• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اُمت ِمسلمہ میں شرک کا وجود؟

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اُمت ِمسلمہ میں شرک کا وجود؟

ابوعبداللہ طارق​

شرک اور اس کی ذیلی صورتوں سے بچنے کے لئے کتاب وسنت میں بے شمار ہدایات پائی جاتی ہیں، اور علماے کرام عوام الناس کو اس کی تلقین بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن کچھ عرصہ سے بعض لوگوں نے شرک کی ایک خودساختہ تعریف متعین کرکے عوام الناس میں پائے جانے والی شرکیہ کوتاہیوں کو تحفظ دینے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ مختلف شہروں میں ’عقیدئہ توحید‘ کے نام سے سمینار منعقد کرکے ان میں نہ صرف عوام الناس کو مغالطہ دیا جارہا ہے بلکہ یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ اُمت ِمسلمہ میں شرک کا وجود ہی سرے سے ناممکن ہے، اس لئے شرک سے بچنے کی تدابیر اضافی اور بے فائدہ ہیں۔ زیر نظر مضمون میں شرک کی ناقص اور خودساختہ تعریف کی قرآنی آیات اور ائمہ اسلاف کے ذریعے تردید کرنے کے بعد اُمت ِمسلمہ میں شرک کے وجود کو آیاتِ کریمہ سے ثابت کیا گیا ہے تاکہ عوام الناس اس کے بارے میں فکر مند ہوں، اپنے اعمال کے بارے میں توجہ کریں، نہ کہ مطمئن ہوکر بیٹھ جائیں۔ ہر دو نکات پر بکثرت قرآنی دلائل اس لئے پیش کئے گئے ہیں تاکہ حق کے متلاشی کے لئے یہ مسائل ظاہر وباہر ہوجائیں اور کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام کو خلوص کے ساتھ سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق مرحمت فرمائے۔ ح م

 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ایمان و توحید ہے اور بلاشبہ اسے تعلیماتِ اِسلامیہ میں اَساس اور مرکز و محور کی حیثیت حاصل ہے جب کہ برے اَعمال میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز شرک ہے۔جس قدر اس کی مذمت کی گئی ہے، اس قدر کسی اور چیز کی شناعت بیان نہیں کی گئی۔اسی توحید کے اثبات اور تبلیغ و اشاعت اور شرک کے نقصان و بُرائی کو واضح کرنے اور لوگوں کو اس سے روکنے کے لیے انبیا و رسل علیہم السلام مبعوث ہوتے رہے اور یہی ان کی دعوت و کاوش کا مرکزی نکتہ رہا ہے اور اسی میں اُنہوں نے اپنی زندگیاں صرف کردیں اور ان کے بعد علماے ربانی بھی اسی متاعِ عزیز کو سینے سے لگائے ہر دور میں حقِ وراثت ِانبیا ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔جب کہ مقابلہ میں ابلیسِ لعین بھی اپنے لاؤلشکر سمیت ہر دور میں نت نئے انداز و مغالطہ جات سے اور اب تو جدید ہتھیاروں سے لیس حملہ آور ہے اور اس کے کارندے بھی مخصوص مفادات کی خاطر، اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو دامِ فریب میں پھانسنے کے لیے، تلبیسانہ انداز میں ملمع سازی کرکے ظلم عظیم کو صراطِ مستقیم، شرک و گستاخی کو رشد و ہدایت اور عشق و محبت کے روپ میں پیش کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں،لیکن یاد رہنا چاہئے کہ توحید و سنت کے چراغ شرک و گستاخی کی پھونکوں سے کیونکر بجھائے جاسکتے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’ یُرِیْدُوْنَ أنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اﷲِ بِأفْوَاھِھِمْ وَیَاْبَی اﷲُ اِلَّا اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْکَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ - ھُوَّ الَّذِیْ أرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ‘‘ (التوبہ:۳۲،۳۳)
