• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اَحرف سبعہ اور ان کا مفہوم

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چوتھا قول:
بعض کاخیال ہے کہ سبعہ احرف(سات حروف) سے مراد احکام کی سات اصناف ہیں اور ان کی دلیل حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جس میں انہوں نے حضورﷺسے نقل کیا ہے کہ پہلی کتاب ایک دروازہ اور ایک ہی حرف پرنازل ہوئی تھیں جب کہ قرآن سات دروازوں اورسات حروف پر نازل ہوا ہے اور وہ زجر وامر، حلال وحرام محکم ومتشابہ اورامثال ہیں۔(اس حدیث کی تخریج امام طبری نے اپنی تفسیر میں کی ہے ۔تفصیل کے لئے جامع البیان عن تاویل القرآن :۱؍۲۷،۲۸ دیکھ لی جائے ،الاتقان:۱؍۴۸)لیکن یہ رائے بھی مضبوط اشکالات کے سامنے کمزور پڑ جاتی ہے۔ مثلاً۔
(١) حدیث میں سبعہ احرف کا تعلق قراء ت اور کیفیت نطق کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ چنانچہ فرمایا ’’فَاقْرَؤُا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ‘‘ جبکہ مذکورہ بالا اشیاء کا تعلق احکام سے ہے الفاظ کی ادائیگی سے نہیں۔
(٢) علامہ ابن عبد البررحمہ اللہ نے اس حدیث کے ضعف پر اجماع نقل کیاہے اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اس کا انقطاع ثابت کیا ہے اس طرح کہ یہ حدیث ابوسلمہ بن عبد الرحمان حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے نقل کر رہے ہیں جبکہ ابو سلمہ کی ملاقات ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔ لہٰذا حجت نہ ہوئی۔(البرہان:۱؍۲۱۶،۲۱۷،فتح الباری:۹؍۲۴)
(٣) اس رائے کے قائلین کو حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی حدیث سے استنباط میں غلطی لگی ہے اصل بات یہ ہے کہ ابن مسعود﷜نے دو چیزوں کا اجمالی ذکر ابتدا میں کیا ایک سبعہ ابواب اوردوسری سبعہ احرف۔ پھر تفصیل بیان کرتے وقت ایک کی تفصیل بیان کر دی اوروہ مذکورہ بالا اشیاء ہیں۔ امر ،زجر،حلال وحرام، محکم ومتشابہ اورامثال، تو درحقیقت یہ تفصیل سبعہ ابواب کی ہے نہ کہ سبعہ احر ف کی ۔(النشر:۱؍۲۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پانچوال قول
’سبعہ احرف‘سے مراد وجوہ لہجات ہیں جیسے ادغام واظہار،تفخیم وترقیق، امالہ واشباع، مد اور قصر ،تشدید وتخفیف وتسہیل وغیرہ،لیکن یہ رائے بھی قابل اعتناء اس لیے نہیں ہے کہ یہ ساری چیزیں سبعہ احرف کی ایک وجہ میں آسکتی ہیں او راس کو اختلاف لہجات کا نام دیا جا سکتا ہے اس لیے کہ یہ ایک وجہ تو ہو سکتی ہے سات نہیں ہو سکتی۔
آگے جو اَقوال آر ہے ہیں ان میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہے بلکہ ان کو ایک دوسرے کی تشریح قرار دیا جائے توزیادہ مناسب ہے ان میں سے
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلا قول:
ابوحاتم السجستانی رحمہ اللہ کا ہے جن کی رائے میں سبعہ اَحرف سے مراد لغات عرب کی سات وجہیں ہیں۔
پہلی:ایک کلمے کے بدلے میں دوسرا کلمہ پڑھنا جیسے کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ (القارعۃ:۵) کو حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کالصوف المنفوش پڑھتے تھے اورقراء ت متواترہ میںفتبینوا کو حمزہ وکسائی فتثبتوا پڑھتے ہیں۔(سورۃ النساء:۹۴، سورۃ الحجرات:۶)
دوسری:ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف پڑھنا جیسے لغت دوس میں لام تعریف کو میم سے بدل کر پڑھتے ہیں اس کی تائید حضرت ابوہریرۃرضی اللہ عنہ کی روایت سے ہوتی ہے جس میں انہوں نے ایک قبیلے کی آمد اور حضور کے ساتھ اس کی گفتگو کا ذکر کیا انہوں نے کہا امن امبر امصیام فی امسفر تو جواب میں رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا لیس من امبر الصیام فی امسفر جبکہ دوسرے اہل لغت اس کوامن البر الصیام فی السفر اور لیس من البر الصیام فی السفر پڑھتے ہیں ۔(البدورالزاہرۃ:۱۸۱،۲۹۹، پہلا بیان سے جبکہ دوسرا ثبت سے ہے) اس طرح بنو ہذیل حتی حین کو عتی حین پڑھتے ہیں۔( اور قراء ت متواترہ میں حمزہ کسائی اورخلف تبلوا کو تتلوا پڑھتے ہیں۔(البدور الزاہرۃ:۱۴۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تیسری:تقدیم وتاخیر کر کے پڑھنا ۔ چنانچہ اہل عرب کے ہاں عرضت الناقۃ علی الحوض اور عرضت الحوض علی الناقۃ یکساں معنی میں مستعمل ہیں اور قراء ت متواترہ میں فیقتلون مضارع معروف اور ویقتلون مضارع مجہول جبکہ حمزہ وکسائی پہلے کو مجہول اوردوسرے کو معلوم پڑھتے ہیں۔ (التوبۃ:۱۱۱،البدور الزاہرۃ:۱۳۸)
چوتھی:کسی کلمے یا حرف میں زیادتی یا نقصان کرنا جیسے ’’فَاَصَدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصَّالِحِیْنَ‘‘(سورۃ المنافقون:۱۰)کو ابوعمرو البصری رحمہ اللہ نے فاصدق واکون من الصالحین اسی طرح وَقَالُوْا اتَّخَذَ اﷲُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ(البقرۃ:۱۱۶) کو ابن عامر الشامی بغیرواؤ کے قالوا اتخذ اﷲ پڑھتے ہیں۔
پانچویں:مبنی کی حرکات کا اختلاف جیسے’’وَالَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَیَامُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ‘‘(النساء:۳۷، الحدید:۲۴) باء کے ضمہ اور خاء کے سکون کے ساتھ عام قراء کی قراء ت ہے اور حمزہ وکسائی بالبخل باء اور خاء کے فتحہ کے ساتھ پڑھتے ہیں۔(البدورالزاہرۃ:۷۷،۳۱۳)
چھٹی : اِعراب کا اختلاف :جیسے حارث بن کعب رضی اللہ عنہ تثنیہ میں رفع ،نصب ،جرالف کے ساتھ ہی پڑھتے ہیں چنانچہ کہتے ہیں جاء نی رجلان رأیت رجلان مررت برجلان جبکہ باقی اہل لغت رفع الف کے ساتھ اورنصب وجر یائے لین کے ساتھ پڑھتے ہیں۔(کتاب المبانی:۲۲۱، اوراس کے بعد کو دیکھ لیا جائے) اور قرآن حکیم میں ’’قَالُوْا اِنَّ ہٰذَیْنِ لَسَاحِرَانِ‘‘( طہ:۶۳) کو مکی بصری اورحفص کے علاوہ باقی قراء ہذان پڑھتے ہیں۔(البدور الزاہرۃ:۲۵۹)
