• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اَئمہ قراء ات کے لیل و نہار

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَئمہ قراء ات کے لیل و نہار

عبدالباسط منشاوی​
ائمہ عشرہ اور ان کے رواۃ کی طرف منسوب قراء ات اگرچہ ان کی نسبت سے خبر واحد ہیں لیکن دیگر بے شمار روایات سے تائید کی بناء پر اور علمائے قرآن میں ان کو تلقّی بالقبول حاصل ہو جانے سے ان کا رسول اللہﷺسے ثبوت بہرحال قطعی اور متواتر ہے۔
زیر ِنظر مضمون میں فاضل مؤلف نے دس مشہور آئمہ اور ان کے رواۃ میں سے ان بعض شخصیات کو موضوعِ بحث بنایا ہے جن پر بعض ائمہ جرح و تعدیل کی طرف سے طعن کیا گیا ہے۔ ان آئمہ کی قراء ات چونکہ ’تواتر طبقہ‘ سے ثابت ہیں چنانچہ انفرادی سطح پر اگر کسی شخصیت پر کوئی جرح ثابت ہو بھی جائے تو بھی اس امام کی طرف منسوب قراء ت پر اس کا کوئی اَثر مرتب نہیں ہوتا۔
فاضل مضمون نگار نے اگرچہ ان آئمہ قراء ات پر جرح کا بخوبی جائزہ قارئین کے سامنے رکھ دیا ہے لیکن اگر چند لمحات کیلئے اس جرح کو تسلیم کربھی لیا جائے تو بھی عرض ہے کہ وہ ذات کے بجائے ان کے حافظے پر طعن سے تعلق رکھتی ہے اور ضروری نہیں کہ ایک شخص جو ایک فن میں ضعیف الحفظ ہو تو دوسرے فن میں بھی وہ لازماً ضعیف الضبط ہوگا۔ اس نکتہ کی وضاحت قراء ات نمبر دوم کے صفحہ ۳۵۶ تا ۳۵۸ اور صفحہ ۵۳۱ پر تفصیلاً دیکھی جاسکتی ہے۔
یہاں ایک نکتہ مزید پیش خدمت ہے کہ اہل فن کے ہاں ’حافظے کی قوت‘ کے دو معیارات ضبط الصدر اور ضبط الکتاب ہیں۔ حدیث شریف کی تدوین چونکہ کافی بعد میں جاکر مکمل ہوئی ہے اس لیے وہاں راوی کے قوت حافظہ کے لیے ضبط الکتاب کی بحث عام ہے لیکن قرآنِ مجید روزِ اوّل سے مکتوب حالت میں نبی کریمﷺدنیا میں چھوڑ کر گئے۔ اس لیے یہاں صدری حافظہ کی کمزوری کے بالمقابل کتابی حافظہ تو ہر صورت میں پہلے سے ہی موجود ہے۔ اس لیے یہاں صدری حافظہ کی کمزوری ضرر رساں نہیں جبکہ قرآن مجید کتابی صورت میں اُمت کے پاس ہمیشہ سے موجود رہاہے۔ اس مرکزی نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض لوگ آئمہ قراء ات پر تنقید کا غلط شوق پورا کر رہے ہیں، حالانکہ ائمہ جرح و تعدیل نے بھی اگر ان آئمہ قراء ات پر حافظہ کے اعتبار سے کوئی طعن پیش کیا ہے تووہ علم الحدیث کی نسبت سے پیش کیا ہے، ورنہ تمام ائمہ جرح و تعدیل روایت ِقرآن کے ضمن میں ان ائمہ قراء ات کو ثقاہت کے اعلیٰ معیار پر تسلیم کرتے تھے، جیساکہ فاضل مضمون نگار نے اسے وضاحت سے بیان کیا ہے۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الحمد ﷲ علی نعمہ الظاھرۃ والباطنۃ قدیما وحدیثا، والصلوٰۃ والسلام علی محمد وآلہ وصحبہ الذین ساروا فی نصرۃ دینہٖ سیرا حثیثا وعلی أتباعھم الذین ورثوا العلم، والعلماء ورثۃ الأنبیاء أکرم بھم وارثا و موروثا۔ أما بعد !