’’وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہہ (کی پھونکوں) سے بجھا ڈالیں، لیکن اللہ کو یہ بات منظور نہیں ہے، وہ اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا خواہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناگوار گزرے۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو سب اَدیان پر غالب کردے۔خواہ یہ بات مشرکوں کو کتنی ہی ناگوار ہو۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اس مذموم کاروبار کو رواج دینے اور سند ِجواز بخشنے کے لیے بعض مفکرین کی طرف سے یہ دعویٰ بھی کیا جانے لگا ہے کہ شرک تو ہمیشہ کے لیے نابود ہوچکا ہے۔ اب اس اُمت میں شرک نہیں پایا جاسکتا اور کوئی مسلمان مشرک نہیں ہوسکتا اور ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق، عوام کو مغالطہ دیتے ہوئے اب یہ بھی کہا جانے لگا کہ شرک کی مذمت والی آیات و اَحادیث میں مراد رِیاکاری یعنی شرکِ اصغر ہے نہ کہ شرکِ اکبر، اورکبھی ان کو قربِ قیامت کے لوگوں کے ساتھ خاص قرار دے کر جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی بیان کیا جاتا ہے کہ
’’شرک تو صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود مانا جائے یا اُس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مانا جائے یا اس کو مستحقِ عبادت قرار دیا جائے۔ اس کے سوا کوئی قول اور فعل شرک نہیں ہے۔‘‘ (نعمۃ الباري في شرح صحیح البخاري:۲؍۱۸۵)
تارِ عنکبوت سے کمزور اس اُصول کی حقیقت تو اس بات سے ہی کھل جاتی ہے کہ اس قاعدہ سے تو مشرکینِ عرب بھی مشرک ثابت نہیں ہوتے اور شاید اس طرح یہ لوگ اپنے سے زیادہ مشرکینِ عرب کا دفاع کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ کو ہی خالق، مالک، رازق اور واجب الوجود مانتے تھے اور اپنے معبودانِ باطلہ کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق، ملکیت اور اس کے ماتحت تصور کرتے تھے نہ کہ واجب الوجود۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ رقم طراز ہیں:
’’واعلم أن للتوحید أربع مراتب: إحداھا حصر وجوب الوجود فیہ تعالیٰ فلا یکون غیرہ واجبًا۔ والثانیة حصر خلق العرش والسموات والأرض وسائر الجواھر فیہ تعالیٰ وھاتان المرتبتان لم تبحث الکتب الالھیة عنھما ولم یخالف فیھما مشرکوا العرب ولا الیھود ولا النصارٰی بل القرآن ناص علی أنھما من المقدمات المسلمة عندھم‘‘ (حجۃ اﷲ البالغۃ:۱؍۵۹)
’’تو جان لے یقینا توحید کے چار درجے ہیں:پہلا یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی میں واجب الوجود ہونے کی صفت پائی جاتی ہے پس اس کے سوا واجب الوجود کوئی نہیں ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی عرش، آسمانوں، زمینوں اور تمام جواہر کا خالق ہے۔ (یاد رہے کہ) آسمانی کتابوں نے ان دو مراتب سے بحث نہیں کی اور نہ ہی مشرکینِ عرب اور یہود و نصاریٰ نے ان میں اختلاف کیاہے بلکہ قرآنِ پاک کی اس پر نص قطعی ہے کہ ان کے نزدیک یہ دونوں باتیں مسلمات میں سے ہیں۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اللہ تعالیٰ ہی آسمان وزمین اور پوری کائنات کا خالق ہے!
1. اِرشاد باری تعالیٰ ہے :
" وَلَئِنْ سَألْتَھُمْ مَنْ خَلَقَھُمْ لَیَقُوْلَنَّ اﷲُ فَاَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ" (الزخرف:۸۷)
’’اور اگر آپ(ﷺ) ان سے پوچھیں کہ اُنہیں کس نے پیدا کیا؟ تو یہ ضرور کہیںگے کہ اللہ تعالیٰ نے، پھر کہاں سے یہ دھوکہ کھا رہے ہیں۔‘‘
2. اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
" وَلَئِنْ سَألْتَھُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمٰوٰاتِ وَالأَرْضِ لَیَقُوْلُنَّ اﷲُ قُلِ الْحَمْدُ ﷲِ بَلْ أکْثَرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ " (لقمان:۲۵)
’’اور اگر آپ(ﷺ) ان سے پوچھیں، آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا کون ہے؟ تو یہ ضرور کہیں گے اللہ تعالیٰ ، کہو: الحمدللہ، مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں۔‘‘
3. ایک اور مقام پر فرمایا:
" وَلَئِنْ سَألْتَھُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمٰوٰاتِ وَالأَرْضِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُوْلُنَّ اﷲُ فَأنّٰی یُؤْفَکُوْنَ - اَﷲُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَائُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ لَہُ إنَّ اﷲَ بِکُلِّ شَيْئٍ عَلِیْم - وَلَئِنْ سَألْتَھُمْ مَنْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَائِ مَائً فَأحْیَا بِہِ الأَرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِھَا لَیَقُوْلُنَّ اﷲُ قُلِ الْحَمْدُ ﷲِ بَلْ اَکْثَرُھُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ " (العنکبوت:۶۱تا۶۳)
’’اور اگر تم ان لوگوں سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے اور سورج اور چاند کو کس نے مسخر کیا ہے تو یہ ضرور کہیںگے کہ اللہ نے۔ پھر یہ کدھر سے دھوکہ کھا رہے ہیں؟ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں میں سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کرتا ہے، یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز کا جاننے والا ہے اور اگر تم ان سے پوچھو کس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو زندہ کردیا تو وہ ضرور کہیں گے: اللہ نے، کہو: الحمدﷲ، مگر ان میں سے اکثر لوگ بے عقل ہیں۔‘‘
4. فرمایا:
" وَلَئِنْ سَألْتَھُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمٰوٰاتِ وَالأَرْضِ لَیَقُوْلُنَّ اﷲُ قُلْ أفَرَأیْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ إنْ أرَادَنِیَ اﷲُ بِضُرٍّ ھَلْ ھُنَّ کٰشِفٰتُ ضُرِّہِ أوْ أرَادَنِیْ بِرَحْمَةٍ ھَلْ ھُنَّ مُمْسِکٰتُ رَحْمَتِہٖ قُلْ حَسْبِيَ اﷲُ عَلَیْہِ یَتَوَکَّلُ الْمُتَوَکِّلُوْنَ " (الزمر:۳۸)
’’اور اگر تم ان سے پوچھو آسمان اور زمین کس نے بنائے تو ضرور کہیں گے اللہ نے۔ تم فرماؤ بھلا بتاؤ تووہ جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو اگر اللہ مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو کیا وہ اس کی بھیجی تکلیف ٹال دیں گے یا وہ مجھ پر مہر (رحم) فرمانا چاہے تو کیا وہ اس کی مہر کو روک رکھیں گے تو فرماؤ: اللہ مجھے بس، بھروسے والے اسی پر بھروسہ کریں۔‘‘ (ترجمہ از احمدرضا خان بریلوی ،کنزالایمان)
نعیم الدین مراد آبادی بریلوی اس آیت ِکریمہ کے تحت رقم طراز ہیں:
’’یعنی یہ مشرکین خداے قادر، علیم، حکیم کی ہستی کے تو مقر ہیں اور یہ بات تمام خلق کے نزدیک مسلم ہے اور خلق کی فطرت اس کی شاہد ہے۔‘‘ (خزائن العرفان: سورۃ الزمر، حاشیہ نمبر ۸۶)
5. فرمایا:
" قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِنَ السَّمَائِ وَالأرْضِ أمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالاَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الأمْرَ فَسَیَقُوْلُوْنَ اﷲُ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُوْنَ " (یونس:۳۱)
’’آپ (ﷺ) کہہ دیں کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے، یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون بے جان میں سے جاندار کو اور جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟ کون اس کائنات کا انتظام چلا رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ پھر پوچھئے کہ تم اس سے ڈرتے کیوں نہیں؟‘‘
6. فرمایا:
" قُلْ لِمَنِ الأَرْضُ وَمَنْ فِیْھَا إنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ سَیَقُوْلُوْنَ ﷲِ قُلْ أفَلَا تَذَکَّرُوْنَ قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمٰوٰاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ سَیَقُوْلُوْنَ ﷲِ قُلْ أفَلَا تَتَّقُوْنَ قُلْ مَنْ بِیَدِہِ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْئٍ وَھُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ إنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ سَیَقُوْلُوْنَ ﷲ ِقُلْ فَأنّٰی تُسْحَرُوْنَ " (المؤمنون:۸۴ تا ۸۹)
