• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اُسوۂ حسنہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اُسوۂ حسنہ

کسی مثالی شخصیت کی اتباع /پیروی کرنا​
لغوی بحث:

”الأُسْوَةُ الإِئْتِسَاء“ کا مصدر ہے۔ یعنی اقتداء کرنا۔ اس کا اصل مادہ(اس و)ہے جو کہ”مَدَاوَاةٌ“(یعنی علاج کرنا) اور اصلاح پر دلالت کرتا ہے۔ مثلاً:”أَسَوْتُ الْجُرْحَ“ یعنی میں نے زخم کاعلاج کیا۔اسی وجہ سے طبیب کو ”اَلآسِي“ کہاجا تا ہے اور کہتے ہیں: ”أَسَوْتُ بَیْنَ الْقَوْمِ“ میں نے لوگوں کے درمیان صلح کروائی ۔اور اسی باب سے ہے :”لِی فِي فُلَانٍ اُسْوَةٌ“(الف پر ضمہ اور کسرہ کے ساتھ)یعنی میرے لئے فلاں شخصیت میں قدوہ اور نمونہ ہے اور میں اس کی اقتداء کرتا ہوں ۔اور”أَسَّیْتُ فُلاَنًا“ یعنی میں نے اس سے تعزیت کی، اس کو تسلی دی ۔اسی باب سے ہےکہ میں نے اسے کہا: ”لِیَكُنْ لَكَ بِفُلاَنٍ أُسْوَةٌ“ تم فلاں کی اقتداء کرو۔”فَقَدْ أُصِیْبَ بِمِثْلِ مَا اُصِبْتَ بِهِ فَرَضِيَ وسَلَّمَ“ اس کو بھی تیری طرح مصیبت پہنچی پھر وہ (قضاء الٰہی پر) راضی رہا اور(امر الٰہی کو) تسلیم کیا ۔اور معاملات اللہ کے سپرد کئے ۔
ابن منظور رحمہ اللہ نے کہا :”الأُسْوَةٌ“اور”الإِسْوَةٌ“ دونوں کا معنی قدوہ کے لئے ہے۔اور”إِئْتَسْ بِهِ“کا معنی ہے اس کی اقتداء کر۔ اور اس جیسا ہو جا۔ اور لیث رحمہ اللہ نے کہا:”فُلاُنٌ یَأْتَسِيْ بِفُلاَنٍ“ یعنی وہ اپنے لئے وہی چیز پسند کرتا ہے جو فلاں پسند کرتا ہے۔ اور اس کی اقتداء کرتا ہے اور اس جیسا ہے۔اور ”القَوْمُ أُسْوَةٌ فِي هَذَا الأَمْرِ“یعنی لوگ اس مسئلہ میں ایک دوسرے جیسے ہیں۔اور”التَأَسِّي فِي الأُمُوْرِ“اور ”المُؤَاسَاةُ، الأُسْوَةٌ“ کا معنی اقتداء کرنا ہے۔
بغوی رحمہ اللہ نے کہا: ”هِیَ فُعْلَةٌ مِنَ الإِئْتِسَاءِ کَالْقُدْوَةِ مِنَ الإِقْتدَاءِ اسْمٌ وُضِعَ مَوْضِعَ الْمَصْدَرِ“ یعنی یہ ”إِئْتِسَاء“(باب افتعال) سےا سم مصدرہے جو کہ مصدر کی جگہ استعمال ہوا ہے جیسا کہ: ”اَلقُدْوَةُ الإِقْتِدَاء“ سے اسم(مصدر )ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اصطلاحی بحث:

مناوی رحمہ اللہ نے کہا:”الأُسْوَة“ اس حالت کو کہتے ہیں جس پر انسان دوسرے انسان کی اتباع کرتے وقت ہوتا ہے ۔اگر اچھا ہے تو اچھا اور برا ہے تو برا۔ اور کریم ہے تو کریم اور نقصان رساں ہے نقصان رساں۔
شیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ نے آیت قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَ‌اهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ ۔۔ ﴿٤الممتحنة ترجمہ : تمہارے لئے ابراہیم علیہ السلام اور لوگوں کے اندر جو ان کے ساتھ تھے۔ اسوۂ حسنہ (بہترین نمونہ )ہے۔کی تفسیر میں کہا ہے: ”الأُسْوَة“ قدوہ کے معنی میں ہے اور یہ دوسرے کی اتباع/پیروی کا نام ہے۔ اس حالت كا جس پر وہ ہوتا ہے اچھی ہویا بری۔
قرطبی رحمہ اللہ نے فرما یا : اسوۂ رسول ﷺ پر عمل کرنا واجب ہے یا مستحب۔ اس بارے میں علماءکے دو قول ہیں:
ایک یہ کہ واجب ہے یہاں تک کہ استحباب کی دلیل آئے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ آپﷺ کی اقتداء کرنا مستحب ہے یہاں تک کہ وجوب کی دلیل آجائے۔اور اس کا بھی احتمال ہو سکتا ہے کہ دین کے معاملات میں رسول اللہ ﷺکا اسوہ/ اقتداء کرنا واجب اور دنیاوی معاملات میں مستحب پر محمول کیا جائے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
انسانوں کے لئےبہترین نمونے کا ہونا ضروری ہے:

انسانوں میں سے (بہترین) نمونے اور مثالیں دیکھے بغیر(جہالت) کے قیدو بندھن نہیں ٹوٹ سکتے ۔ایسے نمونے جو انسانوں کے لئے انتہاء کی بہترین مثالیں پیش کریں۔انسان قوت سے ڈرتا ہے اوربہادری کا احترام کرتا ہے۔ اور فکر و اخلاق میں حسن کی انتہاء کو پہنچے ہوئے معانی انسان کے قلب پر قبضہ کرتے ہیں اور اس کے دل تک سرایت کرتے ہیں ۔ پھر اس کے شعور کو جگاتے ہیں۔ اور اس کے سامنے حق کے معانی کھل جاتے ہیں اور اس کے لئے اس(حق) کی اتباع آسان ہو جاتی ہے۔ اور سب سے بلند درجہ قوت ، حق کی قوت ہے کہ جس کی طرف دعوت دینا اور اس کی راہ میں صبرکرنا۔
اگر رسول اللہ ﷺ نہ ہوتے تو آپ ﷺکے قریبی صحابہ نہ ہوتے، اور اگر صحابہ کرام نہ ہوتے تو ان کے بعد کے لوگ (یعنی تابعین و تباع تابعین ) نہ ہوتے۔ اور اگر مکۃ المکرمہ فتح نہ ہوتا تو لوگ اللہ کے دین کے اند فوج در فوج داخل نہ ہوتے ۔اور یہ کوئی مادی قوت نہیں ہے بلکہ مادی قوت بالآخر حق کی قوت کے سامنے جھک جاتی ہے۔
بلا شک وہ اصلاح مکمل ہے جو نبی اکرم ﷺکی بعثت سے مکمل ہوئی ۔جس نے تاریخ کے صفحات کو بدل دیا۔
یہ تکمیل اصلاح محمد ﷺاور آپ ﷺکے صحابہ کرام کے ذریعے سے ہوئی۔ اور یہ لوگ تنفیذی اور عملی نمونہ تھے ۔ اور وحی الہی وہ پہلا عنصر تھا جو محمد ﷺخالق ارض و سماء سے حاصل کرتے تھے اور اپنے صحابہ کرام کو پہنچاتے تھے اور وہ وحی جاہلیت کے طوق کو توڑنے کی دعوت دیتی تھی۔ اور اس وحی تک قوی وسیلہ محمد ﷺاور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔ جو کہ حق کے نمونے اور وہ قوت تھے جس نے (غیر اللہ کی غلامی) کے طوق توڑ دیئے۔ اور لوگوں میں یہ جرأت پیدا کی کہ وہ ظالمانہ طوق اور قیود سے خود کو آزاد کروائیں۔
لہٰذا مسلمانوں (کی کامیابی) کے لئے بس یہی واحد راستہ ہے ۔ایسا مقدمۃالجیش(پہلا فوجی دستہ) جو کہ محمد ﷺاور صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلے ۔ہوبہو چلے ،ہر ظاہر و مخفی امر میں اور ہر چھوٹے اور بڑے میں، عبادت ،فکر ،جنگ،تدبیر، سیاست، دعوت، جرأت اور حکمت میں: وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَ‌اطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّ‌قَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۔۔۔ ﴿١٥٣ الأنعام
یعنی یہ میرا سیدھا راستہ ہے اس پر چلو اور دوسرے راستوں پر مت چلنا کہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے پھیر دیں گے۔​
اس امت کے آخر کی اصلاح فقط اس طریقے سے ہو سکتی ہے جس سے اس کے اول کی اصلاح ہو ئی تھی۔
خبردار! محمد ﷺنے پہلے اقتصادی، اخلاقی اور صحت کی اور سیاسی اور ادارتی اور علمی اصلاح نہیں کی بلکہ ( سب سے پہلے) آپ ﷺنے ایمان کی اصلاح کی، توحید کی دعوت دی۔ اس کے بعد ہر طرح کی اصلاح ہو گئی۔ اور قوت وخیر حاصل ہو گئی۔ لہٰذا فقط صاحب توحید ہی سارے انحرافات کا علاج ہےاور یہی توحید وہ زادِ راہ ہے جس کے ذریعہ قوموں کوآزادی اور مدد حاصل ہوتی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسوہ کی اقسام:
شیخ صالح بن حمید﷿ نے کہا ہے:اسوہ کی دو قسمیں ہیں ۔ حَسَنَة (اچھا )سَیِّئَة (برا)۔
اسوۂ حسنہ :یعنی اہل خیرو فضل اور صالح افراد کی شرف و رفعت اور نیک کاموں میں اقتداء کرنا۔
اسوہ ٔسیئہ: مذموم راستوں پر چلتے ہوئے اہل سوء(برے لوگوں) کی اقتداء کرنا۔ اور بغیر دلیل و برہان کے کسی کی اتباع کرنا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسوۂ حسنہ کی اہمیت

اس کی اہمیت و عظمت درج ذیل امور سے ظاہرہوتی ہے۔
(۱) زندہ مثال(اسوہ ٔحسنہ) جو کہ درجاتِ کمال پر فائز ہو۔ وہ صاحب بصیر ت شخص کے نفس پر استحسان (کسی چیز کی اچھائی کا اقرار کرنا) اور اعجاب (اچھی چیز کو پسند کرنا) تقدیر (قدر شناسی)اور محبت کی ایک بڑی مقدار کو پیدا کرتی ہے۔
(۲) اسوہ ٔحسنہ یہ درس دیتا ہے کہ مذکورہ فضائل پر پہنچنے کے لئے مختلف امور اور صفات سے متصف ہونا ضروری ہے۔
(۳) پیرو کار صاحب ِقدوہ کی طرف دقیق اور گہری نظر کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ جبکہ اسے اس چیز کا پتہ تک نہیں چلتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قدوہ کے اصول
(۱) صاحب قدوہ کا صالح ہونا ،جو کہ ان تین چیزوں سے ثابت ہوتا ہے : ایمان، عبادت اور اخلاص۔
(۲) اعلی اخلاق پر فائز ہو نا ۔
(۳) قول وعمل کا موافق ہونا۔

قدوہ کے میدان میں زندہ شواہد
قدوہ کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اعلیٰ نمونہ سمجھے جاتے ہیں اور ان سب کے سردار امام الائمۃمحمد رسول اللہ ﷺہیں۔
فتنۂ خلق قرآن کے دوران امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ایک عظیم مثال ہیں اسی طرح گذشتہ زمانےمیں باعمل علماء گذرے ہیں۔

اسلام کے پھیلنے میں قدوہ ٔحسنہ کا کردار (یعنی عمل صالح)
دعوت الی اللہ اور لوگوں کو اسلام کی طرف کھینچ لانے اور اسلام کے اوامر پر عمل کرنے اور نواہی سے اجتناب کرنے کے لئے نہایت اہم وسائل میں سے داعی کا نیک قدوہ و اسوہ (یعنی عملی نمونہ) اور اس کے اچھے اعمال ،عالی صفات، اور پاک اخلاق ،ان چیزوں میں سے ہیں جو کہ اسے دوسروں کے لئے اسوۂ حسنہ (بہترین نمونہ) بنا دیتے ہیں۔ان صفات کے ساتھ وہ ایک نمونہ بن جاتے ہیں کہ لوگ اس کے اندر اسلام کے معانی کو پڑھتے ہیں اور پھر ان معانی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اور کھنچے چلے آتے ہیں۔ اس لئے افعال و سلوک کا اثر مزید گہرا اورمحض زبانی تبلیغ کے اثر سے زیادہ ہوتا ہے ۔
بلا شک کئی ملکوں اور علاقوں میں اسلام مسلمانوں کے اس بہترین عملی نمونے کی وجہ سے پھیلا ہے جو غیر مسلمین کی نظروں کو کھینچتا ہے۔ اور انہیں اسلام کو گلے لگانے اور قبول کرنے کے لئے مجبور کرتا ہے۔
اور اچھا عملی نمونہ جو داعی اپنی پاک سیرت سے پیش کرتا ہے۔در حقیقت اسلام کی عملی دعوت ہے۔ جس سے سلیم الفطرت اور سالم العقل غیر مسلم استدلال کر سکتا ہےکہ اسلام ہی حق اور اللہ کا دین ہے۔
الاتباع، الاستقامة، الطاعة، الولاء والبراء.
اور اس کی ضد کے لئے دیکھئے :القدوة السیئة ،الابتداع، اتباع الھوی، الاساءة ،موالاة الکفار، الاعوجاج،الامربالمعروف والنهی عن المنکر.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آیات

