• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اِختلاف قراء ت پر مبنی مصحف کی اِشاعت کے خلاف منفی پراپیگنڈہ … حقائق کیا ہیں؟

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِختلاف قراء ت پر مبنی مصحف کی اِشاعت کے خلاف منفی

پراپیگنڈہ … حقائق کیا ہیں؟

محمد عطاء اللہ صدیقی​
اِسے فکر وتدبر کی موت کہا جائے، فہم و اِدراک کا قصور یا پھر شیطانی فطرت کے فتور کا نام دیا جائے کہ یکے از سفیہان عروس البلاد (کراچی) کو الہام ہوا ہے (ملہم قادیان کے ہفوات ذہن میں رہیں) کہ خطۂ پنجاب (لاہور) سے ’غالی اہل حدیثوں‘ کا ایک گروہ قاریوں کے اختلاف والے ۱۶ قرآنی مصاحف شائع کرنے کا پورا منصوبہ بنا چکا ہے جس سے مسلمانوں میں ’سخت تشویش‘ کے پیدا ہونے کے ’خطرات‘ پائے جاتے ہیں۔ ماہنامہ ’رُشد‘ کے جون ۲۰۰۹ء کے شمارے میں جب سے اس ذات شریف نے اس ’خبر‘ کا مطالعہ کیا ہے’غیرتِ ایمانی‘ کا ایک جوار بھاٹا ان کے قلب کو گرمائے جارہا ہے۔ موصوف نے پاکستان کے مسلمانوں کو اس فتنۂ ملہمہ کے متعلق ’باخبر‘ کرنے کے لیے ہاہاکار کا ایک بازار گرم کر رکھا ہے۔ اس ضمن میں موصوف نے کراچی کے ایک مفتی حضرت محمد طاہر مکی صاحب کی فتویٰ ساز فیکٹری سے فرمائشی مال کے طور پر ایک طویل فتویٰ بھی حاصل کیا ہے جس پر ان کے علم و فضل کا چوکھا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ قبلہ مفتی صاحب، خدا ان کے ’علم و فضل‘ کا سایہ اس’ جاہل اُمت‘ کے سرپر ہمیشہ قائم رکھے۔ (آمین)نے تمام مالہ وما علیہ کا عرق ریزی سے مطالعہ کرنے کے بعد مسلمانوں کو بروقت ’خبردار‘ کیا ہے کہ مصاحف کی شکل میں اِختلاف قراء ت کو شائع کرنے سے منع کرنا ان پر ’واجب‘ ہے، مفتی صاحب قبلہ نے اپنے فتویٰ میں عوام کو یہ ’خوشخبری‘ بھی سنائی ہے کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے حکومت پنجاب نے اختلاف قراء ت کے حوالے سے قرآن کے اختلافی مصاحف چھاپنے والوں کے خلاف نوٹس لے لیا ہے۔ وہ ذاتِ شریف جن کی ذاتی کاوشوں کے نتیجے میں دانائے روزگار (اس کی وضاحت آگے آرہی ہے) مفتی محمد طاہر مکی صاحب کے اِلہامی قلم سے مذکورۃ الصدر فتوی کا ظہور عمل میں آیا ہے اور جن کی درخواست پر حکومت پنجاب نے اس معاملے کا ’نوٹس‘ لینے کی زحمت گوارا کی ہے، ذاکر حسین کے نام نامی سے متہم ہے۔ انہوں نے ’استفادہ عوام‘ کے لیے (ہمیں حسنِ ظن ہے کہ اپنی جیب سے) ماہنامہ ’رُشد ‘کا متعلقہ صفحہ ۶۷۸، مفتی صاحب کا طویل فتویٰ ،اپنی درخواست (بزبانِ انگریزی) اور حکومت پنجاب کی طرف سے جاری کردہ نوٹس کو شائع کراکے پھیلا دیا ہے۔ ہم اپنے بخت کی سرفرازی پر نازاں ہیں کہ اس عظیم ’تبلیغی لٹریچر‘ کا مطالعہ کرنے والوں میں ہمارا مرتبہ ’سابقون الاوّلون‘ میں شمار کیا جائے گا۔
