• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اَوقافِ قرآنیہ پر قراء ات کے اَثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چھٹی مثال
’’وَ کَأَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَ مَعَہٗ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌ فَمَا وَ ھَنُوْا لِمَآ أَصَابَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ مَا ضَعُفُوْا وَ مَا اسْتَکَانُوْا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ ‘‘ (آل عمران:۱۴۶)
اس آیت میں قٰتل کے اَندر دو قراء تیں ہیں۔
(١) نافع، ابن کثیر ابوعمرو اور یعقوب کے نزدیک قُتِلَ ہے۔ الف کے بغیر مبنی للمفعول۔
(٢) حمزہ، کسائی، ابن عامر اور عاصم کے نزدیک قَاتَلَ ہے۔ الف کے ساتھ مبنی للفاعل
چنانچہ قراء ات میں اختلاف کی بدولت وقف کے جواز اور عدم جواز میں اختلاف ہے۔
پس جس نے ’قُتِلَ‘ پڑھا تو اس سے نبی کا قتل مراد ہے اور جو اس نبی کے اَصحاب تھے انہوں نے نبی کے قتل کے باوجود کمزوری نہیں دکھائی۔ چنانچہ اس صورت میں ’’ وَکَأَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قُتِلَ ‘‘ پہ وقف ہوگا اور ’’ مَعَہٗ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌ… ‘‘ سے اگلی بات کا آغاز ہوگا چاہے اس میں قتل کا مفعول صرف نبی ہو یا پھر نبی اور رِبِّیُّوْنَ دونوں۔ اور جب ’قَاتَلَ‘ پڑھیں گے تو وقف جائز نہیں ہوگا۔ اور اس صورت میں معنی ہوگا کہ
’’کم من نبي قاتل معہ ربیون وقتل بعضھم فما وھن الباقون لقتل من قتل منھم۔‘‘
’’کتنے ہی اَنبیاء تھے کہ جن کے اصحاب میں سے بعض قتل ہوگئے لیکن پھر بھی باقی بچ جانے والوں نے کمزوری نہ دکھائی‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ساتویں مثال
’’ وَ قَفَّیْنَا عَلٰٓی ئَاثٰرِھِمْ بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ التَّوْرٰٹۃِ وَئَاتَیْنٰہُ الْاِنْجِیْلَ فِیْہِ ھُدًی وَّنُوْرٌ وَّمُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ التَّوْرٰٹۃِ وَ ھُدًی وَّ مَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ ‘‘ (المائدۃ:۴۶)
اس آیت میں ’للمتقین‘ پر وقف و عدم وقف کے بارے میں اختلاف ہے ۔
جس نے ’وَلْیَحْکُمْ‘ کو ’وَلِیَحْکُمَ‘ لام مکسور اور میم مفتوحہ کے ساتھ پڑھا وہ اس کو ’وئاتینٰہ الانجیل‘ سے متعلق مانتے ہوئے وقف نہیں کریں گے۔ اس صورت میں معنی ہوگا:
’’وآتیناہ الإنجیل لکي یحکم أھلہ بما فیہ من حکم اﷲ‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اِمام مکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ چونکہ نزول انجیل پیدائش عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ہے لہٰذا ’ولیحکم‘ سے ابتدا نہیں کی جائے گی۔بعض نے تقدیری عبارت یہ مانی ہے :
’’ولیحکم أھل الأنجیل بما أنزل اﷲ فیہ أنزلناہ علیھم‘‘
اِمام دانی رحمہ اللہ نے اسی کو صحیح مانا ہے اور ان کے نزدیک ’للمتقین‘ پہ وقف جائز ہے اور ’ولیحکم‘ سے ابتدا ہوگی اور جس نے ’ولیحکم‘ (لام کے سکون اور میم کے جزم کے ساتھ) پڑھا اس کے نزدیک للمتقین پہ وقف ہوگا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان:’’ وَلْیَحْکُمْ أھْلُ الإِنْجِیْلِ ‘‘ استیئناف کو مستلزم ہے اس لیے ’ولیحکم‘ سے ابتدا کی جائے گی۔ اس صورت میں معنی ہوگا کہ
’’إن اﷲ یأمر أھل الإنجیل بالحکم بما أنزل في الإنجیل کما أمر النبی ﷺ! بالحکم بما أنزل اﷲ علیہ‘‘
تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