’’آپ(ﷺ) ان سے پوچھئے کہ اگر تمہیں کچھ علم ہے تو بتاؤ! کہ زمین اور جوکچھ اس میں ہے وہ کس کا ہے؟ وہ فوراً کہہ دیں گے اللہ کا، آپ کہئے پھر تم نصیحت قبول کیوں نہیں کرتے؟ پھر پوچھئے کہ سات آسمانوں اور عرش عظیم کامالک کون ہے؟ وہ فوراً کہہ دیں گے کہ یہ (سب کچھ) اللہ ہی کا ہے۔ آپ کہئے: پھر اللہ سے ڈرتے کیوں نہیں؟ پھر پوچھئے کہ اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ ہر چیز پر حکومت کس کی ہے؟ اور وہ کون ہے جو پناہ دیتا ہے مگر اس کے مقابلہ میں کسی کو پناہ نہیں مل سکتی؟ وہ فوراً کہیں گے اللہ ہی ہے۔ آپ کہئے: پھر تم کس جادو کے فریب میں پڑے ہو۔‘‘
مشرکینِ عرب اپنے معبودانِ باطلہ کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق و ملکیت مانتے تھے اور ان کی صفات و اختیارات اور قوت کو قدیم اور مستقل بالذات نہیں مانتے تھے بلکہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ صفات و اختیارات ان کے ذاتی نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی عطا کردہ ہیں اُسی کی ملکیت اور اُس کے ماتحت ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں:
" کان المشرکون یقولون لبیک لا شریک لک قال فیقول رسول اﷲ ﷺ: " ویلکم قدٍ قدٍ" فیقولون: إلا شریکًا ھو لک تملکہ وما مَلَک یقولون ھذا وھم یطوفون بالبیت " (صحیح مسلم:۱۱۸۵)
’’مشرکین بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے کہتے تھے:’’لبیک لا شریک لک‘‘ تو رسول اللہ1 فرماتے: ’’ہلاکت ہو تمہارے لیے، اسی پر اکتفا کرو‘‘ لیکن وہ کہتے ’’إلا شریکًا ھو لک تملکہ وما مَلَک‘‘ یعنی ’’اے اللہ! تیرا کوئی شریک نہیں مگر ایسا شریک جو تیرے لیے ہے، تو اس شریک کا بھی مالک ہے اور اس چیز کا بھی مالک ہے جو اس شریک کے اختیار میں ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مشرکین مکہ تقربِ الٰہی اور سفارش کے لئے دوسروں کو شریک کرتے تھے!
مشرکین عرب اپنے معبودوں کی پرستش اس لیے کرتے تھے کہ ان کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل ہوجائے یا اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ ہماری سفارش کریں، ان کو مستحق عبادت سمجھ کر ان کی پوجا نہیں کرتے تھے، کیونکہ سفارشی مستقل نہیں ہوتابلکہ غیر مستقل ہی ہوتا ہے۔ارشادِ باری ہے:
"إنَّا أنْزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اﷲَ مُخْلِصًا لَہُ الدِّیْنَ، اَلَا ﷲِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖ أوْلِیَائَ مَا نَعْبُدُھُمْ إلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا إلَی اﷲِ زُلْفٰی " (الزمر: ۲، ۳)
’’بے شک ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ اُتاری، تو اللہ کو پوجو، نرے اس کے بندے ہوکر، ہاں خالص اللہ ہی کی بندگی ہے، اور جنہوں نے اس کے سوا اور والی بنالئے، کہتے ہیں کہ ہم تو اُنہیں صرف اتنی بات کے لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے پاس نزدیک کردیں۔‘‘ (ترجمہ از احمد رضا خان بریلوی ،کنزالایمان)
ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
" وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ مَالَا یَضُرُّھُمْ وَلَا یَنْفَعُھُمْ وَیَقُوْلُوْنَ ھٰؤلَائِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اﷲِ قُلْ أتُنَبِّئُوْنَ اﷲَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِیْ السَّمٰوٰاتِ وَلَا فِیْ الأَرْضِ سُبْحٰنَہٗ وَتَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ " (یونس:۱۸)