الآيات الواردة في (الاسوة الحسنة)

(١) لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَ‌سُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْ‌جُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ‌ وَذَكَرَ‌ اللَّـهَ كَثِيرً‌ا ﴿٢١الأحزاب
(١)یقینا تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ(موجود)ہے، ہر اس شخص كے لئے جو اللہ تعالیٰ كی اور قیامت كے دن كی توقع ركھتا ہے اور بكثرت اللہ تعالیٰ كی یاد كرتا ہے(21)

(٢)قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَ‌اهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَ‌آءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ كَفَرْ‌نَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ وَحْدَهُ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَ‌اهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَ‌نَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ ۖ رَّ‌بَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ‌ ﴿٤﴾ رَ‌بَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُ‌وا وَاغْفِرْ‌ لَنَا رَ‌بَّنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿٥ الممتحنة
(٢)( مسلمانو ) تمہارے لئے ابراہیم (علیہ السلام)اور ان كے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے، جبكہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا كہہ دیا كہ ہم تم سے اور جن جن كی تم اللہ كے سوا عبادت كرتے ہو ان سب سے بالكل بیزار ہیں ہم تمہارے ( عقائد كے) منكر ہیں جب تك تم اللہ كی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ كے لئے بغض و عداوت ظاہر ہوگئی لیكن ابراہیم كی اتنی با ت تو اپنے باپ سے ہوئی تھی كہ میں تمہارے لئے استغفار ضرور كرں گا اور تمہارے لئے مجھے اللہ كے سامنے كسی چیز كا اختیار كچھ بھی نہیں اے ہمارے پروردگار تجھی پر ہم نے بھروسہ كیا ہے اور تیری ہی طرف رجوع كرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے(4)اے ہمارے رب تو ہمیں كافروں كی آزمائش میں نہ ڈال اور اے ہمارے پالنے والے ہماری خطاؤں كو بخش دے،بے شك تو ہی غالب حكمت والا ہے(5)یقینا تمہارے لئے ان میں اچھا نمونہ ( اور عمدہ پیروی ہے خاص كر) ہر اس شخص كے لئے جو اللہ كی اور قیامت كے دن كی ملاقات كی امید ركھتا ہو اور اگر كوئی روگردانی كرے تو اللہ تعالیٰ بالكل بے نیاز ہے اور سزا وار حمد و ثناہے(6)

الآيات الواردة في(الا سوة الحسنة) معني:

(٣)الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ ﴿٨٢﴾ وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَ‌اهِيمَ عَلَىٰ قَوْمِهِ ۚ نَرْ‌فَعُ دَرَ‌جَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ إِنَّ رَ‌بَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ ﴿٨٣﴾ وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَمِن ذُرِّ‌يَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَىٰ وَهَارُ‌ونَ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿٨٤﴾ وَزَكَرِ‌يَّا وَيَحْيَىٰ وَعِيسَىٰ وَإِلْيَاسَ ۖ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ ﴿٨٥﴾ وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا ۚ وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿٨٦﴾ وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّ‌يَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ ۖ وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَىٰ صِرَ‌اطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٨٧﴾ ذَٰلِكَ هُدَى اللَّـهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَلَوْ أَشْرَ‌كُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٨٨﴾ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ۚ فَإِن يَكْفُرْ‌ بِهَا هَـٰؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوا بِهَا بِكَافِرِ‌ينَ ﴿٨٩﴾ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّـهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرً‌ا ۖ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَ‌ىٰ لِلْعَالَمِينَ ﴿٩٠الأنعام
(٣)جو لوگ ایمان ركھتے ہیں اور اپنے ایمان كو شرك كے ساتھ مخلوط نہیں كرتے ایسوں ہی كے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر چل رہے ہیں (82)اور یہ ہماری حجت تھی وہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام)كو ان كی قوم كے مقابلہ میں دی تھی ہم جس كو چاہتے ہیں مرتبوں میں بڑھا دیتے ہیں بے شك آپ كا رب بڑا حكمت والا علم والا ہے(83)اور ہم نے ان كو اسحاق دیا اور یعقوب ہر ایك كو ہم نے ہدایت كی اور پہلے زمانہ میں ہم نے نوح كو ہدایت كی اور ان كی اولاد میں سے داؤد كو اور سلیمان كو اور ایوب كو اور یوسف كو اور موسیٰ كو اور ہارون كو اور اسی طرح ہم نیك كام كرنے والوں كو جزا دیا كرتے ہیں (84)اور( نیز) زكریا كو اور یحییٰ كو اور عیسیٰ كو اور الیاس كو سب نیك لوگوں میں سے تھے(85)اور نیز اسماعیل كو اور یسع كو اور یونس كو اور لوط كو اور ہر ایك كو تمام جہان والوں پر ہم نے فضیلت دی(86)اور نیز ان كے كچھ باپ دادوں كو اور كچھ اولاد كو اور كچھ بھائیوں كو، اور ہم نے ان كو مقبول بنایا اور ہم نے ان كو راہ راست كی ہدایت كی (87)اللہ كی ہدایت ہی ہے جس كے ذریعہ اپنے بندوں میں سے جس كو چاہے اس كوہدایت كرتا ہے اور اگر فرضاً یہ لوگ بھی شرك كرتے تو جو كچھ یہ اعمال كرتے تھے وہ سب اكارت ہو جاتے (88)یہ لوگ ایسے تھے كہ ہم نے ان كو كتاب اور حكمت اور نبوت عطا كی تھی سو اگر یہ لوگ نبوت كا انكار كریں تو ہم نے اس كے لئے ایسے بہت سے لوگ مقرر كر دیئے ہیں جو اس كے منكر نہیں ہیں(89)یہی لوگ ایسے تھے جن كو اللہ تعالیٰ نے ہدایت كی تھی سو آپ بھی ان ہی كے طریق پر چلئے آپ كہہ دیجئے كہ میں تم سے اس پر كوئی معاوضہ نہیں چاہتا یہ تو صرف تمام جہان والوں كے واسطے ایك نصیحت ہے(90)

(٤)فَاصْبِرْ‌ كَمَا صَبَرَ‌ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّ‌سُلِ وَلَا تَسْتَعْجِل لَّهُمْ ۚ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَ‌وْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّن نَّهَارٍ‌ ۚ بَلَاغٌ ۚ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٣٥ الأحقاف
(٤)پس( اے پيغمبر) تم ايسا صبر كرو جيسا صبر عالی ہمت رسولوں نے كيا اور ان كے لئے( عذاب طلب كرنے ميں) جلد ی نہ كرو، يہ جس دن اس عذاب كو ديكھ ليں گے جس كا وعده ديئے جاتے ہيں تو( يہ معلوم ہونے لگے گاكہ) دن كی ايك گھڑی ہی(دنيا ميں)ٹھہرے تھے، يہ ہے پيغام پہنچا دينا پس بدكاروں كے سوا كوئی ہلاك نہ كيا جائے گا(35)
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
احادیث​

