• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اِختلاف قراء ات قرآنیہ اور مستشرقین

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِختلاف قراء ات قرآنیہ اور مستشرقین

(آرتھر جیفری کا خصوصی مطالعہ)​
ڈاکٹر محمد اکرم چودھری
مترجم: علی اصغر سلیمی​
آرتھر جیفری ایک آسٹریلوی نژاد امریکی مستشرق ہے۔ اس نے قرآن حکیم کے دیگر مختلف پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس کی مختلف قراء توں پربھی قابل ذکر کام کیا ہے۔ قرآن حکیم کی مختلف قراء توں کے اسی موضوع پر مضمون ہذا میں بحث کی جائے گی آرتھر جیفری کے علمی کاموں میں نمایاں ترین کامMaterials for the History of the Text of the Quran ہے جو۔ ای۔ جے برل (E.J.Brill) نے لیڈن سے ۱۹۳۷ء میں جاری کیا۔ یہ ابوبکر عبداللہ بن ابی داؤد سلیمان السجستانی رحمہ اللہ (متوفی ۳۱۶ھ) کی کتاب ’المصاحف‘کے ساتھ پیش کیاگیا۔ جس کو آرتھر جیفری نے مدون کیا۔ اس نے قرآن حکیم کی تدوین اور اس کی مختلف قراء توں کے مضامین پر مشتمل دو مزید مسودات بعنوان ’مقدمتان فی علوم القرآن‘ بھی مدون کئے۔ ان میں سے ایک کتاب المبانی کا مقدمہ ہے جس کے مصنف کا علم نہیں ہے، کیونکہ مقدمہ کا پہلا صفحہ غائب ہے۔ البتہ مسودہ کے دوسرے صفحہ پر مصنف کا یہ نوٹ موجود ہے کہ اس نے اس کتاب کو ۴۲۵ھ میں لکھنا شروع کیا اور اس کا نام کتاب المبانی فی نظم المعانی رکھا۔
دوسرا مسودہ ابن عطیہ( متوفی ۵۴۳ھ؍۱۱۴۷ء) کا ہے۔ یہ مقدمہ دراصل ابن عطیہ نے اپنی تفسیر الجامع المجرد کے مقدمہ کے طور پر تحریر کیاتھا۔نولڈیکے(Noeldeke) اور اس کے شاگرد شوالی (Schwally)دونوں نے بھی انہی دو مقدموں کو علوم قرآن سے متعلق اپنی تحقیقی نگارشات کی بنیاد بنایا ہے۔ان دو مقدموں کی زبان، اسلوب بیان اور اسناد سے ظاہرہوتا ہے کہ ان کے مصنفین کاتعلق مسلم سپین سے تھا۔ جیفری نے علوم قرآن کے بارے میں دیگر متعدد مضامین بھی تحریرکئے جو’دی مسلم ورلڈ‘(The Muslim World)سمیت دیگر رسائل میں شائع ہوتے رہے۔ قاہرہ میں امریکن ریسرچ سنٹر کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے کولمبیا یونیورسٹی میں سامی زبانوں کے پروفیسر کے طور پر(Union Theolagical Semenery) میں بطور جزوقتی استاد آرتھرجیفری نے بائبل کی تعلیمات پر گراں قدر کام کے ساتھ ساتھ قرآن حکیم کے بارے میں بھی تحقیقی کام جاری رکھی۔ چنانچہ اختلاف قراء ات قرآنیہ کے موضوع کے ساتھ ساتھ اس نے قرآن حکیم کے دیگر پہلوؤں، مثلاً قرآن میں استعمال ہونے والے غیر عربی الفاظ (Foreign Vocabulary of the Quran) تدوین قرآن اور قرآن کے یہودی و عیسائی مآخذ جیسے موضوعات پر بھی خامہ فرسائی کی۔ اس نے چند منتخب قرآنی سورتوں کے تراجم بھی کئے جس میں اس نے ان سورتوں کی ترتیب ِنو کو متعارف کرایا تاکہ وہ ’بزعم خود‘ حضرت محمدﷺ کی فکر میں ارتقاء کو ثابت کرسکے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دراصل آرتھر جیفری مستشرقین کے اس طبقہ ثانی سے تعلق رکھتا ہے جنہوں نے نوآبادیاتی دور کے بعد زبان و بیان کے اسرار و رموز اور لسانیاتی مباحث کو اپنا موضوع تحقیق بنایا اور انہیں اپنے پیشرو مستشرقین کی طرح افریقہ اور ایشیاء کے مسلم علاقوں میں نو آبادیاتی آقاؤں کے مشیر بننے کا موقع نہ مل سکا۔ اب ایک جست اور آگے لگاتے ہوئے دورِ جدید کے مستشرقین مثلاً برنارڈ لومیس(Bernard Lemis) اور جان ۔او۔ وال(John. O.Voll) علاقائی اور اسلامی ثقافت کے مطالعہ کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں۔ قرآن حکیم کومطالعہ کا میدان بناتے ہوئے جیفری کو اچھی طرح معلوم تھاکہ مسلمانوں کے نزدیک قرآن حکیم کاحقیقی مقام و مرتبہ کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے۔
’’عیسائیت بائبل کے بغیر زندہ رہ سکتی ہے۔مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام قرآن کے بغیرقطعی طور پر زندہ نہیں رہ سکتا۔ غالباً اسلامی نظام حیات کے لیے قرآن حکیم کی اسی اہمیت نے جیفری کو اپنی زندگی اس کے مطالعہ و تحقیق میں کھپانے پر آمادہ کیا۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ’’قرآن نبیﷺ کی تصنیف ہے اور اس کے حرف آغاز سے حرف آخر تک قرآن پر محمدﷺ کی مہرصاف طور پر جھلکتی ہے۔‘‘ جیفری نے منتخب قرآنی سورتوں کا خود ساختہ نئی ترتیب نزولی کے مطابق ترجمہ کیا اور اس نے تقریباً چھ ہزار ایسے مقامات کی نشاندہی کی جو کہ مصحف عثمانی سے مختلف تھے۔ اس نے قراء ات کے یہ سارے اختلاف تفسیر، لغت، ادب اور قراء ت کی کتابوں میں سے جمع کئے۔ اس کام کے لیے ابن ابوداؤد کی کتاب’کتاب المصاحف‘ اس کا بنیادی ماخذ رہی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جیفری ایڈن برگ کے بل (Bell)اور ییل(Yale) کے ٹوری (Torry) کے آزادانہ مطالعہ و تحقیق کا بڑا مداح اور مؤید ہے اور وہ ان دونوں کے انتقاد اعلیٰ(Higher Criticism) کے اُصولوں کا قرآن پر اطلاق اور ان کے اس نتیجے پر پہنچنے پر بھی رطب اللسان ہے کہ
’’محمدﷺ تحریری مواد جمع کرتے رہے۔ اس کی چھان پھٹک کرتے رہے اور اسے ایک مرتبہ کتاب کی شکل دینے کے لیے اس پرنظرثانی کرتے رہے تاکہ وہ اسے اپنی کتاب کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کرسکیں(مگر) پیغمبرﷺ اس کتاب کو مرتب اور مکمل شکل میں پیش کرنے سے قبل ہی وفات پاگئے ۔
بل اور ٹوری کی پیروی میں جیفری بزعم خود ان کے انتقاد اعلیٰ کے اُصولوں کا نصوص قرآن پر اطلاق کادعویٰ کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کی نامزد کمیٹی نے سرکاری نسخہ میں قرآن کے نام سے جومواد جمع کیا وہ یقیناً محمدﷺ سے درست طور پر منسوب ہے ماسوائے چند آیات کے جن کی اسناد مشکوک ہیں۔ تاہم کمیٹی نے ایک بہت بڑا مواد جو اس وقت کے اہم علمی مراکز میں پائے جانے والے قرآنی نسخہ جات میں موجود تھا، کو نظر انداز کردیا اور ایسا بہت سارا مواد قرآن میں شامل کردیا اگر محمدﷺکو کتاب کے حتمی شکل دینے کا موقع ملتا تو وہ اس مواد کوشامل نہ کرتے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ امر دلچسپی سے سے خالی نہیں کہ جیفری مصحف عثمانی میں جس مواد کے شامل کئے یا نہ کئے جانے کا خیال بڑی معصومیت کے ساتھ پیش کرتا ہے اس کی کوئی ایک مثال بھی صحیح اسناد کے ساتھ پیش نہیں کرسکا۔ اختلاف قراء ات پرمبنی روایات کاجو ذخیرہ اس نے (Materials) میں پیش کیا ہے ان روایات کی اسناد خود جیفری کے اعتراف کے مطابق مکمل ہیں اور نہ مستندi جیفری قرآن حکیم کو نبی اکرمﷺ کا کلام ثابت کرتے ہوئے قرآن کے پیرایہ اظہار کو غیر واضح اور غیر معیاری کہتا ہے مگر اس بارے میں وہ اپنے دعویٰ کی صداقت کے لیے کوئی ثبوت پیش نہیں کرتا۔
جیفری نے کئی سالوں تک قرآن حکیم کی متعدد قراء توں کے بارے میں مواد اکٹھا کیا۔ پھر قرآن حکیم کا تنقیدی نسخہ تیارکرنے کے لیے ۱۹۲۶ء میں پروفیسر برجسٹراسر (Bergstrasser) جس نے میونخ میں قرآن محل(Quranic Archive) بنایاہوا تھا، کے ساتھ اشتراک کیا۔ برجسٹراسر ۱۹۳۳ء میں راہی ملک عدم ہوا تو جیفری نے قرآن محل کے نئے ڈائریکٹر اور پروفیسر برجسٹراسر کے جانشین ڈاکٹر اوٹو پریکشل(Oto Pretzl) کے ساتھ اشتراک عمل جاری رکھا ’بدقسمتی‘ سے پریکشل دوسری جنگ عظیم کے دوران سباسٹوپل(Sebastopal) کے باہر ہلاک ہوگیا۔ اور اتحادی فوجوں کی بمباری سے سارا قرآن محل جل کر خاکستر ہوگیااور عمارت بھی تباہ و برباد ہوگئی۔ اسی طرح قرآن حکیم کے تنقیدی ایڈیشن کو روبہ عمل لانے کا عظیم منصوبہ شرمندہ تکمیل نہ ہوسکا۔ اس ناکامی پر جیفری اپنی تکلیف اور ذہنی اذیت ان الفاظ میں بیان کرتاہے۔
’’اب یہ امر تقریباً ناممکن ہے کہ ہماری نسل قرآنی متن کاحقیقی تنقیدی نسخہ دیکھ سکے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دراصل جیفری قرآن کے تنقیدی نسخے کو اس طرح مرتب کرنا چاہتا تھا کہ ایک صفحے پرکوفی خط میں متن قرآن ہو اس کے سامنے دوسرے صفحے پر تصحیح و تنقیح شدہ حفص روایت ہو اور حواشی (Footnotes)میں قرآن حکیم کی تمام معلوم مختلف قراء توں کو بیان کردیا جائے۔ جیفری اپنی اس خواہش کے مطابق مکمل قرآنی نسخہ لانے میں تو کامیاب نہ ہوسکا مگر مصحف عثمانی کے مقابلm (Rival) دیگر نسخہ جات کو ڈھونڈ نکالنے میں اس نے بڑی عرق ریزی سے کام لیا۔ اور اسلامی علوم کے ورثہ میں سے مختلف قراء توں کی بنا پر ۱۵’بنیادی‘ اور ۱۳ ’ثانوی نسخہ جات‘ کو پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس نے ۱۵ ’بنیادی نسخہ جات‘ کو حضرات عبداللہ بن مسعود، ابی بن کعب، علی بن ابی طالب، عبداللہ بن عباس، ابوموسیٰ اشعری، انس بن مالک ، حفصہ، عمر بن خطاب، زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، ابن عمر، عائشہ، سالم، اُم سلمہ، عبید بن عمیررضی اللہ عنہم کی جانب منسوب کیا ۔
