• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اِختلاف قراء ت پر مبنی مصحف کی اِشاعت کے خلاف منفی پراپیگنڈہ … حقائق کیا ہیں؟

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہم کاوش بسیار کے باوجود سائل ذاکر حسین کی اس خبر کہ ’’اب موجودہ قرآن کے علاوہ مزید ۱۶ قاریوں کے اختلاف والے ۱۶ قرآنی مصاحف وہ (یعنی انتہا پسند گروپ) شائع کردے گا‘‘ کو تلاش نہیںکرپائے ہیں۔ اس کے برعکس مذکور بالا تحریر میں تو واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ یہ کام کویت کے ایک ادارے کے ’ایما پر کیا گیا ہے‘ اور پھر یہ سطر بھی دیکھئے (ممکن ہے کوئی شپرہ چشم اس کو نہ دیکھ سکے) ’’آج کل یہ مشروع (یعنی مصحف) اس ادارہ (کویتی) کے زیراہتمام تنفیذی مراحل میں ہے۔‘‘ کیا ان سطور کی موجودگی میں یہ گمراہ کن نتیجہ نکالنے کی کوئی گنجائش یا عقلی دلیل باقی رہ جاتی ہے کہ ان مصاحف کی اشاعت کا کام اہل حدیثوں کا کوئی پاکستانی گروہ خود کرنا چاہتا ہے؟ پھر سائل نے ’مجمع الملک فہد‘کا حوالہ بھی یکسر نظر انداز کردیا۔ ایسا کیوں کیا گیا؟ اسکے اصلی محرکات پر بھی ہم بات کریں گے۔اِن شاء اللہ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اب ہم آتے ہیں مفتی محمد طاہر مکی صاحب کے ’فتویٰ‘ کی طرف۔ایک صورت تو یہ ہے کہ ہم قبلہ مفتی صاحب کے ’فتویٰ‘ سے کچھ مطلب کی سطور نکال کر یہاں نقل کردیں، ان کے سیاق و سباق کو بیان نہ کریں اور مفصل ’فتویٰ‘ کو بطور ضمیمہ اس مضمون کے آخر میں درج کردیں۔اصولاً ایسا ہی کرنا چاہئے بصورتِ دیگر مضمون کا توازن قائم نہیں رہ سکتا اور خوامخواہ بے جا طوالت کی صورت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ مگر یہاں ہم اس معاملے کی نزاکت کے پیش نظر مفتی صاحب کے فتویٰ کو ہو بہو نقل کرکے اس پر اپنی ناقدانہ رائے پیش کریں گے تاکہ ہم پر یہ الزام عائد نہ کیا جاسکے کہ ہم نے ان کے مؤقف کو مسخ شدہ حالت میں منتخب کرکے پیش کیا ہے۔فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الجواب بعون اﷲ الذي أنزل الکتاب
الحمد ﷲ الذي أنزل علی عبدہ الکتاب ولم یجعل لہ عوجا۔ وقال: ’’ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ‘‘(البقرۃ:۲)، ’’ فَلْیَاْتُوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہٖٓ اِِنْ کَانُوْا صٰدِقِیْنَ ‘‘(الطور:۳۴)، ’’ وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا ‘‘ (النساء:۸۲) أما بعد۔
جیسا کہ سائل نے سوال میں اس حقیقت کا اظہار کردیا ہے کہ اختلافِ قراء ت پر مبنی قرآنی مصاحف شائع کرنے کی جرأت خلافتِ راشدہ سے اموی خلافت ، عباسی خلافت، عثمانی (ترکی) خلافت تک، حتیٰ کہ شیعہ مملکت ایران تک میں نہ شاہ کے زمانہ میں، نہ خمینی انقلاب کے بعد بھی، کسی نے نہیں کی۔ غرض اختلافِ قراء ت کو متن قرآن میں داخل کرکے مصحف کی شکل میں شائع کرنے کی کسی نے جرأت نہیں کی۔