(١) قال اﷲ سبحانہ و تعالیٰ:
’’ وَ أَن لَّیْسَ لِلْاِنْسٰنِ اِلاَّ مَا سَعیٰ، وَ أَنَّ سَعْیَہٗ سَوْفَ یُریٰ،ثُمَّ یُجْزٰہُ الْجَزَآئَ الْأَوْفیٰ‘‘(النجم : ۳۹،۴۰،۴۱)
(٢) وقال تعالیٰ:
’’ یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ ئَامَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ أُوْتُوْا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ‘‘ (المجادلہ:۱۱)
’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے درجے بلند کرتا ہے جو تم میں سے ایمان والے ہیں اور اُنہیں علم دیا گیا ہے۔‘‘
(٣) وقال سبحانہ و تعالیٰ فی مقام اٰخر:
’’ قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُوْلُوْا الْأَلْبَابِ‘‘ ( الزمر:۹)
’’کہہ دیجئے کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہیں، بے شک نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو اَہل عقل ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حدیثِ مصطفیﷺ
’’إِنَّ اﷲَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ‘‘ (سنن ابن ماجہ: ۲۱۸)
’’بے شک اللہ تعالیٰ اس قرآن کے ذریعہ بہت سی قوموں کو بلند کرے گا۔‘‘
’’خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ‘‘۔ (صحیح البخاري: ۵۰۳۷)
’’تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔‘‘
یہ منشائے قدرت ہے کہ اِسلام کو دنیا میں غالب کرتا ہے اور اُسے قائم ودائم رکھتا ہے، اسی طرح اُمت کے وہ اَشراف جنہوں نے شب و روز قرآن و حدیث کی خدمت کی ہوتی ہے، اللہ رب العزت ان کے ناموں کوبھی زندہ اور ہمیشہ بلند رکھتا ہے۔
وہ اَصحاب جنہوں نے قرآن و حدیث کو پڑھنے پڑھانے میں عمر کھپا دی ان کی مکمل تعداد کیا تھا اور اب کتنی ہے؟ صرف اللہ عالم الغیب والشھادۃ ہی بہتر جانتے ہیں۔ اِتنی زیادہ تعداد کی مثال دنیا کے کسی طبقے یا کسی اُمت میں نہیں مل سکتی۔
اُمت کی اِن بزرگ ہستیوں میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک علمائے اَلفاظ اور دوسرے علمائے معانی۔
علمائے اَلفاظ سے وہ لوگ مراد ہوتے ہیں، جنہوں نے قرآن مجید کے متن، آیات ، اَلفاظ، حروف و حرکات ، حتیٰ کہ نقطے اور شدومد کی خوب حفاظت کی۔ اُنہوں نے قرآن حکیم کے فصیح طرز اَدا کو نہ صرف خود محفوظ رکھا بلکہ آنے والی نسلوں تک باحفاظت یہ علم منتقل کرکے دنیا سے چلے گئے۔ ظاہر ہے اتنی ہمت والا کام اللہ کی توفیق اور مدد کے بغیر ممکن نہیں کہ جس قرآن کو اٹھانے کا اِنکار آسمان و زمین اور پہاڑوں نے کردیا تھا اُسے اگر انسان نے اٹھایا تو صرف اللہ کی منشاء و مرضی اور توفیق کے سہارے پر۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چونکہ تمام تفاسیر و اَحادیث قرآنی متن کی محتاج ہیں۔ یہ قرآنی متن کی تشریحات ہیں جو قرآن کے تابع ہوتی ہیں۔ قرآن کا متن باقی رہے گا تو حدیث و تفسیر بھی قائم و دائم رہیں گی۔ لہٰذا قرآن مجید کے متن، اَلفاظ و کلمات جہاں تک کہ ہر ہر حرف، اِعراب اور نقطے کی حفاظت ضروری ہوگئی اس کی حفاظت کا کام کرنے کے لیے اَیسے اَفراد کی ضرورت تھی جو اپنی زبانوں اور سینوں کو قرآن کے لیے پیش کریں، جواپنی زبانوں کو خوب مشق و محنت کے ذریعہ صحیح طرز اَدا کا عادی بنائیں۔ صرف قرآن مجید ہی ایسی کتاب ہے جو اَفضل الذکر ہے جس کی تلاوت عبادت سمجھ کر کی جاتی ہے اور قرآن پاک کے متن کو تلاوت کرنا اور لوگوں کو سنانا، سکھانا اس کام کے لیے افراد تیار کرنا، سب کچھ فریضۂ نبوت میں شامل تھا۔
جیسا کہ قرآن مجید نے بڑی وضاحت کے ساتھ نبیﷺکے فرائض کی وضاحت کی ہے:
اِرشاد باری تعالیٰ ہے ۔ (دعائے ابراہیم﷤ )
(١) ’’ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ ئَایٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘‘ ( البقرۃ:۱۲۹)
’’اے ہمارے رب! ان میں ایک رسول بھیج جو اِنہی میں سے ہو، وہ ان پرتیری آیات کی تلاوت کرے، انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاکیزہ بنائے، بلا شبہ تو غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) ’’کَمَا أَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلاً مِنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ ئَایٰتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ‘‘ (البقرۃ:۱۵۱)