2- عَنْ أَبِي قَتَادَةَؓ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺفَقَالَ: إِنَّكُمْ تَسِيرُونَ عَشِيَّتَكُمْ وَلَيْلَتَكُمْ. وَتَأْتُونَ الْمَاءَ إِنْ شَاءَ اللهُ غَدًا فَانْطَلَقَ النَّاسُ لَا يَلْوِي أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ قَالَ أَبُو قَتَادَةَ: فَبَيْنَمَا رَسُولُ اللهِ ﷺيَسِيرُ حَتَّى ابْهَارَّ اللَّيْلُ وَأَنَا إِلَى جَنْبِهِ قَالَ: فَنَعَسَ رَسُولُ اللهِ ﷺفَمَالَ عَنْ رَاحِلَتِهِ فَأَتَيْتُهُ فَدَعَمْتُهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ أُوقِظَهُ حَتَّى اعْتَدَلَ عَلَى رَاحِلَتِهِ قَالَ ثُمَّ سَارَ حَتَّى تَهَوَّرَ اللَّيْلُ مَالَ عَنْ رَاحِلَتِهِ قَالَ فَدَعَمْتُهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ أُوقِظَهُ حَتَّى اعْتَدَلَ عَلَى رَاحِلَتِهِ قَالَ: ثُمَّ سَارَ حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ السَّحَرِ مَالَ مَيْلَةً هِيَ أَشَدُّ مِنْ الْمَيْلَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ حَتَّى كَادَ يَنْجَفِلُ فَأَتَيْتُهُ فَدَعَمْتُهُ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قُلْتُ: أَبُوقُتاَدَةَ. قَالَ: مَتَى كَانَ هَذَا مَسِيرَكَ؟ مِنِّي قُلْتُ: مَا زَالَ هَذَا مَسِيرِي مُنْذُ اللَّيْلَةِ قَالَ: حَفِظَكَ اللهُ بِمَا حَفِظْتَ بِهِ نَبِيَّهُ ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَرَانَا نَخْفَى عَلَى النَّاسِ؟ ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَرَى مِنْ أَحَدٍ؟ قُلْتُ: هَذَا رَاكِبٌ. ثُمَّ قُلْتُ: هَذَا رَاكِبٌ آخَرُ. حَتَّى اجْتَمَعْنَا فَكُنَّا سَبْعَةَرَكْبٍ قَالَ: فَمَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺعَنْ الطَّرِيقِ. فَوَضَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ قَالَ: احْفَظُوا عَلَيْنَا صَلَاتَنَا فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللهِ ﷺوَالشَّمْسُ فِي ظَهْرِهِ قَالَ: فَقُمْنَا فَزِعِينَ ثُمَّ قَالَ: ارْكَبُوا فَرَكِبْنَا فَسِرْنَا حَتَّى إِذَا ارْتَفَعَتْ الشَّمْسُ نَزَلَ ثُمَّ دَعَا بِمِيضَأَةٍ كَانَتْ مَعِي فِيهَا شَيْءٌ مَنْ مَاءٍ قَالَ: فَتَوَضَّأَ مِنْهَا وُضُوءًا دُونَ وُضُوءٍ قَالَ وَبَقِيَ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ مَاءٍ ثُمَّ قَالَ لِأَبِي قَتَادَةَ: احْفَظْ عَلَيْنَا مِيضَأَتَكَ فَسَيَكُونُ لَهَا نَبَأٌ. ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ بِالصَّلَاةِ فَصَلَّى رَسُولُ اللهِ ﷺرَكْعَتَيْنِ ثُمَّ صَلَّى الْغَدَاةَ فَصَنَعَ كَمَا كَانَ يَصْنَعُ كُلَّ يَوْمٍ قَالَ: وَرَكِبَ رَسُولُ اللهِ ﷺوَرَكِبْنَا مَعَهُ قَالَ: فَجَعَلَ بَعْضُنَا يَهْمِسُ إِلَى بَعْضٍ مَا كَفَّارَةُ مَا صَنَعْنَا بِتَفْرِيطِنَا فِي صَلَاتِنَا؟ ثُمَّ قَالَ: أَمَا لَكُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ؟ ثُمَّ قَالَ: أَمَا إِنَّهُ لَيْسَ فِي النَّوْمِ تَفْرِيطٌ. إِنَّمَا التَّفْرِيطُ عَلَى مَنْ لَمْ يُصَلِّ الصَّلَاةَ حَتَّى يَجِيءَ وَقْتُ الصَّلَاةِ الْأُخْرَى فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَلْيُصَلِّهَا حِينَ يَنْتَبِهُ لَهَا فَإِذَا كَانَ الْغَدُ فَلْيُصَلِّهَا عِنْدَ وَقْتِهَا ثُمَّ قَالَ: مَا تَرَوْنَ النَّاسَ صَنَعُوا؟ قَالَ: ثُمَّ قَالَ: أَصْبَحَ النَّاسُ فَقَدُوا نَبِيَّهُمْ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ: رَسُولُ اللهِ ﷺبَعْدَكُمْ. لَمْ يَكُنْ لِيُخَلِّفَكُمْ وَقَالَ النَّاسُ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺبَيْنَ أَيْدِيكُمْ: فَإِنْ يُطِيعُوا أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ يَرْشُدُوا قَالَ: فَانْتَهَيْنَا إِلَى النَّاسِ حِينَ امْتَدَّ النَّهَارُ وَحَمِيَ كُلُّ شَيْءٍ وَهُمْ يَقُولُونَ: يَا رَسُولَ اللهِ هَلَكْنَا عَطِشْنَا. فَقَالَ: لَا هُلْكَ عَلَيْكُمْ. ثُمَّ قَالَ: أَطْلِقُوا لِي غُمَرِي قَالَ: وَدَعَا بِالْمِيضَأَةِ فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ ﷺيَصُبُّ وَأَبُو قَتَادَةَ يَسْقِيهِمْ فَلَمْ يَعْدُ أَنْ رَأَى النَّاسُ مَاءً فِي الْمِيضَأَةِ تَكَابُّوا عَلَيْهَا فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: أَحْسِنُوا الْمَلَأَ كُلُّكُمْ سَيَرْوَى. قَالَ: فَفَعَلُوا. فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ ﷺيَصُبُّ وَأَسْقِيهِمْ حَتَّى مَا بَقِيَ غَيْرِي وَغَيْرُ رَسُولِ اللهِ ﷺقَالَ: ثُمَّ صَبَّ رَسُولُ اللهِ ﷺفَقَالَ لِي: اشْرَبْ فَقُلْتُ: لَا أَشْرَبُ حَتَّى تَشْرَبَ يَا رَسُولَ اللهِ. قَالَ: إِنَّ سَاقِيَ الْقَوْمِ آخِرُهُمْ شُرْبًا قَالَ: فَشَرِبْتُ وَشَرِبَ رَسُولُ اللهِ ﷺقَالَ فَأَتَى النَّاسُ الْمَاءَ جَامِّينَ رِوَاءً قَالَ: فَقَالَ عَبْدُاللهِبْنُ رَبَاحٍ إِنِّي لَأُحَدِّثُ هَذَا الْحَدِيثَ فِي مَسْجِدِ الْجَامِعِ إِذْ قَالَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ انْظُرْ أَيُّهَا الْفَتَى كَيْفَ تُحَدِّثُ فَإِنِّي أَحَدُ الرَّكْبِ تِلْكَ اللَّيْلَةَ قَالَ: قُلْتُ: فَأَنْتَ أَعْلَمُ بِالْحَدِيثِ فَقَالَ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: مِنْ الْأَنْصَارِ قَالَ: حَدِّثْ فَأَنْتُمْ أَعْلَمُ بِحَدِيثِكُمْ قَالَ: فَحَدَّثْتُ الْقَوْمَ فَقَالَ عِمْرَانُ: لَقَدْ شَهِدْتُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ وَمَا شَعَرْتُ أَنَّ أَحَدًا حَفِظَهُ كَمَا حَفِظْتُهُ. ([1])