پہلی مرتبہ یہ حرکت مشہورمستشرق جیفری نے بیسویں صدی میں کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ بھی متن قرآن میں نہیں بلکہ قرآن کریم کے حاشیہ پر اختلاف قراء ت درج کرکے شائع کرنے کا پروگرام بنایا تھا، مگر اس میں بھی وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری جنگ عظیم میں بمباری کے دوران اس کے سارے کام کو تباہ کردیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حیرت ہے اب اسلام کے کچھ نادان دوست اس کام کی جرأت کریں جس کی جرأت غیر مسلم تک نہ کرسکے۔ ان نادان دوستوں کی پُشت پر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ایسا دماغ کام کررہا ہے جو چاہتا ہے کہ خلافتِ راشدہ سے خلافت عثمانی (ترکی) تک کے اجماع امت کے خلاف ان سے اس بدعت کی جرأت کرائے جو درحقیقت قرآن دشمنی پر منتج ہوتی ہے کہ اس طرح دوسروں کو بھی اس کا موقع فراہم ہوجائے گا کہ وہ قرآن کریم کو متنازعہ بنانے، اور چار انجیلوں کی طرح قرار دینے کے اپنے مقاصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکیں۔
سب کو معلوم ہے کہ غیر عرب مسلمانوں کی تعداد میں بکثرت اضافہ ہونے کی وجہ سے (جو عربی نہیں جانتے تھے) ان کی سہولت کے لیے خلیفہ راشد حضرت علی﷜ اور حضرت معاویہt کی خلافت میں بصرہ کے گورنر زیاد کی نگرانی میں ابو الاسود الدؤلی نے قرآن کریم پر اعراب( زیر ، زبر، پیش) لگائے تھے۔ پھر خلافت عبدالملک اور خلافت ولید میں عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کی نگرانی میں اسی ابو الاسود الدؤلی کے دو شاگردوں یحییٰ بن یعمر اور نصر بن عاصم نے اعراب لگانے کی محنتوں کو انتہا تک پہنچا دیا اور تمام اموی خلافت میں دارالخلافہ دمشق سے افریقہ کے الجزائر ومراکش اور یورپ کے ہسپانیہ تک اور ادھر عراق و ایران سے بخارا و سندھ تک، تیسری طرف حرمین شریفین اور نجد ویمن تک، چوتھی طرف ترکی، آرمینیا اور کوہ قاف کی انتہاؤں تک، تمام خلافتِ بنوامیہ میںاعراب والا یہی ایک قرآن کریم رائج ہوا۔ ان کے بعد سلیمان کی خلافت آئی جس کے مشیر اعظم حضرت عمر بن عبدالعزیز﷫ تھے۔پھر اس کے بعد خود عمر بن عبدالعزیز﷫ کی اپنی خلافت میں بھی یہی حجاج کی نگرانی میں لگائے گئے اعراب (زیر، زبر ، پیش) والامصحف (قرآن کریم) رائج رہا۔ کبھی کسی کو اعتراض کرنے کی یا اس کے برخلاف اختلافی قراء ت والا مصحف پیش کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس کے بعد عباسی دور میں بھی پورے عالم اسلام میں یہی اعراب والا مصحف رائج رہا۔ پھر خلافت عثمانیہ (ترکی) میں یہی رائج رہا۔ غرض جب تک مسلمانوں کا خلافت کی صورت میں اجتماعی شیرازہ برقرار رہا۔ تمام اُمت کا اسی مصحف پراجماع رہا۔ حضرت علی﷜ اور حضرت معاویہ﷜ کی، صحابہ کرام کی، خلافت سے چل کر ان کے بعد خلافت عبدالملک، خلافت ولید، خلافت سلیمان و خلافت عمربن عبدالعزیز﷫ کی تابعی خلافت سے ہوتے ہوئے آج تک یکساں اعراب والا یہی قرآن کریم باجماع و تواتر ہر خلافت اسلامی میں جاری رہا اور تراویح میں پڑھا اور سنایا جاتا رہا۔ ہاں خلافت کے خاتمہ کے بعد اسلام کے دشمنوں کو قرآن کریم کی عظمت کے خلاف طرح طرح کے پلان بنا کر کامیاب ہونے کی توقع ہوئی جس کی تاریخی طور پر پہلی معلوم کوشش مستشرق آرتھر جیفرے کی تھی جو قرآن کریم کے حاشیہ پر اختلاف قراء ت پیش کرکے حفاظت قرآن کے متعلق مسلمانوں کے گہرے ایمان کو متزلزل کرنا چاہتا تھا۔ اس کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی تھا کہ آئندہ مسلمان مسیحیوں سے یہ سوال نہ کرسکیں کہ اگر انجیلیں چار ہیں تو پھر ان میں حضرت مسیح ﷤ کی اصلی انجیل کون سی ہے؟ جیفری اور اس کے اندھے مقلدین کی کوششیں اگر کامیاب ہوجائیں تو پھر اس سوال پر مسیحی پلٹ کر خود مسلمانوں سے سوال کرسکیں گے کہ جناب آپ کے چار + سولہ= بیس قرآنوں میں سے حضرت محمد رسول اللہ﷤ کا اصلی قرآن کون سا ہے؟ جب مسلمان اس کا جواب دے دیں گے تو پھر ہم مسیحی چار انجیلوں میں سے مسیح﷤ کی اصلی انجیل کا جواب بھی دے دیں گے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
افسوس ان تکلیف دہ سازشوں کو سمجھنے کی صلاحیت اور بصیرت سے محروم نادان دوست خود ہی ان کے جال میں پھنس گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ تو غافل نہیں ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کے کام میں تعاون کرکے سعادت عظمیٰ میں شریک ہوں ’’إِنْ تَنْصُرُوا اﷲَ یَنْصُرْکُمْ‘‘ (محمد:۷) لیکن اگر کوئی بدقسمت محروم رہنا چاہتا ہے تو ’’وَإِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْرَکُمْ‘‘ (محمد:۳۸) کا مظاہرہ ہوتا ہے اور بغیر کسی کی مدد کے اللہ اپنا کام کرکے دکھاتا ہے۔
آرتھر جیفرے یہ سازش کررہا تھا مگر اللہ کی بے آواز لاٹھی نے دوسری جنگ عظیم میں دو طرفہ بمباری کی زد میں لاکر جیفرے کے کیے گئے تمام کام کو، اور اس عمارت کو، جس میں یہ کام ہورہا تھا، مکمل تباہ کردیا۔
ہاتھی والوں سے بیت اللہ (کعبہ) کو بچانے کے خدائی معجزہ کی طرح کلام اللہ (قرآن کریم) کو اس کے دشمنوں سے بچانے کے لیے یہ تازہ ترین معجزہ تھا: ’’ وَاﷲُ غَالِبٌ عَلٰٓی أَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ‘‘ (یوسف:۲۱) ’’فَــأَتٰہُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَشْعُرُوْنَ٭ فَــأَذَاقَہُمُ اللّٰہُ الْخِزْیَ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ أَکْبَرُ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ‘‘ (الزمر:۲۵،۲۶(
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ان مختصر تمہیدی جملوں کے بعد سائل کے لیے ہمارا جواب وہی ہے جو حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کے امداد الفتاویٰ (دارالعلوم کراچی ایڈیشن) کی پہلی جلد میں ہے کہ مصاحف کی شکل میں اختلافِ قراء ت کو شائع کرنا تو درکنار عوام کے سامنے اختلافِ قراء ت پر مبنی تلاوت کرنے سے منع کرنا بھی واجب ہے۔‘‘
