیکن دنیا میں رہتے ہوئے جو عمل کرو گے ان کے نتائج ابدی ہوں گے ، دُنیا میں ملنے والی نعمتوں کو جس طرح استعمال کرو گے ان کے دنیاوی فائدے تو ایک دن یقینا ختم ہو جائیں گے لیکن ان کے نتائج آخرت میں کبھی نہ ختم ہونے والی سزا یا ثواب کا باعث ہوں گے ، دُنیا میں ملنے والی تکالیف اور مصیبتیں تو یقینا ختم ہونا ہی ہیں اگر ان پر صبر نہ کرو گے تو دُنیا میں بھی پریشان رہو گے اور صبر نہ کرنے کی سزا میں آخرت میں بھی دکھ اور نقصان کا شکار ہو جاؤ گے ،
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
چھٹا سبق :::::::ادب اور خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آنا ، اور ،::::::: ساتواں سبق :::::::تکبر سے دُور رہنا :::::::
(((((وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ::: اور لوگوں کے سامنے اپنا چہرہ مت پھیرو اور نہ ہی زمین پر اکڑ کر چلو (یاد رکھو کہ ) بے شک اللہ کسی بھی شیخی بگھارنے والے کو پسند نہیں کرتا ))))) آیت 18،
صعر ایک بیماری کا نام جو اونٹ کے سر یا گردن میں ہوتی ہے تو اس کی گردن مڑ جاتی ہے اور چہرہ پِھر جاتا ہے اس بیماری کی کیفیت کو مثال بناتے ہوئے یہاں اس آیت میں لقُمان رحمہ اللہ نے اپنے بیٹے کو لوگوں کے ساتھ ادب اور خوش اخلقی سے پیش آنے کی تربیت دی اور سمجھایا کہ ایسا مت کرنا کہ لوگ تمہارے ساتھ بات کریں تو تم گردن اکڑا کر ان کی طرف سے منہ پھیر لو یا بات کو جواب تو دو لیکن ان کی طرف توجہ دیے بغیر ، اس کے بعد تکبر کی ایک اور عادت ، ایک اور کیفیت ، اکڑ اکڑ کر ، اِترا اِترا کر چلنے کا ذکر کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو یہ تعلیم دی کہ ایسا بھی مت کرنا ، کیونکہ ایسا کرنے والے اپنی حقیقت بھول کر خود کو دوسروں سے برتر سمجھتے ہیں اور اللہ نے انہیں جو کچھ دوسروں سے زیادہ دیا ہوتا ہے اسے اللہ کی نعمت سمجھنے کی بجائے اپنی کسی کوشش کا نتیجہ سمجھتے ہوئے ، یا اپنے بڑوں کی کسی کوشش کا نتیجہ سمجھتے ہوئے اس پر شیخی ظاہر کرتے ہیں ، اوراللہ تعالیٰ شیخی خوروں کو پسند نہیں کرتا ۔
حضرت لقمان کی زبانی بھی اللہ تعالی نے دو اہم نکات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
1۔ صلوٰۃ کا قیام ، (‌نماز کا قیام)
2۔ اعلی ترین قانون سازی اور اس کا نفاذ (‌برے کاموں سے روکنے اور نیک کاموں‌کی ہدایت) یہ دونوں‌ بہت ہی ہمت کے کام ہیں ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
::::::: آٹھواں سبق ::::::: میانہ روی کا سبق ، اور ،
::::::: نواں سبق ::::::: کسی طرف چلنے سے پہلے کوئی ہدف مقرر کرنے ، یعنی منصوبہ بندی ( پلاننگ) کا سبق ، اور ، ::::::: دسواں سبق ::::::: گدھوں کی طرح چیخ چیخ کر بات نہ کرنے کا سبق ،
((((( وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ ::: اور اپنی چلنے کا کوئی ہدف مقرر کرکے اپنی چال میانہ روی والی رکھو اور اپنی آواز کو نیچا رکھو کہ بے شک اللہ کے ہاں سب سے زیادہ نا پسندیدہ آوزوں میں یقیناً گدھوں کی آواز ہے ))))) آية 19،
::::::: خلاصہ کلام ::::::: اس سورت مُبارکہ میں لُقمان رحمہ اللہ کی یہ نصیحت والدین اور بالخصوص والد کے لیے اولاد کو تعلیم و تربیت دینے کا اسلوب مقرر کرنے والی ہے ، کہ ،
::::::: والد اپنی اولاد کو محبت اور نرمی کے ساتھ اللہ کے احکام کے مطابق اللہ کی مقرر کردہ حدود میں رہتے اور رکھتے ہوئے اللہ کی توحید کا سبق دے ،
::::::: شرک کی غلاظت اور نقصانات ظاہر کرے اور اس سے بچنے کی تربیت دے ،
::::::: خود بھی یاد رکھے اور اپنی اولاد کو بھی تعلیم و تربیت دے کہ اپنے والدین کی اندھی اطاعت کی اجازت نہیں ، اگر وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کا حکم دیں ، یا اللہ کی کسی نافرمانی کا حکم دیں تو ان کی بات نہیں مانی جائے گی ،
::::::: اللہ کی صفات میں اس کی توحید سکھائے ،
::::::: اللہ کے مکمل بے نقص عِلم کی پہچان کروائے ،
::::::: اللہ کی مکمل طاقتور ترین قدرت کی پہچان کروائے ،
::::::: صبر کی تعلیم دے ،
::::::: دُنیا کی حقیقت سمجھائے ،
::::::: آخرت کی فِکر اجاگر کرے ،
::::::: تکبر سے باز رہنے کی تربیت دے ،
::::::: خوش اخلاقی کی تعلیم دے ،
::::::: زندگی میں اپنی چال و رفتار کو با مقصد اور میانہ رو بنانے کی تربیت دے ،
::::::: جانوروں جیسی عادات اور خصلتوں سے دور رہنے کی تربیت دے ،
