• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اَحادیث مبارکہ میں وارد شدہ قراء ات… ایک جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۃ المائدۃ


٦ عن أنس بن مالک أَنَّ النَّبِیَّ قَرَأَ: ’’أنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنُ بِالْعَیْنِ‘‘ (المائدۃ:۴۵)
تخریج الحدیث:سنن الترمذی (۲۹۲۹)، سنن ابوداؤد (۳۹۷۶،۳۹۷۷)،مسنداحمد(۳؍۲۱۵)،ابویعلی (۳۵۶۶،۳۵۶۷)، الاوسط از طبرانی (۱۵۳)، حاکم (۲؍۲۳۶) تہذیب الکمال از مزی(۳۴؍۱۰۳) حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔احمد نے کہا:اس کے رجال صحیح کے ہیں سوائے ابوعلی بن یزید کے، اور وہ ثقہ ہے۔المعصراوی کہتے ہیں کہ یہ راوی مجہول ہے۔ جیسا کہ حافظ نے تقریب میں کہا ہے (ت:۸۲۶۳)، المیزان ازذہبی (۷؍۴۰۲) لہٰذا اس کی اِسناد ضعیف ہیں۔
’’انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے اس طرح قراء ت فرمائی:’’أنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنُ بِالْعَیْنِ‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ت
کسائی نے تمام مقامات پررفع پڑھا ہے۔ ان کی دلیل رسول اللہﷺ سے مروی یہی حدیث ہے۔ آپ نے ’’…العینُ بالعین والأنفُ بالانف‘‘ تمام مقامات پر رفع پڑھا ۔ زجاج نے کہا کہ ابتداء کی وجہ سے اسے مرفوع پڑھنا جائز ہے۔ قراء نے کہا: دونوں صورتوں میں سے، رفع پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔ اس کی وجہ پہلی خبر کے مکمل ہونے کے بعد دوسرے اسم کا آناہے جیساکہ کہا جاتاہے:’’إن عبد اﷲ قائم وزید قاعد‘‘ اس آیت ’’إنَّ الاَرْضَ ﷲِ یُوْرِثُہَا مَنْ یَّشَائُ مِنْ عِبَادِہٖ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ‘‘میں تمام قراء کا رفع پر اجماع ہے تو اختلافی چیز کو اتفاقی کے ساتھ ملانا زیادہ بہتر ہے۔
نافع، عاصم، حمزہ، یعقوب الحضرمی اور خلف العاشر نے نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ نصب کے ساتھ پڑھنے والے نے یہاں اُن کو محذوف مانا ہے، یہ اخفش اورسیبویہ کا مذہب ہے، انہوں نے ’’أنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ‘‘ کے تسلسل کو باقی رکھا ہے۔یزیدی نے ابوعمرو سے بیان کیاہے کہ ’الجروح‘ کو مرفوع پڑھنے کی دلیل اس کا مبتدا ہونا ہے۔ یعنی ’’والجروح من بعد ذلک قصاص‘‘ (جمۃ القراء ات :ص۲۲۶،۲۲۷)
٧ عن معاذ بن جبل أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ قَرَأَ ’’ھَلْ تَسْتَطِیعُ رَبَّکَ ‘‘ (المائدۃ:۱۱۲)
تخریج الحدیث: سنن ترمذی (۲۹۳۰) الکبیر از طبرانی (۲۰؍۶۹،رقم ۱۲۸)، مستدرک حاکم (۲؍۲۳۸)
حاکم نے اسے صحیح کہا اور ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے۔ مسندالشامیّین (۲۲۴۴) ترمذی نے اس مسند کو ضعیف کہا ہے، لیکن اس کی متابعت موجود ہے۔
’’معاذ بن جبل روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ’’ھَلْ تَسْتَطِیْعُ رَبَّکَ‘‘ پڑھا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ت
