• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اَحکام فقہ میں قراء اتِ قرآنیہ کے اَثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تفریق کے جواز پر دلالت کرنے والی اَحادیث
(١) حضرت ابن عمر﷜سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے رمضان کے روزوں کی قضا کے بارے میں فرمایا:
’’إن شاء فرق،وإن شاء تابع‘‘ (سنن الدارقطنی:۲؍۱۹۲)
چاہے تو تفریق کر لے اور اگر چاہے تو مسلسل روزے رکھ لے۔‘‘
(٢) ابن عمر﷜ہی سے روایت ہے کہ قضاء رمضان سے متعلق دریافت کرنے پرآپﷺ نے فرمایا:
’’یقضیہ تباعا،وإن فرقہ أجزأہ‘‘( سنن الدار قطنی:۲؍۱۹۲)
’’قضاء مسلسل دی جائے گی اگرچہ روزوں کو مختلف اوقات میں چھوڑا ہو۔‘‘
(٣) محمد بن منکدر﷫ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺسے روزوں کی قضائی دیتے ہوئے ان کے مابین تفریق کے متعلق سوال کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا:
’’ذلک إلیک،أرأیت لو کان علی أحدکم دین فقضی الدرہم والدرہمین ألم یکن قضائ؟ فاﷲ أحق أن یعفوا أو یغفر‘‘(سنن الدارقطنی:۲؍۱۹۴،سنن بیہقی:۴؍۲۵۹)
’’ اس کا انحصار تم پر ہے، جب تم پر کسی کا قرض ہوتا ہے تو وہ ایک ایک، دو دو درہم کر کے ادائیگی کرتا ہے تو کیا اس کی طرف سے اَدا نہیں ہوجاتا؟ لہٰذا اللہ تعالیٰ زیادہ حق رکھتے ہیں کہ وہ معاف کریں اور بخش دیں۔‘‘
اِن اَحادیث پر اگرچہ استنادی اعتبار سے بحث کی گئی ہے، لیکن یہ تمام مل کر اپنے مؤقف کو تقویت ضرور پہنچاتی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭زیلعی﷫ فرماتے ہیں:
’’اگر کہا جائے کہ قراء ۃ ابی ’’فعدۃ من أیام أخر متتابعات‘‘ ہے تو ہم کہیں گے کہ قراء ۃ اُبی مشہور کی حد تک نہیں پہنچتی۔ لہٰذا اس سے ابن مسعود﷜ کی مشہور قراء ت کی تخصیص نہیں کی جاسکتی۔‘‘(تبیین الحقائق:۱؍۳۳۶)
حنابلہ نے بھی اسی بناء پر تتابع کو واجب قرار نہیں دیابلکہ انہوں نے ابن مسعود﷜کی کفارۃ یمین والی قراء ت کو دلیل بنایا ہے ۔ان کے نزدیک قراء ت اُبی کی صحت صحیح ثابت نہیں ہے۔
٭ابن قدامہ﷫ کہتے ہیں:
’’فإن قیل فقد روی عن عائشۃ أنہا قالت: نزلت:’’فَعِدَّۃٌ مِّنْ أیَّامٍ أخَرَ‘‘فسقطت متابعات۔ قلنا ہذا إن ثبت عندنا صحتہ،ولو صح فقد سقطت اللفظۃ المحتج بہا‘‘(المغنی لابن قدامۃ:۳؍۸۸)
’’اگر وہ کہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آیت ’’فَعِدَّۃٌ مِّنْ أیَّامٍ أخَرَ مُتَتَابِعَاتٍ‘‘ نازل ہوئی تو اس نے متتابعات کو ساقط کردیا۔ توہم کہیں گے کہ اگرچہ یہ صحت سند کے ساتھ ثابت بھی ہو تو پھر بھی وہ جس لفظ کو بطور دلیل اختیار کرتے ہیں وہ ساقط ہے۔‘‘
شافعی حضرات، جنہوں نے اس شاذقراء ۃ کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے، کا کہنا ہے کہ یہ قراء ت منسوخ نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭صلاۃ وسطیٰ
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا ﷲِ قَانِتِیْنَ‘‘(البقرۃ:۲۳۸)
مصحف عائشہ رضی اللہ عنہا اور اِملاء حفصہ رضی اللہ عنہا میں یہ آیت اس طرح ہے:
’’والصلاۃ الوسطی وہی صلاۃ العصر‘‘(جامع البیان للطبری:۵؍۱۷۵)
جبکہ بعض روایات میں ’’والصلاۃ الوسطی وصلاۃ العصر‘‘کے الفاظ ہیں۔(جامع البیان:۵؍۲۰۵)
ابن عباس﷜اور دیگر نے بھی اسی طرح پڑھا ہے۔
مصحف اُم سلمہ رضی اللہ عنہا و حفصہ رضی اللہ عنہا میں واؤ کے بغیر ’’والصلاۃ الوسطی صلاۃ العصر‘‘کے الفاظ ہیں:(جامع البیان:۵؍۱۷۶)