ساتویں : اختلاف لہجات وادا: جیسے بعض اہل لغت امالہ کرتے تھے جبکہ دوسروں کے ہاں امالہ نہ تھا اسی طرح کچھ ادغام کر کے پڑھتے تھے اوربعض اظہار کرتے تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسرا قوال:
ابن قتیبہ رحمہ اللہ اورالباقلانی رحمہ اللہ کاقول بھی اس سے ملتا جلتا ہے ان کے نزدیک وہ ’اوجہ سبعہ‘ یہ ہیں:
پہلی: تقدیم وتاخیر کا اختلاف اس کا ذکر سجستانی کی رائے میں گذر چکا ہے۔
دوسری : زیادتی اور نقصان کا اختلاف اس کا ذکر بھی ہو چکا ہے۔
تیسری: ایسا اختلاف جس کی بنا پر لفظ کی صورت رسمی اور معنی دونوں بدلتے ہوں جیسے وَطَلْحٍ مَنْضُوْدِ (سورۃ الواقعہ:۲۹) اور طَلْعٍ مَنْضُوْدِ بعض اہل لغت کے ہاں دونوں جدا چیزیں ہیں اوران کے معانی میں اختلاف ہے یہ مثال ان کی بن سکتی ہے البتہ جن کے نزدیک دونوں لفظ ہم معنی ہیں ان کے نزدیک یہ مثال نہیں بن سکتی ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چوتھی: ایسا اختلاف جو معنی کی تبدیلی کاسبب بنتاہو لیکن صورت دونوں قرا ء توں کی ایک ہی ہو جیسے ’’وَانْظُرْ اِلٰی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُہَا‘‘( البقرۃ:۲۵۹) ’ ز ‘ کے ساتھ جو موت کے بعد دوبارہ اٹھانے کے معنی میں مستعمل ہے جبکہ نافع ،مکی اور بصری رحمہم اللہ کے ہاں اس کو نُنْشِرُہَا کے ساتھ پڑھا گیا ہے جس کے معنی پھیلا دینے کے ہیں۔
پانچویں: ایسا اختلاف جوکلمہ کی اصل وحقیقت میں ہو ظاہری لفظ اورمعنی میں کوئی اختلاف نہ ہو جیسے ’’وَلاَ یَأتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ‘‘ افتعال سے اور لَایَاتَلِ اُولُو الْفَضْلِ تفعل سے ۔( النور:۲۲، پہلا باب افتعال اور دوسرا تفعل سے ہے)
چٹھی : ایسا اختلاف جس میں ظاہری اختلاف ہو البتہ معنی نہ بدلتا ہو جیسے کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ اور اَلصُّوْفِ الْمَنْفُوْشِ
ساتویں:ایسا اختلاف جو اعراب اور بنا کا ہو جیسا ’’رَبَّنَا بَاعِدْ بَیْنَ اَسْفَارِنَا‘‘ بصیغۂ امر اور مکی، بصری اورہشام رحمہم اللہ اس کو بعَدبصیغۂ ماضی پڑھتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تیسرا قول:
ابو الفضل عبد الرحمان بن احمد بن الحسن الرازی رحمہ اللہ کا ہے ۔ان کے نزدیک بھی ’احرف‘ سے مراد وجوہ تغیر ہیں جن میں اختلاف واقع ہوا ہے اوروہ اوجہ یہ ہیں:
(١) اسماء کا اختلاف یعنی ایک قراء ت وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُوْنَ جبکہ ابن کثیر مکی رحمہ اللہ لِاَمَانَتِہِمْ مفرد کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
(٢) افعال کا اختلاف جیسا فَقَالُوْا رَبَّنَا بَاعِدْ بَیْنَا اَسْفَارِنَا ماضی اور امرکے ساتھ پڑھا گیا ہے۔