’’اور وہ اللہ کے سوا ایسی چیز کو پوجتے ہیں جو ان کا کچھ بھلا نہ کرے اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے یہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ تو فرماؤ کیا اللہ کو وہ بات بتاتے ہو جو اس کے علم میں نہ آسمانوں میں ہے نہ زمین میں، اسے پاکی اور برتری ہے ان کے شرک سے۔‘‘ (ترجمہ از احمدرضا خان بریلوی، کنزالایمان)
معلوم ہواکہ مشرکین عرب اپنے معبودانِ باطلہ کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور ان کی صفات واختیارات کو ان کی ذاتی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اور ا س کی ملکیت مانتے تھے لہٰذا اُن کو واجب الوجود، اُن کی صفات کو قدیم اور مستقل بالذات اور ان کو مستحق عبادت نہیں مانتے تھے۔ بلکہ ان کی عبادت اس لیے کرتے تھے کہ ان کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل ہوجائے یا ان کی سفارش سے اللہ ہماری ضرورتیں پوری کردیتا ہے۔ مشکل کشائی، حاجت روائی کرتا ہے، شفا بخشتا ہے، ہماری سنتا نہیں، ان کی موڑتا نہیں وغیرہ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے سوا جن کی عبادت کرتے، اور مافوق الاسباب اختیارات کامالک سمجھتے اور پکارتے تھے، ان کو نفع و نقصان کے حصول میں مستقل نہیںمانتے تھے، کیونکہ سفارشی مستقل نہیں ہوتالہٰذا وہ اُنہیں غیرمستقل مانتے تھے اور انہیں اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان واسطہ، وسیلہ اور ذریعہ قرار دیتے تھے جسے اللہ تعالیٰ نے شرک قرار دیا ہے۔ لہٰذا شرک کے پائے جانے کے لئے
’’شرک تو صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود مانا جائے یا اس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مانا جائے یا اس کو مستحق عبادت قرار دیا جائے اس کے سوا کوئی قول اور فعل شرک نہیں ہے۔‘‘ (نعمۃ الباري: ۲؍۱۸۵)
کی شرط لگانا سراسر باطل ہے۔ اس سے تو مشرکین عرب کاشرک بھی ثابت نہیں ہوتا اور یہ قرآنِ پاک کے خلاف ہے، لیکن اگرپھر بھی کوئی بضد ہو تو پھر اسے اب یہ دعویٰ بھی کردینا چاہئے کہ ’’ مشرکین عرب میں بھی شرک نابود تھا اور اُن کا کوئی فرد بھی مشرک نہیں تھا۔‘‘ معاذ اللہ تاکہ غلط نظریات کے دفاع کا صحیح حق ادا ہوجائے اور اپنے اس خود ساختہ اُصول سے بھی کماحقہ فائدہ اٹھایا جاسکے۔ حالی لکھتے ہیں:

مگر مؤمنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نیز

نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اُمت ِمسلمہ میں بھی شرک پایا جاتا ہے!

سوال یہ ہے کہ کیا کوئی مسلمان’’اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود یا اس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مان سکتا ہے یا اس کو عبادت کا مستحق قرار دے سکتا ہے یا نہیں؟‘‘
اگر کوئی مسلمان ایسا کرسکتا ہے تو اس اُمت میں شرک بھی پایا جاسکتا ہے اور یہ مزعومہ دعویٰ کہ ’’اس امت میں سے شرک ہمیشہ کے لیے نابود ہوچکا ہے اور اب کوئی مسلمان شرک کا مرتکب نہیں ہوسکتا‘‘ سراسر باطل قرار پاتا ہے۔ یا پھر ان جدید مفکرین کی طرف سے اپنے اس بیان کردہ اُصول کو بھی ریا کاری یعنی شرکِ اصغر پر محمول کرلیا جائے گا؟ اس صورت میں تو ’’اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود یا اس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات ماننا اس کو مستحق عبادت قرار دینا‘‘ بھی ان اصحابِ جبہ و دستار کے نزدیک شرکِ اکبر نہیں ہوگا۔ یا پھر اپنے اس اُصول کوبھی قربِ قیامت کے لوگوں کے ساتھ خاص قرار دے لیں گے؟

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے!​

اور اگر کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو ایسا نہیں مان سکتا تو پھر یہ مزعومہ اصول کہ
