• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اَحادیث مبارکہ میں وارد شدہ قراء ات… ایک جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورہ مریم


١٧ عن أبی أمامۃ أنَّ رسولَ اﷲ قرأ: ’’تَکَادُ السَّمٰوَاتُ ینفطرن مِنْہُ‘‘ بالیا والنون،’’وتخر الجبال‘‘بالتا ’’أنْ دَعَوا لِلرَّحٗمٰنِ وَلَدًا، وَمَا یَنْبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ أنْ یَتَّخِذَ وَلَدًا‘‘ مفتوحۃ بعد مفتوحۃ (مریم:۹۰-۹۲)
تخریج الحدیث: حاکم نے اسے روایت کیا ہے (۲؍۲۴۵) حاکم اور ذہبی نے اسے صحیح کہا۔ڈاکٹرعیسیٰ المعصراوی کہتے ہیں کہ انقطاع کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے۔ مکحول نے ابی امامہ سے سماعت نہیںکی ہے جیساکہ دارقطنی نے کہا ہے۔(۱؍۲۱۸)
’’ابوامامہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے (یا اور نون کے ساتھ)(تکاد السموٰت ینفطرن منہ) (تا کے ساتھ) (وتخرالجبال) اور (أن دعو للرحمن ولدا، وما ینبغی للرحمن أن یتخذ ولدا) (مفتوح) پڑھا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ت

حدیث میں بیان کردہ(تکاد)متواتر قراء ت ہے۔ ابن کثیر، ابوعمرو، ابن عامر، عاصم، حمزہ، ابوجعفر، یعقوب اور خلف العاشر نے اس طرح پڑھا ہے۔ السموٰت کی مونث ہونے کی وجہ سے یہ مونث ہے۔ نافع اور کسائی نے یاء کے ساتھ (یکاد السموٰت) پڑھا ہے۔ کیونکہ یہ جمع قلیل ہے اور عرب مونث کے جمع قلیل ہونے کی صورت میںفعل مذکر لاتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’فَاِذَا انْسَلَخَ الاَشْھُرُ الْحُرُمُ‘‘ (التوبۃ:۵) یہاں پر فعل مونث (انسلخت) نہیں لائے۔ اسی طرح فرمایا: ’’وقال نسوۃ‘‘ (یوسف :۳۰) یہاں پر (نسوۃ) کے ساتھ قال کہاہے قالت نہیں۔
دیکھئے:اتحاف الفضلاء(۳۰۱)،السبعۃ لابن مجاہد (۴۱۳)،الغیث للصفاقسی (۲۸۶)، النشرلابن الجزری(۲؍۳۱۹)
یاء اور نون کے ساتھ (ینفطرن) بھی متواتر قراء ت ہے۔ ابوعمرو، ابن عامر، حمزہ، ابوبکر، یعقوب اور خلف کی یہ قراء ت ہے۔ ان کی دلیل ’’اَلسَّمَاء مُنْفَطِرٌ بِہٖ‘‘ (المزمل:۱۸) یہ تمام کااجماع ہے۔ یہاں پر منفطرہ نہیں کہا۔
نافع، ابن کثیر، ابوجعفر، کسائی اور حفص نے تاء اور تشدید کے ساتھ (ینفطرن) بمعنی (یتشققن) پڑھا ہے۔ جبکہ یہ قول (یتفطرن) مبالغے میں شدت کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف اولاد کی نسبت کی وجہ سے زیادہ غصے کا اظہار کیا ہے۔جیساکہ آگ کے بارے میں فرمایا: ’’تَکَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ‘‘(الملک:۸)یہاں پر (تماز) نہیں کہا۔
دیکھئے: النشرلابن الجزری (۲؍۳۱۹)،اتحاف الفضلاء (۳۰۱)، السبعۃ لابن مجاہد (۴۱۳)، الحجۃ لابن خالویہ (۲۳۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورہ طہ


١٨ عن عاصم عن زر قال: قرأ رجل علی عبد اﷲ ’’طٰہ‘‘ (طہ:۱) مفتوحۃ فاخذھا علیہ عبداﷲ، ’’طہ‘‘ مکسورہ فقال لہ الرجل إنما یعنی: ضع رجلک مفتوحۃ،فقال عبد اﷲ ھکذا قرأھا رسول اﷲ، وھکذا أنزلھا جبریل
تخریج الحدیث: امام حاکم نے اسے روایت کیاہے۔ مستدرک حاکم (۲؍۲۴۵)، حاکم اور ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔ المعصراوی کہتے ہیں کہ مجھے عبید بن عنام بن حفص کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔اس لیے اس کی سند ضعیف ہے۔
’’عاصم سے مروی ہے وہ زِرّ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عبداللہ کے سامنے ’’طہ‘‘ ہاء کے عدم امالہ کے ساتھ پڑھا۔ عبداللہ نے اس کا ردّ کرتے ہوئے ’’طہ‘‘ کے ہاء میں امالہ کرکے پڑھا، تو اس آدمی نے کہا کہ اس کا معنی ہے اپناکھلا ہوا پاؤں رکھ دو۔ عبداللہ نے کہا: اسی طرح رسول اللہﷺ نے پڑھا ا ور اسی طرح جبریل نے اسے نازل کیاہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ت