مذکورہ بالا تمہید کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ذاکر حسین کی ’شکایت‘ کی حقیقت سے قارئین کو آگاہ کیا جائے۔ مذکورۃ الصدر فتویٰ، حکومتی نوٹس اور دیگر متعلقہ دستاویزات کے متعلق ناقدانہ تبصرہ بھی ان سطور کا بنیادی موضوع ہے۔ اگر ہوسکا تو پردہ نشینوں کے سازشی اَذہان اور اس تحریکخبیثہ کے حقیقی محرکات پر اظہارِ خیال کیا جائے گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ذاکر حسین، جن کا ابھی ذکر ہوا ہے اور جو ہماری گذارشات کے ’ممدوح خاص‘ ہیں، کراچی میں ناظم آباد میں کہیں گوشۂ نشین ہیں۔ نہیں معلوم کہ ماہنامہ ’رُشد‘کا جون ۲۰۰۹ء کا شمارہ ان کے ہاتھ کیسے لگا۔ ممکن ہے کسی پردۂ نشین ’شکاری‘ نے انہیں غلیل کے طور پر استعمال کیا ہو اور موصوف ’گولہ باری‘ پر اتر آئے ہوں۔ ان کے تحصیل علم یا علمی مشاغل کا حدود اَربعہ بھی ہمیں معلوم نہیں۔ البتہ مفتی محمدطاہر مکی صاحب کوسائل کے طور پر انہوں نے جو مکتوب تحریر کیا ہے اور پھر زبانِ افرنگ میں انہوں نے جو دو عدد خطوط وفاقی وزیر مذہبی امور اور گورنر پنجاب کو تحریر کئے ہیں، ان سے ان کے مبلغ علم، انگریزی زبان پر قابل رشک ’عبور‘، ابلاغی استعداد اور ذوق نشر واشاعت سے ایک عام قاری ’متاثر‘ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ہمارے ممدوح کی انگریزی دانی نے ہمیں خاص طور پر ’متاثر‘ کیا ہے۔ ہماری مدیر ’رُشد‘ سے گذارش ہے کہ وہ ان کے خطوط کو قارئین کی اطلاع کے لیے شائع کردیں تاکہ انہیں بخوبی اندازہ ہوجائے کہ اختلافاتِ قرآت پر مبنی مصاحف کی مزعومہ اشاعت پر جن صاحب نے گرفت کی ہے ان کا علمی مقام کس قدر ’بلند‘ ہے۔
یہاں ہم ذاکر حسین کا ’سوال‘ لفظ بہ لفظ نقل کرتے ہیں جو انہوں نے مفتی محمد طاہر مکی صاحب کی خدمت میں فتویٰ کے حصول کے لیے اِرسال کیا:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال:
’’جناب حضرت مفتی محمد طاہر مکّی صاحب ،صدر قرآنی مرکز ودارالموطا کراچی و مفتی مدینۃ العلوم اورنگ آباد ۔
السلام علیکم ورحمة اﷲ و برکاته،وبعد:
جناب گرامی!
لاہور سے اہلحدیثوں کے ایک اِنتہا پسند گروپ کا ماہنامہ ’رُشد‘ نکلتا ہے جس نے اپنے جون ۲۰۰۹ء کے شمارے کے صفحہ ۶۷۸ پرلکھا ہے کہ اختلافِ قراء ت پر مبنی تین اختلافی قرآنی مصاحف (ورش ، قالون اور دوری ) پاکستان سے باہر شائع ہوچکے ہیں۔ اب موجودہ قرآن کریم کے علاوہ مزید ۱۶ قاریوں کے اختلافات والے ۱۶ قرآنی مصاحف وہ شائع کردے گا۔ اس طرح کل ۲۰ قرآنی مصاحف ہوجائیں گے (یعنی ان سب میں باہمی اختلافات ہیں۔ کیونکہ اگر ان ۲۰ مصاحف میں آپس میںاختلافات نہ ہوتے تو پھر ان کو علیحدہ علیحدہ مصاحف کی صورت میں چھاپنے کی ضرورت ہی کیوں ہوتی؟)
پوری تاریخ اسلام میں یہ اس زمانہ کی نئی بدعت ہوگی۔ورنہ خلافتِ راشدہ سے اموی خلافت، عباسی خلافت، عثمانی(ترکی) خلافت میں کبھی ایسا نہیں ہوا اور نہ برصغیر میں کبھی ایسا ہوا۔حتیٰ کہ کسی غیر مسلم تک کو اس کی جرأت نہیں ہوئی۔ برصغیر میں اب اس غالی اہلحدیث گروپ کی طرف سے یہ پہلی جرأت کی جارہی ہے۔ کیا اس سے عام مسلمانوں کو تشویش نہیں ہوگی؟ اور کیا قرآن کی عظمت میں کمی نہیں آئے گی؟اور کیا مسیحیوں اور غیرمسلموں کو یہ کہنے کاموقع نہیں ملے گا کہ جس طرح چار انجیلوں میں حضرت مسیح کا پتہ نہیں اسی طرح ان چار یا بیس قرآنوں میں حضرت محمد ﷺکے اصل قرآن کا کیسے پتہ چلے گا؟ کیا اب ایک خدا، ایک رسول1 ، ایک قرآن کا دعویٰ ختم ہوگیا؟