’’شرک تو صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود یا اس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مانا جائے یا اس کو عبادت کا مستحق قرار دیا جائے اس کے سوا کوئی قول اور فعل شرک نہیں ہے۔‘‘ (نعمۃ الباري:۲؍۱۸۵)
قرآنِ پاک کے مخالف ہونے کے سبب بذاتِ خود باطل قرار پاتا ہے کیونکہ قرآنِ پاک سے یہ ثابت ہے کہ مسلمان اپنے ایمان کے ساتھ شرک کی آمیزش کرسکتا ہے۔
1۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’ فَأيُّ الْفَرِیْقَیْنِ أحَقُّ بِالأمْنِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا إیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُوْلٰئِکَ لَھُمُ الأَمْنُ وَھُمْ مُھْتَدُوْنَ ‘‘ (الانعام:۸۱،۸۲)
’’تو دونوں گروہوں میں امان کا زیادہ سزاوار کون ہے اگر تم جانتے ہو، وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ناحق کی آمیزش نہ کی، اُنہیں کے لیے امان ہے اور وہی راہ پر ہیں۔‘‘ (ترجمہ از مولانا احمدرضا خان بریلوی ، کنزالایمان)
اس آیت ِمبارکہ میں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ حدیث ِمبارکہ میں آپﷺنے وضاحت فرما دی ہے:
عن عبد اﷲ قال لمّا نزلت ’’ اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا إیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ ‘‘ شق ذلک علی أصحاب رسول اﷲ ! وقالوا أینا لایظلم نفسہ؟ فقال رسول اﷲ!: " لیس ھو کما تظنون إنّما ھو کما قال لقمان لابنہ " یٰبَنِيَّ لَا تُشْرِکْ بِاﷲِ إنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ" (صحیح بخاری:۳۴۲۹، صحیح مسلم:۱۲۴ واللفظ لہ)
’’عبداللہ بن مسعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی [ترجمہ: جن مؤمنین نے اپنے ایمان کے ساتھ بالکل ظلم نہیں کیا (انہی کو نجات ہوگی)]تو صحابہ کرام اس آیت سے بہت پریشان ہوئے اور رسولﷺسے عرض کیا ہم میں سے کون شخص (معصیت کرکے) ظلم نہیں کرتا! رسولﷺنے فرمایا: اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ اس آیت میں ظلم یعنی شرک ہے جس طرح لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اے بیٹے! اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرنا یقینا شرک کرنا ظلم عظیم ہے۔‘‘ (ترجمہ از غلام رسول سعیدی ،شرح صحیح مسلم:۱؍۵۸۶)
ا. اس آیت ِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان: ’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور اُنہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم (شرک) کی آمیزش نہیں کی۔‘‘ اس بارے میں نص صریح ہے کہ اہل ایمان،ایمان لانے کے بعد بھی شرک میں مبتلا ہوسکتے ہیں اور یہاں اس سے شرکِ اکبر مراد ہے جیسا کہ تفصیل آرہی ہے۔
ب. یہ آیت ِکریمہ اہل ایمان، مسلمانوں یعنی کلمہ پڑھنے والے اُمتیوں کے بارے میں ہے کہ شرک نہ کرنے کی صورت میں ان کے لیے امن کی گارنٹی اور ہدایت یافتہ ہونے کی سعادت ہے۔
ج. کلمہ نہ پڑھ کر اُمتی نہ بننے والوں کے بارے میں نہیں ہے، کیونکہ وہ تو اگر بالفرض شرک نہ بھی کریں تو پھر بھی ان کے لیے نہ امن ہے اور نہ ہی وہ ہدایت یافتہ ہیں بلکہ کلمہ نہ پڑھنے اور انکارِ نبوت کی وجہ سے ہی وہ کافر اور ابدی جہنمی ہیں۔
د. صحابہ کرامؓ نے اس آیت ِکریمہ کو، ہمارے اس دور کے اصحابِ جبہ ودستار کی طرح یہ کہہ کر ردّ نہیں کردیا کہ یہ تو کفار، یہود و نصاریٰ یا بتوں، سورج، چاند اور ستاروں کے متعلق ہے اور پھر نبی پاکﷺنے بھی ایسا نہیں کیا۔
ھ. صحابہ کرام ؓ نے اس آیت ِکریمہ کواپنے بارے میں سمجھا، اس سے استدلال کیا اور اپنے بارے میں پریشانی کا اظہار بھی کیا تو نبی کریمﷺ نے بھی اس کو ردّ نہیں کیابلکہ باقی رکھا لہٰذا یہاں یہ بہانہ بھی کارگر نہیں ہوسکتا کہ یہ آیت تو صرف قربِ قیامت کے لوگوں کے متعلق ہے۔