’’ وَأَنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ أَنْزَلَ اﷲُ…‘‘ (المائدۃ:۴۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آٹھویں مثال
’’ قُلْ اِنَّمَا اْلٰایٰتُ عِنْدَ اللّٰہِ وَمَا یُشْعِرُکُمْ أَنَّھَا اِذَا جَآئَ تْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ ‘‘ (الأنعام: ۱۰۹)
اس آیت میں ’وما یشعرکم‘ پہ وقف کے متعلق اختلاف ہے۔ چنانچہ جس نے ’أنھا‘ کو ہمزہ مکسورہ کے ساتھ ’إنھا‘ پڑھا اس کے نزدیک ’وما یشعرکم‘ پہ وقف ہوگا ۔ مجاہدرحمہ اللہ، ابو عمررحمہ اللہ اور ابن کثیررحمہ اللہ نے اسی طرح پڑھا ہے۔ لہٰذا وما یشعرکم پہ وقف کرتے ہوئے ’إنھا اذا جآئت…‘ سے اِبتدا کی جائے گی، کیونکہ یہاں سے اللہ تعالیٰ کی خبر سے جملے کی ابتداء ہورہی ہے کہ جب ان کے پاس آیت آئے تووہ ایمان نہیں لاتے اور تمہیں ان کے انکار کا شعور نہیں ہے۔
اور اگر ’أنھا‘ ہمزہ مفتوحہ کے ساتھ پڑھا جائے تو وقف نہیں ہوگا۔ یہ مؤقف نافع، حمزہ اور کسائی کاہے۔ یعنی ’أنھا‘ پڑھنے والوں کے نزدیک ’وما یشعرکم‘ پہ وقف نہیں ہوگا۔
ابن اَنباری اور ابن النحاس کے نزدیک جب أنھا کے بعد ’نفلھا‘ کو محذوف مانیں گے تو اس سے پہلے وقف جائز ہے، کیونکہ اس میں جواب ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نویں مثال
’’ یٰبَنِیٓ ئَادَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْئَا تِکُمْ وَ رِیْشًا وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ ذٰلِکَ مِنْ ئَایٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ ‘‘(الأعراف:۲۶)
اس آیت میں اگر ’ولباس‘ کو رفع کے ساتھ پڑھا جائے تو ’ذٰلک‘ اس سے بدل یا عطف بیان ہوگا اور ’خیر‘ اس کی خبر ہوگی۔ اس صورت میں ’وریشا‘ پر وقف ہوگا۔اس قراء ت کے قاری ابن کثیر، ابوعمرو، عاصم اور حمزہ ہیں۔
اور اگرنصب کے ساتھ ’ولباس‘ پڑھا جائے تو ’وریشا‘ پر وقف نہیں ہوگا، کیونکہ اس کا مابعد ’لباسا‘ پر معطوف ہورہا ہے۔ اور تقدیری عبارت یوں ہوگی۔
’أنزلنا لباسا وأنزلنا لباس التقویٰ‘ لہٰذا اس کلام کا بعض حصہ بعض کے ساتھ متصل ہے تو نافع، ابن عامر اور کسائی کے مطابق اس میں ’وریشا‘ پر وقف نہیں ہوگا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دسویں مثال
’’ مِّنْ زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقٰی فِی السَّمَآئِ وَ لَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کِتٰبًا نَّقْرَؤُ ٗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا ‘‘ (الإسراء:۹۳)
اس آیت میں ’نقرؤہ‘ پر وقف تام اور کافی کے متعلق اِختلاف ہے۔ نافع، ابوعمرو، عاصم، حمزہ اور کسائی کے نزدیک ’قُل سبحان ربی‘ یعنی اَمر کے صیغہ کے ساتھ پڑھیں گے تو ’نقرؤہ‘ پر وقف تام ہوگا، کیونکہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے نبیﷺکو یہ بات کرنے کا حکم دے رہے ہیں۔
اس صورت میں معنی یہ ہوگا :
’’قل لھم یا محمد! ما أنا إلا بشر رسول، أتبع ما یوحیٰ إليّ من ربي، ولا أقدر علی شيء مما سألتموني ولیس لي أن أتخیر علی ربي، ولم تکن الرسل قبلي یأتون أممھم بکل ما یریدونہ ویبغونہ، وسبیلي سبیلھم، ویفعل ما یشاء من ھذہ الأشباہ التي لیست في قدرۃ البشر۔‘‘
اور اگر خبر پر محمول کرتے ہوئے ’قَالَ سبحان ربی‘ پڑھا جائے، جیسا کہ ابن کثیر اور ابن عامر نے پڑھا ہے اس صورت میں نقرؤہ پہ وقف کافی ہوگا، کیونکہ اس کے بعد رسول اللہﷺسے متعلق خبر دی جا رہی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