ان سب امور کی تاکید فرماتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سورت کا اختتام اپنے ان اِرشادت مبارکہ پر فرمایا ((((( يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَّا يَجْزِي وَالِدٌ عَن وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَن وَالِدِهِ شَيْئًا إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ ::: اے لوگو اپنے رب (کی نافرمانی ، ناراضگی اور عذاب ) سے بچو اور اس دِن سے ڈرو جس دِن باپ اپنی اولاد کے بدلے کام نہ آسکے گا اور نہ ہی اولاد اپنے باپ سے کوئی (تکلیف یا عذاب وغیرہ) دور کر سکے گی بے شک اللہ کا وعدہ حق ہے لہذا تُم لوگوں کو دُنیا کی زندگی کسی دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ تُم لوگوں کو اللہ کے بارے میں کوئی دھوکہ ہونے پائے O إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ::: بے شک (صرف ) اللہ ہی کے پاس قیامت (واقع ہونےکے وقت اور اس میں ہونے والے فیصلوں اور مکمل احوال ) کا عِلم ہے اور (بے شک صِرف) اللہ ہی بارش نازل فرماتا ہے ، اور ( بے شک صِرف ) اللہ ہی جانتا ہے کہ بچہ دانی میں کیا ہے ، اور کوئی جان یہ نہیں جانتی کہ کل وہ کیا کمائے گی اور کوئی جان یہ نہیں جانتی کہ وہ کونسی جگہ مرے گی ، بے شک اللہ بہت ہی عِلم رکھنے والا اور بہت ہی خبر رکھنے والا ہے ))))) آیات 33-34 ۔
یہ وہ اہم اور بنیادی عقائد اور کام ہیں جن کی تعلیم اور تربیت دینا والدین اور بالخصوص والد پر واجب ہے ، لہذا والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کی تربیت کرنے میں اس قرانی اسلوب کو مقدم رکھیں اور اپنی اولاد کی شخصیت کی بنیاد اللہ کی ذات اور صفات کی توحید کی پہچان اس پر ایمان اور اللہ کی تابع فرمانی پر قائم کریں ، اللہ تبارک و تعالیٰ ہر مسلمان کو ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اسلام میں بچے کا مقام و مرتبہ اور اس کے حقوق
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ کامیاب معاملات کی حقیقت سے بخوبی آشنا تھے،آپ کا اسلوب تربیت‘ علم، تجربہ،کشادہ دلی، صبر اور برداشت پر مشتمل تھا، بچپن کے مرحلے کی اہمیت کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے ساتھ ایسا تربیتی اور تعلیمی اسلوب اختیار کیا، جس کے نتیجے میں کامیاب شخصیات، بے نظیر قائدین، اور نابغہ روزگار افراد پیدا ہوئے۔
فطری اعتبار سے بچے ہر وقت اس شخص سے محبت کرتے ہیں ، جو ان کے ساتھ محبت و سادگی سے پیش آئے، اور ان کے ساتھ اس طرح رہے گویا کہ وہ خود بھی بچہ ہی ہے۔بچے ایسے شخص سے نفرت کرتے ہیں جو غصہ والا،ترش رو اور بے صبرا ہو۔ بچے محترم اورسنجیدہ انسان کو پسند کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کی طبیعت سے بخوبی واقف تھے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ ویسا ہی معاملہ فرماتے تھے جیسی ان کی پسند ہوتی تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم انکے ساتھ اپنی سادگی،ان سے مذاق، دل لگی اور ان کی شفقت کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق اوران کی شخصیت سنوارنے اورانہیں کامیاب انسان بنانے کی کوشش بھی کرتے تھے۔
ابوہریرہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں: ”ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ عشاءکی نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ نے سجدہ فرمایا تو حسنؓ اور حسینؓ آپ کے پیٹ مبارک پر چڑھ گئے، جب آپ نے اپنے سر کو اٹھایا توان دونوں کو آہستہ سے پیچھے سے پکڑا اور محبت سے اتار دیا، جب آپ نے نماز ختم فرمائی تو ان دونوں کو اپنی گود میں لے لیا “۔ (ح)
بچہ، واجبات، حقوق، اصول ومبادی اور اخلاق ومعانی کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے، یہ باتیں اسے اس کی زندگی کے کئی سالوں میں قدم قدم پر حاصل ہوتی ہیں، وہ شخص غلطی پر ہے جو بچوں کے ساتھ بڑوں جیسا سلوک کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ بچہ اصول وضوابط کو جانے، لیکن بہت سے لوگوں کو بچوں کے ساتھ اسی طرح کا براسلوک کرتے ہوئے دیکھا گیا، ایسے لوگوں کا بچوں سے مطالبہ ہے کہ وہ پرسکون، وقار وچین کے ساتھ اور خاموش رہیں، حالانکہ ان باتوں پر بچے عمل نہیں کرسکتے۔
ام خالد جو خالد بن سعید کی بیٹی تھیں‘ وہ کہتی تھیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے باپ کے ساتھ آئی، میں ایک زرد قمیض پہنی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو دیکھ کر فر مایا: واہ واہ کیا کہنا ”سنہ سنہ” یہ حبشی زبان کا لفظ ہے ام خالد کہتی ہیں: (میں کم سن بچی تو تھی ہی )میں جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر مہر نبوّت سے کھیلنے لگی میرے باپ نے مجھ کو جھڑکایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: اس کو کھیلنے دے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو یوں دعا دی:’ یہ کپڑ ا پرا نا کر پھاڑ، پرانا کر پھاڑ‘ تین بار یہی فر مایا۔ عبد اللہ کہتے ہیں وہ کرتہ تبرک کے طور پر رکھارہا یہاں تک کہ کالا پڑگیا۔( رواہ البخاری 3071)