(۲)ابو قتادہ ؓنے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے خطبہ ارشادفرمایا کہ تم آج زوال کے بعد اپنی ساری رات چلو گے ۔اگر اللہ نے چاہا تو کل صبح پانی پر پہنچو گے ۔پس لوگ اس طرح چلے کہ کوئی کسی کی طرف متوجہ نہ ہوتا تھا ابو قتادہ ؓنے کہا کہ رسول اللہ ﷺچلے جاتے تھے یہاں تک کہ آدھی رات ہوگئی۔ اور میں آپ کے قریب تھا۔ اور آپ اونگھنے لگے اور اپنی سواری سے جھکے اور میں نے آکر آپ کو ٹیک دیا ۔ بغیر اس کے کہ میں آپ کو جگاؤں۔ یہاں تک کہ آپ پھر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے پھر چلے یہاں تک کہ جب بہت رات گذر گئی پھر آپ جھکے اور میں نے پھر ٹیک دیا بغیر اس کے کہ آپ کو جگاؤں یہاں تک کہ آپ پھر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے پھر چلے یہاں تک کہ آخر سحر کا وقت ہو گیا پھر ایک باریہاں تک جھکے قریب تھا کہ گر پڑیں ۔ پھر میں آیا اورآپﷺ کو روک دیا۔ پھر آپ نے سر اٹھایا اور فرمایا کہ یہ کون ہے؟ میں نے عرض کی کہ ابو قتادہ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم کب سے میرے ساتھ اس طرح چل رہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں رات سے آپ کے ساتھ اسی طرح چل رہا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا اللہ تمہاری حفاظت کرے جیسے تم نے اس کے نبیﷺ کی حفاظت کی ہے۔ پھر آپ نے فرمایا تم ہم کو دیکھتے ہو کہ ہم لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں ۔پھر آپ نے فرمایا تم کسی کو دیکھتے ہو میں نے کہا یہ ایک سوار ہے پھر کہا یہ ایک اور سوار ہے یہاں تک کہ ہم سات سوار جمع ہوگئے تب رسول اللہ ﷺراہ سے اک طرف الگ ہوئے اور اپنا سر زمین پر رکھا، اور فرمایا کہ تم لوگ ہماری نماز کا خیال رکھنا ،پھر پہلے جو جاگے وہ رسول اللہ ﷺہی تھے اور دھوپ آپ کی پیٹھ پرآگئی، پھر ہم لوگ گھبرا کر اٹھے اور آپ نےفرمایا سوار ہوجاؤ۔ پھر چلے یہاں تک کہ جب دھوپ چڑھ گئی اور آپ اترے اپنا وضو کا لوٹا منگوایا جو میرے پاس تھا اور اس میں تھوڑا سا پانی تھا۔ پھر آپ نے اس سے وضو کیا اور اس میں تھوڑا سا پانی باقی رہ گیا۔ پھر ابو قتادہ ؓسے فرمایا کہ ہمارے لوٹے کو رکھ دوکہ اس کی ایک عجیب کیفیت ہو گی۔ پھر بلال ؓنے نماز کی اذان کہی اور نبی ﷺنے دو رکعت نماز پڑھی ۔پھر صبح کی فرض نماز ادا کی اور ویسے ہی ادا کی جیسے ہر روز ادا کرتے ہیں۔ اور آپ بھی اور ہم بھی آپ کے ساتھ سوار ہوئے ۔پھر ہم میں سے ہر ایک چپکے چپکے کہتا تھا کہ آج ہمارے اس قصور کا کیا کفارہ ہوگا جو ہم نے نماز میں قصور کیا۔ تب آپﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تم لوگوں کا پیشوا نہیں ہوں۔ پھر فرمایا کہ سونے میں کیا قصور ہے۔ قصور تو یہ ہے کہ ایک آدمی نماز نہ پڑھے یہاں تک کہ نماز کا دوسرا وقت آجائے ۔پھر جو ایسا کرے تو لازم ہے کہ جب ہوشیار ہو ادا کرے پھر جب دوسرا دن آئے تو اپنی نماز اوقات متعینہ پر ادا کرے،پھر فرمایا کہ تم کیا خیال کرتے ہو کہ لوگوں نے کیا کیا ہوگا۔ پھر فرمایا کہ لوگوں نے جب صبح کی تو اپنے نبی ﷺکو نہ پایا تب ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ ﷺتمہارے پیچھے ہوں گے۔ آپ ایسے نہیں کہ تمہیں پیچھے چھوڑ جائیں ۔ اور لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺتم سے آگے ہیں پھر وہ لوگ اگر ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی بات مانتے تو سیدھی راہ پاتے۔
راوی نے کہا کہ پھر ہم لوگوں تک پہنچے یہاں تک کہ دن چڑھ گیا اور ہر چیز گرم ہو گئی اور لوگ کہنے لگے اے اللہ کے رسولﷺ! ہم تو مرگئے اور پیاسے ہوگئے۔ آپﷺ نے فرمایا نہیں تم نہیں مرے پھر فرمایا کہ ہمارا چھوٹا پیالہ لاؤ اور وہ لوٹا منگوایاا ور رسول اللہ ﷺپانی ڈالنے لگے اور قتادہ ؓلوگوں کو پانی پلانے لگے۔ پھر جب لوگوں نے دیکھا کہ پانی ایک لوٹا بھر ہی ہے تو لوگ اس پر گرپڑے تب آپ ﷺنے فرمایا اچھی طرح آہستگی سے لیتے رہو تم سب سیراب ہو جاؤ گے۔ غرض کہ پھر لوگ اطمینان سے لینے لگے۔ اور رسول اللہ ﷺپانی ڈالتے تھے اور میں پلاتا تھا یہاں تک کہ کوئی باقی نہ رہا میرے اور رسول اللہ ﷺکے سوا ،کہا کہ پھر ڈالا اور مجھ سے فرمایا کہ پیو! میں نے عرض کیا کہ اے رسول اللہ ﷺ میں نہ پیوں گا جب تک آپ نہ پئیں، آپ ﷺنے فرمایا: قوم کا پلانے والا سب کے آخر میں پیتا ہے۔ پھر میں نے پیا ،کہا پھر لوگ پانی پر خوش خوش اور آسودہ پہنچے ،کہا کہ عبداللہ بن رباح نے کہا کہ میں لوگوں سے یہی حدیث روایت کرتا تھا جامع مسجد میں کہ عمران بن حصین ؓنے کہا کہ اے نوجوان غور کرو کہ تم کیا کہتے ہو اس لئے کہ میں بھی اس رات کا ایک سوار تھا تو میں نے کہا تم اس بات سے خوب واقف ہوگے۔ انہوں نے کہا کہ تم کس قوم سے ہو؟ میں نے کہا کہ میں انصار میں سے ہوں۔ انہوں نے کہا تو تم اپنی حدیثوں کو خوب جانتے ہو۔ پھر میں نے لوگوں سے پوری روایت بیان کی تب عمران ؓنے کہا کہ میں بھی رات حاضر تھا مگر میں نہیں جانتا کہ جیسا تم نے یاد رکھا ایسا اور کسی نے یاد رکھا ہو۔

3- عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللهِ ﷺفَطَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا وَصَلَّى خَلْفَ الْمَقَامِ رَكْعَتَيْنِ وَطَافَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَقَالَ: لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَ‌سُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ .. ﴿٢١ (الأحزاب: ٢١) . ([2])
(۳)ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےآپ ﷺمکہ مکرمہ آئے اور سات بار بیت اللہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعتیں پڑھیں اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی پھر فرمایا: تم کو رسول اللہ ﷺکی اچھی پیروی کرنی چاہیئے۔​

[1] - صحيح مسلم، كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ، بَاب قَضَاءِ الصَّلَاةِ الْفَائِتَةِ وَاسْتِحْبَابِ تَعْجِيلِ قَضَائِهَا، رقم: (1099)
[2] -(صحيح) صحيح سنن النسائي، رقم (2960)، سنن النسائي، كِتَاب مَنَاسِكِ الْحَجِّ، باب أَيْنَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْ الطَّوَافِ، رقم (2960)​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الأحاديث الواردة في (الأسوة الحسنة) معنىً
4- عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: اتَّخَذَ النَّبِيُّ ﷺخَاتَمًا مِنْ ذَهَبٍ فَاتَّخَذَ النَّاسُ خَوَاتِيمَ مِنْ ذَهَبٍ فَقَالَ النَّبِيُّﷺ: إِنِّي اتَّخَذْتُ خَاتَمًا مِنْ ذَهَبٍ فَنَبَذَهُ وَقَالَ: إِنِّي لَنْ أَلْبَسَهُ أَبَدًا فَنَبَذَ النَّاسُ خَوَاتِيمَهُمْ. ([1])
(۴)عبداللہ بن عمر ؓنے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺنے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی تو دوسرے لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوالیں پھر رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ میں نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی تھی ،پھر آپ نے پھینک دیا اور فرمایا کہ میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا چنانچہ اور لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔

5- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ بَاتَ لَيْلَةً عِنْدَ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺوَهِيَ خَالَتُهُ فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ الْوِسَادَةِ وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللهِ ﷺوَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا فَنَامَ رَسُولُ اللهِ ﷺحَتَّى إِذَا انْتَصَفَ اللَّيْلُ أَوْ قَبْلَهُ بِقَلِيلٍ أَوْ بَعْدَهُ بِقَلِيلٍ اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللهِ ﷺفَجَلَسَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ بِيَدِهِ ثُمَّ قَرَأَ الْعَشْرَ الْآيَاتِ الْخَوَاتِمَ مِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ ثُمَّ قَامَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ فَتَوَضَّأَ مِنْهَا فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ ثُمَّ ذَهَبْتُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ فَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي وَأَخَذَ بِأُذُنِي الْيُمْنَى يَفْتِلُهَا فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ أَوْتَرَ ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى أَتَاهُ الْمُؤَذِّنُ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ. ([2])
(۵)عبداللہ بن عباس نے انہیں خبر دی کہ انہوں نے ایک رات رسول کریم ﷺکی زوجہ مطہرہ اور اپنی خالہ میمونہ کے گھر میں گذاری ۔(وہ فرماتے ہیں کہ)میں تکیے کے عرض (یعنی گوشہ) کی طرف لیٹ گیا اور رسول کریم ﷺاور آپ کی اہلیہ نے (معمول کے مطابق) تکیے کی لمبائی پر (سر رکھ کر) آرام فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ سوتے رہے اور جب آدھی رات ہو گئی یا جب آپ بیدار ہوئےاور اپنے ہاتھوں سے اپنی نیند کو دور کرنے کےلئے آنکھیں ملنے لگے۔ پھر آپﷺ نے سورہ آل عمران کی آخری دس آیتیں پڑھیں ، پھر ایک مشکیزہ کے پاس جو(چھت میں)لٹکا ہوا تھا آپﷺ کھڑے ہوگئے اور اس سے وضو کیا خوب اچھی طرح پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ ابن عباس کہتے ہیں میں نے بھی کھڑے ہو کر اسی طرح کیا جس طرح آپ ﷺنے وضو کیا تھا ۔پھر جا کر میں بھی آپ کے پہلوئے مبارک میں کھڑا ہو گیا۔ آپ ﷺنے اپنا داہنا ہاتھ میرےسر پر رکھا اور میرا دایاں کان پکڑکر اسے مروڑنے لگے ۔پھر آپﷺنےدو رکعتیں پڑھیں اس کے بعد پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں پڑھ کر اس کے بعد آپﷺنے وتر پڑھا اور لیٹ گئے پھر جب مؤذن آپ ﷺکے پاس آیا تو آپﷺنے اٹھ کر دو رکعت معمولی پڑھیں پھر باہر تشریف لا کر صبح کی نماز پڑھی۔

6- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: زَوَّجَنِي أَبِي امْرَأَةً مِنْ قُرَيْشٍ فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَيَّ جَعَلْتُ لَا أَنْحَاشُ لَهَا مِمَّا بِي مِنْ الْقُوَّةِ عَلَى الْعِبَادَةِ مِنْ الصَّوْمِ وَالصَّلَاةِ فَجَاءَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ إِلَى كَنَّتِهِ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهَا فَقَالَ لَهَا: كَيْفَ وَجَدْتِ بَعْلَكِ؟ قَالَتْ: خَيْرَ الرِّجَالِ أَوْ كَخَيْرِ الْبُعُولَةِ مِنْ رَجُلٍ لَمْ يُفَتِّشْ لَنَا كَنَفًا وَلَمْ يَعْرِفْ لَنَا فِرَاشًا فَأَقْبَلَ عَلَيَّ فَعَذَمَنِي وَعَضَّنِي بِلِسَانِهِ فَقَالَ: أَنْكَحْتُكَ امْرَأَةً مِنْ قُرَيْشٍ ذَاتَ حَسَبٍ فَعَضَلْتَهَا وَفَعَلْتَ وَفَعَلْتَ، ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺفَشَكَانِي فَأَرْسَلَ إِلَيَّ النَّبِيُّ ﷺفَأَتَيْتُهُ فَقَالَ لِي: أَتَصُومُ النَّهَارَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: وَتَقُومُ اللَّيْلَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَنَامُ وَأَمَسُّ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي قَالَ: اقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ شَهْرٍ قُلْتُ: إِنِّي أَجِدُنِي أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ، قَالَ - أَحَدُهُمَا إِمَّا حُصَيْنٌ وَإِمَّا مُغِيرَةُ - : قَالَ: فَاقْرَأْهُ فِي كُلِّ عَشَرَةِ أَيَّامٍ قُلْتُ: إِنِّي أَجِدُنِي أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ. قَالَ: فَاقْرَأْهُ فِي كُلِّ ثَلَاثٍ قَالَ: ثُمَّ قَالَ: صُمْ فِي كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ قُلْتُ: إِنِّي أَجِدُنِي أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ قَالَ: فَلَمْ يَزَلْ يَرْفَعُنِي حَتَّى قَالَ: صُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا فَإِنَّهُ أَفْضَلُ الصِّيَامِ وَهُوَ صِيَامُ أَخِي دَاوُدَ،. قَالَ حُصَيْنٌ فِي حَدِيثِهِ - ثُمَّ قَالَﷺ: فَإِنَّ لِكُلِّ عَابِدٍ شِرَّةً وَلِكُلِّ شِرَّةٍ فَتْرَةً فَإِمَّا إِلَى سُنَّةٍ وَإِمَّا إِلَى بِدْعَةٍ فَمَنْ كَانَتْ فَتْرَتُهُ إِلَى سُنَّةٍ فَقَدْ اهْتَدَى، وَمَنْ كَانَتْ فَتْرَتُهُ إِلَى غَيْرِ ذَلِكَ فَقَدْ هَلَكَ، قَالَ مُجَاهِدٌ: فَكَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَمْرٍو حَيْثُ ضَعُفَ وَكَبِرَ يَصُومُ الْأَيَّامَ كَذَلِكَ يَصِلُ بَعْضَهَا إِلَى بَعْضٍ لِيَتَقَوَّى بِذَلِكَ ثُمَّ يُفْطِرُ بِعْدَ تِلْكَ الْأَيَّامِ، قَالَ: وَكَانَ يَقْرَأُ فِي كُلِّ حِزْبِهِ كَذَلِكَ، يَزِيدُ أَحْيَانًا وَيَنْقُصُ أَحْيَانًا غَيْرَ أَنَّهُ يُوفِي الْعَدَدَ إِمَّا فِي سَبْعٍ وَإِمَّا فِي ثَلَاثٍ قَالَ: ثُمَّ كَانَ يَقُولُ بَعْدَ ذَلِكَ: لَأَنْ أَكُونَ قَبِلْتُ رُخْصَةَ رَسُولِ اللهِ ﷺأَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا عُدِلَ بِهِ أَوْ عَدَلَ لَكِنِّي فَارَقْتُهُ عَلَى أَمْرٍ أَكْرَهُ أَنْ أُخَالِفَهُ إِلَى غَيْرِهِ. ([3])
(۶)عبد اللہ بن عمر  فرماتے ہیں : کہ میرے والد نے ایک قریشی نوجوان لڑکی سے شادی کروائی ۔جب ہماری رخصتی ہوئی تو میں عبادت کی کثرت کی وجہ سے اپنی بیوی کی طرف متوجہ نہیں ہوپا رہا تھا ۔تو میرے والدمحترم عمر وبن عاص اپنی بہو کے پاس تشریف لائےپوچھا کہ اپنے شوہر کو کیسا پایا ؟اس نے جواب دیا اور کہا کہ بہترین شوہر پایا ،جو نہ ہمارے بستر کا خیال رکھتا ہے نہ کسی حاجت کے لئے کوئی پوشیدہ جگہ تلاش کرتا ہے (یعنی اپنی اہلیہ کے ازدواجی حقوق پورےنہیں کرتا ) تو میرے والد فورا میرے پاس آئے اور میری سرزنش کرنے لگے اور کہنے لگے :میں نے تمہیں قریش میں سب سے بہترین حسب و نسب کے اعتبار سے خوبصورت عورت سے شادی کروائی اور تم نے اس کے ساتھ یہ سلوک کیا ؟پھر آپ ﷺ کے پاس تشریف لائے اور میری شکایت کی ۔تو آپ ﷺ نے مجھے بلوایا ، میں آپ ﷺکے پاس آیا توفرمانے لگے کہ : دن کے روزے رکھتے ہو؟ میں نے جواب دیا :جی ہاں ۔پھر فرمایا : رات کا قیام کرتے ہو ؟ میں نے کہا جی ہاں ۔آپ ﷺ نے فرمایا : لیکن میں روزے بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، رات کا قیام بھی کرتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور اپنی بیویوں کے پاس بھی جاتا ہوں ۔پس جس نے میری سنت سے منہ پھیر لیا وہ مجھ سے نہیں ۔پھر آپ ﷺ نے فرمایا : قرآن کو ایک مہینے میں پورا کیا کر ۔میں نے کہا اللہ کے رسول ﷺ میں اس سےزیادہ قوت محسوس کرتا ہوں ۔تو آپ ﷺ نے فرمایا : پس دس دن میں قرآن ختم کیا کر۔میں نے کہا : میں اس سےزیادہ قوت پاتا ہوں ۔آپ ﷺ نے کہا: پس تین دن میں قرآن ختم کیا کر۔پھر کہا : پورے مہینے میں تین دن روزے رکھا کر ۔میں نے کہا : میں اس سے زیادہ رکھ سکتا ہوں تو آپ ﷺ سے میں روزے بڑھواتا رہا یہاں تک کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک دن روزہ رکھ اور ایک دن افطار کر ،یہ بہترین روزہ ہے ،یہ میرے بھائی کا روزہ ہے ۔پھرآپ ﷺ نے فرمایا : ہر عابد کی زندگی میں کچھ عرصہ نشاط رہتا ہے اس کے بعد اس میں نرمی واقع ہوتی ہے اور وہ نرمی اسے سنت کی طرف یا بدعت کی طرف لے کے جاتی ہے ۔پس جس کی نرمی اسے سنت کی طرف لے کے گئی تو وہ ہدایت یافتہ ہو گیا ،اور جسے بدعت کی طرف لےگئی پس وہ ہلاک ہوگیا ۔امام مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :عبد اللہ بن عمرو  جب بڑی عمر کے ہوئےاور جسم میں کمزوری واقع ہوئی تب بھی آپ روزے رکھا کرتے تھے ۔پھر کچھ دن افطار کرتے اور قرآن مجید بھی اسی طرح پڑھا کرتے تھے کبھی زیادہ کبھی کم ۔پھرآپ نے ایک مرتبہ کہا :کاش کہ میں آپ ﷺ کی رخصت کو قبول کرتا یہ اس سے بہتر تھا کہ جو میں آپ کو کہا ۔لیکن میں ناپسند کرتا ہوں کہ جس عمل پر آپ ﷺ کو میں نے دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے پایا اس کو ترک کروں ۔


