• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اَلدِّیْنُ النَّصِیْحۃ

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یہی ایثار و ہمدردی ہے کہ ضرورت کے وقت بعض صحابہ اپنے گھر کی سب چیزیں اللہ کی راہ میں دے دیتے تھے اور گھر میں سوائے اللھ کے نام کے اور کوئی چیز بھی نہیں چھوڑتے تھے چنانچہ یہ واقعہ مشہور ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺنے صدقہ کرنے کا حکم فرمایا۔ اتفاقاً اس زمانے میں میرے پاس کچھ مال موجود تھا۔ میں نے کہا کہ آج میرے پاس اتفاق سے مال موجود ہے، اگر میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کبھی بھی بڑھ سکتا ہوں تو آج بڑھ جاؤں گا۔ یہ سوچ کر میں خوشی خوشی گھر میں آیا، جو کچھ بھی گھر میں رکھا تھا اس میں سے آدھا لے آیا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: عمر! گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا؟ میں نے عرض کیا کہ آدھا چھوڑ آیا ہوں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو کچھ گھر میں رکھا تھا سب لے آئے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ابوبکر! گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا؟ انہوں نے عرض کیا، ان کے لیے اللہ اور رسول ﷺ کو چھوڑ آیا ہوں، یعنی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نام کی برکت اور ان کی رضا جوئی اور خوشنودی کو چھوڑ آیا ۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کبھی نہیں بڑھ سکتا۔ (ابوداؤد)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایثار دنیا کو معلوم ہے، اپنے آرام کو چھوڑ کر دوسروں کو آرام پہنچاتے۔

ایک مرتبہ رات کو گشت کرتے کرتے ایک میدان میں پہنچ گئے۔ وہاں ایک خیمہ دیکھا جو پہلے نہیں تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ تحقیق حال کے لیے اس خیمہ کے پاس تشریف لے گئے تو دیکھا ایک صاحب خیمہ کے باہر مغموم بیٹھے ہوئے ہیں اور خیمے کے اندر سے کراہنے کی آواز آرہی ہے۔ سلام کرکے ان کے پاس بیٹھ گئے اور دریافت فرمایا تم کون ہو؟ انہوں نے کہا، میں ایک دیہاتی مصیبت زدہ ہوں، امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اپنی ضرورت لے کر آیا ہوں۔ رات ہوگئی تھی اس لیے اس میدان میں ٹھہر گیا۔ کل صبح عدالت میں حاضر ہوں گا۔ آپ نے دریافت فرمایا: اس خیمہ کے اندر کون ہے اور کراہنے کی آواز کیسی ہے؟

مسافر چونکہ مصیبت زدہ پریشان حال تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو کبھی دیکھا بھی نہیں تھا اور نہ پہچانتا تھا۔ اس نے جواب دیا، تم جاؤ اپنا راستہ لو، بار بار سوال کرنے سے کیا فائدہ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے دوبارہ اصرار کیا اور فرمایا: نہیں ضرور بتاؤ کیا بات ہے اور کراہنے کی کیسی آواز ہے؟

مسافر نے کہا، میاں میری بیوی خیمہ کے اندر ہے، اس کی ولادت اور بچہ جننے کا وقت ہے، درد زِہ ہورہا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کوئی اور عورت بھی ہے؟ اس مسافر نے کہا نہیں، اگر دوسری عورت ہوتی تو مجھے اس وقت پریشانی نہیں ہوتی۔ شہر کا دروازہ بند ہے۔ کوئی دائی بھی نہیں آسکتی اور نہ یہاں کوئی آبادی ہے اور نہ یہاں سے اس وقت اس کو چھوڑ کر جا سکتا ہوں اور نہ یہ کام ہی میرے اور تمہارے بس کا ہے، اب اللہ ہی محافظ اور وکیل ہے۔

وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللہِ اِنَّ اللہَ بَصِیْرٌ بِالْعِباَدِ
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
آپ رضی اللہ عنہ وہاں سے اُٹھ کرمکان پر تشریف لائے اور اپنی بیوی اُمّ کلثوم سے فرمایا: تمہارے لیے آج مقدر سے بڑے ثواب کی چیز ہاتھ آئی ہے اس کی قدر کرو۔ سیدہ ام کلثوم نے فرمایا: آخر کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا: ایک گاؤں کی عورت میدان میں پڑی ہے، اس کو درد زِہ ہورہا ہے، اس کے پاس کوئی عورت اور کوئی دائی نہیں ہے۔ اس پر سیدہ ام کلثوم نے فرمایا: اگر ارشاد ہو تو اس کام کی انجام دہی کے لیے میں چلنے کے لیے تیار ہوں۔ اور کیوں نہ تیار ہوتیں، آخر سیدہ فاطمہ کی صاحبزادی تھیں۔ سید کونینﷺ کی نواسی اور سیدنا علی کی بیٹی تھیں۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ولادت کے لیے جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے ان کو لے لو اور ایک ہانڈی اور کچھ گھی اور کھانے کی کچھ چیزیں لے لو اور میرے ساتھ چلو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
وہ سب ضروری چیزیں لے کر امیرالمومنین رضی اللہ عنہ کے ساتھ چلیں۔ میدان میں پہنچ کر سیدہ ام کلثوم خیمہ میں تشریف لے گئیں اور دایہ کے کام کو انجام دینے لگیں۔ امیرالمومنین رضی اللہ عنہ نے چولہا جلاکر کھانا پکانا شروع کیا۔ ادھر امیرالمومنین رضی اللہ عنہ کھانا پکا کر فارغ ہوئے ادھر سیدہ ام کلثوم ولادت کی انجام دہی سے فارع ہوئیں اور باہر آکر فرمایا: اے امیرالمومنین! اپنے مسافر دوست کو لڑکے کے پیدا ہونے کی مبارک باد دیجیے۔
امیرالمومنین کا لفظ جب اس مسافر کے کان میں پڑا تو وہ بہت گھبرایا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں تمہارا خادم ہوں، لو یہ کھانا تم میاں بیوی کھالو۔ تمہیں بڑی تکلیف ہوئی ہے رات بھر تم جاگتے رہے کل صبح کو آنا تمہارا انتظام کردیں گے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یہ کہہ کر ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو ساتھ لے کر واپس مکان پر تشریف لائے (شہر)۔ اپنی نیند اور آرام چھوڑ کر دوسروں کو آرام پہنچانا، امیرالمومنین ہو کر غریب مسافر کی خدمت میں جانا اور اپنی بیوی کو اس کام کے لیے لے جانا اور چولہا جلا کر کھانا پکا کر کھلانا، ایثار و ہمدردی کی بات ہے۔ رہتی دنیا تک ان کی یہ یادگار باقی رہے گی۔ اللہ تعالی ہم کو بھی ایسے ہی توفیق دے۔ (آمین)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ۔
دین تو ہمدردی اور غم خواری کا نام ہے۔ یعنی جب کسی پر مصیبت پڑجائے تو اس کی مصیبت دُور کرنے کے لیے کوشش کرے۔ اگر کوئی مظلوم حق کی حمایت میں گرفتار ہوجائے تو اس کے چھڑانے کے لیے اور آزاد کرنے کے لیے کوشش کرنا اور آزاد کرانا بہت بڑی خیرخواہی اور اسلام میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
رسول اللہ ﷺکے زمانے میں مشرکین مکہ کسی مسلمان کو گرفتار کرکے قیدخانہ میں ڈال دیتے تھے۔ مدینہ منورہ سے مسلمان مکہ مکرمہ جاکر مسلمان قیدی کو چھڑا لاتے جیسا کہ ترمذی شریف میں ہے کہ:

سیدنا مرثد بن ابومرثد مکہ سے مسلمان قیدیوں کو اُٹھا لایا کرتے تھے اور مدینہ منورہ پہنچا دیا کرتے تھے۔ عناق نامی ایک بدکار عورت مکہ میں تھی۔ جاہلیت کے زمانہ میں ان کا اس عورت سے تعلق تھا۔ سیدنا مرثد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ایک قیدی کو لانے کے لیے مکہ شریف گیا۔ ایک باغ کی دیوار کے نیچے میں پہنچ گیا۔ رات کا وقت تھا، چاندنی چھٹکی ہوئی تھی۔ اتفاق سے عناق آپہنچی اور مجھے دیکھ لیا بلکہ پہچان بھی لیا اور آواز دے کر کہا کیا مرثد ہے؟ میں نے کہا، ہاں، مرثد ہوں۔ اس نے بڑی خوشی ظاہر کی اور مجھ سے کہنے لگی۔ چلو رات میرے یہاں گزارنا۔ میں نے کہا، عناق! اللہ تعالیٰ نے زناکاری حرام کردی ہے۔ جب وہ مایوس ہوگئی تو اس نے مجھے پکڑوانے کے لیے غل مچانا شروع کیا کہ اے مکہ والو! ہوشیار ہوجاؤ، دیکھو چور آگیا، یہی ہے جو تمہارے قیدیوں کو چرا لے جایا کرتا ہے۔ لوگ بیدار ہو گئے اور مجھے پکڑنے کے لیے آٹھ آدمی میرے پیچھے دوڑے ۔ میں مٹھیاں بند کرکے بے تحاشہ خندق کے راستے سے بھاگا اور ایک غار میں جا چھپا۔ یہ میرے پیچھے ہی پیچھے غار میں آ پہنچے لیکن میں انہیں نہ ملا۔ یہ وہیں پیشاب کرنے کو بیٹھے۔ واللہ ان کا پیشاب میرے سر پر آرہا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں اندھا کردیا۔ ان کی نگاہیں مجھ پر نہ پڑیں وہ اِدھر اُدھر دیکھ بھال کر واپس چلے گئے۔ میں نے کچھ دیر گزار کر جب یہ یقین کرلیا کہ وہ پھر سوگئے ہوں گے تو وہاں سے نکلا اور مکہ کی راہ لی۔ وہاں پہنچ کر اس مسلمان قیدی کو اپنی کمر پر چڑھایا اور وہاں سے لے بھاگا۔ چوں کہ وہ بھاری بدن کے تھے جب میں اذخر پہنچا تو تھک گیا۔ میں نے انہیں کمر سے اتار کر ان کے بندھن کھول دئیے اور آزاد کر دیا اور وہ مدینہ پہنچ گئے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
چونکہ عناق کی محبت میرے دل میں تھی، میں نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت چاہی کہ میں اس سے نکاح کر لوں، آپ خاموش ہو رہے۔ میں نے دوبارہ یہی سوال کیا پھر بھی آپ خاموش رہے اور یہ آیت اتری:

الزانیْ لا ینْکح الا زانیۃً اوْ مشْرکۃً والزانیۃ لا ینْکحھا الا زانٍ اوْ مشْرکٌ وحرم ذٰلک علی الْمؤْمنیْن ۔

زانی مرد نکاح نہیں کرسکتا مگر زانیہ عورت یا مشرکہ عورت کے ساتھ اور زانیہ عورت بھی نکاح نہیں کر سکتی سوائے زانی مرد یا مشرک مرد کے اور زانیہ اور مشرکہ عورتوں سے نکاح کرنا مومنوں پر حرام کر دیا گیا ہے۔

تو نبی کرم اکرم ﷺ نے فرمایا: اے مرثد! زانیہ سے نکاح زانی یا مشرک ہی کرتا ہے تو اس سے نکاح کا ارادہ چھوڑ دے

بہرحال اس آیت کے شان نزول کے واقعہ سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت مرثد رضی اللہ عنہ مسلمان قیدیوں کو مکہ مکرمہ کے جیل خانہ میں سے نکال کر پیٹھ پر لاد کر آبادی سے باہر لایا کرتے تھے اور ان کو آزاد کرتے تھے۔ یہ بہت بڑی ہمدردی اور خیرخواہی کی بات ہے-
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
لِلْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ سِتٌّ بِالْمَعْرُوْفِ یُسَلِّمُ عَلَیْہِ اِذَا لَقِیَہٗ وَیُجِیْبُہٗ اِذَا دَعَاہُ وَیُشَمِّتُہٗ اِذَا عَطَسَ وَیَعُوْدُہٗ اِذَا مَرِضَ وَیَتَّبِعُ جَنَازَتَہٗ اِذَا مَاتَ وَیُحِبُّ لَہٗ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ۔ (ترمذی، دارمی)
ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں۔ بھلائی کے ساتھ (۱) ملاقات کے وقت سلام کرے (۲) اس کی دعوت قبول کرے (۳) اس کی چھینک کا جواب دے (۴) اس کی بیماری کے وقت بیمار پُرسی کرے (۵) مرنے پر جنازہ میں شریک ہو (۶) اور جو وہ اپنے لیے پسند کرتاہے وہی اپنے دوسرے بھائی کے لیے پسند کرے۔

ان چھ حقوق میں سے ملاقات کے وقت سلام کرنا، دعوت قبول کرنا، چھینک کا جواب دینا تو آسان ہے البتہ مصیبت میں کام آنا اور بیمار کی خدمت کرنا وہ بھی بلا ریا و نمود کے اور بلاذاتی غرض اور طمع کے مشکل ہے اور اس میں امتحان اور کمال بھی ہے اور اسی سے ہمدردی و خیرخواہی معلوم ہوتی ہے۔
 
Top