• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اَلدِّیْنُ النَّصِیْحۃ

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
پڑوسی خواہ دوست ہو یا دشمن، مسلمان ہو یا غیر مسلم، سبھی کا برابر حق ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے یہاں بکری ذبح کی گئی تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے فرمایا:
ھَلْ اَھْدَیْتُمْ مِّنْھَا لِجَارِنَا الْیَھُوْدِیِّ قَالُوْا لَا قَالَ ابْعَثُوْا لَہٗ مِنْھَا فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَازَالَ جِبْرِیْلُ یُوْصِیْنِیْ بِالْجَارِ حَتّٰی ظَنَنْتُ اَنَّہٗ سَیُوَرِّثُہٗ۔ (ابوداؤد)
کیا تم لوگوں نے میرے یہودی ہمسائے کو اس بکری کے گوشت میں سے کچھ ہدیہ بھیجا ہے یا نہیں؟ گھر والوں نے کہا، نہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس میں سے کچھ گوشت ہدیہ کے طور پر بھیج دو۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مجھے جبرئیل علیہ السلام ہمسائے کے ساتھ نیکی کرنے کی اتنی تاکید فرمایا کرتے تھے کہ میں نے سمجھا کہ اس کو ورثہ کا حصہ دار بنا دیں گے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے مؤطا میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ گوشت کا ایک ٹکڑا لٹکائے جا رہے ہیں۔ پوچھا، کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا، کہ امیر المومنین! گوشت کھانے کو جی چاہتا تھا تو ایک درہم کا گوشت خریدا ہے۔ فرمایا: اے جابر! کیا اپنے پڑوسی یا عزیز کو چھوڑ کر صرف اپنے پیٹ کی فکر کرنا چاہتے ہو، کیا تمہیں یہ آیتیں یاد نہیں ہیں:
وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا عَلَي النَّارِ۝۰ۭ اَذْہَبْتُمْ طَيِّبٰتِكُمْ فِيْ حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِہَا۝۰ۚ (احقاف:۲۰)
یعنی جس دن کافر دوزخ کے سامنے پیش کیے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ تم نے اپنی دنیا کی زندگی میں خوب مزے لوٹ لیے اور زندگی سے خوب فائدہ اُٹھایا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
رسول اللہ ﷺکی سچی محبت یہی ہے کہ آپ کے پیغام اور ارشاد پر پورا پورا عمل کیا جائے اور پڑوسی کی عزت کی جائے۔
سیدنا عبدالرحمٰن بن ابی قراء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ یَوْمًا فَجَعَلَ اَصْحَابُہٗ یَتَمَسَّحُوْنَ بِوَضُوْئِ ہٖ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا حَمَلَکُمْ عَلٰی ھٰذَا قَالُوْا حُبُّ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ سَرَّہٗ اَنْ یُّحِبَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ اَوْ یُحِبُّہُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ فَلْیَصْدُقْ حَدِیْثَہٗ اِذَا حَدَّثَ وَلْیُؤَدِّ اَمَانَتَہٗ اِذَا ائْتُمِنَ وَلْیُحْسِنْ جَوَارَ مَنْ جَارَ۔ (شعب الایمان)
ایک روز نبی کریم ﷺنے وضو کیا تو آپ کے وضو کے پانی کو صحابہ کرام تبرکاً منہ پر ملنے لگے تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا: تم نے ایسا کیوں کیا؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ اللہ و رسول کی محبت کی وجہ سے ۔ آپ نے فرمایا: جسے یہ بات بھلی معلوم ہو کہ وہ اللہ و رسول کو دوست رکھے یا اللہ و رسول اس کو دوست رکھیں تو اسے چاہیے کہ جب بولے تو سچ بولے اور جب لوگ اس کا اعتبار کر کے اس کے پاس امانت رکھیں تو ان کی امانتیں جب وہ مانگیں ادا کریں اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا خدا اور رسول کے ساتھ محبت کی نشانی ہے اور اگر اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا تو یہ اللہ و رسول کے ساتھ دشمنی رکھنے کی علامت ہے۔
