• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اَحکام فقہ میں قراء اتِ قرآنیہ کے اَثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سنت سے دلیل:
فرمان نبویﷺہے:
’’فلا یحل لامری ء یؤمن باﷲ والیوم الآخر أن یسفک بہا دماً‘‘ (صحیح البخاري:۱۰۴)
’’ جو شخص اللہ تعالیٰ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ یہاں خون بہائے۔‘‘
احناف اور حنابلہ کا کہنا ہے کہ مالکیہ اور شافعیہ کی ذکرکردہ دلیل زمان ومکان کے عموم پر دلالت نہیں کرتی(یعنی یہ عمومی دلیل نہیں ہے)بلکہ یہ رسول اللہﷺکے اس فرمان کے ساتھ مقید ہوجاتی ہے جس میں آپ نے بیت اللہ میں خون بہانے سے منع فرمایا ہے۔مزید برآں فتح مکہ کا دن رسول اللہﷺکے لیے حلال تھا، حلت کا وقت صبح سے عصر تک جاری رہا اور ابن خطل کو اسی دوران واصل جہنم کیا گیا۔ (سبل السلام للصنعانی:۴؍۷۲،۷۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
راجح مؤقف
اس مسئلہ میں راجح مؤقف امام ابوحنیفہ﷫ اور امام احمد﷫کا ہی نظر آتا ہے کہ بیت اللہ الحرام میں اِقامت حدود اور خون بہانا جائز نہیں ہے الا یہ کہ اس کے لیے مجبور کر دیاجائے۔
٭فرمان الٰہی ہے:’’وَلَا یُضَارَّ کَاتِبٌ وَّلَا شَہِیْدٌ‘‘(البقرۃ: ۲۸۲)
قراء عشرہئ﷭ نے اس آیت کے لفظ ’یضار‘ میں مختلف قراء تیں بیان کی ہیں ۔ ابن کثیر، یعقوب اور ابو عمرو بصری﷭ ’راء ‘ کے ضمہ کے ساتھ’یضارُ‘ جبکہ باقی تمام قراء ﷭ ’راء ‘ کے فتحہ کے ساتھ ’یضارَ‘پڑھتے ہیں۔
البتہ ’یضار‘ میں ضاد اور راء کے درمیان الف کومد کے ساتھ پڑھنے میں کوئی اختلاف نہیں کیا گیا اور یہ التقاء ساکنین کی وجہ سے ہے۔(النشر:۲۲۸)
رفع والی قراء ت سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں موجود’ لا‘ نافیہ ہے اوراس کے بعد مضارع مرفوع ہے اور فتحہ والی قراء ت سے معلوم ہوتا ہے کہ فعل مضارع لائے نہی کے بعد مجزوم ہے اور اجتماع ساکنین کی وجہ سے فتحہ دیا گیا ہے۔ فتحہ والی قراء ت فائدہ دیتی ہے کہ یہاں’لا‘ نافیہ ہے اور لائے نفی لکھنے والے اور گواہ دونوں کو صاحب حق کی جانب سے ضرر کی نفی کرتی ہے اور رفع والی قراء ت، لکھنے والے اور گواہ کو صاحب حق کو ضرر پہنچانے سے روکتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭شافعیہ کہتے ہیں:
’’ومن مضارۃ الشہید لصاحب الحق القعود عن الشہادۃ ولیس فیہا إلا شاہد أن فعلیہما فرض أدائھا وترک مضارۃ صاحب الحق بالامتناع من إقامتھا،وکذلک علی الکاتب أن یکتب إذا لم یوجدغیرہ‘‘ (جامع لأحکام القرآن للقرطبی:۱؍۴۰۶،۴۰۷)
’’گواہ صاحب حق کو اس طرح ضرر پہنچا سکتا ہے کہ وہ بیٹھا رہے اور گواہی دینے کے لیے نہ جائے لہٰذا اسے صاحب حق کو نقصان سے بچانے کے لیے گواہی دینا فرض ہے ایسے ہی کاتب پر لکھنا فرض ہے جب کوئی دوسرا کاتب موجود نہ ہو۔‘‘
بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے کتمانِ شہادت سے سختی سے منع فرمایا ہے:
’’وَلَا تَکْتُمُوْا الشَّہَادَۃَ وَمَنْ یَّکْتُمْہَا فَإنَّہُ اٰثِمٌ قَلْبُہُ‘‘ (البقرۃ: ۳۸۲)
’’ اور شہادت کو ہرگز نہ چھپاؤ اور شہادت کو چھپاتا ہے اس کا دل گناہ میں آلودہ ہے۔‘‘
کتاب المغنی میں ہے:
’’ فرمان الٰہی’’وَلَا یُضَارَّ کَاتِبٌ وَّلَا شَہِیْدٌ‘‘ میں موجود ’یضار‘کو رفع اور فتحہ دونوں طرح پڑھا گیا ہے۔ جنہوں نے اسے رفع کے ساتھ پڑھا ہے انہوں نے اسے خبر شمار کیا ہے، اوریہاں خبر دو معنوں پر مشتمل ہے:
(١) یہ کہ کاتب فاعل ہو، یعنی کاتب اور شہید ضرر نہ پہنچائیں۔ وہ اس طرح کہ جب اس کو بلایا جائے تو حاضر نہ ہو یا کاتب ایسی چیز لکھ دے جو لکھوائی نہ گئی ہو یا گواہ ایسی گواہی دے جس کا اس سے تقاضا نہ کیا گیا ہو۔