(٣) وجوہ اعراب کا اختلاف جیسے ’’وَلَا یُضَارَّ کَاتِبٌ وَّلاَشَہِیْدٌ‘‘ جمہور کے ہاں بفتح الراء ہے اور امام حمزہ رحمہ اللہ اس کو بضم الراء پڑھتے ہیں۔
(٤) زیادتی ونقصان کا اختلاف جیسے ’’وَاَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہَارُ ‘‘ کو ابن کثیر مکی رحمہ اللہ ’مِن‘ کے اضافہ کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
(٥) تقدیم وتاخیر کا اختلاف جیسے وقاتلوا وقتلوا کو حمزہ اور کسائی' وقتلوا وقاتلوا پڑھتے ہیں۔
(٦) ایک کلمے کی دوسرے کلمے کے ساتھ تبدیلی کا اختلاف جیسے ’’وَانْظُرْ اِلٰی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُہَا‘‘ کو قراء سبعہ میں سے نافع، مکی اور بصری رحمہم اللہ نُنْشِرُہَا بالراء پڑھتے ہیں۔
(٧) مختلف لہجات کا اختلاف: جیسے امالہ اور عدم امالہ اسی طرح تفخیم وترقیق ادغام اوراظہار کا اختلاف وغیرہ جیسے ’’وَہَلْ اَتَاکَ حَدِیْثُ مُوْسٰی‘‘میں اتاک اور موسی کو حمزہ اور کسائی' امالہ کبری اور ورش امالہ صغری سے پڑھتے ہیں اسی طرح بصری دوسرے میں بھی تقلیل کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چوتھا قول
خاتمہ المحققین امام محمد بن محمد الجزری رحمہ اللہ کا ہے جنہوں نے ۳۰سال سے زائد عرصہ اس حدیث میں غور وخوض کے بعد فرمایا کہ میں نے تمام قراء ت صحیحہ ،شاذہ ،ضعیفہ او رمنکرہ کا تجزیہ کیا تو وہ اختلاف کی سات وجوہ سے باہر نہیں ہیں۔
پہلی: حرکات کا اختلاف جس کی بنیادپر نہ صورتِ لفظ بدلتی ہے نہ معنی بدلتا ہے۔ جیسے البخل بضم الباء وسکون الخاء اور البخل بالفتحتین
دوسری: حرکات کا اختلاف اس طرح ہو کہ اس میں تغیر معنی تو ہو لیکن صورت رسمیہ تبدیل نہ ہو جیسے فتلقی آدم ،ضمہ کے ساتھ ،من ربہ کلمات ، منصوب بالجر، جو کہ جمہور قراء سبعہ کی قراء ت ہے جبکہ ابن کثیر مکی رحمہ اللہ کے ہاں آدم منصوب بر مفعولیت اورکلمات مرفوع بر فاعلیت ہے۔
تیسری : حروف کا اختلاف جس کی بنیاد پر معنی تبدیل ہو لیکن صورت رسمیہ تبدیل نہ ہو جیسے تبلوا او رتتلوا سورۃ یونس کی آیت ہُنَالِکَ تَبْلُوْا کُلُّ نَفْسٍ مَّا أَسْلَفَتْ میں حمزہ وکسائی' اس کو دو تاء سے پڑھتے ہیں جس کے معنی پیچھے آنے کے ہیں جبکہ باقی حضرات باء کے ساتھ پڑھتے ہیں جو امتحان کے معنی میں آتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چوتھی : وجہ بالاکا عکس یعنی حروف کا ایسا اختلاف جس میں صورت کلمہ تبدیل ہو لیکن معنی میں کوئی اختلاف نہ ہو بلکہ یکساں ہو جیسے ’’وَزَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْطَۃً‘‘میں خلاد کی ایک روایت نافع ،بزی ،ابن ذکوان، شعبہ اور کسائی رحمہم اللہ کے ہاں صاد کے ساتھ پڑھا گیا ہے ۔ جبکہ خلادرحمہ اللہ کی دوسری روایت اور باقی قراء سبعہ کے ہاں سین کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔
پانچویں :حروف کا ایسا اختلاف جس میں صورت کلمہ اورمعنی وونوں تبدیل ہو رہے ہیں جیسے فَامْضُوْا إِلٰی ذِکْرِ اﷲ
چھٹی : تقدیم وتاخیر کا اختلاف ۔ اس میں علامہ جزری رحمہ اللہ اور ابوالفضل الرازی رحمہ اللہ دونوں کا اتفاق ہے۔
ساتویں: کمی اور زیادتی کا اختلاف ۔ اس رائے میں بھی ہر دو حضرات کا اشتراک ہے۔
یہ وہ چار اقوال ہیں جو ایک دوسرے کے بالکل متقارب ہیں بلکہ بقول حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ ہر ایک نے اپنے پیشرو کے قول کی وضاحت کی اور اس کی تنقیح کی ہے۔ اور یہ بات چند دلائل کی بنیاد پر صحیح بھی ہے۔
پہلی دلیل: عہد کے اعتبارسے بھی یہ تمام حضرات یہی ترتیب رکھتے ہیں چنانچہ ابو حاتم سجستانی رحمہ اللہ سب سے اقدم ہیں جن کی وفات ۲۵۵ھ؁ میں ہے اوراس کے بعد عبد اللہ بن مسلم بن قتیبہ رحمہ اللہ ہوئے ہیں جو ۲۷۶ھ؁ میں فوت ہوئے ۔ان کے بعد قاضی ابوبکر محمد بن الطیب الباقلانی رحمہ اللہ ہوئے ہیں جو ۴۰۳ھ میں فوت ہوئے ہیں جبکہ ابو الفضل الرازی رحمہ اللہ کی وفات ۴۵۰ھ اور امام المحققین محمدبن الجزری الدمشقی رحمہ اللہ کی وفات ۸۳۳ھ میں ہے اورسجستانی سے ابن قتیبۃ کا شرف تلمذ بھی ثابت ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری دلیل: ان اَقوال اربعہ میں بہت حد تک اشتراک اور یکسانیت پائی جاتی ہے زیادہ سے زیادہ یہی فرق سامنے آتا ہے کہ ابو حاتم سجستانی رحمہ اللہ وجوہِ اختلاف لغاتِ سبعہ میں مانتے ہیں جبکہ ابن قتیبہ رحمہ اللہ وجوہِ اختلاف قراء تِ قرآنیہ میں مانتے ہیں اورابوالفضل الرازی رحمہ اللہ نے ابن قتیبہ رحمہ اللہ کی اوجہ سبعہ کی تصدیق کرتے ہوئے اختلاف لہجات کا اضافہ کر دیا جو سجستانی کے قول میں نمایاں ہے اس طرح علامہ جزری رحمہ اللہ نے ابن قتیبہ رحمہ اللہ کی مکمل موافقت کر دی ہے اور الباقلانی رحمہ اللہ نے تو ابن قتیبہ رحمہ اللہ کی ہی بات نقل کر دی ہے ۔ تو یہ سب کچھ نزاع لفظی اورپہلے قول کی تصدیق ہی ہے۔
لیکن اس تمام تر بحث کو قبول کر لینے کے بعد یہ بھی سوال باقی رہ جاتا ہے کہ احرف سبعہ سے مراد کیا ہے ؟اس کی وجہ یہ ہے کہ ان اَئمہ عظام میں سے کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ احرف سبعہ کی تفصیل ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک استناجِ عقلی ہوتا ہے اور ایک استنباط فقہی نصی ہوتا ہے۔ یہ تمام اقوال استنتاج عقلی تو ہیں یعنی قراء ا ت متواترہ پرغور کیا جائے تو کل یہی اوجہ سامنے آتی ہیں اوریہی تصریح امام ابن الجزری رحمہ اللہ کی بھی ہے کہ میں نے ۳۰ سال سے زیادہ عرصہ اس پر غور کیا تومیرے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ڈالی دی کہ قراء ات کا اختلاف ان سات اوجہ سے باہر نہیں ہے اور یہ بات تو تمام کے نزدیک درجہ تسلیم تک پہنچ چکی ہے، لیکن استنباط فقہی نصی کا مسئلہ ابھی تک باقی ہے کہ نص حدیث سے کیا مرا د ہے ؟
 
Top