قراء سبعہ میں سے یہ کسائی کی قراء ت ہے۔ حضرت عائشہ، حضرت علی، ابن عباس، سعید بن جبیررضی اللہ عنہم نے بھی اس طرح پڑھا۔ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے رسول اللہﷺ نے ’’ھَلْ تَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ‘‘ ’تا‘کے ساتھ پڑھایا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں:’’حواری اللہ تعالیٰ کو زیادہ جاننے والے تھے اور وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ’’ھَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ‘‘‘‘ گویا کہ حضرت عائشہؓ نے اس قول کی حواریوں کی طرف نسبت کی نفی کی ہے۔ امام کسائی کی دلیل یہ ہے کہ اس سے پہلے اللہ فرماتے ہیں:’’وَاِذْ اَوْحَیْتُ اِلَی الْحَوَارِیِّیْنَ أنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَبِرَسُوْلِیْ قَالُوْا أمَنَّا‘‘ (المائدۃ:۱۱۱) اللہ تعالیٰ نے ان کانام حواری رکھاہے اور یہ نہیں ہوسکتاکہ وہ انبیاء کی رسالت کاانکار کریں اور اللہ تعالیٰ ان کا نام حواری رکھیں۔اہل بصرہ نے اس کا معنی یہ بیان کیا (ھل تستطیع سؤال ربک) یہاں سوال حذف کردیاگیا اور اس کااعراب بعد والے کو دے دیاگیا۔ جیساکہ فرمان الٰہی ہے ’’وَسْئَلِ الْقَرْیَۃَ‘‘ (یوسف :۸۲) یعنی اہل القریۃ۔
باقی قراء نے یا کے ساتھ ’’ھل یستطیع ربک‘‘ پڑھا ہے یعنی اگر تم اس بات کا اللہ سے سوال کرو تو کیاوہ تمہیں جواب دے گا۔ جیساکہ کوئی شخص دوسرے سے کہتا ہے۔ أتستطیع أن تسعی معنا فی کذا؟ کیا تم ہمارے ساتھ تعاون کرسکتے ہو؟ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ یہ شخص اس سے تعاون کرسکتاہے۔ حواریوں نے بھی یہی چاہا تھاکہ وہ اپنے سچ کے دعویٰ کی دلیل لے کرآئیں۔ ان کی دلیل عیسیٰ کایہ قول بھی ہے:’’إِتَّقُوْا اﷲَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤمِنِیْنَ‘‘جو کہ انہوں نے اپنی قوم کے قول ’’نُرِیْدُ أنْ نَاْکُلَ مِنْھَا…‘‘ (المائدۃ:۱۱۳) کو بڑا سمجھتے ہوئے فرمایا تھا۔
دیکھیے:السبعۃاز ابن مجاہد (۲۴۹) النشر از ابن جزری (۲؍۲۵۶) الحجۃ از ابن خالویہ (۱۳۵) الاملاء از عکبری (۱؍۱۳۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۃ الاعراف


٨ عن زاذان عن البراء قال سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ یَقْرَأُ: ’’لَا تُفْتَحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَائِ‘‘ (الاعراف:۴۰) مخفَّفا
تخریج الحدیث: مستدرک حاکم (۲؍۲۳۹)سند یوں ہے۔ہارون بن حاتم المقرئ حدثنا أبو معاویۃ محمد بن فضیل وعبد اﷲ بن نمیر عن الاعمش عن المنھال بن عمرو عن زاذان عن البراء الحدیث حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے تعاقب کرتے ہوئے کہا : ابوزرعہ نے ہارون کو ترک کردیا ہے اور سیوطی نے اسے الدرالمنثور (۳؍۱۵۵) میں بیان کیاہے۔
’’زاذان براءرضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو ’’لاَ تُفْتَحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَائِ‘‘ مخفف پڑھتے ہوئے سنا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ت