پھر یہ چار یا بیس (۴یا۲۰) قرآنی مصاحف کس لئے؟
سائل (ذاکر حسین، کراچی)​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
معلوم ہوتا ہے کہ ذاکر حسین قبلہ مفتی صاحب کی رگِ نازک اور حساسیت سے بخوبی واقف ہیں۔ اسی لیے انہوں نے سوال کی پہلی سطر میں ہی ان کے غیظ و غضب کو بھڑکانے کے لیے ’اہل حدیثوں کے ایک انتہا پسند گروپ‘ کے الفاظ کا استعمال ضروری خیا ل کیا۔ ایک ’اہل حدیث‘ اور وہ بھی ’انتہا پسند گروپ‘۔ جب ذاکر حسین نے مفتی صاحب کو پہلے ہی ہلے میں یقین دلا دیا کہ سائل اہل حدیثوں کے ایک انتہاپسند گروپ کی تازہ جرأت کے متعلق فتویٰ طلب کرتا ہے تو گویا مفتی صاحب کا کام انہوں نے آسان کردیا۔ ایک ’انتہا پسند گروپ‘ کے متعلق مفتی صاحب اگر فتویٰ صادر نہ فرماتے تو ان کی ’اعتدال پسندی‘ اور ’ ایمانی غیرت‘ معرضِ خطر میں پڑ جاتی۔ مفتی صاحب کے فتویٰ میں ان کا ’جوش ایمانی‘ شاید اسی ’انتہا پسندی‘ کے استیصال کے خلاف ٹھاٹھیں مارتا دکھائی دیتا ہے۔ ذاکر حسین کی مؤثر اشتعال انگیزی کے اثرات ان کے فتویٰ پر واضح دکھائی دیتے ہیں۔ہمیں مفتی صاحب کی ’وسعت علمی‘ پر تر س آتا ہے کہ موصوف کو ’اہل حدیثوں کے ایک انتہا پسند گروپ‘ کے متعلق جاننے کے لیے ذاکر حسین جیسے سائل کی جذباتی اپیل کا زیر بار اِحسان ہونا پڑا۔ ’محدث‘ اور جامعہ لاہو رالاسلامیہ کو ایک دنیا جانتی ہے۔ اسے ایک ’انتہا پسند گروپ‘کا نام دینا ایک انتہائی لغو جسارت، دریدہ د ہنی اور خبثِ باطن کے اظہار کی مذموم کاوش ہے۔
سائل نے اپنے سوال میں علمی اُسلوب اختیار کرنے کی بجائے فرقہ وارانہ اور مسلکی اختلاف کی جذباتی فضا پیدا کرکے اپنا مطلوبہ جواب حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
ذاکر حسین نے اپنے سوال میں حقائق کو مسخ کرکے پیش کیا ہے۔ ماہنامہ ’رشد‘ کے جون کے شمارے میں صفحہ نمبر ۶۷۸ پر کہیں بھی مذکور نہیں ہے کہ یہ ادارہ ’’اب موجودہ قرآن کریم کے علاوہ مزید ۱۶ قاریوں کے اختلافات والے ۱۶ قرآنی مصاحف شائع کرے گا۔‘‘ ذاکر حسین کا یہ جملہ تلبیس کوشی، ژاژخائی اور دروغ بافی کی قابل نفرت مثال پیش کرتا ہے،یہ بات صریحاً جھوٹ پر مبنی اور بے بنیاد ہے۔ ’رُشد‘ کے صفحہ ۶۷۸ پر جو کچھ شائع ہوا ہے اور اس کو جس انداز میں ان صاحب نے پیش کیا ہے، ان دونوں میں بُعد المشرقین ہے۔ یہ فرض نہیں کیا جاسکتا کہ ذاکر حسین شائع شدہ مواد کو سمجھنے سے قاصر رہا ہے، کیونکہ اس میں کسی طرح کا بھی ابہام، اغلاق یا پیچیدگی نہیں ہے۔ جو کچھ لکھا گیا ہے اس کا مفہوم روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔ ایک اوسط فہم کا مالک انسان بھی اسے بہت آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ اگر ذاکر حسین اس کو بالفرض نہ سمجھ سکا تو ایسے گیدی خر کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی مفتی صاحب کے درِ علمی پر دستک دیتا اور فتویٰ کی خیرات طلب کرتا پھرے۔ ایسے مجہول کا اصل مقام تو کسی آہن گر کی خراد ہوسکتی ہے، کسی دارالافتاء کا طواف اس سے بعید ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ذاکر حسین نے اپنے سوال میں وضاحتاً بتایا ہے ’’اگر ان ۲۰ مصاحف میں آپس میں اختلافات نہ ہوتے تو پھر ان کو علیحدہ علیحدہ مصاحف کی صورت میں چھاپنے کی ضرورت ہی کیوں آتی؟‘‘ نجانے موصوف نے یہ سوال داغنے کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ آخر کس کافر نے انکا رکیا ہے کہ یہ ’اختلافات‘ نہیں ہیں؟ جو اصل بات مفتی صاحب سے پوچھنے کی تھی وہ یہ تھی کہ یہ ’اختلافات‘ کس نوعیت کے ہیں اور ان ’اختلافات‘ کے قرآن مجید کے متن اور معانی پر کیونکر اثرات مرتب ہوئے ہیں؟
ان سوالات کے سیر حاصل جوابات ’رشد‘ کے مضامین میں جابجا پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اس رسالے کے صفحہ نمبر ۶۷۸ کو معترض نے بھی ضرور ان کو دیکھا ہوگا۔ اُسے چاہیے تھا کہ اپنے سوال میں ان نکات کو بھی پیش کرتا۔ مگر وہ ایسا کیوں کرتا؟ جب ایک شخص شروع سے ہی بدنیت ہو، اُس سے ایسے انصاف کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے ؟ اس نے مفتی صاحب سے سوال اس نیت سے تھوڑا پوچھا تھا کہ اسے انشراحِ صدر مطلوب تھا ،وہ تو اس فتویٰ کو اپنی پراپیگنڈہ فیکٹری میں آتش گیر مادے کے طور پر استعمال کرنا چاہتا تھا۔
اس’سوئے ظن‘ کے متعدد قرائن پیش کئے جاسکتے ہیں۔ اس سائل کے خبث باطن کو بھانپنا کوئی مشکل امر نہیں ہے یہ تو سربازار اس کی رسوائی کا تماشا پیش کررہا ہے۔
سائل ذاکر حسین (غلیل) سوال کے دوسرے حصے میں مورخ بن کر سامنے آئے ہیں۔ وہ مذکورہ اشاعت مصحف کو ’اس زمانہ کی نئی بدعت‘ قرار دیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کی تاریخ تو ایک طرف حتیٰ کہ ’’کسی غیر مسلم تک کو اس کی جرأت نہیں ہوئی۔ برصغیر میں اس غالی اہل حدیث گروپ نے یہ پہلی جرأت کی ہے۔‘‘ گویا موصوف کے خیال میں یہ ’غالی اہل حدیث‘ ’اسلام دشمنی‘ میں غیرمسلموں سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ اسلامی تاریخ کا جائزہ اور اس گروہ کی عدیم النظیر جرأت کی نشاندہی کے بعد سائل نے مسلمانوں کے درمیان تشویش پھیلنے کے خطرات سے مفتی صاحب کو متنبہ کیا ہے۔ پھر انہوں نے مفتی صاحب کے خوابیدہ ضمیر پر تابڑ توڑ سوالات کے میزائل داغے ہیں۔
اُٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا نہ پھر کبھی​