(٢) یہ کہ’یضار‘ فعل ما لم یسم فاعلہ ہو، ایسی صورت میں اس کا معنی یہ ہوگا کہ کاتب اور گواہ کو تکلیف میں مبتلا نہ کیا جائے کہ ہر وقت ان کو اسی کام میں مشغول رکھا جائے جس سے ان کی زندگی کے دیگر معمولات معطل ہو جائیں۔ (المغنی لابن قدامۃ:۹؍۱۴۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ مذکورہ آیت میں فتحہ والی قراء ت صاحب حق کی جانب سے کاتب اورشہید کو تکلیف پہنچانے سے باز رکھتی ہے،جبکہ رفع والی قراء ت کاتب اور شہید کی جانب سے صاحب حق کو ضرر پہنچانے سے روکتی ہے۔چونکہ دونوں قراء ات ایک دوسرے کو ضرر پہنچانے سے باز رکھتی ہیں لہٰذا دونوں قراء توں میں کسی قسم کا کوئی تعارض باقی نہیں رہ جاتا۔
٭فرمان الٰہی ہے:
’’وَإِنْ کُنْتُمْ مَرْضٰی أوْ عَلٰی سَفَرٍ أوْ جَائَ أحَدٌ مِّنْکُمْ مِنَ الْغَائِطِ أوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَائَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَائً فَتَیَمَّمُوْا‘‘ (النساء:۴۳)
اس آیت کے کلمہ’لمستم‘ میں دو قراء تیں بیان کی گئی ہیں:
(١) الف کے بغیر ’لمستم‘۔یہ قراء ت حمزہ، کسائی اور خلف﷭ کی ہے۔
(٢) الف کے ساتھ’لامستم‘یہ قراء ت قراء عشرہ میں سے دیگرقراء﷭ کی ہے۔(اتخاف فضلاء البشر:۱؍۵۱۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلی قراء ت کا معنی
پہلی قراء ۃ جو کہ بغیر الف کے پڑھی گئی ہے، اس کا معنی جماع کرنا ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ کہا جاتا ہے: ’نکحت‘ ’ناکحت‘نہیں کہا جاتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری قراء ت کا معنی
دوسری قراء ت جو ثبوت الف کے ساتھ پڑھی گئی ہے،اس کا معنی ہے ہاتھ کے ساتھ چھونا، کیونکہ عورت مرد کو چھوتی ہے اور مرد عورت کو، اور باب مفاعلہ میں جانبین شریک ہوتے ہیں۔(اعراب القراء ات:۱؍۱۳۴)
اور جب لمس کی نسبت خواتین کی طرف ہو تویہ جماع سے کنایہ ہوتا ہے۔
ابن عباس﷜ فرماتے ہیں: ’’لمس جماع سے کنایہ ہے۔‘‘
’لامستم‘میں مختلف قراء ات کی بناء پر مسئلہ نقض وضو میں اختلاف کیا گیا ہے۔امام ابوحنیفہ﷫کا خیال ہے کہ عورت کے ساتھ ایسی مباشرت جس میں جماع نہ ہو، وضو کو نہیں توڑتی۔ لیکن اگر ذکر منتشر ہوجائے تو ایسی صورت میں وضو ٹوٹ جائے گا۔(التنبیہ للشیرازی:ص۲۱۰)
امام مالک﷫اور امام احمد﷫کے نزدیک مرد کا شہوت کے ساتھ عورت کو چھونا ناقض وضو ہے۔(مقدمات ابن رشد:۱؍۶،الشرح الصغیر للدریر:۱؍۵۴،۵۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
راجح مؤقف
ہمارے نزدیک راجح مسلک یہی ہے کہ خاتون کو شہوت یا بغیر شہوت چھونا وضو کو نہیں توڑتا اور’لمستم‘اور ’لامستم‘دونوں قراء توں سے مراد جماع کرناہے۔اس کی تائید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’أن النبیﷺ قبّل امرأۃ من نسائہ ثم خرج إلی الصلاۃ ولم یتوضأ‘‘ (سنن أبوداؤد:۱۷۹)
’’رسول اللہﷺنے اپنی ایک بیوی کو بوسہ دیا پھر آپﷺنماز کے لیے نکلے اور وضو نہ فرمایا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَحکام فقہیہ پر قراء تِ شاذہ کے اثرات کا جائزہ
فقہاء کرام﷭ نے قراء اتِ شاذہ پر بھی بہت سے اَحکام فقہیہ کی بنیاد رکھی ہے اور انہیں ایک مصدر کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس کی اَمثلہ پیش خدمت ہیں:
روزوں کی قضا میں متابعت کا حکم:
فرمان الٰہی ہے:’’أیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا أوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أیَّامٍ أخَرَ وَعَلَي الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ فَہُوَ خَیْرٌ لَّہُ وَأنْ تَصُوْمُوْ خَیْرٌ لَّکُمْ إنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ‘‘ (البقرۃ: ۱۸۴)