و. البتہ لفظ ’ظلم‘ کوسمجھنے میں جو دشواری ہوئی تھی، آپﷺ نے اس کی اصلاح فرما دی کہ یہاں ظلم سے مراد ایک خاص ظلم یعنی شرک ہے، عام معصیت وغیرہ نہیں ہے۔
ح. صحابہ کرامؓ نے زمانۂ جاہلیت کو قریب سے دیکھا تھا، اور پھر نبی پاکﷺ کی صحبت اور تعلیم و تربیت کا بھی اثر تھا کہ ان سے شرک کا وقوع نہیں ہوا۔ البتہ جہاں اُنہیں دوسرے لوگوں کے پھسل جانے کا خطرہ محسوس ہواتو اُنہوں نے اس کا سدباب بھی کیا۔
ط. اس آیت ِکریمہ میں ظلم سے مراد شرک اکبر ہے، کیونکہ یہاںشرک ِاکبر کے مرتکب کافر اور مؤمن کے درمیان موازنہ کیا گیا ہے کہ ان ’’دونوں گروہوں میں سے امن کا سزاوار کون ہے؟‘‘ توفرمایاکہ ’’جو لوگ ایمان لائے اور اُنہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم (شرک) کی آمیزش نہ کی اُن کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘
ی. سوال یہ ہے کہ کیا ان جدید مفکرین کے نزدیک کافر شرکِ اکبر کا مرتکب ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اگر ہوسکتا ہے تو پھر اس آیت ِکریمہ کی شرکِ اصغر کے ساتھ تخصیص کابہانہ نہیں چل سکتا اور حق بھی یہی ہے کہ یہاں شرکِ اکبر مراد ہے۔
اور اگر نہیں تو پھر ان اصحاب کو اب یہ دعویٰ بھی کردینا چاہئے کہ’’ ان کفار میں بھی شرکِ اکبر نابود تھا اور کوئی کافر بھی شرکِ اکبر میں مبتلا نہیں تھا‘‘ تاکہ مزعومہ خیالات کے دفاع کا صحیح حق ادا ہوسکے۔
ک. اگر اس آیت ِکریمہ کے سیاق و سباق کی طرف جائیں تو اس میں بھی شرکِ اکبر کا ہی تذکرہ ہے۔
معلوم ہوا کہ اس اُمت میں بھی شرک پایا جاسکتا ہے اور مسلمان بھی شرکِ اکبر میں مبتلا ہوسکتے ہیں، الامن رحم ربی اور یہ مذکورہ آیت ِکریمہ اس بارے میں نص صریح ہے اور اُمت ِ مسلمہ میں شرک نہ پائے جانے کادعویٰ سراسر باطل ہے اور قرآن کے خلاف ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
2. جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’ وَأحِلَتْ لَکُمُ الأَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ فَاجْتَنِبُوْا الرِّجْسَ مِنَ الأوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ حُنَفَائَ ﷲِ غَیْرَ مُشْرِکِیْنَ بِہٖ وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاﷲِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَائِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ اَوْ تَھْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ ‘‘ (الحج:۳۰،۳۱)
’’اور تمہارے لیے حلال کیے گئے ہیں بے زبان چوپائے سو ا ان کے جن کی ممانعت تم پرپڑھی جاتی ہے تو دور رہو بتوں کی گندگی سے، اور بچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی کسی کونہ کرو اور جو اللہ کا شریک کرے، وہ گویا گرا آسمان سے کہ پرندے اسے اُچک لے جاتے ہیں یا ہوا اُسے کسی دور جگہ پھینکتی ہے۔‘‘ (ترجمہ: از احمدرضا خان بریلوی، کنزالایمان)
ا. اس آیت ِکریمہ میں بھی مخاطب مسلمان ہیں۔
جسٹس (ر) پیرکرم شاہ ازہری بھیروی راقم ہیں:
’’مسلمانوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ یہ بت جن کو مشرکین نے اپنا معبود بنایا ہوا ہے یہ تو سراسر نجاست اور غلاظت ہیں،ان سے دور بھاگو۔‘‘ نیز فرماتے ہیں: ’’شرک سے منہ موڑ کر کمال یکسوئی سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاؤکسی کواس کا شریک نہ بناؤ، نہ ذات میں اور نہ صفات میں‘‘ (ضیاء القرآن :۳؍۲۱۲،۲۱۳)
ب. امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں:
وَثن بت ہے خواہ سونے، چاندی کی مورتی ہویا کسی اور چیز کا مجسمہ۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر وہ چیز جس کی عبادت کی جائے وہ وثن ہے خواہ بت ہو یا کوئی اور چیز۔ (التمہید:۵؍۴۵)
ج. کیا ان اصحاب کے نزدیک وثن کی عبادت بھی شرکِ اکبر نہیں ہے؟