والامعاملہ معلوم ہوتا ہے۔پھر سوال کی صورت میں اپنے اس خدشے کا اظہار کرکے بات ختم کی ہے کہ اب ایک خدا، ایک رسول، ایک قرآن کا دعویٰ ختم ہوگیا۔ پھریہ ۴ یا ۲۰ قرآنی مصاحف کس لیے ؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کیا سائل ذاکر حسین، جن کو ابھی تک ہم نے اپنے مفروضے اور ان کے دستخطوں کی وجہ سے ’سائل‘ بیان کیا ہے، نے’اس زمانہ کی نئی بدعت‘ اور ’غالی اہل حدیث گروپ کی پہلی جرأت‘ کے متعلق جس طرح خدشات کا اظہار کیا ہے ان کی کوئی حقیقت بھی ہے؟ کیا یہ معاملہ مسلمانوں کے لیے واقعی قابل تشویش ہے؟ کیا یہ کوئی ایسی ’اسلام دشمن‘ حرکت ہے جس کی جرأت اب تک کسی غیر مسلم کو بھی نہ ہوئی تھی؟ کیا اس طرح کے مصاحف کی اشاعت واقعی کوئی ’پہلی جرأت‘ یا پہلا اقدام ہے؟ کیا اس معاملے کا چار انجیلوں سے عقلی طور پر موازنہ کیا جاسکتا ہے؟کیا اس سے قرآن کریم کی عظمت میں واقعی کوئی کمی واقع ہوجائے گی؟کیا ان مصاحف کی اشاعت کے بعد اصل قرآن کا پتہ لگانا مشکل ہوجائے گا؟ کیا ہم سائل کے اس خدشہ میں شریک ہوسکتے ہیں کہ اب ایک قرآن کا دعویٰ ختم ہوگیا؟سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ سارے سوالات کسی سنجیدہ ذہن کی علمی تحقیق کے نتائج ہیں یا پھر ایک شیطانی سوچ اور فسادی ذہن کی خرافات ہیں جسے وہ تلبیس کوشی کے پردے میں مسلمانوں کی’تشویش‘ کا نام دے رہا ہے؟ ہم اس معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد اپنے نتائج فکر بیان کریں گے۔ (اِن شاء اللہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فتویٰ
مفتی طاہر مکی صاحب نے ذاکر حسین کے سوال کے جواب میں جو فتویٰ تحریر کیا ہے اور بعد میں افادۂ عوام کے لئے اِس کی تشہیر پر مال خرچ کیا ہے اس کا مکمل متن دو صفحات کے بعد اسی مضمون میں ملاحظہ کریں۔ (یا اس سے پچھلا مضمون دیکھیں جس میں سوال وجواب دونوں مکمل طور پر موجود ہیں۔)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فتویٰ کے متن کا پوسٹ مارٹم
ہم نے ’نقد‘ یا ’تنقید‘ کی بجائے شعوری طور پر ’پوسٹ مارٹم‘ (جراحی پس از مرگ) کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ ایک مردہ لاش کی توہین کے لیے یا تو اس پر کوڑے برسائے جاتے ہیں اور یا پھر ’پوسٹ مارٹم‘ کے ذریعے اس کا تیا پانچہ کرکے رکھ دیا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک زیر نظر ’فتویٰ‘ ایک ’مردہ لاش‘سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ مفتی محمد طاہر صاحب اپنے قلم معجزہ رقم سے اس میں زندگی ڈالنے کی کوشش تو کرتے رہے ہیں مگر اس تحریر میں جان نہیں ڈال سکے۔ جب ان کی ’مسیحائی‘ کارگر نہ ہوئی تو انہوں نے اس ’مردہ لاش‘ کو بے گوروکفن چھوڑ کر فرار ہونے میں عافیت سمجھی۔ سائل ذاکر حسین بے چارے کو محض یہ کہہ کر ٹرخا گئے کہ ’’ہمارا جواب وہی ہے جو حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے امداد الفتاویٰ کی پہلی جلد میں ہے۔‘‘