یہ ایک عبرت آموز واقعہ ہے کہ ایک باپ اپنی بیٹی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتا ہے، جسے یہ بھی پتہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے بہت محبت فرماتے اور آپ بچوں سے ملنے میں اکتاتے نہیں ہیں بلکہ خوشی محسوس کرتے ہیں، اور باپ کے سامنے بچی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جرات کرتی ہے اور آپ کے پشت مبارک سے لٹکتی اور کھیلتی ہے اور آپ ہنستے ہیں اور اسے اپنے ساتھ کھیلنے کے لیے بلاتے ہیں۔
کبھی ایسا بھی ہوا کہ چھوٹے بچے کو آپ نے گود میں لیا، اور اس نے آپ کے کپڑوں پر پیشاب کردیا، تو آپ نے پانی منگوایا اور اپنے کپڑوں پر چھڑک دیا، دھویا نہیں، آپ کی بچوں کے ساتھ کثرت محبت اور انہیں لینے کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں اور آپ کے حجروں میں چھوٹے بچوں کے پیشاب کرنے کے کثرت سے واقعات ہوئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف لڑکوں کو ہی اپنی گود میں نہیں اٹھایا بلکہ لڑکیوں کو بھی آپ پیار سے گودمیں لیتے تھے۔
ابوموسی اشعری ص فرماتے ہیں: ”مجھے بیٹا ہوا، میں اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ابراہیم رکھا، پھر کھجورچباکراسے چٹایا اور اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی“۔(متفق علیہ)
یعلی بن مرہؓ کہتے ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانے پر نکلا، تو حسین بن علیؓ راستے میں کھیل رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان سے جلدی آگے بڑھے، پھر اپنے ہاتھوں کو بڑھایا، تاکہ حسینؓ کو لیں، لیکن حسینؓ ادھر ادھر بھاگنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا پیچھا کرتے اور انہیں ہنساتے، آپ نے اسامہ بن زیدؓ اور حسن بن علیؓ کو لیا اور اپنی گود میں دونوں کو بٹھایا، پھر ان کو گلے سے لگاتے ہوئے ارشاد فرمایا :”اے اللہ ان دونوں پر رحم فرما کیونکہ میں ان پر شفقت کرتا ہوں“۔(بخاری ۳۰۰۶)
اور ایک حدیث میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور آپ کے کاندھوں پر امامہ بنت ابوالعاص تھیں، پھر آپ نے نماز پڑھی، جب رکوع کیا تو امامہؓ کو نیچے اتاردیا، پھر جب رکوع سے اٹھے تو امامہؓ کو اٹھالیا۔(بخاری ومسلم)
محمود بن ربیع ؓکہتے ہیں: ”مجھے ابھی تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کلی یاد ہے جو آپ نے ایک ڈول سے لے کر میرے منہ پر کی تھی اس وقت میں پانچ سال کا تھا۔“
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے دوران کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو اپنی نماز کو ہلکی کردیتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے: ”میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ نماز کو طویل کروں، (لیکن جب) بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز کو مختصر کردیتا ہوں، اس کراہت سے کہ بچے کی ماں کو مشقت میں نہ ڈالوں۔“ (بخاری )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ لطیفانہ معاملات میں ان کے درمیان اپنے احترام کو باقی رکھتے ہوئے انہیں آسان اور ٹھوس وسائل کے ذریعے افضل ترین مفاہیم کو سمجھادیا کرتے تھے، آپ بچوں کے ساتھ سختی سے پیش نہیں آتے تھے، نبوی دور کا ایک بچہ عبداللہ بن عامر نبی کریم کے اس موقف کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: میری والدہ نے مجھے ایک دن بلایا،اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے، وہ کہنے لگی: آو میں تمہیں کچھ دیتی ہوں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری والدہ سے کہا: تم انہیں کیا دو گی؟ فرمانے لگی: میں انہیں کھجور دینا چاہتی ہوں، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم انہیں کوئی چیز نہ دیتی تو تم پر ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا۔ ( رواہ ابو داود (4991)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ واقعہ میں جھوٹ بول کر بچوں کے احساسات سے کھیلنے سے خبردار فرمایا۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو دیکھتے تو ان کے ساتھ نرمی سے پیش آتے اور ڈانٹ دپٹ نہیں فرماتھے۔ عمر بن ابو سلمہؓ کہتے ہیں: ”میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں ایک بچہ تھا، اور میرے ہاتھ برتن میں بے جگہ پڑتے تھے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: اے بچے: اللہ کا نام لو اور اپنے سیدھے ہاتھ سے کھاو اور اپنے سامنے سے کھاو ۔