- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
اُسوۂ حسنہ
کسی مثالی شخصیت کی اتباع /پیروی کرنا
”الأُسْوَةُ الإِئْتِسَاء“ کا مصدر ہے۔ یعنی اقتداء کرنا۔ اس کا اصل مادہ(اس و)ہے جو کہ”مَدَاوَاةٌ“(یعنی علاج کرنا) اور اصلاح پر دلالت کرتا ہے۔ مثلاً:”أَسَوْتُ الْجُرْحَ“ یعنی میں نے زخم کاعلاج کیا۔اسی وجہ سے طبیب کو ”اَلآسِي“ کہاجا تا ہے اور کہتے ہیں: ”أَسَوْتُ بَیْنَ الْقَوْمِ“ میں نے لوگوں کے درمیان صلح کروائی ۔اور اسی باب سے ہے :”لِی فِي فُلَانٍ اُسْوَةٌ“(الف پر ضمہ اور کسرہ کے ساتھ)یعنی میرے لئے فلاں شخصیت میں قدوہ اور نمونہ ہے اور میں اس کی اقتداء کرتا ہوں ۔اور”أَسَّیْتُ فُلاَنًا“ یعنی میں نے اس سے تعزیت کی، اس کو تسلی دی ۔اسی باب سے ہےکہ میں نے اسے کہا: ”لِیَكُنْ لَكَ بِفُلاَنٍ أُسْوَةٌ“ تم فلاں کی اقتداء کرو۔”فَقَدْ أُصِیْبَ بِمِثْلِ مَا اُصِبْتَ بِهِ فَرَضِيَ وسَلَّمَ“ اس کو بھی تیری طرح مصیبت پہنچی پھر وہ (قضاء الٰہی پر) راضی رہا اور(امر الٰہی کو) تسلیم کیا ۔اور معاملات اللہ کے سپرد کئے ۔
ابن منظور رحمہ اللہ نے کہا :”الأُسْوَةٌ“اور”الإِسْوَةٌ“ دونوں کا معنی قدوہ کے لئے ہے۔اور”إِئْتَسْ بِهِ“کا معنی ہے اس کی اقتداء کر۔ اور اس جیسا ہو جا۔ اور لیث رحمہ اللہ نے کہا:”فُلاُنٌ یَأْتَسِيْ بِفُلاَنٍ“ یعنی وہ اپنے لئے وہی چیز پسند کرتا ہے جو فلاں پسند کرتا ہے۔ اور اس کی اقتداء کرتا ہے اور اس جیسا ہے۔اور ”القَوْمُ أُسْوَةٌ فِي هَذَا الأَمْرِ“یعنی لوگ اس مسئلہ میں ایک دوسرے جیسے ہیں۔اور”التَأَسِّي فِي الأُمُوْرِ“اور ”المُؤَاسَاةُ، الأُسْوَةٌ“ کا معنی اقتداء کرنا ہے۔
بغوی رحمہ اللہ نے کہا: ”هِیَ فُعْلَةٌ مِنَ الإِئْتِسَاءِ کَالْقُدْوَةِ مِنَ الإِقْتدَاءِ اسْمٌ وُضِعَ مَوْضِعَ الْمَصْدَرِ“ یعنی یہ ”إِئْتِسَاء“(باب افتعال) سےا سم مصدرہے جو کہ مصدر کی جگہ استعمال ہوا ہے جیسا کہ: ”اَلقُدْوَةُ الإِقْتِدَاء“ سے اسم(مصدر )ہے۔