اگر ذاکر حسین کوئی افسانوی کردار نہیں ہے تومفتی صاحب سے اتنا تو دریافت کرسکتا تھا۔ ’’قبلہ! اگر اس سوال کا آپ نے یہی جواب دینا تھا تو خواہ مخواہ طولانی تمہید باندھنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟‘‘ مفتی صاحب نے اپنے نام نہاد فتویٰ کے آغاز میں جس انداز میں مسئلہ مذکورہ کے تاریخی ارتقاء پر مضمون نگاری شروع کی تھی اس سے ہمیں بجا طور پر توقع تھی کہ وہ ’غالی گروپ‘ کی ’گمراہی‘ ثابت کرنے کے لیے قرآن و سنت اور آثار سے حوالہ جات کے انبار لگا دیں گے اور پھر آخر میں نہایت حکیمانہ اور مفتیانہ اُسلوب میں سائل کے لیے بالخصوص اور دیگر عوام کالانعام کی ہدایت کے لیے بالعموم انتہائی مؤثر اور نتیجہ خیز جواب تحریر فرمائیں گے۔ مگر ؎
اے بسا آرزوئے کہ خاک شد​
سچی بات یہ ہے کہ قبلہ مفتی صاحب کا ’الجواب‘ آخر تک پڑھ چکنے کے بعد بھی ہم اصل ’فتویٰ‘ کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ہم نے بہت سے مفتیانِ کرام کے فتویٰ جات کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے مگر ایسا ’نادرۂ روزگار‘ فتویٰ ہمارے علم میں نہیں ہے۔ ’علم و دانش‘ کے کسی ایسے ہی ’جواہر پارے‘ کی تفہیم سے عاجز آکر شاید غالب جیسے نکتہ دان کو کہنا پڑا ؎
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے
ناطقہ سربہ گریباں ہے اسے کیا کہیے​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہماری مندرجہ بالا شگفتہ خاطری سے اگر کوئی صاحب یہ نتیجہ نکال رہے ہیں کہ مفتی صاحب نے حضرت اشرف علی تھانوی﷫ کی رائے کو نقل کرنے پر ہی اکتفا کرکے اپنی پیدائشی نالائقی کا ثبوت دیا ہے تو ہم ان صاحب کی خدمت میں یہی عرض کریں گے کہ وہ مفتی صاحب کے متعلق قائم کئے جانے والے اس سوئے ظن سے توبہ کرلیں۔ مفتی صاحب نے حضرت تھانوی کے فتویٰ کے پیچھے پناہ لے کر اپنے تئیں بڑی ’حکیمانہ‘ (شاطرانہ) چال چلی ہے۔ انہیں خدشہ تھا کہ ان کی ذاتی رائے کو شاید قبولیت عام نہ ملے اور بہت سارے علماء کسی پیشہ وارانہ رقابت یا معاصرانہ چشمک کی وجہ سے ان کی رائے کو درخور اعتنا نہ سمجھیں۔ اس لیے انہوں نے اپنی رائے کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے سے گریز کی حکمت عملی اپنائی۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کم از کم اہل دیو بند میں سے تو کوئی حضرت تھانویa کی رائے سے اختلاف کی جسارت کرکے اپنی جگ ہنسائی اور تحقیر کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ ان کی عزت و منزلت بلا شبہ اس حلقے میں ایسی ہی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دیوبند کے مدرسے نے ان سے بڑا عالم دین پیدا نہیں کیا مگر مفتی طاہر صاحب کے شاطرانہ ذہن نے انہیں خود فریبی میں مبتلا کیا۔ یہ ضرور ہے کہ حضرت تھانویa کی رائے اور فتاویٰ کا لوگ احترام کرتے ہیں مگر کیا لوگوں نے اپنے ذہنوں کو تالا لگا رکھا ہے؟ کیا وہ یہ بھی نہیں دیکھیں گے کہ مفتی محمد طاہر نے تھانوی صاحب کے فتویٰ کو جس تناظر میں بیان کیا ہے کیا واقعی اس مخصوص صورتِ حال میں اس کا اطلاق اور انطباق درست ہے؟