“ (متفق علیہ )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اخلاق کریمانہ اور پاکیزہ تعلیمات کے ذریعہ بچوں کے اندر بچپن ہی سے رجولت اوربہادری کے مفاہیم پیداکرنے کی کوشش کی ،آپ ا مختلف اسلوب میںبچوں کو اعلی معانی ومفاہیم کے تدریجی گھونٹ پلاتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی بعض بچوں کو جیسے عبداللہ بن عباسؓ اور عبداللہ بن عمرؓ کو اپنی مجلس میں اپنے صحابہ کے ساتھ بٹھاتے تھے تاکہ وہ سیکھیں اور ان میں پختگی آئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے احترام اور ان کی قدر کے سلسلے میں اس قدر اہتمام فرماتے تھے کہ کبھی بڑوں کی مجلس میں بچے شامل ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑوں کے مقابلے بچوں کو ترجیح دیتے: حضرت سہل بن سعد الساعدیؓ کہتے ہیں: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے طرف ایک لڑکا تھا (ابن عباس) اور بائیں طرف سن رسیدہ لوگ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے سے پوچھا: میاں ! تم اس کی اجازت دیتے ہو کہ پہلے میں یہ پیالہ بوڑھوں کو دوں؟ اس نے کہا: وَاللّٰہِ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! لاَ اُوثِرُ بِنَصِیبِی مِنکَ اَحَدًا اللہ کی قسم یارسول اللہ! میں آپ کی طرف سے ملے ہوئے اپنے حصے پر کسی اور کو ترجیح نہیں دے سکتا ۔ آخرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ اسی کے ہاتھ میں دے دیا۔“(متفق علیہ )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ساتھ دو امر کا خیال رکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے حق کاخیال رکھا اور اس سے اجازت طلب کی، نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑوں کے حق کا بھی خیال رکھا اور بچے سے مطالبہ فرمایا کہ وہ بڑوں کے لیے اپنے حق سے بری ہوجائے، جب بچہ اپنے موقف پر ڈٹا رہا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو نہ ڈانٹا اور نہ اس کے ساتھ سختی فرمائی بلکہ اسے اس کا حق دے دیا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بچے کی اہمیت قبل از ولادت
اسلام دنیا کا وہ واحددین ہے جو بچوں کی جانب اس کی پیدائش کے بعد ہی توجہ نہیں دیتا بلکہ اس سے بہت پہلے جب وہ کسی سانچے میں ڈھلے نہیں ہوتے اس وقت اسلام ہر مرد اور عورت کو یہ تاکید کرتا ہے کہ اسے اپنے لیے شریک حیات کے انتخاب میں دین داری کو سرفہرست رکھنا چاہیے اور اس حوالے سے "فاظفر بذات الدین" اور "اذا جاء کم من ترضون دینہ و خلقہ فزوجوہ" مشعل راہ بن جاتے ہیں کہ صالح شریک حیات صالح اولاد کے حصول کا بنیادی سبب ہے ۔
یہاں ایک بات اور اہمیت کی حامل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
اغتربوا لا تضووا (ح) اجنبی لوگوں میں شادی کرو اور اپنی اولاد کو کمزور نہ بناؤ۔ اس کی واضح توجیہہ قرآن مجید نے "نطفۃ امشاج" یعنی مخلوط نطفہ کے ذریعے دی ۔یعنی وہ بچہ جو ایسے اولاد کے یہاں پیدا ہوا ہو جن کا آپس میں کوئی خونی رشتہ نہ ہو وہ ذہنی طور پر نہایت صحت مند ، اور جسمانی اعتبار سے مضبوط ہو گا۔
یعنی اسلام میں بچے کی اہمیت قبل از ولادت اس حوالے سے معلوم کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ ذہنی اور جسمانی مضبوطی کے ساتھ ساتھ اسلام نے تربیت صالح کو بھی مقدم جانا ہے تو یہ اسلام ہے جو بچے کی ان فطری صفات کو اس طریقے سے بروئے کار لاتا ہے کہ وہ معاشرے میں باعزت اور مفید شہری کی حیثیت سے اپنے فرائض کو انجام دے سکے اور تمام برائیوں سے محفوظ رہے۔
اسلام صحت مند ذہنی نشوونما کا متمنی ہوتا ہے اسی لیے وہ بچے کی پیدائش سے قبل ہی بچے کے مستقبل کا منصوبہ بناتا ہے اور اس کی بنیاد ایک ایسا خاندان ہے جس کی بنیاد رحمت اور مودت پر رکھی گئی ہو کیونکہ تشکیل خاندان میں نکاح ایک ابتدائی عنصر اور مرحلہ ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
والدین کی محبت اطفال
بچہ چونکہ والدین کے باہمی مستحکم تعلقات کا ایک فطری نتیجہ ہوا کرتا ہے ۔ابویت اور ممتائیت دو ایسے خوبصورت رشتے ہیں جن میں اللہ تعالی رحمدلی اور محبت رکھ دی ہے ۔اور یہ محبت فطری کیفیت میں ہوتی ہے
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (٢١ الروم)
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبّت اور رحمت پیدا کر دی یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہے اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں
بعض مفسرین مذکورہ پیار اور محبت کو بچوں کی جانب اشارہ قرار دیتے ہیں جو والدین کے مابین رفاقت کو زیادہ مضبوط کرتے ہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ یہ محبت درحقیقت ایک ایسی روشنی ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے ودیعت کردہ ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید اور تمام احادیث میں بچوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں اور ان کی دیکھ بھال کریں نہ کہ والدین کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگہداشت و دیکھ بھال کریں