حضرت ابی بن کعب﷜نے یہاں ’’فعدۃ من أیام أخر متتابعات‘‘ (تفسیر الکبیر:۱؍۱۷۰)پڑھا ہے۔ اسی ضمن میں علماء کرام نے رمضان میں رہ جانے والے روزوں کی قضا میں اختلاف کیا ہے کہ آیا یہ مسلسل رکھے جائیں گے یا الگ الگ بھی رکھے جا سکتے ہیں؟
علی بن ابی طالب﷜، ابن عمر ﷜، امام نخعی﷫، شعبی﷫ اور دیگر کا خیال ہے کہ ان کا مسلسل رکھنا واجب ہے۔ امام داؤد ظاہری﷫ فرماتے ہیں:
’’یجب التتابع ولا یشترط‘‘(المجموع للنووی:۶؍۲۶۷)
’’بغیر کسی شرط کے متتابعت ضروری ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تین وجوہ سے قراء ت اُبی﷜کی تائید ہوتی ہے:
(١) حضرت ابوہریرہ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’من کان علیہ صوم من رمضان فلیسردہ ولا یقطعہ‘‘ (سنن الدار قطني)
’’جس کسی پر رمضان کے روزے ہوں وہ انہیں مسلسل رکھے اور منقطع نہ کرے۔‘‘
(٢) انسان کو چاہیے کہ اللہ کے حقوق جس قدر جلدی ممکن ہو اَدا کر دے، کیونکہ خدا تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’وَسَارِعُوْا إلٰی مَغْفِرَۃٍ مِنْ رَّبِّکُمْ‘‘ (آل عمران:۱۳۳)
’’اور اپنے رب کی بخشش کی جانب دوڑ کر چلو۔‘‘
اور یہ جلدی روزوں کو مسلسل رکھنے سے ہی ہوسکتی ہے، جو کہ واجب ہے۔
(٣) قضاء اداہی کی مثل ہے ، تتابع جس طرح ادا میں واجب ہے بالکل اسی طرح قضاء میں بھی واجب ہے۔
جمہور﷭ کا خیال ہے کہ روزوں میں تفریق جائز ہے، لیکن متابعت مستحب ہے۔ (المجموع للنووی:۶؍۲۶۷، المغنی:۳؍۸۸،المحلی:۲۶۱۳)
ان کی دلیل اللہ کا قول’’فَعِدَّۃٌ مِّنْ أیَّامٍ أخَرَ‘‘ہے۔ یہاں نکرہ سیاقِ اثبات کے لیے ہے جو کہ اطلاق کا فائدہ دیتا ہے۔ اس آیت میں روزوں کی قضاء کا مطلق حکم دیا گیا ہے اگر اس سے مراد تتابع ہوتا تو اسے صریح الفاظ میں بیان کیا جاتاجیسا کہ’ قتل‘ اور ’ظہار‘ کے کفارہ میں مسلسل روزوں کا حکم دیا گیا ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامٌ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ أنْ یَّتَمَاسَّا‘‘ (المجادلۃ:۴)
’’اور جو شخص غلام نہ پائے وہ دو مہینے کے پے درپے روزے رکھے قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭امام شافعی﷫ فرماتے ہیں:
’’جو شخص مرض یا سفر کی وجہ سے رمضان کے روزے چھوڑ دے تو وہ ان کی کسی بھی وقت قضائی دے سکتا ہے اور قضاء میں مسلسل روزے رکھنا ضروری نہیں ہے،کیونکہ آیت’’فَعِدَّۃٌ مِّنْ أیَّامٍ أخَرَ‘‘میں تتابع کا حکم نہیں دیا گیا۔ (الأم:۲؍۱۰۳)
٭امام شافعی﷫ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
’’العدۃ أن یأتی بعدد صوم لا ولاء‘‘ (الأم:۷؍۶۶)
’’عدت عدد صیام میں ہے نہ کہ ان کو ملا کر رکھنے میں۔‘‘
امام صاحب نے قراء ت اُبی﷜ کو دلیل نہیں بنایا، کیونکہ یہ قراء ت منسوخ ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’جب آیت’’فَعِدَّۃٌ مِّنْ أیَّامٍ أخَرَ ‘‘نازل ہوئی تو ’متتابعات‘ کو ساقط کر دیا گیا‘‘(مصنف عبدالرزاق:۴؍۲۴۱، سنن دارقطنی:۲؍۱۹۴)لیکن مطلق حکم باقی رہا۔
آپ کے قول کی تائید درج ذیل فرمان الہٰی سے ہوتی ہے:
’’یُرِیْدُ اﷲُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ‘‘ (البقرۃ:۱۸۵)
’’اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے نہ کہ سختی۔‘‘
مسلسل روزے رکھنے میں جہاں آسانی کی نفی ہوتی ہے وہاں تکلیف کا اثبات بھی ہوتا ہے۔جوآیت کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہے۔
 
Top