نام نہاد سائل ذاکر حسین کے ’سوال‘ کاعلامہ مفتی محمد طاہر مکی مدظلہ تعالیٰ نے کیا جواب عنایت فرمایا بلکہ اس معاملے میں اپنا ’فتویٰ‘ کیا صادر فرمایا، اس کو انہی کے الفاظ میں ہم ضرور بیان کریں گے۔ مفتی صاحب قبلہ نے اس سوال اور فتویٰ کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی ہے تاکہ اہل پاکستان کو اس ’نئی بدعت‘ اور اہل حدیثوں کے ایک غالی گروپ کو اس ’پہلی جرأت‘ سے باز رکھنے کی ’نیک جدوجہد‘ کو عملی شکل دی جاسکے۔ اس فتویٰ سے پہلے ماہنامہ ’رُشد‘ کے اس حصے کو دیکھنا ضروری ہے جس میں مذکورہ مصاحف کی ’مبینہ اشاعت‘ کا فخریہ اعلان کیا گیا ہے۔ اگرچہ سائل ذاکر حسین کا فرض تھا کہ وہ ان ’قابلِ اعتراض‘ سطور کو بھی اپنے ’علمی سوال‘ کا حصہ بناتا مگر معلوم ہوتا ہے وہ فتویٰ کے حصول کے لیے سوال نویسی کی ’مطلوبہ استعداد‘ بہم نہیں پہنچا سکا۔ اس ضمن میں قبلہ مفتی صاحب ’شکریہ‘ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے کمال محنت سے سوال و جواب کے ساتھ ماہنامہ ’رشد‘ کا صفحہ نمبر ۶۷۸ بھی ’استفادۂ عوام‘ کے لیے چھاپ دیا ہے جو اس فتویٰ کے اجراء کا ’باعث حقیقی‘ ہے۔
ماہنامہ ’رشد‘ کا مذکورہ صفحہ ۶۷۸ حسب ذیل ہے:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’’جمع کتابی کے سلسلہ میں کلیّۃ القرآن، جامعہ لاہور الاسلامیہ اور دیگر اداروں کی خدمات
کلية القرآن الکریم ، جامعه لاهورالاسلاميه:
’کلیۃ القرآن‘، جامعہ لاہور الاسلامیہ نے جہاں خدمتِ قرآن کے بہت سے سلسلے شروع کررکھے ہیں، وہاں جمع کتابی کے سلسلہ میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا اور اس میں وہ کام کیا ہے کہ جو تاریخِ اسلام میں اپنی نوعیت اور جامعیت کے اعتبار سے یگانہ حیثیت کا حامل ہے۔ وہ یہ کہ قراء ات قرآنیہ عشرہ متواترہ، جوکہ کلیات اور مدارس میں صدیوں سے پڑھائی جارہی ہیں اور جیساکہ ہم نے پہلے کہا کہ قواعد و ضوابط اور پڑھنے کے انداز تو کتبِ قراء ات میں موجود ہیں، لیکن باقاعدہ مصاحف کی شکل میں موجود نہیں ہیں، کلِّیۃ القرآن الکریم، جامعہ لاہور کے فضلاء میں سے تقریباً بارہ محقق اساتذہ نے محنتِ شاقہ فرماکر تین سال کے عرصہ میں وہ تمام غیر متداولہ قراء ات میں سولہ مصاحف تیار کرلیے ہیں اور جیسا کہ راقم نے پہلے عرض کیا ہے کہ یہ کام اپنی نوعیت اور جامعیت کے حوالے سے تاریخ اسلامی کا پہلا کام ہے۔ یہ کام کویت کے عالمی ادارہ حامل المسک الإسلامیۃ کی سربراہ تنظیم لجنة الزکاة للشامية والشويخ کے ایما کیا گیا ہے، جس کی مراجعت کے لیے مذکورہ تنظیم کے ذمہ داران کا لجنۃ مراجعۃ المصاحف، مصر سے تعاقد ہے اور آج کل یہ مشروع اسی ادارہ کے زیر اہتمام تنفیذی مراحل میں ہے۔
ان مصاحف کی تیاری میں مجمع الملک فھد کی طرف سے شائع کردہ روایتِ حفص کے مصحف کو اساس بنایا گیا ہے اور قراء اتِ عشرہ کے متعدد اختلافات کے مطابق علم رسم، علم ضبط اور علم الفواصل کی فنی تفصیلات کا لحاظ کرتے ہوئے رسمِ مصحف میں تبدیلیاں کردی گئی ہیں۔ ذیل میں ہم متعدد علوم سے متعلق ان کتب کی ایک فہرست ذکرکرتے ہیں، جن کی روشنی میں اس سارے علمی کو سر انجام دیا گیا‘‘۔
 
Top