وَوَصَّيْنَا الإنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ (١٤)
اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے اُس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اُس کا دودھ چھوٹنے میں لگے اِسی لیے ہم نے اُس کو نصیحت کی کہ میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔
المختصر اللہ تعالی نے اولاد کے ساتھ محبت کو انسانی فطرت و جبلت کا ایک حصہ بنایا ہے اسی وجہ سے تمام تر ہدایات و احکامات بچوں کو ہی دیے گئے ہیں کہ وہ والدین کے ساتھ نیک اور عمدہ سلوک کریں کہ یہی والدین کی فطری محبت کا بہترین جواب ہو سکتا ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اولاد کے مابین مساوی حقوق
اسلام نے معاشرتی و عائلی زندگی میں انتہائی باریک بینی سے تمام طبقات کے حقوق کا مکمل خیال رکھا ہے اس میں اولاد کے مابین مساوی سلوک کی بہت زیادہ تاکید کی ہے ۔اسلام نے اس رجحان کی شدت سے نفی کی ہے کہ ایک بچے کو دوسرے بچوں کے مقابلے میں زیادہ پیار کیا جائے یا جنس بیٹوں کو بیٹیوں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دی جائے ۔ اسلام لڑکے اور لڑکیوں میں کوئی فرق نہیں رکھتا دونوں کا درجہ مساوی ہے جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ (١٩٥ آل عمران)
جواب میں ان کے رب نے فرمایامیں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔
اس اصول سے انحراف گویا مساوات ، اور انصاف سے انحراف ہے کیونکہ اولاد کے مابین تفریق کے یہ رجحانات برقرار رہتے ہیں تو اس کا نتیجا لازمی طور پر یہ نکلتا ہے کہ نفسیاتی ، افسردگی اور علیحدگی جیسے مسائل پیدا ہوں گے اور یہ تمام باتیں اعصابی تناؤ کا سبب بن جائیں گی ۔ اور تفریق پر مبنی یہ رویے اولاد کی ذہنی تربیت میں شدید خلا پیدا کرتا ہے جو مستقبل میں جرائم کے لیے اس کی راہ ہموار کرتے ہیں یا کم از کم برائیوں کی طرف بڑھنے سے روکنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اور معاشرے میں موجود تفریق کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقوال اور عمل کے ذریعے نفی کی بلکہ بیٹیوں کی توہین پر مبنی رویے کو ختم کرنے کے لیے آپ نے یہ ارشاد فرمایا: خیر اولادکم البنات (ح) تمہاری اولاد میں سب سے بہتر لڑکیاں ہیں۔ اور آپ کا اپنی بیٹیوں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ، سیدہ ام کلثوم و رقیہ رضی اللہ عنہما اور سید ہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ حسن سلوک اور محبت پر ایک سے زائد احادیث شاہد ہیں۔
والدین کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان کی اولاد ان کے لئے برابر ہے۔ اگر وہ اولاد کے معاملے میں عدل سے کام نہیں لیں گے تو اللہ تعالی کے ہاں ان کی بازپرس ہوگی۔ اولاد میں عدل کا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی پہلو سے کمزور بچے کی طرف زیادہ توجہ دی جائے۔ انسان فطری طور پر اچھے بچوں کو زیادہ محبت دیتا ہے۔ جب وہ شعوری طور پر کمزور بچے کی طرف زیادہ توجہ دے گا تو اس کے نتیجے میں اس کی محبت اور توجہ خود بخود بیلنس ہو جائے گی۔
جسمانی اعتبار سے معذور بچے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ والدین کو ان پر خاص توجہ دینی چاہیے۔ ان کے لئے خصوصی کھیلوں اور خصوصی تعلیم کا انتظام کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔اولاد کے بالغ ہونے کے بعد والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی تعلیم و تربیت، شادیوں اور کاروبار پر رقم اس انداز میں خرچ کریں کہ اولاد کو یہ احساس نہ ہو کہ والد نے مجھے کم اور بھائی یا بہن کو زیادہ دے دیا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اسلام میں بچوں کی پرورش کے مراحل
ٍجیسا کہ بیان کیا گیا کہ اسلام میں تربیت کے عمل کا آغاز بچے کی پیدائش کے بعد نہیں بلکہ اس سے بہت پہلے نکاح کے لیے ایک مرد اور عورت کا ایک دوسرے کے لیے انتخاب صالح کا پس منظر اسی تربیت کا حامل ہے لہذا تربیت اولاد میں سب سے اہم ترین کردار ماں کا ہوتا ہے کہ بچا دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلے جس لمس سے مانوس ہوتا ہے وہ ماں کا ہوتا ہے جس میں ممتائیت سے بھرپور شفقت موجود ہوتی ہے جسے کسی زبان بیان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تربیت کے اس مرحلے میں ماں دو مراحل میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے یعنی مدت حمل اور مدت رضاعت۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مدت حمل