یہ متواتر قراء ت ہے۔ ابوعمرو نے تا اور تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ باقی قراء نے تا اور تشدید کے ساتھ پڑھا ہے۔ابوعمرو کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے۔’’فُتِحَتْ اَبْوَابُھَا‘‘ (الزمر:۷۱) وہ بہت سارے دروازوں کی طرف گئے۔حمزہ، کسائی اور خلف کی دلیل یہ ہے کہ جب مونث اور اس کے فعل کے درمیان فاصلہ آجائے تو یہ فاصل تانیث سے عوض کی مانند ہوتاہے اور اس صورت میں فعل کا مذکر اور مونث دونوں طرح لانا جائز ہے۔ قرآن مجید میں دونوں کی مثال موجود ہے۔ مذکر فعل کی مثال:’’لَنْ یَّنَالَ اﷲَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَاؤُھَا‘‘ (الحج:۳۷) ، مونث کی مثال:’’یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ‘‘ (آل عمران:۱۰۶)
تشدید والی قراء ت سے ہے۔ یعنی ایک کے بعد ایک۔ یہی مختار ہے، کیونکہ دروازے بہت زیادہ ہیں۔ پھر ان کی دلیل یہ آیت بھی ہے ’’مُفَتَّحَۃً لَھُمُ الاَبْوَابِ‘‘ (ص:۵۰) یہاں پر مفتوحہ نہیں کہا۔ اسی طرح فرمایا: ’’وَغَلَّقَتِ الأَبْوَابَ‘‘(یوسف :۲۳) اور جس نے تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے اس نے ایک مرتبہ مراد لیاہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا ’’لا تفتح لھم ابواب السمائ‘‘ یعنی نہ ان کی دعا قبول کی جائے گی، نہ ان کے لیے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے۔
دیکھیے:اتحاف الفضلاء (۲۲۴)، الاملاء عکبری (۱؍۱۵۸)، السبعۃ از ابن مجاہد (۲۸۹) النشراز ابن الجزری (۲؍۲۰۹)۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۃ الانفال


٩ عن ابن سیرین عن أنس أن النبی ﷺ قرأ: ’’أنْ تَکُوْنَ لَہُ اَسْرٰی‘‘ (الانفال:۶۷)
تخریج الحدیث: مستدرک حاکم [۲؍۲۳۹،۲۴۰]، حاکم نے اسے صحیح کہا اور ذہبی نے موافقت کی ہے۔
’’ ابن سیرین حضرت انس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے (أن تکون لہ أسری) پڑھا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ت
یہ متواتر قراء ت ہے۔ ابوعمرو، ابوجعفر المدنی اور یعقوب الحضرمی نے اس طرح پڑھا ہے۔معنی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے قیدیوں کی جماعت مراد لی ہے، اس لیے تکون مونث ہے۔ اس کی مثال قرآن مجید میں یوں ہے ’’کَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ الْمُرْسَلِیْنَ‘‘ (الشعراء:۱۰۵) باقی قراء نے یا کے ساتھ أن یَکُونَ پڑھاہے۔ اس صورت میں أسری کی جمع مراد لی گئی ہے۔ اہل بصرہ نے کہا: جب اسم اور فعل کے درمیان فاصلہ آجائے تو فعل ذکر کیاجاتا ہے کیونکہ فاصلہ عوض کی مانند ہوتا ہے۔
دیکھیے:اللباب فی علوم الکتاب(۹؍۵۸۰)،الکشاف (۲؍۲۴۰) المحرّر الوجیز (۲؍۵۵۷)، البحرالمحیط (۴؍۵۱۸) الدرالمصون (۳؍۴۳۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۃ التوبۃ


١٠ وعن مسعود بن یزید الکندی قال: کَانَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ یُقْرِیُٔ رَجُلًا فَقَرَأَ الرَّجُلُ: ’’إِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنَ‘‘(التوبۃ:۶۰) مرسلہ فقال ابن مسعود: مَا ھٰکَذَا أَقْرَانِیْھَا رَسُوْلُ اﷲِ قَالَ: کَیْفَ أَقْرأَکَھَایَا أبَا عَبْدِالرَّحْمٰنِ؟ قَالَ: أَقْرَأ نِیْھَا ’’إِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنَ‘‘