یہ متواتر قراء ت حمزہ، کسائی اور ابوبکر کی ہے۔ ان کی دلیل یہ حدیث ہے۔ ابوعمرو نے طا کے فتحہ اور ھا کے کسرہ کے ساتھ ’’طہ‘‘ پڑھا۔ ابوعمرو سے کہا گیا۔ آپ نے ھا کو کسرہ کیوں دیا؟ تو انہوں نے جواب دیا) تا کے یہ تنبیہ کی ھاء سے ملتبس نہ ہوجائے اور طاء کو مستعلیہ ہونے کی وجہ سے فتح دیا گیا ہے۔
نافع، ابن عامر، ابن کثیر اور حفص نے طاء اور ھاء کے فتحہ کے ساتھ ’’طہ‘‘ پڑھا ہے۔یہی اصل ہے البتہ بعض عرب کسرہ بھی دیتے ہیں۔
دیکھئے: اتحاف الفضلاء (۷۰۲) السبعۃ لابن مجاھد (۴۱۶)،النشر لابن الجزری (۲؍۷۱)، الحجۃ لابی زرعہ(۴۵۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۃ المؤمنون


١٩ عن ابن عباس أن رسول اﷲ! کَانَ یَقْرَأُ: ’’مُسْتَکْبِرِیْنَ بِہٖ سٰمِراً تُھْجِرُوْنَ‘‘ (المؤمنون:۶۷) قال : کان المشرکون یتھجرون برسول اﷲ!
تخریج الحدیث: مستدرک حاکم (۲؍۲۴۶)، حاکم نے اسے صحیح اور ذہبی نے ضعیف کہا ہے۔
’’عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ تلاوت کرتے ہوئے ’’مستکبرین بہ سٰمراً تُھْجِرون‘‘ پڑھا کرتے تھے۔ عبداﷲ بن عباس نے فرمایا: مشرکین رسول اللہﷺ کے بارے میں بے ہودہ بکا کرتے تھے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ت

یہ متواتر قراء ت ہے۔ نافع نے (تا کے ضمہ اور جیم کے کسرہ کے ساتھ) (سامرا تھجرون) پڑھا ہے۔ یہ أھجر یھجر سے بمعنی ھذی ہے۔ کافر جب رسول اللہﷺ کی تلاوت سنتے تو آپؐ کی شان میں بے ہودہ باتیں کرتے تھے۔باقی قراء نے تاء کے فتحہ کے ساتھ (تھجرون) پڑھا ہے۔ معنی یہ ہوگا کہ تم نبی کریمﷺ اور قرآن کو چھوڑ دیتے ہو۔ اس کے مطابق عمل نہیں کرتے۔
دیکھئے:إتحاف الفضلاء (۳۱۹)، السبعۃ لابن مجاھد (۴۴۶) الغیث للصفاقسی (۲۹۹)، النشرلابن الجزری(۲؍۳۲۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۃ الروم


٢٠ عن ابن عمر أنہ قرأ علی النبی ﷺ: ’’ خَلَقَکُمْ مِنْ ضَعْفٍ‘‘ (الروم:۵۴) فقال:’’مِنْ ضُعْفٍ‘‘
تخریج الحدیث: سنن ترمذی (۲۹۳۶)، سنن ابوداؤد(۳۹۷۸)، مسنداحمد(۲؍۵۸)، شرح المشکل از طحاوی (۳۱۳۲)، الضعفاء ازعقیلی (۲؍۲۳۸)، مستدرک حاکم (۲؍۲۴۷)، حاکم نے کہا تفرد بہ علیہ العوفی، ولم یحتج بہ۔المعصراوی کہتے ہیں اس کی اسناد ضعیف ہیں۔
’’عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ پر تلاوت کرتے ہوئے ’’خَلَقَکُمْ مِنْ ضَعْفٍ‘‘ پڑھا، تو آپ نے فرمایا کہ یوں پڑھو: ’’مِنْ ضُعف‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ت

یہ متواتر قراء ت ہے۔ عاصم اور حمزہ نے ضاد کے فتحہ کے ساتھ اور باقی قراء نے ضاد کے رفع کے ساتھ پڑھا ہے۔ (القَرْح) اور (القُرْح) کی طرح یہ دونوں لغات ہیں۔
دیکھیے:اتحاف الفضلاء (۳۴۹)، السبعۃ لابن مجاہد (۵۰۸)، الغیث للصفاقسی (۳۲۱)، النشر لابن الجزری(۲؍۳۴۵،۳۴۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۂ یسین


٢١ عن أبی ہریرہ أَنَّ النَبِیَّ قَرأَ: ’’وَلَقَدْ أضَلَّ مِنْکُمْ جُبْلاً کَثِیْرًا‘‘ (یٰسین:۶۲) مخففۃ۔
تخریج الحدیث: مستدرک حاکم (۲؍۲۴۸،۲۴۹) اس کی سند میں اسماعیل بن رافع ضعیف ہے۔
’’ ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے (تلاوت کرتے ہوئے) ’’ولقد أضل منکم جُبْلاً کثیرا‘‘ پڑھا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ت

یہ متواتر قراء ت ہے۔ ابن کثیر، حمزہ، کسائی، خلف اور رویس عن یعقوب نے جیم اور باء کے ضمہ کے ساتھ مخفف یعنی’’جُبُلاً کثیرا‘‘ پڑھاہے۔ ان کی دلیل یہ آیت ہے جس پر تمام کااجماع ہے۔ابوعمرو اور ابن عامر نے (جیم کے ضمہ اور باء کے سکون کے ساتھ) ’’جُبْلًا‘‘پڑھا ہے ۔ دو ضموں کے اجتماع کو ثقیل جانتے ہوئے باء کو ساکن کردیا۔
نافع، ابوجعفر اور عاصم نے جیم اور باء کے کسرہ اور لام مشدد کے ساتھ اور باقی قراء نے دونوں ضموں اور لام مخفف کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس لفظ میں یہ تمام لغات ہیں۔
دیکھئے: النشر لابن الجزری(/ARB] (۲؍۳۵۵)، الحجۃلابن خالویہ، السبعۃ(۵۴۲)، الاتحاف(۳۶۶)، إبراز المعانی (۶۶۰)، الدر المصون(۴؍۵۳۰)
 
Top