’’جیسا کہ ہم نے تمہارے اُندرتمہی سے ایک رسول بھیجا جو تم پر ہماری تلاوت کرتا ہے اور تمہیں پاکیزہ بناتا ہے اور کتاب و حکمت سکھلاتا ہے اور وہ کچھ سکھلاتا ہے جو تم نہیں چاہتے تھے۔‘‘
(٣) ’’لَقَدْ مَنَّ اﷲُ عَلیٰ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْ أَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ ئَایٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ‘‘(آل عمران:۱۶۴)
’’بلا شبہ اللہ نے مؤمنوں پر بہت اِحسان کیا ہے کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو ان پر اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو سنوارتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ اس سے پہلے لوگ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘
(٤) ’’ھُوَالَّذِیْ بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّیْنَ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ ئَایٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ‘‘ (الجمعۃ:۲)
’’وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اُن کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اللہ تعالیٰ نے اِن آیات میں متن قرآنی کی تلاوت کو مقدم رکھا اور کتاب و سنت کی تفہیم کو مؤخر کیا اور نبیﷺنے جبرائیل﷤ سے اَولاً ہر آیت کی تلاوت سیکھی اُسے یاد کیا بعد میں اس کا مفہوم بھی سمجھا اور آپﷺنے اَپنے اَصحاب کوبھی اسی ترتیب سے ساتھ تعلیم دی۔ حتیٰ کہ اَسلاف نے بھی یہی اَنداز اَپنایا۔ لوگ تمام علوم سیکھنے سے پہلے قرآن مجید صحیح پڑھنا سیکھتے تھے۔
چنانچہ اِمام سفیان بن عیینہ﷫ فرماتے ہیں:
’’ ایک دفعہ میں مسجد حرام میں داخل ہوا تو امام ابن شہاب زہری﷫ کو باب الصفا کے قریب ستون کے پاس بیٹھے ہوئے پایا، تو آپ کے پاس چلا گیا ۔پوچھنے لگے لڑکے! تم نے قرآن مجید پڑھ لیا ہے۔ میں نے کہا جی ہاں، پڑھ چکا ہوں۔ بولے علم میراث سیکھا ہے؟ میں نے اِثبات میں جواب دیا۔ پھر پوچھا حدیث بھی لکھی ہے میں نے کہا جی لکھی ہے۔‘‘ (تذکرۃ الحفاظ اُردو، ۱؍۱۰۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِمام زہری﷫ نے سب سے پہلا سوال قرآن پڑھنے کے متعلق پوچھا: جو اِس بات پر دلالت کررہا ہے کہ تمام علوم سیکھنے سکھانے سے پہلے قرآن مجید کو صحیح پڑھنا آنا چاہئے اور متقدمین ایسا ہی کرتے تھے۔ لہٰذا بعض اَحناف کا یہ کہنا کہ اَکثر محدثین قراء ات و تجوید سے ناواقف تھے یا قرآن درست نہ پڑھ سکتے تھے، بالکل فضول بات ہے۔حتیٰ کہ کچھ نے تو ہمارے جلیل القدر امام، امام بخاری﷫ پربھی اسی طرح کا اِعتراض وارد کیا، جس کا جواب الحمدﷲ انہیں اسی موقع پر دے دیا گیاکہ کاش مولانا صاحب نے صحیح بخاری پڑھی ہوتی تو معلوم ہوتا کہ اِمام بخاری﷫ قراء ات کے ماہر اور عالم تھے۔ ہاں اُنہیں یہ فن پڑھنے پڑھانے کا موقع میسر نہ آیا یا اِتنا وقت اور فرصت ہی نہ ملی۔ کیونکہ صحیح بخاری میں اِمام صاحب نے دو سو کے لگ بھگ اَیسے کلمات ذکر کیے ہیں کہ جن کا تلفظ عام روایتِ حفص (موجودہ مصحف) کے تلفظ کے خلاف ہے اور علماء نے اِمام ہشام بن عمار دمشقی جو ابن عامر شامی﷫ کے جلیل القدر راوی ہیں کاشاگرد بھی بتایا ہے اور اسی طرح امام خلف کوفی﷫، خلاد کوفی﷫، ہشام بن عمار دمشقی﷫ اور شعبہ بن عیاش کوفی﷫ سے اَحادیث بھی اپنی صحیح میں نقل کی ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید کے متن کی اَدا و تلاوت کو اللہ تعالیٰ نے اور بھی ایک جگہ پرمقدم رکھا ہے اور بیان کو مؤخر کیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
(١) ’’وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلاً ‘‘ (الفرقان:۳۲)
’’اور ہم نے اس قرآن کو ترتیل کے ساتھ نازل کیا ہے۔‘‘
