• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اِختلاف قراء ات قرآنیہ اور مستشرقین

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علاوہ ازیں اس واقعہ کوبھی اس ضمن میں بطور شہادت پیش کیا جاسکتا ہے جسے صحیح بخاری کی سبعہ احرف کے متعلق مشہور روایت میں بڑے واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے حضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سورۃ الفرقان سنی۔ دونوں نے اس سورۃ کو اپنے اپنے طریقے سے پڑھا۔ آپ نے دونوں حضرات کی قراء ت کو درست قرار دیا، کیونکہ دونوں نے دو مختلف طریقوں سے قراء ت خو دنبی اکرمﷺ سے سیکھی تھی۔
نبی ﷺ نے مزید فرمایا کہ قرآن سات مختلف حروف (پڑھنے کے طریقے) پر نازل ہوا ہے آپ ان میں سے اسی طریقے کے مطابق پڑھ سکتے ہیں جس کو آپ اپنے لیے آسان محسوس کریں۔تاہم جے،ڈی،پیرسن ’انسائیکلوپیڈیا آف اسلام‘ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون’القرآن‘ میں لفظ ’احرف‘ کوسمجھنے میں دشواری محسوس کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’حدیث میں اس محاورے کامطلب غیر معین ہے۔ اَحرف کی اِصطلاح حرف کی جمع ہے۔‘حالانکہ اسلامی ورثے کی اکثر کتب کے علاوہ ابن مجاہد نے بھی اس امر کی صراحت کردی ہے کہ اس کامطلب سات قراء تیں ہیں۔ّ خواہ وہ زبان کے مختلف لہجوں سے تعلق رکھتی ہوں یا ایک لہجے کے کسی لفظ کو متعدد طریقوں سے پڑھنے سے متعلق ہوں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس امر کا تذکرہ بھی خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ جیفری نے غیر تصحیح شدہ نسخہ جات سے جن اختلافی قراء توں کو نقل کیا ہے ان سب کی اسناد غیر مصدقہ ہیں۔ وہ ایسی محکم و متواتر اسناد کے ساتھ کوئی ایسی قابل ذکر اختلافی قراء ت بھی نہ لاسکا جس کی سند محکم و متواتر ہو جیسی محکم و متواتر اسناد کے ذریعے ہم تک مصحف عثمانی پہنچا ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ بعض اختلافی قراء تیں جو ہم تک پہنچی ہیں وہ لسانی اعتبار سے بھی ناممکن نظر آتی ہیں اور بعض اختلافی روایات میں ان کی سند ناممکن الوجود اور محال ہے۔جو زمانی اعتبار سے درست تسلیم نہیں کی جاسکتیں یاوہ روایت کے معروف اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔ْ
جیفری مزید اعتراف کرتا ہے کہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے منسوب اختلافی قراء توں کے جانچنے کے بعد پروفیسر برجسٹراسر نے بجا طور پر یہ رائے قائم کی:
’’یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ کوئی شخص ان نسخوں کومصحف عثمانی کے مقابلے میں صحیح تر کہنے کی جراء ت نہیں کرسکتا۔‘‘ ،
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پروفیسر برجسٹراسر کی متذکرہ بالا رائے کے علم الراغم جیفری غیر مستند نسخہ جات میںمندرجہ اختلافی قراء توں کو پیش کرکے صر ف ایک مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ ہے کہ قراء ات قرآنیہ اور ان کی ترویج کے ارتقاء کاعمل ثابت کرسکے تاکہ مصحف عثمانی کوسو فیصد الہامی کی بجائے ایسی ارتقائی عمل کی ایک انتہائی شکل قرار دیا جاسکے جیسا کہ وہ لکھتا ہے ابن مسعودرضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۱۳۷ میں ’بمثل ما‘ کی بجائے ’بما‘ پڑھنا نقل کیا گیا ہے۔ جیفری اپنی بات پر اضافہ کرتے ہوئے خیال ظاہرکرتا ہے کہ نبی اکرم1کے ان صحابہ نے ممکن ہے یہ مختلف قراء تیں نیک مقصد کے تحت تجویز کی ہوں۔یہ بیان کرنا بھی بے جانہ ہوگا کہ جیفری جب بھی اسلام کے کسی پہلو پر بحث کرتا ہے تو وہ عیسائیت کی مثال اور قالب کو ذہن میں رکھتے ہوئے اسلام کے بارے میں بات کرتا ہے مثلاً وہ کبھی بھی اس حقیقت کااظہار نہیں کرتا کہ اسلام ابراہیمی ادیان میں سے ایک ہے۔ تاہم وہ بتاتا ہے کہ اسلام بھی عیسائیت کی طرح کا ایک ایسا مذہب ہے جواپنی مقدس کتاب رکھتا ہے۔ جہاں تک عہد نامہ جدید کی تاریخ کا تعلق ہے اس کے بارے میں امریکہ کے مشہور عیسائی تحقیقاتی ادارے جپس سیمینار کی جانب سے حال ہی میں شائع کردہ اناجیل خمسہ میں عیسائی محققین رقم طراز ہیں:
’’جملہ اناجیل ابتداًء ‘‘ بغیر کسی انتساب کے عیسائی دنیا میں رواج پاگئیں یعنی ان کے لکھنے والوں کے نام معلوم نہ تھے۔ تاہم عیسائی مذہبی قیادت نے عیسائیت کی تاریخ کے ابتدائی ایام ہی میں مختلف نسخہ ہائے اناجیل کو معتبر ناموں کے ساتھ منسوب کردیا اکثر اناجیل کے مصنفین کے نام محض ظن و تخمین سے رکھے گئے اور ممکن ہے کچھ نسخوں کو معتبر ناموں کی جانب حسن نیت کی بنیاد پر منسوب کیاگیا ہو۔ تاکہ ان نسخوں کو عوام الناس میں پذیرائی مل سکے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن حکیم کوبائبل کی طرح کی ایک مقدس کتاب قرار دیتے ہوئے جیفری یہ باور کراتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے بھی اچھے مقاصد اور نیک نیتی کے ساتھ متن قرآن میں کچھ تبدیلیاں اور اس کی بہتری کے اقدامات تجویز کردیئے ہوں گے۔ بدقسمتی سے جیفری اس امر کا اندازہ نہیں کرسکا کہ قرآن حکیم کے متن میں کمی بیشی کرنااسلامی نقطہ نظر سے اتنا بھاری جرم ہے کہ کوئی اس کے ارتکاب کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اگر بفرض محال کوئی ایک اس کاارتکاب کر بھی بیٹھتا تو صحابہ کرام ؓ کی جلیل القدر جماعت اسے قطعاً برداشت نہ کرتی۔
ہم اس بحث کو درج ذیل نقاط کے تحت سمیٹ سکتے ہیں:
(١) جیساکہ قبل ازیں واضح ہوچکا ہے کہ مختلف قراء تیں مثلاً سورۃ الفاتحہ میں الصراط کا لفظ ’س‘اور ’ز‘ سے پڑھنا مختلف قبائل کاتلفظ تھا۔ یا ابن مسعودرضی اللہ عنہ کا سورہ نمبر۱۲ کی آیت نمبر ۳۵ میں ’حتی‘ کی بجائے ’عتی‘پڑھنا ¦یہ بھی عربی زبان کے دوسرے لہجے کو ظاہر کرتا ہے یعنی عربوں کے بعض قبائل میں ’ح‘ کی جگہ ’ع‘ پڑھا جاتا تھا۔ یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ مختلف عربی لہجوں میں’ح‘ اور ’عین‘ کے علاوہ ’الف‘ اور ’ق‘ کے حروف بھی باہمی طور پر قابل مبادلہ ہیں اس طرح سورۃ الفاتحہ میں إیاک ویاک اور ھیاک مختلف لہجے ہیں کیونکہ مختلف عربی لہجات میں’الف‘، ’و‘ اور ’ۃ‘ باہم قابل تبادلہ ہیں ¨ سورۃ الفاتحہ میں نستعین پہلے نون پر زیر کے ساتھ بھی ایک لہجہ ہے جیسا کہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر۶۵ میں یعلمون کی بجائے یعلمون،سورۃ آل عمران کی آیت نمبر۱۰۶ میں تسود کی بجائے تسود بنو اسد کے تلفظ کے مطابق ایک لہجہ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۃ الفاتحہ میں مالک کو ملاک، ملک، ملیک پڑھنا ایک ہی لفظ کے مختلف تلفظ ہیں۔جو ان سات طریقوں میں شامل ہیں جن کو پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے اور یہ سب کے سب نبی اکرمﷺ کی طرف منسوب ہیں کہ آپؐ اس لفظ کودیگر تلفظ اور لہجوں میں بھی ادا کیا کرتے تھے۔ اگر ان اختلافی قراء توں کو اختیار کرنے کی اجازت نہ ہوتی تو صحابہ کرام ؓ اس باربار تلاوت کی جانے والی سورۃ کی قراء ت میں ہرگز کوئی اختلاف نہ کرتے۔ سورۃ الفاتحہ میں’اہدنا‘ اور ’لا‘ کے قریبی متبادل الفاظ ’ارشدنا‘ اور غیر بھی لہجے کے اختلاف پر مبنی ہیں اور ان کاشمار ان الفاظ میں ہوتا ہے جس کی تلاوت کرنے کی اجازت تھی۔ ’متبادل مسودات قرآن‘ متعارف کرانے کی دُھن میں جیفری اس حقیقت کونظر انداز کردیتا ہے کہ سورۃ الفاتحہ دن کی پانچ نمازوں میں سے تین میں بآواز بلند پڑھی جاتی ہے۔ اگر یہ نبی اکرمﷺ کی تلاوت کے خلاف بلکہ ذرہ بھر بھی مختلف ہوتی تو یہ ناممکن تھا کہ اس کی تلاوت جاری رہتی۔ مزید برآں جیفری کسی ایک صحابی رسول ﷺ کا نام بھی پیش نہیں کرسکا جس نے دعویٰ کیا ہو یا یہ رائے ظاہر کی ہو کہ مصحف عثمانی میں درج سورۃ الفاتحہ کسی بھی حیثیت سے نبی اکرمﷺ کی تلاوت کردہ سورۃ الفاتحہ سے ذرہ بھر بھی مختلف ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) مصحف عثمانی کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلانے کی غرض سے اختلاف قراء ت کی روایات کو کمزور تسلیم کرنے کے باوجود، جیفری مصحف پر اجماع کی حقیقت کو تسلیم کرنے میں بھی لیت و لعل سے کام لیتا ہوا نظر آتا ہے۔ اگر ہم یہ فرض بھی کرلیں کہ بعض اختلافی قراء تیں حقیقی ہیں اور مصحف عثمانی کی تنفیذ سے قبل ان کی تلاوت جائز تھی، کیونکہ وہ ان سات قراء ات میں سے تھیں جن کی اجازت دی گئی تب بھی ’متواتر‘ روایات جو کہ ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوئیں ہر ’خبر احاد‘ جو ایک شخص سے دوسرے شخص تک آئیں کو ترجیح نہیں دی جاسکتی۔
(٣) اختلاف قراء ت پر بحث کرتے ہوئے جیفری قرآن حکیم کے بذریعہ حفظ سینہ ، سینہ نسل در نسل منتقل ہوئے جیسے اہم عامل کو بالکل نظر انداز کردیتا ہے۔ مصحف عثمانی ایسا سرکاری نسخہ نہ تھا جس کو کمیٹی نے تشکیل دینے کے بعد چھپا کر رکھ دیا ہو۔بلکہ وہ ہر ایک اہل علم کے سامنے تھا۔ سرکاری نسخہ جس کو تاریخ نے’المصحف الامام‘ کے نام سے یاد رکھا ہے کی ایک نقل مدینہ منورہ میں رکھی گئی تھی جبکہ دیگر متعدد نقول اس دور کی اسلامی ریاست کے دیگر شہروں کو بھیجی گئی تھیں۔ ہزاروں ایسے صحابہ کرام مدینہ منورہ میں موجود تھے جن کو پورا قرآن پاک نہیں تو اس کا بہت بڑاحصہ حفظ تھا۔یہ وہ لوگ تھے جنہیں نبی اکرمﷺ کے قرآن حکیم کی تلاوت کے طریقوں کابراہ راست علم تھا۔ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ کاتبین وحی سمیت ان تمام صحابہ کرام ؓ نے جن کے پاس قرآن حکیم کا کامل یا بعض حصہ تحریری شکل میں موجود تھا، اپنے حفظ قرآن کی بنا پر مصحف عثمانی کی قراء ت کو نبی اکرمﷺ کی قراء ت قرار دیتے ہوئے اس کی تائید و تثویب فرمائی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) ’مقابل مسودات قرآن‘ کے متعارف کرانے کی پرجوش سرگرمی میں جیفری اس حقیقت کو بھی نظر انداز کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، کہ اگرچہ تذبذب کے بعد ہی سہی مگر عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے اپنی قراء ت کو مصحف عثمانی کے حق میں واپس لے لیا۔ اور پھر کبھی بھی اس پر اصرار نہیں کیا۔ یہاں تک کہ جیفری حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے کسی ایسے بیان کو سامنے لانے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکا جس میں انہوں نے مصحف عثمانی کی کسی ایک بھی قراء ت کو نبی اکرمﷺ کی قراء ت کے خلاف قرار دیا ہوحضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے بعد حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ دوسرے صحابی رسول ہیں جن سے اختلافی قراء ت کا ایک ایک بہت بڑا ذخیرہ منسوب کیاگیا ہے، اگرچہ جیفری اعتراف کرتا ہے کہ تمام ثانوی مسودات حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے منسوب نسخے سے اَخذ کئے گئے ہیں اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے مسودہ قرآن سے کوئی بھی نسخہ اَخذ نہیں کیا گیا۔ اس اعتراف کے باوجود وہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے منسوب مختلف قراء توں کو بنیادی اہمیت دیتا ہے اور اس حقیقت کو پس پشت ڈال دیتا ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اس کمیٹی کے ممبر تھے جس نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حکم پر قرآن حکیم کو جمع کرنے کی عظیم الشان خدمت سرانجام دی تھی۔ ایک اور صحابی رسول حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں جن سے مصحف عثمانی کی تنفیذ سے قبل ایک نسخہ منسوب ہے۔ ان سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عثمان کے مصحف کو نافذ کرنے کی جرأت مندانہ فیصلے پراپنے کامل اطمینان و تشکر کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’اگر عثمان کی بجائے بار خلافت میرے کندھوں پر ہوتا تو یقیناً میں بھی قرآن حکیم کی جمع و تدوین میں وہی کام کرتا جوعثمان ؓ نے کیا ہے۔‘‘­
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٥) جیفری اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود کہ قرآن حکیم میں اختلاف قراء ت کی بحث زمانہ مابعد کے الٰہیات، لسانیات اور صرف و نحو کے ماہرین نے ایجاد کی اور اپنے نام اور کام کو اعتماد بخشنے کے لیے اسے دور اولیٰ کی مقتدر علمی شخصیات کی طرف منسوب کردیا پھر بھی آخر دم تک قرآن حکیم کی ’’حقیقی قراء ت‘‘ کی بحالی کی کوششوں میں مگن رہا۔¯دوسری طرف حال ہی میں دو دوسرے مستشرق جان برنن(John Burton) اور جان وان برو (John Wansbroug) کا یہ نتیجہ بھی چشم کشا ہے کہ صحابہ کرامؓ سے منسوب ’مقابل مسودات قرآن‘ ہوں یا بڑے شہروں میں پائے جانے والے دیگر نسخہ جات یا پھر انفرادی طور پر بعض حضرات سے منسوب مختلف قراء تیں سب کی سب بعد کے ماہرین علم الاصول اور ماہرین علم اللسان کی ایجاد ہیں۔ جیفری اس اہم حقیقت کی طرف سے بھی آنکھیں بند کرلیتا ہے کہ اختلاف قراء ت قرآن کے ابتدائی ماخذ ابن ابی داؤد متوفی ۳۱۶ھ ابن الانباری متوفی ۳۲۸ھ اور ابن الاشطہ متوفی ۳۶۰ھ ہیں۔ ان تمام بزرگوں نے اختلافی قراء تیں چوتھی صدی ہجری میں نقل کیں۔ ان روایات کے رواۃ متصل ہیں اور نہ ہی ان کی سند قابل اعتماد ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٦) آرتھر جیفری اپنے پیش رو مستشرق بیل (Bell) کی طرح اسلام اور اس کی مقدس کتاب قرآن حکیم سے اپنی نفرت پر پردہ ڈالنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ وہ قرآن حکیم کی جمع و تدوین پر بحث کرتے ہوئے بیل (Bell) کی پیروی میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی جمع و تدوین کی کاوشوں کو ان کی خالص نجی سعی و کاوش قرار دیتا ہے۔یہ بات نہایت تعجب خیز اور حیرت انگیز ہے کہ وہ مقدمتان اور کتاب المصاحف میں درج اختلاف قراء ت پر مبنی روایات کو من و عن صحیح تسلیم کرلیتا ہے مگر انہی کتب میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی جمع و تدوین قرآن کی خدمت کے بارے میں روایات کو بغیر کوئی معقول وجہ بتائے رد کردیتا ہے۔حالانکہ حدیث اور تاریخ کے ماخذوں میں ان روایات کی سند نہایت قوی اور ان کا پایہ استناد بہت مضبوط ہے۔یہ اسلامی تاریخ کی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا جمع مدون کیا ہوا نسخہ ہی مصحف عثمانی کی اساس و بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔
(٧) مصحف عثمانی کے بارے میں جیفری یہ سمجھنے میں بھی ناکام رہا ہے کہ حضرت عثمانؓ نے کن اہم مقاصد کے پیش نظر اس بھاری کام کابیڑا اٹھایا۔وہ قرآن حکیم میں اختلاف لہجات کی اشاعت کے اثرات کافہم و ادراک بھی نہ کرسکا کہ جن کے بارے میں شکایات کے سبب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس مسئلے کے حل کی طرف متوجہ ہونا پڑا۔ دیگر شارحین کی طرح ابومحمد مکی القیسیؒ نے بھی اس بات کو نہایت شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جب قرآن حکیم کے متعدد طرق سے پڑھنے کے بارے میں شکایات موصول ہوئیں تو انہوں نے جس طریق پرنبی اکرمﷺ تلاوت فرماتے تھے اس کو باقی رکھ کر اس کے علاوہ تمام طرق کے مطابق تلاوت قرآن حکیم پرپابندی عائد کردی۔ باوجود اس کے کہ عہد نبوی میں نبی اکرمﷺ نے ان کی اجازت دی ہوئی تھی۔ ´القیسی کا بیان ہے کہ کم از کم ۱۲ ہزار صحابہ کرام ؓ اور تابعین پر مشتمل ایک جماعت نے اس وقت کی اسلامی سلطنت کے طول و عرض میں پھیل کر مصحف عثمانی کے مطابق تلاوت قرآن حکیم سکھانے اور اس کے علاوہ رائج طریقوں سے منع کرنے کی خدمت انجام دی یہ یقیناً ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی اتنی بھاری تعداد میں صحابہ کرامؓ بھی شامل تھے کسی ایسی قراء ت قرآن کو رائج کرنے کا تصور بھی نہ کرسکتے تھے جس کا انتساب نبی اکرمﷺ کے علاوہ کسی اور کی جانب ہوتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٨) قرآن حکیم اور اس کی مختلف قراء توں کو موضوع سخن بناتے ہوئے جیفری اپنے دعوے کے باوجود انتقاد اعلیٰ (Higher Crigicism) کے اصولوں کی پابندی نہیں کرسکا۔ اس کی کتاب (The Textual History of Quran) ۱۹۴۶ء میں یروشلم میں شائع ہوئی اور دوسری کتاب (The Quran as a Scripture) ۱۹۵۲ء میں شائع ہوئی۔ اس نے پروفیسر سرجسٹراسر جو کہ میونخ میں قرآن محل کابانی تھا اور اس کے جانشین ڈاکٹر اونوپریکثل کے ساتھ اشتراک عمل کے باوجود، قرآن حکیم کی جمع و تدوین اور دنیا کے مختلف حصوں سے جمع کئے گئے قرآن حکیم کے نسخوں کے متون میں اختلاف کے بارے میں قرآن محل (Archive) کے نتائج تحقیق کو بیان نہیں کیا (کیونکہ یہ نتائج قرآن حکیم کے بارے میں اس کے مقاصد سے ہم آہنگ نہ تھے) یہ پہلے بیان ہوچکا کہ یہ قرآن محل اتحادی فوجوں کی بمباری سے تباہ ہوگیا تھا اور پریکثل بھی اسی بمباری سے ہلاک ہوگیا تھا۔ تاہم خوش قسمتی سے اس کی وفات سے قبل ۱۹۳۳ء میں ڈاکٹر حمیداللہ کو پریکثل سے بالمشافہ گفتگو کاایک موقع میسر آگیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب پریکثل فرانس کی مختلف لائبریریوں میں موجود قرآن حکیم کے مختلف نسخہ جات کی فوٹو کاپیاں حاصل کرنے کے لیے فرانس آیا ڈاکٹر حمیداللہ کا بیان ہے کہ پریکثل نے انہیں بتایا:
’’ہمارے ادارے نے دنیا میں مختلف حصوں سے قرآن حکیم کے مختلف ۴۲ ہزار نسخہ جات کی فوٹوکاپیاں جمع کیں اور ان کا باہمی موازنہ کیا، ڈاکٹر حمیداللہ مزید بتاتے ہیں کہ پچھلے چودہ سو سالوں کے دوران مطبوعہ یا غیرمطبوعہ قرآن حکیم کے ۴۲ ہزار نسخوں کو انہوں نے اس لیے جمع کیا تاکہ وہ متن قرآن کے تضادات کو سامنے لاسکیں۔ تمام دستیاب نسخہ جات کو جمع کرکے ان کا آپس میں موازنہ کرنے کے بعد اس ادارے نے جو ابتدائی رپورٹ جاری کی ڈاکٹر حمیداللہ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:
’’اگرچہ ابھی تک قرآن حکیم کے مختلف نسخہ جات کو جمع کرنے کا کام جاری ہے تاہم جتنا کام مکمل ہوچکا ہے اس کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان ۴۲ ہزار نسخہ جات میں کتابت کی غلطیاں تو موجود ہیں مگر متن قرآن میں کسی قسم کے تضاد کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی۔‘‘ ·
 
Top