عورت کے لئے بچےکی پیدائش سے پہلے کازمانہ ایک سخت تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔ وہ مختلف ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی تبدیلیوں سے گزرتی ہے۔ بچے کا تعلق ابتدائی دنوں سے ہی ماں کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔ وہ ننھا سیا خلیہ (Cell) محض ایک جرثومہ نہیں، بلکہ ایک مکمل شخصیت کا نقطہ آغاز ہوتا ہے، اور وہ اپنی ماں سے خاص نسبت رکھتا ہے۔ تخلیق کا عمل اللہ کا ایک کھلا کرشمہ ہے۔ ایک معمولی خلیے کا چھ سے دس پونڈ کے انسان میں تبدیل ہو جانا بلاشبہ ایک حیرت انگیز عمل ہے۔
تخلیق کے عمل سے گزرنے والی خاتون پر اللہ تعالی کی شکر گزاری لازم آتی ہے کہ خالق کائنات نے اشرف المخلوقات کی تخلیق کے لئے اسے منتخب کیا ہے۔ حاملہ خاتون کو حسن نیت، اور خوش اسلوبی کے ساتھ اس فریضہ کو انجام دینا چاہیے۔ ایک سچی مسلمان عورت یہ زمانہ مصیبت سمجھ کر نہ گزارے، بلکہ ان تکالیف کو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے۔ اس زمانے میں وہ اللہ تعالی کی خصوصی نظر رحمت میں ہوتی ہے۔ اس شفیق ذات نے اس کے روزمرہ فرائض کو اجر کے حساب سے نفع بخش ہونے کا وعدہ فرمایا ہے۔ ایک حاملہ عورت کی نماز عام عورت کی نماز سے افضل ہے۔ حاملہ عورت اگر رب کریم کی فرماں بردار ہے اور اس کی لو اپنے رب سے لگی ہوئی ہے تو سارے زمانہ حمل میں اس کو رات اور دن میں بے پناہ ثواب ملتا ہے۔
باپ کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کو پاکیزہ اور صالح کردار پر اٹھانے کے لئے گھر میں ایسی کمائی لائے جو حلال اور طیب ہو۔ اپنی اولاد کو اگر حرام کمائی سے سینچا گیا تو اس کے کردار و اعمال میں شرافت کی سی تابندگی کا پایا جانا ناممکن ہے ۔
ہمہ وقت اللہ کا ذکر، نماز کی پابندی، باوضو رہنا، پاکیزہ گفتار ہونا، جسمانی، روحانی اور ذہنی سکون کا باعث ہوتا ہے۔ ہر وہ غذا جو حاملہ عورت کھاتی ہے، اس میں اس ننھی سی جان کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے۔ اس زمانے میں اگر جسمانی غذا معمول سے زیادہ درکار ہوتی ہے تو روحانی غذا کا تناسب بھی تو پہلے سے زیادہ چاہیے۔
ماہرین نفسیات سفارش کرتے ہیں کہ والدین اپنے آئندہ بچے کو جیسا کچھ بنانا چاہتے ہیں، ماں کو اسی کی طرف یکسو رہنا چاہیے۔ جن لائن پر لگانا چاہتے ہیں، جس مضمون یا فن کا ماہر بنانا چاہتے ہیں، ماں کو بھرپور اسی کی توجہ دینی چاہیے اور ویسے ہی ماحول میں رہنا چاہیے۔
ایک مسلمان ماں اپنے بچے کو “مثالی مسلمان” بنانا چاہتی ہے تو اسے ان تمام امور کا خیال رکھنا ہو گا ۔ آج بھی ایسی مثال مل سکتی ہے کہ جب ماں نے مدت حمل میں ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت سنی، خود بھی ورد زبان بنایا اور ایک ہی قاری کی زبان، لب و لہجہ میں کثرت سے قرآن سنا تو اس کا اثر یہ ہوا کہ نومولود قرآن کی تلاوت کو حیرت انگیز دلچسپی سے سنتا اور جب قرآن سیکھنے کی عمر ہوئی تو حیرت انگیز طور پر بہت جلد سیکھ گیا۔
ایک ذمہ دار اور حساس مسلمان ماں وہ ہے، جو زمانہ حمل میں متقی خواتین کی صحبت سے فیض یاب ہو، قرآن و حدیث کا بکثرت مطالعہ کرے،قرآن پر غور و فکر کرے اور درس و تدریس میں وقت گزارے۔ اپنی دیگر ذمہ داریوں کو بھی اللہ تعالی کی رضا کے لئے انجام دے۔ یہ آزمائی ہوئی بات ہے کہ مستقل بنیادوں پر منعقدہ قرآنی کلاسوں میں شامل ہونے والی خواتین نے اس بچے کی عادات میں نمایاں تبدیلی محسوس کی، جو قرآنی کلاسوں میں شریک ہونے کے زمانے میں رحم میں پرورش پا رہے تھے۔
ماں بننے والی خاتون کو شعوری کوشش کے ساتھ صبر و قناعت اور قوت برداشت کا اجاگر کرنا چاہیے۔ وہ بنیادی اخلاقی عیب جو انسانی زندگی کو بدصورت بناتے ہیں اور انسانیت کی توہین ہیں مثلاً بغض، کینہ، حسد، تکبر اور جھوٹ سے بچنے کی کوشش کرے۔ بے جا، لایعنی اور غیر ضروری بحث سے گریز کرے۔ ذکر و تسبیح کو اپنا معمول بنائے۔ یقیناً اس کی عبادت، ذکر، روزہ و دیگر حقوق و فرائض کی ادائیگی میں ایک معصوم روح بھی شریک ہوتی ہے اور وہ اللہ کے حضور اپنی ماں کے ہر نیک عمل کی گواہ بھی ہو گی۔
جسمانی غذا کے ساتھ روحانی غذا بھی اعلی اور زیادہ مقدار میں ہونی چاہیے۔ روشن کردار، اعلی ذہنی و فکری استعداد کی مالک ماں ہی اپنے بچے کے روشن مستقبل کی فکر کر سکتی ہے۔ کم ظرف، جھگڑالو، حاسد، احساس برتری یا کمتری کی ماری، ناشکری اور بے صبری عورت، اعلی کردار کا سپوت قوم و ملت کو کیسے دے سکتی ہے۔
جسمانی صحت و صفائی کے ساتھ ساتھ ماں کو روحانی صحت و صفائی کا خیال رکھنا لازمی امر ہے۔ باوضو رہنا، ہر کھانے سے پہلے وضو کر لینا، ہر لقمے کے ساتھ بسم اللہ پڑھنا اور اپنے ہونے والے بچے کا دھیان بھی اس غذا کے ساتھ رکھنا کہ وہ اس غذا میں حصہ دار ہے۔ اسی طرح عورت اپنے ہر چھوٹے، بڑے کام میں زیر تخلیق معصوم ہستی کو شامل رکھے تو اس کی اپنی روحانی تربیت میں بے حد اضافہ ہو گا۔ گویا ماں بننے کے مراحل میں عورت خود اپنے لئے ایک ایسا ادارہ بن جاتی ہے، جس میں ہر لمحہ اس کو ایک بات سیکھنے اور سکھانے میں مدد ملتی ہے اور اللہ تعالی کی نظر رحمت میں رہتی ہے۔۔۔۔