[1] - صحيح البخاري،كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، بَاب الِاقْتِدَاءِ بِأَفْعَالِ النَّبِيِّ ﷺ، رقم (6754)
[2] - صحيح البخاري،كِتَاب الْوُضُوءِ، بَاب قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ بَعْدَ الْحَدَثِ وَغَيْرِهِ، رقم (177)
[3] - (صحيح الإسناد) صحيح سنن النسائي رقم (2390)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
7- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَؓ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺقَالَ: إِذَا نَظَرَ أَحَدُكُمْ إِلَى مَنْ فُضِّلَ عَلَيْهِ فِي الْمَالِ وَالْخَلْقِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ مِمَّنْ فُضِّلَ عَلَيْهِ. ([1])
(۷)ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا جب کوئی تم میں سے دوسرے کو دیکھے جو اپنے سے مال اور صورت میں زیادہ ہو تو اس کو دیکھے جو اپنے سے مال اور صورت میں کم ہو (تاکہ اللہ کا شکر پیدا ہو اور علم اور تقوے میں اس کو دیکھے جو اپنے سے زیادہ ہو۔)

8- عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَيَحْيَى بْنُ جَعْدَةَ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ مِنْ أَصْحَابِ الرَّسُولِﷺ قَالَ: ذَكَرُوا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ ﷺمَوْلَاةً لِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ: إِنَّهَا قَامَتِ اللَّيْلَ وَتَصُومُ النَّهَارَ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِﷺ: لَكِنِّي أَنَا أَنَـامُ وَأُصَلِّي وَأَصُومُ وَأُفْطـِرُ. فَمَنْ اقْتَدَى بِي فَهُوَ مِنِّي وَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتـِي فَلَيْسَ مِنِّي. إِنَّ لِكُلِّ عَمَلٍ شِرَّةً ثُمَّ فَتْرَةً فَمَنْ كَانَتْ فَتْرَتُهُ إِلَى بِدْعَةٍ فَقَدْ ضَلَّ وَمَنْ كَانَتْ فَتْرَتُهُ إِلَى سُنَّةٍ فَقَدْ اهْتَدَى.
(۸)مجاہد فرماتے ہیں میں اور یحییٰ ابن جعدہ ایک انصاری کے پاس گئے جو اللہ کے رسول ﷺکے صحابہ میں سےتھے ،تو انہوں نے فرمایا ایک مرتبہ آپ ﷺکے سامنے بنی عبدالمطلب کی ایک لونڈی کا تذکرہ ہوا کہ وہ رات کو قیام کرتی اور دن کو روزے رکھتی ہے ، آپ ﷺنے فرمایا :لیکن میں سوتا بھی ہوں ،اور نماز بھی پڑھتا ہوں، روزہ بھی رکھتا ہوں، اور افطار بھی کرتا ہوں۔جس نے میری اقتداء کی وہ مجھ سے ہے جو میری سنت سے منہ پھیر لیتا ہے وہ مجھ سے نہیں۔ہر عمل میں ایک جذبہ ہے جس کے بعد نرمی ہے پس جس کی نرمی بدعت کی طرف ہے تو وہ گمراہ ہو گیا اور جس کی نرمی میری سنت کی طرف ہے تو وہ ہدایت پر ہے ۔ ([2])

9- عَنْ حُذَيْفَةَؓ قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺفَأَمْسَكَ الْقَوْمُ ثُمَّ إِنَّ رَجُلًا أَعْطَاهُ فَأَعْطَى الْقَوْمُ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺمَنْ سَنَّ خَيْرًا فَاسْتُنَّ بِهِ كَانَ لَهُ أَجْرُهُ وَمِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ غَيْرَ مُنْتَقِصٍ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ سَنَّ شَرًّا فَاسْتُنَّ بِهِ كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهُ وَمِثْلُ أَوْزَارِ مَنْ يَتَّبِعُهُ غَيْرَ مُنْتَقِصٍ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئًا. ([3])
(۹)حذیفہ ؓفرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ ﷺکے زمانے میں سوال کیا تو بیٹھے ہوئے لوگوں نے خاموشی اختیار کی پھر ایک شخص نے اٹھ کر اس کا سوال پورا کیا، پھر لوگوں نے دینا شروع کیا۔ آپ ﷺنے فرمایا جس نے اچھا طریقہ ایجاد کیا پھر اس کی پیروی کی گئی تو اس کے لئے اس پر عمل کرنے والے کا اجر ہے ،اور جو اس پر عمل کرتا رہے گا بغیر اس کے کہ عمل کرنے والوں کی نیکیوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی اور جس نے برائی کا طریقہ ایجاد کیا اور پھر اس طریقے کو اپنایا گیا تو اس پر اس کا اپنا گناہ ہو گا اور جو اس پر عمل کرنے والے ان کے بھی گناہ اس پر ہوں گے ۔ ساتھ ان کے گناہوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔


[1] - صحيح مسلم،كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ، رقم (5263)
[2] - (صحيح) ظلال الجنة رقم (51)، مسند أحمد (22376)
[3] - (حسن صحيح) صحيح الترغيب والترهيب رقم ( 62)، مسند أحمد رقم (22201) .
 
Top