اور بعض ثانوی نسخہ جات کو بھی چند تابعین کی جانب منسوب کیا۔ جن میں سے کچھ کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں: ابوالاسود، علقمہ، سعید بن جبیر، طلحہ،عکرمہ، مجہد، عطا بن ابی رباح، الاعمش، جعفر صادق، صالح بن کیسان اور الحارث بن صویب رحمہم اللہ ان کے ساتھ ساتھ جیفری نے مختلف قراء توں پر مشتمل دیگر نسخہ جات کا ذکر بھی کیا ہے۔ مگر ان کے حاملین کے نام کا ذکر نہیں کیا، یہاں یہ حقیقت یاد رکھنے کے لائق ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین میں سے جس کے نام سے بھی جیفری نے کوئی نسخہ منسوب کیا ہے ان میں سے کسی کے پاس بھی دو نسخہ تحریری شکل میں موجود نہ تھا اور نہ ہی ان میں سے کوئی اس نسخے کو قرآن حکیم کے مقابلے میں اپنے پاس رکھنے کا دعویدار تھا۔ مگر جیفری نے مصحف عثمانی میں موجود قراء ت سے کسی ایک مقام پر یا چند مقامات پر اختلاف کی بنا پر مندرجہ بالا اصحاب کو مقابل قرآن کا حامل بنا دیا۔ قطع نظر اس کے کہ اختلاف کرنے والے کو مصحف عثمانی کے نافذ و رائج ہوجانے کے بعد اپنی قراء ت پر اصرار رہا یا اس نے اپنی رائے سے رجوع کرلیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہاں اس امر کا تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ متذکرہ بالاطبقہ اولیٰ میں سے بعض اصحاب رسول ﷺ کے پاس بنیادی مصاحف کا موجود ہونا کتاب المصاحف اور دیگر ماخذوں میں نقل کیا گیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے پاس قرآن حکیم کا اپنا نسخہ تھا حتیٰ کہ مصحف عثمانی کے نافذ و رائج ہونے تک یہ صورت حال برقرار رہی، لیکن ان نسخہ جات میں سے کوئی نسخہ اب صفحۂ ہستی پر موجود نہیں ہے۔ اس امر کا اعتراف کرتے ہوئے جیفری لکھتا ہے ’’ان نسخہ جات میں سے کوئی مناسب مواد باقی نہیں بچا جس کو پاکر ہم ان میں سے کسی نسخے کے متن کی صحیح شکل دیکھنے کے قابل بن سکتے۔‘‘
اس حقیقت کوتسلیم کرنے کے باوجود جیفری نے بعض نسخہ جات کو بنیادی قرار دے کر ان سے بعض کو ثانوی نسخہ جات کے ماخوذ ہونے پر بڑی محنت کی اور ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کن ثانوی نسخہ جات کے ڈانڈے کس بنیادی نسخہ سے ملتے ہیں اور کون سا نسخہ کس سے ماخوذ ہے۔
جیفری اپنی مصحف عثمانی سے قبل کی قراء توں کی جستجو کے سفر میں ابن شنبوذ (متوفی۳۲۸ھ) اور ابن مقسم (متوفی ۳۶۲ھ) کا بڑا مداح نظر آتا ہے جنہیں مصحف عثمانی کے نفاذ سے قبل کی غیر قانونی قرار دی جانے والی قراء توں کو اختیار کرنے سے منع کردیا گیا تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جیفری ابن مجاہد متوفی ۳۲۴ھ کا بڑا ناقد ہے، کیونکہ اس نے قرآن حکیم کی سات قراء تیں ترتیب دیں اورجو اس رائے کا حامل تھا کہ جائز اور صحیح صرف یہی قراء تیں ہیں اور یہ کہ مصحف عثمانی کی تلاوت کے جائز اور صحیح طرق یہی ہیں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بعد کے ماہرین قراء ت میں سے بعض نے تلاوت قرآن حکیم کے تین مزید اور بعض نے سات مزید طریقے متعارف کرائے جو کہ ابن مجاہد کی سات قراء توں پر اضافہ تھے۔ قراء ات قرآنیہ کے یہ تمام طرق مصحف عثمانی کی املاء کی بنیاد پراستوار کئے گئے اور اس ضمن میں قراء کی دلچسپی کا مرکز و محور صرف یہ تھا کہ تلاوت قرآن کے وقت رسم الخط اور وقف کے سوالات کو کس طرح حل کیا جاسکتا ہے اور اس ضمن کی الجھنوں کوکس طرح محدود کیا جاسکتاہے۔
جیفری مصحف عثمانی کی شاذ کتابت کی منفرد خصوصیات پر بحث کرتے ہوئے انہیں ایسی غلطیاں قرار دیتاہے جو کہ مصحف عثمانی میں اب تک موجود ہیں۔ وہ الدانی (متوفی ۴۴۴ھ) کو ہدف تنقید بناتا ہے، کیونکہ اس نے اپنی کتاب المقنع جو کہ کاتبین قرآن کے لیے کتابت کے بارے میں ہدایت پر مبنی ہے، میں الفاظ قرآن کو اسی طرح لکھنے پر زور دیا ہے جس طرح کہ وہ مصحف عثمانی میں پہلے سے لکھتے چلے آرہے تھے۔ مثلاً الدانی کااصرار ہے کہ ۱:۱۹ میں رحمت کو پوری ’ت‘ کے ساتھ لکھا جائے۔ ۳۶:۱۸ میں ’لکنا‘ کو ’لکن‘ کی بجائے پورے ’الف‘ کے ساتھ لکھا جائے، ۹۵:۲۰ میں’یبنؤم‘ نہ کہ ’یا ابن ام‘، ۴۷:۱۸ میں’مال ھذا‘ لکھا جائے کہ ’مالھذا‘ اور ۱۳۰:۳۷ میں ’ال یاسین‘ لکھا جائے نہ کہ ’الیاسین‘ اس سوال کی تفصیل میں جائے بغیر کہ مصحف عثمانی کی ترتیب توفیقی (اللہ کی طرف سے ہے یا نہیں اس امر کا تذکرہ نہایت ضروری ہے کہ مصحف عثمانی کے رسم الخط کی صحت پر صحابہ اور تابعین کااجماع ہے۔اس امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ مصحف عثمانی کی شاذ کتابت اکثر جگہوں پر غیر قریشی لہجوں پر مبنی ہے مثلاً بنوطے چھوٹی’ۃ‘ کی بجائے پوری ’ت‘ لکھتے ہیں۔
کتابت میں اختلاف کی بحث کو ہم یہ کہہ کرختم کرسکتے ہیں کہ مصحف میں صلوٰۃ اور زکوٰۃ میں ’و‘ کااضافہ یا اس جیسے دیگر معمولی ردّوبدل پراس قدر زور نہیں دینا چاہئے اور نہ ہی اس بارے میں غیر معمولی مبالغے سے کام لیناچاہئے۔ مصحف عثمانی کے رسم الخط کے بارے میں جملہ اعتراضات جو انگلیوں پرگنے جاسکتے ہیں، کا اسی قدر جواب کافی ہے کہ مصحف عثمانی کے امتیازات جنہیں جیفری اور دیگر مستشرقین املاء کی غلطیاں گردانتے ہیں۔ مسلمانوں نے گذشتہ صدیوں کے سفر میں محض اس لیے بحال رکھے کہ املاء کی درستگی کے نام پر کہیں تحریف کا دروازہ نہ کھل جائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جیفری کے اختلاف قراء ات قرآنیہ کے نظریے کاتنقیدی تجزیہ کرنے کے لیے مناسب ہے کہ کسی ایک سورۃ کو مطالعے کے لیے منتخب کرلیاجائے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے ہم قرآن حکیم کی سب سے پہلی سورۃ کاانتخاب کرتے ہیں جیفری کے مطابق حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، سورۃ الفاتحہ میں درج ذیل الفاظ کی بجائے ان کے سامنے دیئے گئے الفاظ تلاوت فرمایاکرتے تھے۔ مالک کی بجائے ملک، إھدنا کی بجائے أرشدنا، إیاک کی بجائے ایاک، الذین کی بجائے من اور غیر کی بجائے غیر۔