اس آیت میں مختلف قراء ات شاذۃ کی بناء پر علماء کرام نے صلاۃ الوسطیٰ سے متعدد معانی کا استنباط کیا ہے۔ جمہور علماء کا خیال ہے کہ اس سے مراد عصر کی نماز ہے۔(المبسوط:۱۴۱)
ایک قراء ۃ جو کہ’’والصلاۃ الوسطی صلاۃ العصر‘‘ کی ہے ،اسے دو معاملات پر محمول کیا جائے گا۔
(١) یہ کہ واؤ زائدہ ہو۔(فتح الباري:۹؍۲۶۴)
(٢) یہ کہ واؤ عاطفہ ہو، لیکن یہ عطف صفت کا صفت پر ہو نہ کہ ذات کا۔(السابق والمحلی:۴؍۲۵۶)
فرمانِ الٰہی ہے:’’وَلٰٰکِنْ رَّسُوْلَ اﷲِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ‘‘ (الاحزاب:۴۰)
’’لیکن وہ اللہ کے رسولﷺاور خاتم النبیین ہیںـ۔‘‘
یعنی رسول اللہﷺہی خاتم النبیین ہیں۔پس صلاۃ العصر کہنا صلاۃ الوسطیٰ کی وضاحت ہے جو کہ نماز عصر ہے۔
حنفیہ نے نمازِ عصر کے اثبات میں پیش کی جانے والی ان قراء ات کو اختیار نہیں کیا،کیونکہ یہ مشہور کی حد تک نہیں پہنچتیں بلکہ انہوں نے اس سلسلے میں وارد شدہ صحیح اَحادیث کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بہرحال صلاۃ الوسطیٰ سے مراد نماز عصر ہی ہے جس کی تائید درج ذیل احادیث سے ہوتی ہے:
٭حضرت علی بن ابی طالب﷜سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے غزوۂ احزاب کے دن فرمایا:
’’ملأ اﷲ قبورہم وبیوتہم نارا کما شغلونا عن صلاۃ الوسطی حتی غابت الشمس وہی صلاۃ العصر‘‘ (صحیح بخاري:۶۳۹۶)
’’اللہ تعالیٰ ان(کافر مکہ) کی قبروں اور گھروں کو اس طرح آگ سے بھر دے جس طرح انہوں نے ہمیں صلاۃ وسطیٰ سے مشغول کر دیا۔ حتیٰ کہ سورج غروب ہوگیا اور وہ(صلاۃ وسطیٰ) نماز عصرہے۔‘‘
٭حضرت سمرہ بن جندب﷜سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’الصلاۃ الوسطیٰ صلاۃ العصر‘‘(سنن ترمذی)’’صلاۃ وسطیٰ نماز عصر ہے۔‘‘
مالکیہ کا خیال ہے کہ اس سے مراد صبح کی نماز ہے۔ ان کی دلیل اسی آیت میں صلاۃ الوسطیٰ کے بعد مذکور الفاظ’’وَقُوْمُوْا ﷲِ قَانِتِیْنَ‘‘ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس سے مراد قنوت ہے اور صحیح احادیث کی روشنی میں قنوت صرف صبح کی نماز میں ثابت ہے لہٰذا اس سے مراد فجر کی نماز ہی ہے۔ ذیل میں بیان کردہ نقطوں سے ان کے مؤقف کی مزید تائید ہوتی ہے:
٭ نماز فجر میں ایسے خصائص پائے جاتے ہیں جو دوسری نمازوں میں نہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اللہ تعالیٰ نے فجر کے قرآن کو مشہود بنایا ہے۔ فرمایا:’’إِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُوْدًا‘‘ (الاسراء:۷۸)
’’یعنی یہی وہ نماز ہے جس میں روز وشب کے ملائکہ حاضری دیتے ہیں۔‘‘
٭ ظہر وعصر کو جمع کیا جا سکتا ہے اور سی طرح مغرب وعشاء کو بھی، جبکہ فجر کی نماز میں ایسا نہیں ہے وہ انفرادی طور پر ہی اَدا کی جائے گی۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ فجر کی نماز تمام نمازوں میں سے سب سے افضل ہے۔جس کا لازمی مطلب یہی ہے کہ صلاۃ وسطیٰ سے مراد فجر کی نماز کو لیا جائے۔
٭ اس میں شک نہیں ہے کہ نماز فجرکو تاکیدی اعتبار سے انفرادی مقام حاصل ہے، اور یہی وہ نماز ہے جو عمومی طور پر سب سے مشکل تصور کی جاتی ہے، کیونکہ اس کا وقت سونے کے اوقات میں ہوتا ہے۔ اہل عرب نے تو فجر کے وقت نیند کو شہد سے تشبیہ دی ہے۔
بعض کا خیال ہے کہ اس سے مراد نماز ظہر ہے۔(مواہب الجلیل:۱؍۴۸۹)
بیان کردہ اَمثلہ سے اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ قراء اتِ شاذۃ اَحکام فقہیہ میں اثر پذیری رکھتی ہیں اور ان کی مدد سے بہت سے فقہی اَحکام مستنبط کیے جاتے ہیں۔

٭_____٭_____٭
 
Top