تخریج الحدیث: مجمع الزوائد (۷؍۱۵۸) بحوالہ طبرانی، ہیثمی نے اس کے رجال کو ثقہ کہا ہے۔
’’مسعود بن یزید الکندی سے مروی ہے فرمایا:عبداللہ بن مسعود ایک آدمی کو پڑھا رہے تھے تو اس آدمی نے مد کے بغیر پڑھا: ’’إِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنَ‘‘ عبداللہ بن مسعود نے کہا: رسول اللہﷺ نے مجھے تو اس طرح نہیں پڑھایا:انہوں نے کہا : اے ابو عبد الرحمن آپ کو نبی کریمﷺ نے کیسے پڑھایا ہے:انہوں نے فرمایا: مجھے نبی کریم ﷺ نے ایسے پڑھایا ہے:’’إنما الصدقت للفقرآء والمسٰکین‘‘ یعنی مد کیساتھ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ت
اس آیت کی قراء ت میں قراء عشرہ کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے۔عبداللہ بن مسعود کی مراد رسول اللہﷺ کی قراء ت کی کیفیت بیان کرنا تھا کہ رسول اللہﷺ نے ’’لِلْفُقَرَآئِ‘‘ میں لمبی مد کے ساتھ تلاوت فرمائی تھی۔
یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن مجید کو ’’وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلًا‘‘ (المزمل:۴) کے مصداق احکام تجوید کے مطابق پڑھنا ضروری ہے۔ حضرت علی ؓ سے ترتیل کا معنی پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:ترتیل حروف کو تجوید کے مطابق پڑھنے اور وقف کی پہچان کا نام ہے۔
یاد رہے کہ قرا ء عشرہ میں سے للفقراء کو مد طویلہ سے پڑھنے والے امام ورش او رامام حمزہ ہیں۔ وہ مد کو تین الف اور چھ حرکات کی مقدار کے برابر لمبا کرکے پڑھتے ہیں۔ باقی قراء بشمول امام عاصم وحفص ، زیادہ لمبا کرکے نہیں پڑھتے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۃ یونس


١١ عن عبدالرحمن بن أبزی قال: قال أُبیُّ بن کعب:’’ قُلْ بِفَضْلِ اﷲِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذَلِکَ فَلْتَفْرَحُوْا‘‘ (یونس:۵۸) قال ابوداؤد: بالتاء
تخریج الحدیث: سنن ابوداؤد (۳۹۸۰)، مستدرک حاکم (۲؍۲۴۰،۲۴۱) حاکم نے اسے صحیح کہا اور ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے۔ سیوطی نے اسے درالمنثور (۳؍۵۵۴) میں بیان کیاہے اور اسے طیالسی، ابن عمر اور حضرت انس کی طرف منسوب کیاہے۔
’’عبدالرحمن بن ابزی سے مروی ہے۔ابی بن کعب نے فرمایا: ’’قُلْ بِفَضْلِ اﷲِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذَلِکَ فَلْتَفْرَحُوْا ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا تَجْمَعُون‘‘ ابوداؤد نے فرمایا: دونوں کلمات تا کے ساتھ مروی ہیں ۔‘‘
اس سلسلہ میں ایک اور روایت یوں مروی ہے:
حدثنی عبد اللہ بن عبد الرحمن بن أبزی عن أبیہ عن أُبیٍّ بن کعب قرأ:’’ قُلْ بِفَضْلِ اﷲِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذَلِکَ فَلْتَفْرَحُوْا ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا تَجْمَعُونَ‘‘ (یونس:۵۸)
تخریج الحدیث: سنن ابوداؤد (۲؍۱۹۸)
’’حضرت ابی فرماتے ہیں کہ نبی کریم نے ’’ قُلْ بِفَضْلِ اﷲِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذَلِکَ فَلْتَفْرَحُوْا ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا تَجْمَعُونَ‘‘ دونوں کو بتائے خطاب پڑھا ہے۔
 
Top