اللہ تعالی سے محبت کرنے والی، روشن ضمیر، اللہ پر توکل کرنے والی خاتون روحانی طور پر مضبوط اور پرعزم ہوگی۔ اس زمانے میں عورت کے گھر کا ماحول اور خصوصا شوہر کا رویہ اور انداز فکر بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس غیر معمولی صورت حال میں شوہر کی بھی ذمہ داریاں غیر معمولی طور پر بڑھ جاتی ہیں۔ اس لئے خاتون کی ذہنی، جسمانی، روحانی طمانیت کے لئے شوہر کو بھرپور طریقہ سے اپنا کردار انجام دینا چاہیے۔ یہ شوہر کا فرض عین ہے جس کی اس سے باز پرس ہو گی۔ دیگر رشتہ دار اور شوہر ایک نئی ہستی کو دنیا میں لانے کے لئے عورت کو جتنی آسانیاں، آرام، ذہنی و جسمانی سکون مہیا کریں گے تو وہ بھی لازماً اس کا صلہ اللہ تعالی کے ہاں پائیں گے۔ دیکھا گیا ہے کہ تخلیق کے مراحل میں پورے نو ماہ جس خاتون کے شوہر نے بیوی کے آرام و سکون کے لئے خاطر خواہ انتظامات کئے، اپنی نفسانی اور عمومی خواہشوں کی تکمیل کے لئے قربانی اور ایثار کا راستہ اختیار کیا، ان کے بچے صحت مند، خوبصورت، ذہین اور پراعتماد نکلے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مدت رضاعت
پیدائش کے فوراً بعد ہر جاندار مخلوق کا نومولود اپنی ماں کی طرف کشش رکھتا ہے، چاہے اس کا انڈوں سے ظہور ہو یا رحم مادر سے۔ دودھ پلانے والے جانداروں میں مشاہدات کرنے والے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بچہ اپنی ماں کو اور ماں اپنے بچے کو، ایک دوسرے کی بو سے پہچانتے ہیں
قدرت نے نوزائیدہ شیر خوار بچے کی ساری کائنات ماں کی گود اور ماں کے دودھ سے وابستہ کر دی ہے۔ بچے کو شروع سے ہی ماں کا قرب نصیب ہونا چاہیے۔ آج کل بچے کو ہسپتالوں میں ماں سے دور نرسری میں رکھا جاتا ہے جس سے ماں اور بچہ ایک دوسرے کی مخصوص بو اور تعلق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالی نے ماں کو دو سال تک دودھ پلانے کی ہدایت کی ہے۔ یہی دو سال کا عرصہ بچے میں تعلیم حاصل کرنے کی قوت اور ذہنی دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت کو بڑھا سکتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے ماں اپنا دودھ نہ پلا رہی ہو تو فیڈر سے دودھ پلانے کے لئے بھی ماں اپنے بچے کو گود میں لے کر سینے سے لگا کر پلائے۔ اللہ تعالی نے دودھ پلانے والی ماں کو خصوصی اجر سے نوازا ہے۔
ہمارے لئے قابل تقلید بزرگوں کی مائیں اپنے بچوں کو باوضو ہو کر دودھ پلاتی تھیں۔ ساتھ ساتھ کانوں میں کوئی بہترین پیغام اور آیات الہی، لوری کی صورت میں سناتی تھیں۔بعض لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ نوزائیدہ بچے کو چالیس دن کے اندر اندر قرآن پاک کی تلاوت سنا دی جائے تو اس کے بہت سے مثبت اثرات سامنے آتے ہیں۔بچہ بولنے کی کوشش کرنے لگے تو سب سے پہلے "اللہ" کا نام سکھایا جائے۔ اذان کی آواز پر متوجہ کیا جائے۔ کلمہ طیبہ، بسم اللہ، الحمد للہ، السلام علیکم جیسے بابرکت کلمات سے بچے کی زبان کو تر کیا جائے۔
پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ: "صرف موروثی اثرات ہی مزاج بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔" مگر اب سائنس دان یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ "بچپن کا ماحول بھی بچہ کے مزاج کو ڈھالنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔" اور عصبیاتی تحقیقات (Neurological Studies) کی روشنی میں ثابت کیاہوا ہے کہ: "نوزائیدہ بچے کے دماغ کے خلیات میں سائنافسز (Synapses) شروع کے چند ماہ میں بیس گنا بڑھ جاتا ہے اور دو سال کی عمر کے ایک بچے میں ایک بڑے آدمی کے مقابلے میں یہ سائنافسز دگنے ہو جاتے ہیں۔
بچے کا والدین سے تعلق، اس کے دماغ کے ان حصوں کی بناوٹ پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر شروع کے دو تین سال بچے کو والدین، خصوصاً ماں کی بھرپور توجہ، شفقت نہ ملے اور خصوصی باہمی تعلق پیدا نہ ہو تو ساری زندگی غیر معمولی جارحانہ پن، منفی انداز فکر، ذہنی پراگندگی پیدا ہو سکتی ہے۔ ماں اور بچے کے درمیان ہر عمر میں قربت قائم رہنی چاہیے۔
بچہ چند دن کا ہو، چند سال کا یا جوان، حتی کہ جوانی کی حد سے نکل جانے والے "بچے" بھی ماؤں کی گود میں سر رکھ کر سکون محسوس کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے ماں کی قربت میں ایک انمول کشش رکھ دی ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ جو مائیں اپنی سستی، کوتاہی یا کسی مجبوری کی بنا پر ہی سہی، اپنے بچوں کے ساتھ ایسا تعلق پیدا نہیں کر سکتیں، ان کے بچے ساری عمر ماں کی محبت میں کمی اور تشنگی کو محسوس کرتے رہتے ہیں۔مثبت اور خوشگوار مشاہدات، جذبات و احساسات کا حامل بچہ اپنے لاشعور سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اس میں قوت اعتماد، قوت فیصلہ اور سمجھ بوجھ زیادہ پائی جاتی ہے۔