٭ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا اس طرح پڑھنا روایت کیاگیا ہے:
مالک کی بجائے ملک یا ملیک، ایاک کی بجائے ایاک، اھدنا کی بجائے ثبتا اور دلنا
صراط المستقیم کی بجائے صراط مستقیم، الذین کی بجائے الذین اور لا کی بجائے غیر
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ حضرت علی ابن طالب رضی اللہ عنہ سے اس طرح تلاوت کرنا منقول ہے:
مالک کی بجائے ملک یوم یا ملک، اھدنا کی بجائے ثبتا اور لا کی بجائے غیر۔
٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس طرح تلاوت کرنا منقول ہے:
صراط کی بجائے سراط م ان کا صراط کو ’س‘ سے پڑھنا پورے قرآن کو محیط تھا۔
٭ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس طرح تلاوت کرنا منقول ہے:
مالک کی بجائے ملک اور الذین کی بجائے من اور ولا الضالین کی بجائے وغیرالضالین
٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس طرح تلاوت کرنا منقول ہے:
مالک کی بجائے ملک
سورۃ الفاتحہ کی قراء ت کااختلاف جس طرح ابتدائی نسخوں میں مذکور ہے اس طرح ان کی پیروی میں ثانوی نسخہ جات جن کا ذکر اسی مضمون میں قبل ازیں کیا جاچکا ہے، میں بھی موجود ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابی ربیع بن خیثم جو عام طور پر اختلاف قراء ات میں حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی پیروی کرتے ہیں،سے سورۃ الفاتحہ اور باقی پورے قرآن مجید میں بھی الصراط کو الزراط پڑھنا روایت کیا گیاہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ ہی کے ایک اور پیروکار الاعمش سے بھی پورے قرآن حکیم میں الصراط کی بجائے الزراط پڑھنا مذکور ہے۔سورۃ الفاتحہ کی جن مختلف قراء توں کاذکر جیفری نے اپنی کتاب (Materials) میں کیاہے کتب قراء ت میں ان کے علاوہ بھی متعدد قراء ات کاذکر موجود ہے۔مثلاً ابومحمدمکی بن ابو طالب القیسی (م ۴۳۷ھ) سورۃ الفاتحہ کی مذکورہ متعدد قراء توں کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام سے کچھ اور قراء تیں بھی منسوب کرتا ہے ، وہ لکھتا ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مالک کی بجائے ملیک تلاوت فرمایاکرتے تھے اور حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ کی طرح صراط الذین أنعمت کی بجائے صراط من أنعمت …تلاوت فرمایاکرتے تھے۔ ابومحمد مکی مزید لکھتا ہے کہ یحییٰ بن وثاب جو کہ ایک تابعی ہیں نستعین کی بجائے نستعین (ت پر زبر کی بجائے زیر) پڑھتے تھے اور ابوسوار الغنوی جوکہ عرب کے فصیح اللسان اور جادو بیان خطیبوں میں سے ایک ہے۔إیاک نعبد وإیاک کو ھیاک نعبد وھیاک پڑھا کرتے تھے ابن خالویہ (متوفی ۳۷۶ھ) الاصمعی کی سند کے ساتھ نقل کرتا ہے کہ ابوعمرو الصراط کو الزراط پڑھا کرتے تھے۔
 
Top