’’وَلاَ یَأْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِلاَّ جِئْنٰکَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِیْراً‘‘ (الفرقان:۳۳)
’’یہ آپ کے پاس جو کوئی مثال لائیں گے ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ تفسیر بتا دیں گے۔‘‘
ان بالترتیب دو آیتوں میں ترتیل (تجوید سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا) کومقدم اور اس کی وضاحت یعنی تفسیر کو مؤخر کیا گیا ہے۔
(٢) ’’الرَّحْمٰنُ،عَلَّمَ الْقُرْئَانَ، خَلَقَ الْاِنْسٰنَ، عَلَّمَہُ الْبَیَانَ‘‘ ( الرحمٰن:۱،۴)
’’شروع اللہ کے نام سے جوبڑا مہربان ہے اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ رحمن نے قرآن سکھایا۔ اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بیان سکھایا۔‘‘
یہاں پر بھی بیان کومؤخر کیا گیا ہے۔
(٣) ’’ لاَ تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ، اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْئَانَہٗ ،فَاِذَا قَرَأْنٰہٗ فَاتَّبِعْ قُرْء انَہٗ ،ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ‘(المزمل:۱۶،۱۹)
’’اے نبیﷺ !آپ قرآن کو جلدی یاد کرنے کے لیے اَپنی زبان کو حرکت نہ دیں اس کا جمع کرنااور پڑھنا ہمارے ذمہ ہے۔ ہم جب اُسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں۔ پھر بے شک اس کا بیان بھی ہمارے ذِمہ ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بعض اَہل علم کو غلط فہمی ہوگئی کہ فقط سمجھ بوجھ ہونا کافی ہے اور پڑھنے کی بجائے تفقہ زیادہ ہونا چاہئے۔ چاہے کوئی غلط پڑھے یا صحیح۔ حالانکہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے۔ قرآنی متن محفوظ نہ رہا تو تفقہ کیسے حاصل ہوگی؟ دوسرا یہ کہ تفقہ قرآن صحیح پڑھنے سے مانع نہیں اور قرآن مجید کثرت سے تلاوت کرنا تجوید کے مطابق اَدا کرنا تفقہ کے خلاف نہیں، ورنہ جلیل القدر قراء اور محدثین جنہوں نے اپنی زندگی میں کثرت کے ساتھ شب و روز قرآن کی تلاوت کی۔ اتنے قرآن مکمل، ختم کیے کہ جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے، جیسا کہ آگے چل ہم اِمام شعبہ بن عیاش﷫ کے حالات میں اِنشاء اللہ ذکر کریں گے۔اسی طرح امام ابن تیمیہ﷫ نے جیل میں ۸۱ بار قرآن مکمل کیا۔ آپ ایک نابینے قاری جو خوبصورت آواز میں پڑھتا تھا سے سنتے بھی تھے۔ اِمام صاحب جب سورۃ القمر کی آخری آیات پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے۔ (طبقات حنابلہ، تذکرۃ شیخ الاسلام ابن تیمیہ﷫)
اگر جیل میں ۸۱ بار قرآن اُنہوں نے مکمل پڑھ لیا تھا تو باقی زندگی میں کتنا زیادہ پڑھا ہوگا؟
قرآن مجید کے متن کو صحت و صفائی سے پڑھنا ان لوگوں کے پاس کتنا عظیم اَمرتھا ان کو قرآن مجید سے کس قدر لگاؤ تھا؟ اُنہیں سننا اور پڑھنا دونوں کام کتنے اچھے محسوس ہوتے تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چنانچہ امام ذہبی﷫ نے حضرت عمر﷜ کے تذکرہ میں لکھا ہے:
’’قرظہ بن کعب﷜ کہتے ہیں کہ جب عمر﷜ نے ہمیں لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے عراق رَوانہ کیا تو دور تک ہمارے ساتھ چلے رہے، پھر فرمانے لگے، جانتے ہو، میں تمہیں یہاں تک وِداع کرنے کیوں آیا ہوں؟ ہم نے عرض کیا جی ہاں ہمارے عزت اَفزائی کے لئے، فرمایا ہاں یہ درست ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں تمہیں یہ بھی ہدایت کرنے آیا ہوں کہ تم ایک اَیسے شہر جارہے ہو جہاں کے لوگ قرآن حکیم کو اس سوز و گداز سے پڑھتے ہیں کہ اس کے سینوں سے مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح رونے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ خبردار! بکثرت اَحادیث بیان کرکے ان کی توجہ قرآن سے نہ ہٹا دینا، زیادہ تر قرآن حکیم کی تعلیم پر زور دینا اور نبی1 سے کم اَز کم اَحادیث بیان کرنا، اَب جاؤ تمہارے اس مشن میں ، میں بھی تمہارے ساتھ شریک ہوں۔ قرظہ﷜ کہتے ہیں جب ہم وہاں پہنچے اور لوگوں نے ہم سے حدیث بیان کرنے کی فرمائش کی تو ہم نے کہا کہ حضرت عمر﷜ نے ہمیں اَیسا کرنے سے منع کردیا ہے۔‘‘ (تذکرہ الحفاظ،؍۱ طبقہ۱)
 
Top