د. کیامسلمانوں کو ایسی چیز سے بچنے کا پابندو مکلف بنایا جارہا ہے جس کے وجود کا ان میں امکان بھی نہیں؟ جیسا کہ فرشتوں کو مکلف بنانا کہ وہ نہ کھائیں، نہ پئیں اور نہ قضاے حاجت کریں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
3. انبیاء علیہم السلام سے شرک کا صدور ناممکن ہے، وہ اس سے پاک ہیں، لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے شرک کی قباحت و برائی کوبیان کرنے اور اُمتیوں کو سمجھانے کے لیے اٹھارہ انبیا وورُسل علیہم السلام کاذکر کرکے فرمایا:
’’ وَلَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْھُمْ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ‘‘ (الانعام:۸۸)
’’اور اگر وہ شرک کرتے تو ضرور ان کا کیا اکارت جاتا۔‘‘ (ترجمہ: از احمدرضا خان بریلوی، کنزالایمان)
جناب غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب رقم طراز ہیں:
’’پھر فرمایا (بہ فرضِ محال) اگر ان نبیوں اور رسولوں نے بھی شرک کیا تو ان کے نیک اعمال ضائع ہوجائیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ شرک کی آمیزش کے ساتھ کسی نیک عمل کو قبول نہیں فرماتا اس آیت میں انبیاء علیہم السلام کی اُمتوں کے لیے تعریض ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام سے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا کہ اگر اُنہوں نے بالفرض شرک کیا تو ان کے نیک عمل ضائع ہوجائیں گے تو ان کی اُمتیں کس گنتی ، شمار میں ہیں۔‘‘ (تبیان القرآن:۳؍۵۷۹)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
4. اسی طرح ایک اور مقام پر نبی پاکﷺسے فرمایا:
’’ وَلَقَدْ أوْحِیَ إلَیْکَ وَإِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ أشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ‘‘ (الزمر:۶۵)
’’اور بیشک وحی کی گئی آپ کی طرف اور ان کی طرف جو آپ سے پہلے تھے کہ اگر (بفرضِ محال) آپ نے بھی شرک کیاتو ضائع ہوجائیں گے آپ کے اعمال اور آپ بھی خاسرین میںسے ہوجائیں گے۔‘‘ (ترجمہ از جسٹس (ر) پیرکرم شاہ ازہری، ضیاء القرآن:۴؍۲۸۱)
غلام رسول سعیدی بریلوی رقم طراز ہیں:
’’اس آیت میں تعریض ہے۔ ذکر آپ کا ہے اور مراد آپ کی اُمت ہے یعنی اگر بالفرض آپ نے بھی شرک کیا تو آپ کے اعمال ضائع ہوجائیں گے تو اگر آپ کی اُمت کے کسی شخص نے شرک کیاتو اس کے اعمال تو بطریق اولیٰ ضائع ہوجائیں گے۔ (تبیان القرآن:۱۰؍۲۹۳)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
5. ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْ لِقَائَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہِ اَحَدًا ‘‘(سورۃ الکہف:۱۱۰)
’’تو جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہو اُسے چاہئے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے۔‘‘ (ترجمہ از کنزالایمان)
ا. نعیم الدین مراد آبادی بریلوی اس آیت کے تحت راقم ہیں:
’’شرکِ اکبر سے بھی بچے اور ریا سے بھی جس کو شرکِ اصغر کہتے ہیں۔‘‘ (خزائن العرفان، سورۃ الکہف، آیت نمبر ۱۱۰ حاشیہ نمبر ۲۲۴)
ب. اس آیت ِکریمہ کی ریا یعنی شرکِ اصغر کے ساتھ تخصیص کرنے والوں کو نعیم الدین مراد آبادی کا مندرجہ بالا بیان اور اپنادرج ذیل اُصول یاد رہنا چاہئے۔
احمدرضا خان صاحب بریلوی راقم ہیں:
’’اور نصوص ہمیشہ ظاہر پر محمول رہیں گے، بے دلیلِ شرعی تخصیص و تاویل کی اجازت نہیں ورنہ شریعت سے امان اُٹھ جائے۔ نہ اَحادیث ِآحاد اگرچہ کیسے ہی اعلیٰ درجے کی ہوں، عمومِ قرآن کی تخصیص کرسکیں بلکہ اس کے حضور مضمحل ہوجائیں گی بلکہ تخصیص متراخی نسخ ہے۔ (فتاویٰ رضویہ:۲۹؍۴۸۸) مزید فرماتے ہیں: ’’عموم آیاتِ قطعیہ قرآنیہ کی مخالفت میں اخبارِ آحاد سے استناد محض غلط ہے۔ ‘‘ (فتاوی رضویہ:۲۹؍۴۸۹)
ج. یہ آیت ِکریمہ اُمت ِمحمدیہ کے مسلمانوں کے بارے میں ہے، کیونکہ مشرکین عرب تو یوم آخرت اور حشرونشر پر ایمان رکھتے ہی نہیں تھے۔
 
Top