جیسا کہ خود رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:
وَاللہِ لَایُؤْمِنُ وَاللہِ لَا یُؤْمِنُ وَاللہِ لَا یُؤْمِنُ قِیْلَ مَنْ یَارَسُوْلَ اللہِ قَالَ الَّذِیْ لَا یَامَنَ جَارُہٗ بَوَائِقَہٗ۔ (بخاری و مسلم)
اللہ کی قسم! وہ پورا مومن نہیں ہے، اللہ کی قسم وہ کامل مومن نہیں ہے، اللہ کی قسم وہ شخص کامل ایمان دار نہیں ہے۔ عرض کیا گیا یارسول اللہ! وہ کون شخص ہے تو آپ نے فرمایا: وہ شخص ہے جس کا پڑوسی اس کی ایذا رسانی سے مامون و محفوظ نہ ہو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پڑوسی کو ایذا پہنچانے والا مومن نہیں ہے بلکہ پڑوسی کو ایذا پہنچانے والا دوزخی ہے۔
جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
قَالَ رَجُلٌ یَارَسُوْلَ اللہِ اِنَّ فُلَانَۃً تُذْکَرُ مِنْ کَثْرَۃِ صَلٰوتِھَا وَصِیَامِھَا وَصَدَقَتِھَا غَیْرَ اَنَّھَا تُؤْذِیْ جِیْرَانَھَا بِلِسَانِھَا قَالَ ھِیَ فِی النَّارِ قَالَ یَارَسُوْلَ اللہِ اِنَّ فُلَانَۃً تُذْکَرُ مِنْ قِلَّۃِ صِیَامِھَا وَصَدَقَتِھَا وَصَلٰوتِھَا وَلَا تُؤْذِیْ بِلِسَانِھَا جِیْرَانَھَا قَالَ ھِیَ فِی الْجَنَّۃِ۔ (احمد، بیہقی)
یعنی ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ! فلاں عورت کی نسبت لوگ کہتے ہیں کہ وہ نماز بہت زیادہ پڑھتی ہے، روزے بکثرت رکھتی ہے اور خیرات بہت کرتی ہے مگر ساتھ ہی ہمسایہ کو زبان سے تکلیف بھی پہنچاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ وہ عورت دوزخ میں جائے گی (کیوں کہ نماز، روزہ اور خیرات اگرچہ افضل العبادات ہیں مگر اس گناہ یعنی ایذائے ہمسایہ کی تلافی نہیں کر سکتے) عرض کیا یارسول اللہ! لوگ فلاں عورت کی نسبت کہتے ہیں کہ نماز کم پڑھتی ہے اور روزے تھوڑے رکھتی ہے اور خیرات بھی کچھ یوں ہی سی کرتی ہے ہاں ہمسائے کو زبان سے تکلیف نہیں دیتی۔ فرمایا وہ جنت میں جائے گی۔ (کیوں کہ ہمسایہ کو تکلیف نہ دینا دوسری باتوں کی تلافی کردے گا)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
پڑوس کو ستانا گناہ کبیرہ ہے، قیامت کے روز سب سے پہلے ان دو پڑوسیوں کی اللہ کے سامنے پیشی ہوگی جنہوں نے دنیا میں ایک دوسرے کی حق تلفی کی ہوگی۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اَوَّلُ الْخَصْمَیْنِ یَوْمَ الْقَیٰمَۃِ جَارَانِ۔ (مسند احمد)
قیامت کے روز سب سے پہلے دو پڑوسی اللہ کے سامنے پیش ہوں گے جنہوں نے ایک دوسرے کا حق ادا نہیں کیا اور آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
قیامت کے دن ہمسایہ اپنے ہمسایہ کے بارے میں یہ شکایت کرے گا کہ اس نے مجھے نہ اچھی باتوں کی نصیحت کی نہ بُری باتوں سے روکا نہ نماز پڑھنے کو کہا اور نہ روزہ رکھنے کو کہا۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کتاب الصلوٰۃ ومایلزم لہا کے صفحہ ۲۲ میں فرماتے ہیں:
وَقَدْجَائَ الْحَدِیْثُ قَالَ یَجِیْءُ الرَّجُلُ یَوْمَ الْقَیٰمَۃِ مُتَعَلِّقًا بِجَارِہٖ فَیَقُوْلُ یَارَبِّ ھٰذَا خَانَنِیْ فَیَقُوْلُ یَارَبِّ وَعِزَّتِکَ مَاخُنْتُہٗ فِی اَھْلٍ وَّمَالٍ فَیَقُوْلُ صَدَقَ یَارَبِّ وَلٰکِنَّہٗ رَاٰنِیْ عَلٰی مَعْصِیَۃٍ فَلَمْ یَنْھَنِیْ عَنْھَا۔
یعنی حدیث شریف میں آیا ہے کہ قیامت کے روز ایک شخص اپنے پڑوسی کے دامن کو پکڑ کر اللہ کے سامنے فریاد کرے گا کہ اے میرے پروردگار! اس نے میری خیانت کی، وہ کہے گا، تیری عزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں میں نے اس کے اہل و عیال میں اور اس کے مال میں کوئی خیانت نہیں کی ہے۔ وہ کہے گا میرے پروردگار! یہ تو ٹھیک کہتا ہے لیکن اس نے مجھے گناہ کرتے ہوئے دیکھا تھا مگر مجھے اس گناہ سے روکا نہیں تھا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
