اُمت ِمسلمہ میں بھی شرک پایا جاتا ہے!
سوال یہ ہے کہ کیا کوئی مسلمان
’’اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود یا اس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مان سکتا ہے یا اس کو عبادت کا مستحق قرار دے سکتا ہے یا نہیں؟‘‘
اگر کوئی مسلمان ایسا کرسکتا ہے تو اس اُمت میں شرک بھی پایا جاسکتا ہے اور یہ مزعومہ دعویٰ کہ ’’اس امت میں سے شرک ہمیشہ کے لیے نابود ہوچکا ہے اور اب کوئی مسلمان شرک کا مرتکب نہیں ہوسکتا‘‘ سراسر باطل قرار پاتا ہے۔ یا پھر ان جدید مفکرین کی طرف سے اپنے اس بیان کردہ اُصول کو بھی ریا کاری یعنی شرکِ اصغر پر محمول کرلیا جائے گا؟ اس صورت میں تو ’’اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود یا اس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات ماننا اس کو مستحق عبادت قرار دینا‘‘ بھی ان اصحابِ جبہ و دستار کے نزدیک شرکِ اکبر نہیں ہوگا۔ یا پھر اپنے اس اُصول کوبھی قربِ قیامت کے لوگوں کے ساتھ خاص قرار دے لیں گے؟
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے!
اور اگر کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو ایسا نہیں مان سکتا تو پھر یہ مزعومہ اصول کہ
’’شرک تو صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود یا اس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مانا جائے یا اس کو عبادت کا مستحق قرار دیا جائے اس کے سوا کوئی قول اور فعل شرک نہیں ہے۔‘‘ (نعمۃ الباري:۲؍۱۸۵)
قرآنِ پاک کے مخالف ہونے کے سبب بذاتِ خود باطل قرار پاتا ہے کیونکہ قرآنِ پاک سے یہ ثابت ہے کہ مسلمان اپنے ایمان کے ساتھ شرک کی آمیزش کرسکتا ہے۔
1۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’ فَأيُّ الْفَرِیْقَیْنِ أحَقُّ بِالأمْنِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا إیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُوْلٰئِکَ لَھُمُ الأَمْنُ وَھُمْ مُھْتَدُوْنَ ‘‘ (الانعام:۸۱،۸۲)
’’تو دونوں گروہوں میں امان کا زیادہ سزاوار کون ہے اگر تم جانتے ہو، وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ناحق کی آمیزش نہ کی، اُنہیں کے لیے امان ہے اور وہی راہ پر ہیں۔‘‘ (ترجمہ از مولانا احمدرضا خان بریلوی ، کنزالایمان)
اس آیت ِمبارکہ میں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ حدیث ِمبارکہ میں آپﷺنے وضاحت فرما دی ہے:
عن عبد اﷲ قال لمّا نزلت ’’ اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا إیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ ‘‘ شق ذلک علی أصحاب رسول اﷲ ! وقالوا أینا لایظلم نفسہ؟ فقال رسول اﷲ!: " لیس ھو کما تظنون إنّما ھو کما قال لقمان لابنہ " یٰبَنِيَّ لَا تُشْرِکْ بِاﷲِ إنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ" (صحیح بخاری:۳۴۲۹، صحیح مسلم:۱۲۴ واللفظ لہ)
’’عبداللہ بن مسعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی [ترجمہ: جن مؤمنین نے اپنے ایمان کے ساتھ بالکل ظلم نہیں کیا (انہی کو نجات ہوگی)]تو صحابہ کرام اس آیت سے بہت پریشان ہوئے اور رسولﷺسے عرض کیا ہم میں سے کون شخص (معصیت کرکے) ظلم نہیں کرتا! رسولﷺنے فرمایا: اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ اس آیت میں ظلم یعنی شرک ہے جس طرح لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اے بیٹے! اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرنا یقینا شرک کرنا ظلم عظیم ہے۔‘‘ (ترجمہ از غلام رسول سعیدی ،شرح صحیح مسلم:۱؍۵۸۶)