دماغ کے ماڈل کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ دماغ کے پہلے حصے (Primitive) شروع کے تین سال کی عمر میں مکمل ہو جاتے ہیں۔نو سے گیارہ سال کی عمر میں دماغ میں تبدیلی آتی ہے۔ دماغ کوئی پتھر کا ٹکڑا نہیں ہے، بلکہ اس میں مستقل تبدیلی آتی رہتی ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت، ماحول، جذبات و احساسات، تجربات و مشاہدات اس کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ دماغ کے پہلے سے بہتر مطالبات ہوتے ہیں۔ گویا انسانی مشینری ہمہ وقت اور بھرپور توجہ کی متقاضی ہے۔ یہ کوئی جامد چیز نہیں ہے کہ بس ایک لگے بندھے طریقے سے چلتی رہے گی۔
دنیا میں آنکھ کھولنے کے بعد بچے کو اچھا انسان اور بہترین مسلمان بننے کے لئے، بہترین ماحول چاہیے۔ شخصیت کی صحت مندانہ نشوونما کے لئے ایک صحت مند تصور ذات اسے والدین اور اہل خانہ ہی فراہم کر سکتے ہیں۔ اگر والدین بچے کی عزت نفس اور اس کی شخصیت کی نفی کا رویہ اختیار کریں گے، تو اس کے ذہن میں یہی نقوش ثبت ہو جائیں گے اور وہ کبھی اپنے والدین یا اہل خانہ کے بارے میں مثبت انداز فکر نہیں اپنا سکے گا، الا یہ کہ اس کی ذہنی نشوونما کے ساتھ ساتھ اس کے بارے میں اس منفی رویہ کو خود بدل لیا جائے۔
بہرحال جو اثرات ایک مرتبہ قائم ہو جائیں وہ ختم تو نہیں ہوتے، البتہ بعد کے حالات اس میں تبدیلی ضرور لا سکتے ہیں۔ اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ ایک پانی کا چشمہ اپنے فطری بہاؤ کے ساتھ فطری راستے پر بہہ رہا ہو۔ اگر اس راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کر دی جائے تو پانی فطری راستے کی بجائے مختلف اطراف میں بہنا شروع کر دے گا۔
بچے کے ذہن میں مثبت طرز فکر پہنچاتے رہنا چاہیے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹا سا بچہ شاید ہماری بات نہیں سمجھ رہا مگر وہ اس کے ذہن میں ریکارڈ ہوتی جاتی ہے اور جب، جہاں جس طرح وہ بات کارآمد ہو، ذہن وہاں منتقل کر دیتا ہے۔
بعد از ولادت بچے کے لیے ضروری ہے کہ اسے دنیا میں آمد کے بعد تقریبا وہی غذا ملے جسے وہ اپنی ماں کے رحم میں اس کے خون سے حاصل کرتا رہا ہے اور یہ کائناتی سچائی ہے کہ یہی غذا ماں کے دودھ میں منتقل ہو جاتی ہے جس میں تمام اہم اور ضروری اجزا شامل ہوتے ہیں جن پر اس کی نشوونما کا انحصار ہے ۔ یہاں یہ بات سب سے زیادہ قابل ذکر اور اہم ہے کہ بچے کی زندگی کے پہلے تین دنوں کے دوران ماں کے سینے میں زردی مائل رقیق مائع حالت میں چھپا ہوتا ہے یہی رقیق غذا بچے کے ابتدائی دنوں میں اس کے لیے کافی ہوتا ہے اور یہی رقیق غذا بچے کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ غذا حاصل کرنے کے عمل کو شروع کر دے اور یہی چیز اس کی قوت ہاضمہ کو بھی بناتی ہے اور اسی رقیق چیز سے اس کے جسم میں قدرتی قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے اور اگر مناسب انداز میں بچے کو یہ ابتدائی خوراک مل جائے تو بچہ بیماریوںمیں اتنی جلدی مبتلا نہیں ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے دودھ پلانے کے عمل کی اہمیت پر خاصا زور دیا ہے ۔ اور یہ وہ عمل ہے جس سے ماں اور بچے کے مابین حددرجہ ذہنی و جذباتی وابستگی پیدا ہوجاتی ہے جو بچے میں قوت اعتماد پیدا کرتی ہے۔ جب یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ مان کا دودھ بچے کی صحت ،عادات و اطوار اور مستقبل کی زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے تو اس حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان بہت بڑی سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے:

توقوا اولادکم من لبن البغی والمجنونۃ فان اللبن یعدی (ح)
اپنی اولاد کو زانیہ ، غیر صالحہ عورت اور پاگل عورت کے دودھ پلانے سے بچو کیونکہ اس کے دودھ سے بچے میں بری عادات پیدا ہو جاتی ہیں
ماں کا دودھ پینے والے بچوں نے ذہنی دباؤ کے ٹیسٹ میں بھی بہتر کارکردگی دکھائی۔ تحقیق کے مطابق بچوں کو دودھ پلانے کاعمل صرف بچوں کے لیے ہی نہیں ماں کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔اس سے ماں کو چھاتی کا سرطان ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں، ہر روز پانچ سو کیلوریز کم ہونے سے آسانی سے وزن کم ہوتا ہے اور دودھ کا خرچ بچتا ہے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماں کا دودھ ماں اور بچے کے درمیان بہتر تعلق کو فروغ دیتا ہے۔
 
Top