ہمیں یہ اعتراف کرتے ہوئے کوئی باک نہیں ہے کہ قبلہ مفتی محمد طاہر مکی صاحب سے ہمارا پہلا تعارف اس ’فتویٰ‘ (اگر اسے فتویٰ کہا جاسکتا ہے) کی صورت میں ہوا ہے۔ ان کے علم و فضل کی کیفیت کیا ہے اور ان کے علمی مشاغل کیا ہیں اور انہیں کس قدر ’رسوخ فی الدین‘ حاصل ہے، اس کا ہمیں کوئی اندازہ نہیں ہے۔ البتہ انہوں نے معاملہ زیر بحث کے متعلق جو ’فتویٰ‘ صادر فرمایا ہے اس کو پڑھ کر نہ صرف ان کی شخصیت کا کوئی اچھا تاثر نہیں ملابلکہ ہمیں ان کے اس اقدام پر شدید افسوس ہوا ہے۔ انہوں نے ’پاکستان میں اختلاف قراء ت والے قرآنی مصاحف کی اشاعت‘ کے عنوان سے جو کتابچہ بشمول فتویٰ شائع کیاہے، اس پر ان کا تعارف کچھ اس طرح درج ہے:
’’علامہ مفتی محمد طاہر مکی۔ صدر قرآنی مرکز دارالمؤطا، کراچی‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہمیں ان کے نام کے ساتھ یہ’علامہ‘ اور ’مفتی‘ کے الفاظ محض تشہیری سابقوں سے زیادہ معلوم نہیں ہوتے اور پھر ’مکی‘ کا لاحقہ ظاہرکرتا ہے کہ وہ مکہ مکرمہ میں بھی شاید حصولِ تعلیم کے لیے گئے ہوں گے۔ یہ فتویٰ تحریر کرکے ہم سمجھتے ہیں انہوں نے ان سارے سابقوں اور لاحقوں کی مٹی پلید کی ہے۔ ہمیں معلوم ہے قبلہ محمد طاہر صاحب ہماری اس ’جسارت‘ کو شخصی توہین قرار دیں گے اور یہ بات ان کے’قلب اَقدس‘ پر ناگوار گزرے گی۔ مگر جس درجہ میں وہ ’علامہ اور مفتی‘ کے اعلیٰ مناصب کی اِہانت کے مرتکب ہوئے ہیں، ہمارے الفاظ اس کا عشرعشیر بھی نہیں ہیں۔ ان پرتنقید ایک ناخوشگوار فریضے کی تکمیل سے کچھ زیادہ نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پردہ نشین غَلیل
ہم نے ذاکر حسین مذکور کے ’سوال‘ اور مفتی صاحب کے ’الجواب‘ (فتویٰ) کے مندرجات کو سمجھنے میں کافی دماغ سوزی کی ہے۔ ان دونوں دستاویزات کے اُسلوب نگارش،انتخاب الفاظ، جملوں کی دروبست، سوالات اور جوابات کی یکسانیت اور پھر اس فتویٰ کے آخر میں پیش کی گئی ’خوش خبری‘ پر جس قدر زیادہ غوروفکر کیا، اتنا ہی ہمارا یہ شک کہ سوال اورجواب ایک ہی شخص کے تحریر کردہ ہیں، پک میں بدلتا گیا۔ ہمارے وجدان کی پہلی صدا جو شروع میں صدا کے جرس سے زیادہ نہ تھی بالاخر پیہم شعور میں بدلتی چلی گئی۔
اگر قارئین نے ہمارے اس مضمون کے شروع کے پیرا جات میں ذاکر حسین کے ساتھ ’غلیل‘ اور ’نام نہاد‘ کے الفاظ پر ذرا بھی غور کیا ہو، تو وہ ہماری اس الجھن، اضطراب اور تشکیک کا اندازہ ضرور کرچکے ہوں گے۔ اس مضمون کو لکھنے کے دوران تدریجی طور پر ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ سوال بھی قبلہ مفتی صاحب کے ’ذہن رسا‘ کی تخلیق ہے اور پھر ’الجواب‘ کے مصنف تووہ بہرحال ہیں ہی۔ مفتی صاحب کو ’ذاکر حسین‘ کی بیساکھیاں کیوں استعمال کرنی پڑیں، مناسب ہوگاکہ ہم اس پر اپنا تجزیہ آخر میں پیش کریں۔ پردہ نشینوں کے چہرے سے نقاب اٹھنا بھی ضروری ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مولانا اَشرف علی تھانوی ﷫ کے فتوی کو پیش کرنے کی اغراض