نیک و بد کی یہ پہچان ہے کہ اگر پڑوسی اپنے پڑوسی کے بارے میں یہ کہے گا کہ یہ اچھا ہے تو وہ اچھا ہے اور جو بُرا کہے وہ بُرا ہے۔ ا س کے بارے میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول کریم ﷺکی خدمت میں عرض کیا:
یَارَسُوْلَ اللہِ کَیْفَ لِیْ اَعْلَمُ اِذَا اَحْسَنْتُ وَاِذَا اَسَأْتُ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا سَمِعْتَ جِیْرَانَکَ یَقُوْلُوْنَ قَدْ اَحْسَنْتَ فَقَدْ اَحْسَنْتَ وَاِذَا سَمِعْتَھُمْ یَقُوْلُوْنَ قَدْ اَسَأْتَ فَقَدْ اَسَأْتَ۔ (ابن ماجہ)
یارسول اللہ! مجھے اپنے بھلے یا بُرے عمل کا علم کیوں کر ہوسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ جب تو اپنے ہمسایوں کو کہتا ہوا سنے کہ تو نے اچھائی کی ہے تو جان لے کہ تو نے اچھا عمل کیا ہے اور جب انہیں یہ کہتا ہوا سنے کہ تو نے بُرا کام کیا ہے تو سمجھ لے بے شک تو نے بُرا عمل کیا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یعنی اچھے اور بُرے ہونے کی یہی کسوٹی ہے کیوں کہ پڑوسی اپنے پڑوسی کے اخلاق حمیدہ اور افعال ذمیمہ سے خوب واقف ہوتا ہے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:
مَنْ یَّاخُذُ مِنِّیْ ھٰؤُلَائِ الْکَلِمَاتِ فَیَعْمَلُ بِھِنَّ اَوْیُعَلِّمُ مَنْ یَّعْمَلُ بِھِنَّ فَقُلْتُ اَنَا فَاَخَذَ بِیَدِیْ فَعَدَّ خَمْسًا فَقَالَ اتَّقِ الْمَحَارِمَ تَکُنْ اَعْبُدَ النَّاسِ وَارْضَ بِمَا قَسَّمَ اللہُ لَکَ تَکُنْ اَغْنَی النَّاسِ وَاَحْسِنْ اِلٰی جَارِکَ تَکُنْ مُّؤْمِنًا وَاَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِکَ تَکُنْ مُسْلِمًا وَلَا تُکْثِرِ الضِّحْکَ فَاِنَّ کَثْرَۃَ الضِّحْکِ تُمِیْتُ الْقَلْبَ۔ (احمد، ترمذی)
کون شخص ان کلمات کو (جو میں ابھی کہتا ہوں) مجھ سے سیکھتا ہے، اس پر کاربند ہوتا ہے یا اس شخص کو سکھاتا ہے جو انہیں عمل میں لائے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے عرض کیا یارسول اللہ! میں سیکھتا ہوں، تو آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر پانچ باتیں فرمائیں، حرام سے بچو، سب سے زیادہ عابد بن جاؤ گے۔ راضی برضا اللہ والقدر ہوجاؤ تو سب سے غنی ہوجاؤ گے اور اپنے ہمسایہ کے ساتھ بھلائی کرو تو مومن بن جاؤ گے اور جو اپنے لیے چاہو وہی دوسروں کے لیے بھی چاہو تو کامل مسلمان بن جاؤ گے اور زیادہ مت ہنسو اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مار دیتا ہے۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ نیکی کرنا کامل مسلمان ہونے کی دلیل ہے۔ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی نصیحت و وصیت فرمایا کرتے تھے۔ اپنے ہمسایہ اور پڑوس کو تکلیف پہنچانا حرام ہے، جو پڑوسی کو تکلیف پہنچاتا ہے تو گویا وہ اللہ اور رسول ﷺ کو تکلیف پہنچاتا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
مَنْ اٰذٰی جَارَہٗ فَقَدْ اٰذَانِیْ وَمَنْ اٰذَانِیْ فَقَدْ اٰذَی اللہَ وَمَنْ حَارَبَ جَارَہٗ فَقَدْ حَارَبَنِیْ وَمَنْ حَارَبَنِیْ فَقَدْ حَارَبَ اللہَ عَزَّوَجَلَّ۔ (ترغیب و ترہیب)
جس نے اپنے پڑوسی کو ایذا پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی، جس نے مجھے ایذا پہنچائی اس نے خدا کو اذیت دی۔ اور جس نے اپنے پڑوسی سے لڑائی کی اس نے مجھ سے لڑائی کی اور جس نے مجھ سے لڑائی کی اس نے اللہ سے لڑائی کی۔
 
Top