ا. اس آیت ِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان: ’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور اُنہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم (شرک) کی آمیزش نہیں کی۔‘‘ اس بارے میں نص صریح ہے کہ اہل ایمان،ایمان لانے کے بعد بھی شرک میں مبتلا ہوسکتے ہیں اور یہاں اس سے شرکِ اکبر مراد ہے جیسا کہ تفصیل آرہی ہے۔
ب. یہ آیت ِکریمہ اہل ایمان، مسلمانوں یعنی کلمہ پڑھنے والے اُمتیوں کے بارے میں ہے کہ شرک نہ کرنے کی صورت میں ان کے لیے امن کی گارنٹی اور ہدایت یافتہ ہونے کی سعادت ہے۔
ج. کلمہ نہ پڑھ کر اُمتی نہ بننے والوں کے بارے میں نہیں ہے، کیونکہ وہ تو اگر بالفرض شرک نہ بھی کریں تو پھر بھی ان کے لیے نہ امن ہے اور نہ ہی وہ ہدایت یافتہ ہیں بلکہ کلمہ نہ پڑھنے اور انکارِ نبوت کی وجہ سے ہی وہ کافر اور ابدی جہنمی ہیں۔
د. صحابہ کرامؓ نے اس آیت ِکریمہ کو، ہمارے اس دور کے اصحابِ جبہ ودستار کی طرح یہ کہہ کر ردّ نہیں کردیا کہ یہ تو کفار، یہود و نصاریٰ یا بتوں، سورج، چاند اور ستاروں کے متعلق ہے اور پھر نبی پاکﷺنے بھی ایسا نہیں کیا۔
ھ. صحابہ کرام ؓ نے اس آیت ِکریمہ کواپنے بارے میں سمجھا، اس سے استدلال کیا اور اپنے بارے میں پریشانی کا اظہار بھی کیا تو نبی کریمﷺ نے بھی اس کو ردّ نہیں کیابلکہ باقی رکھا لہٰذا یہاں یہ بہانہ بھی کارگر نہیں ہوسکتا کہ یہ آیت تو صرف قربِ قیامت کے لوگوں کے متعلق ہے۔
و. البتہ لفظ ’ظلم‘ کوسمجھنے میں جو دشواری ہوئی تھی، آپﷺ نے اس کی اصلاح فرما دی کہ یہاں ظلم سے مراد ایک خاص ظلم یعنی شرک ہے، عام معصیت وغیرہ نہیں ہے۔
ح. صحابہ کرامؓ نے زمانۂ جاہلیت کو قریب سے دیکھا تھا، اور پھر نبی پاکﷺ کی صحبت اور تعلیم و تربیت کا بھی اثر تھا کہ ان سے شرک کا وقوع نہیں ہوا۔ البتہ جہاں اُنہیں دوسرے لوگوں کے پھسل جانے کا خطرہ محسوس ہواتو اُنہوں نے اس کا سدباب بھی کیا۔
ط. اس آیت ِکریمہ میں ظلم سے مراد شرک اکبر ہے، کیونکہ یہاںشرک ِاکبر کے مرتکب کافر اور مؤمن کے درمیان موازنہ کیا گیا ہے کہ ان ’’دونوں گروہوں میں سے امن کا سزاوار کون ہے؟‘‘ توفرمایاکہ ’’جو لوگ ایمان لائے اور اُنہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم (شرک) کی آمیزش نہ کی اُن کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘
ی. سوال یہ ہے کہ کیا ان جدید مفکرین کے نزدیک کافر شرکِ اکبر کا مرتکب ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اگر ہوسکتا ہے تو پھر اس آیت ِکریمہ کی شرکِ اصغر کے ساتھ تخصیص کابہانہ نہیں چل سکتا اور حق بھی یہی ہے کہ یہاں شرکِ اکبر مراد ہے۔
اور اگر نہیں تو پھر ان اصحاب کو اب یہ دعویٰ بھی کردینا چاہئے کہ’’ ان کفار میں بھی شرکِ اکبر نابود تھا اور کوئی کافر بھی شرکِ اکبر میں مبتلا نہیں تھا‘‘ تاکہ مزعومہ خیالات کے دفاع کا صحیح حق ادا ہوسکے۔
ک. اگر اس آیت ِکریمہ کے سیاق و سباق کی طرف جائیں تو اس میں بھی شرکِ اکبر کا ہی تذکرہ ہے۔
معلوم ہوا کہ اس اُمت میں بھی شرک پایا جاسکتا ہے اور مسلمان بھی شرکِ اکبر میں مبتلا ہوسکتے ہیں، الامن رحم ربی اور یہ مذکورہ آیت ِکریمہ اس بارے میں نص صریح ہے اور اُمت ِ مسلمہ میں شرک نہ پائے جانے کادعویٰ سراسر باطل ہے اور قرآن کے خلاف ہے۔