ہم بڑی دیانتداری سے محسوس کرتے ہیں کہ مفتی محمد طاہر صاحب نے حضرت تھانوی صاحبa کے فتویٰ کو اپنے فساد انگیز خیالات کی تائید کے طور پر استعمال کرکے عقلی بددیانتی اور ایک بڑے عالم دین کے فتویٰ کا اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے استحصال کیا ہے۔ مفتی طاہر صاحب نے اپنے نام نہاد فتویٰ کے ساتھ ’امداد الفتاویٰ‘سے حضرت اشرف علی تھانوی﷫ کے فتویٰ کا عکس بھی نتھی کردیا جو اس وقت ہمارے پیش نظرہے۔ یہ فتویٰ جیسا کہ ہم دیکھیں گے، خاص احوال اور عوام میں ممکنہ فتنہ و فساد کے خدشہ سے مشروط ہے۔ ہم بڑے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ مفتی طاہر صاحب نے اہل حدیث کے ایک گروہ کی طرف سے ۱۶ مصاحف کی اشاعت کے مبینہ پروگرام پرجو واویلا مچایا ہے، اس میں یہ دونوں شرائط معدوم ہیں۔ جیساکہ بیان کیا جاچکا ہے، مذکورہ مصاحف کی اشاعت (اگر ہوگی تو) کویت یا سعودی عرب میں ہوگی۔پاکستان کے عوام میں اس کی وجہ سے کسی فتنہ کا پھیلنا دریں حالات موجودہ بعید از قیاس ہے۔ سعودی عرب، لیبیا، مراکش اور کویت وغیرہ میں روایت ورش ، قالون اور دوری میں پہلے ہی مصاحف شائع ہوچکے ہیں اور ان کی وجہ سے وہاں کے مسلمانوں میں کسی فتنہ کے پھیلنے کی اطلاع نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے ممدوح قبلہ مفتی صاحب کو اس کی اطلاع ہے ورنہ وہ اس کی نشاندہی ضرور کرتے۔ خیر ان کو تو شاید مذکورہ مصاحف کی اشاعت کی بھی خبر نہیں ہے،کیونکہ موصوف کی تحقیق کا خصوصی مرکز بلکہ تختۂ مشق پاکستان کے اہل حدیثوں کا ایک غالی گروہ ہے۔ حضرت کسی دوسری طرف نگاہ التفات کرنا اپنی مفتیانہ شان سے فروتر خیال فرماتے ہیں۔ ان کی نگاہ حکمت تو ماہنامہ ’رُشد‘ کے صفحہ ۶۷۸ پر ہی ٹکی رہی اور کسی تجاہل عارفانہ کے زیر اثر وہ اس رسالہ کے وہ صفحات دیکھنے سے عاجز و قاصر رہے جن پرلیبیا،سعودی عرب، مراکش وغیرہ میں روایت حفص کے علاوہ دیگر روایات قراء ت میں شائع شدہ مصاحف کے عکس دیئے گئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ’رُشد‘ کے ذمہ داروں کو کسی مفتی محمد طاہر کی طرف سے ایسے بے بنیاد اعتراضات اور منفی پراپیگنڈہ کا پہلے ہی خدشہ تھا، اسی لیے انہوں نے اتمام حجت کے لیے ان مصاحف کے پہلے صفحات کے عکس بھی شائع کردیئے۔ (دیکھئے مضمون،قراء ات متداولہ کا مختصر تعارف ازحافظ محمد مصطفی راسخ،ماہنامہ رشد ،قراء ات نمبر حصہ اول) مگر فتنہ پسند نگاہیں مقام فتنہ پر ہی مرتکز رہنے کی عادی ہوتی ہیں۔ اس نفسیاتی بیماری کا علاج کسی کے پاس نہیں ہے۔
بے حد ضروری ہے کہ ہم قارئین کے سامنے مولانا اشرف علی تھانوی﷫ کا فتویٰ مع سوال نقل کردیں۔
 
Top