گیارہویں مثال
’’ ذٰلِکَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ یَمْتَرُوْنَ ‘‘(مریم:۳۴)
اس آیت میں ’قولَ‘ کو منصوب پڑھا جائے تو ’مریم‘ پہ وقف کافی ہوگا، کیونکہ قول مصدر ہے جو کہ اپنے سے ماقبل مضمون جملہ کی تاکید کے لیے آیا ہے یہ قراء ت عاصم اور ابن عامر کی ہے۔
اسی طرح اگر ’قولُ‘ رفع کے ساتھ پڑھا جائے تو ’مریم‘ پر وقف کافی ہوگا۔ کیونکہ قول خبر بن رہا ہے مبتدامحذوف کی ’أي ذلک قول الحق‘ یعنی یہی بات حق اور سچ ہے یا یہی کلام سچا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام مریم علیہاالسلام کے بیٹے ہیں نہ کہ اللہ تعالیٰ کے، جیسا کہ نصاریٰ کا گمان ہے۔
اور اگر ’قولُ‘ کو ’عیسیٰ‘ سے بدل بنائیں تو وقف نہیں ہوگا، کیونکہ بدل اور مبدل منہ کے درمیان وقف کے ساتھ فاصلہ نہیں آسکتا۔ یہ قراء ۃ نافع، ابن کثیر ، ابوعمرو، حمزہ اور کسائی کی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بارہویں مثال
’’ وَإِذَا قِیْلَ لَہُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَــأْمُرُنَا وَزَادَہُمْ نُفُوْرً‘‘ (الفرقان: ۶۰)
اس آیت میں ’تأمرنا‘ میں اختلاف قراء ات کی بدولت ’الرحمن‘ پر وقف کے بارے اختلاف ہے۔
اگر ’ی‘ کے ساتھ ’یأمرنا‘ پڑھیں تو ’وما الرحمن‘ پہ وقف ہوگا اور ’أنسجد‘ اِبتداء ہوگی۔
أی ’أنسجد لما یأمرنا محمد بالسجود لہ‘ چونکہ یہاں استیناف آگیا کہ وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ کیا ہم محمدﷺکے کہنے پہ سجدہ کریں ۔ لہٰذا یہاں وقف ہوگا۔ یہ قراء ۃ حمزہ اور کسائی کی ہے۔
اور اگر ’تَأمُرنا‘ ت‘ کے ساتھ پڑھیں تو ’وما الرحمن‘ پر وقف نہیں ہوگا، کیونکہ اس کا ما بعد، ماقبل، ’وإذا قیل لھم…‘ سے متعلق ہے یہ قراء ت نافع، ابن کثیر، ابوعمرو، ابن عامر اور عاصم کی ہے۔
اس کی وضاحت یوں ہوگی کہ ’تأمرنا‘ میں تا خطاب کی ہے جو کہ ان کافروں کی طرف سے نبیﷺکے لیے ہے۔
اس لیے کہ انہوں نے ان کی دعوت اور اللہ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ اور کہنے لگے کہ اے محمدﷺ! کیا ہم تیرے کہنے پر سجدہ کریں ؟چونکہ اس میں قول اور مقولہ کے درمیان فاصل جائز نہیں اس لیے وقف نہیں ہوگا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تیرہویں مثال
’’ کَذٰلِکَ یُوحِیْ اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ اللّٰہُ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ‘‘(الشوری:۳)
اس آیت میں ’من قبلک‘ پہ وقف کے متعلق ’یوحِیٓ‘ کی وجہ سے اختلاف کیا گیاہے۔
لہٰذا اگر ’یوحَیٰ‘ حاء کے فتح کے ساتھ ہو تو وقف ہوگا، کیونکہ اس صورت میں یہ فعل مجہول ہوگا۔ یہ قراء ت ابن کثیر کی ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ
’’کذلک یوحی إلیک یا محمد، مثل ما أوحي إلی الأنبیاء قبلک۔‘‘
اور ایک معنی یہ بھی کیا گیا ہے :
’’إن اﷲ أعلم مُحمدًا أن ھذہ السّورۃ أوحیت إلی من قبلک۔‘‘
اور اگر ’یوحِی‘ حاء کے کسرہ کے ساتھ پڑھیں تو وقف نہیں ہوگا۔ وقف ہوگا تو صرف اور صرف رأس الاٰیۃ یعنی ’الحکیم‘ پر ہوگا۔
اس صورت میں فعل کا فاعل ’اللہ‘ ہوگا۔ لہٰذا نہ تو فاعل کو چھوڑکر فعل پر وقف ہوگا اورنہ ہی فاعل پر۔ یہ قراء ت ابن کثیر کے علاوہ باقی تمام قراء کی ہے۔
٭_____٭_____٭

نوٹ
یہ تحریر ڈاکٹر عبد الکریم صالح﷾ کی کتاب الوقف والابتداء وصلتہما بالمعنی في القرآن الکریم کی مبحث القرائات وأثرہا علی الوقوف القرآنیۃ کا ترجمہ ہے
۔
 
Top