• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اِختلاف قراء ت پر مبنی مصحف کی اِشاعت کے خلاف منفی پراپیگنڈہ … حقائق کیا ہیں؟

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چار انجیلوں کا قرآن مجید سے درحقیقت کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اختلاف قرائات پر مبنی صحائف کیا ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہوں گے؟ ایسا یقینا نہیں ہے۔ یہ اختلاف محض چند الفاظ کے مختلف رسم الخط کے حوالہ سے ہے۔ کسی بھی روایت قراء ت کی رو سے قرآن مجید کی کوئی ایک آیت بدلتی ہے نہ اس کا مطلب۔ یہاں اس موضوع پر تفصیلی بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ ماہنامہ ’رشد‘ کی خصوصی اشاعت میں اس پر قابل قدر مواد موجود ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ اس مضمون کے آخر میں چندایک مثالوں سے اس بات کو مزید واضح کردیں۔ مفتی صاحب خاطر جمع رکھیں۔ مسلمان مسیحیوں کے کسی بھی سوال کا شافی جواب دے سکتے ہیں۔ اختلاف قراء ت کی حفاطت سے قرآن مجید کے متن کی حفاظت قطعاً متاثر نہیں ہوتی۔ ان کا پراپیگنڈہ بے بنیاد اور کھوکھلا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن مجید کے متن میں مبینہ تبدیلی؟ پراپیگنڈہ مہم
مفتی طاہر مکی نے ذاکر حسین کو شکایت کنندہ بنا کر اس کے دستخطوں سے جوخطوط وفاقی وزیر برائے مذہبی امور جناب حامد سعید کاظمی صاحب اور گورنر پنجاب کے نام ارسال کیے ، ان کا متن سو فیصد ایک تھا۔ ان خطوط میں (ضمیمہ میں اصل خطوط دیئے گئے ہیں) یہ تاثر دیاگیا ہے کہ خدانخواستہ قرآن مجید کے متن میں کوئی تبدیلی کی جارہی ہے۔ یہ تاثر انتہائی گمراہ کن ہے ، کلام لغو اور جھوٹ ہے۔ اختلاف قراء ات کو قرآن مجید کے متن میں تبدیلی قرار دینا بدترین پراپیگنڈہ ہے۔ دور حاضر میں اس طرح کا پراپیگنڈہ صیہونی تنظیمیں مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے کرتی ہیں۔
ذاکر حسین نے تو اپنے انگریزی خط کا عنوان محض "Holy Quran" دیا تھا، مگر وزارت مذہبی امور کی جانب سے حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب کو جو خط لکھا گیا، اس کا عنوان درج ذیل رکھا گیا:
"Mistakes in the text of the Holy Quran Produced in the
Monthly Magazine in the Monthly Mahnama Rushd,2009.
یہ خط ۲۰ ستمبر ۲۰۰۹ء کو وزارت مذہبی امور کے ڈپٹی ڈائریکٹر سید مشاہد حسین خالد نے تحریر کیا۔ (دیکھئے ضمیمہ نمبر ۲) خط کے عنوان سے مکتوب نگار کی قابلیت اور ’ذہانت‘ کا بھی خوب پتہ چلتا ہے ۔ ذرا انگریزی زبان میں تحریر کردہ "Monthly Mahnama" کی ترکیب پر غور فرمائیے، پھر"Monthly Magazine" کے غیر ضروری الفاظ بھی کم مضحکہ خیز نہیں ہیں۔ اس عنوان میں سب سے زیادہ قابل اعتراض الفاظ "Mistakes in the Text" اور "Produced" ہیں۔ خط کا عنوان یہ بتا رہا ہے : ’’قرآن مجید کے متن میں وہ غلطیاں جو ماہنامہ ’رشد‘ میں شائع کی گئیں‘‘ اس عنوان میں "Alleged" یعنی’ مبینہ‘ کا لفظ تک نہیںلکھا گیا۔ نجانے فاضل وزیر مذہبی نے اپنی وزارت کے اس ذہین افسر کے خط کے عنوان کوبغور دیکھا ہے یا نہیں۔ اتنے حساس موضوع پر لکھے جانیوالے خط کا یہ عنوان بے حد افسوس ناک ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شوکاز نوٹس
گورنرپنجاب کے سیکرٹریٹ سے جو خط پنجاب کے محکمہ اوقاف کی طرف ارسال کیا گیا، اس کا عنوان بھی دیکھئے:
"Alleged Variation in the Quranic Text"
یعنی ’قرآن مجید کے متن میں مبینہ تحریف‘ (دیکھئے ضمیمہ نمبر: ۴)
خط کا یہ عنوان بھی غلط تاثر دے رہا ہے۔ یہاں بھی اختلاف قراء ت کو متن میں تبدیلی سمجھا گیا ہے جوبالکل غلط ہے۔ غالب نے شاید ایسے ہی عنوانات کے بارے میں کہا تھا:
غلطی ہائے مضامین مت پوچھ
لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں​
گورنر پنجاب کے دفتر سے خط موصول ہونے کے بعد حکومت پنجاب کے محکمہ اوقاف کی طرف سے حافظ حمزہ مدنی، مدیر ماہنامہ ’رشد‘ کو شوکاز نوٹس ارسال کیا گیا۔ (دیکھئے ضمیمہ نمبر: ۵) جس کا تفصیلی جواب دے دیا گیا۔ (دیکھئے ضمیمہ نمبر: ۶) محکمہ اوقاف کے ذمہ داران نے شوکاز نوٹس صریحاً غلط فہمی کی بنیاد پر جاری کیا۔ان کے خیال میں ماہنامہ ’رشد‘ کے اصحاب نے مصحف شائع کرنے سے پہلے حکومت سے اجازت نہیں لی تھی۔ ظاہر ہے یہ بات درست نہیں۔ ذاکر حسین کے بے ہودہ خط میں جو غلط تاثر دیا گیا تھا، اس کی شافی وضاحت بھی کردی گئی ، یہ تمام خطوط اس مضمون کے آخر میں ضمیمہ جات کے طور پر دیئے گئے ہیں۔
مفتی محمد طاہر مکی اپنے نام نہاد فتویٰ میں بغلیں بجاتے ہوئے اپنے قارئین کو خوشخبری دیتے ہیں: ’’یہ خوش خبری بھی معلوم ہوئی ہے کہ حکومت پنجاب نے اختلاف قراء ت کے حوالہ سے قرآن کریم کے اختلافی مصاحف چھاپنے کا پروگرام رکھنے والوں کے خلاف نوٹس لیا ہے۔‘‘ اس کی حقیقت ہم نے بیان کردی ہے، مزید تبصرے کی گنجائش نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَحناف کی ترجمانی کا دعویٰ
مفتی محمدطاہر نے مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کا فتویٰ درج کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ’حنفی مسلک کی مکمل ترجمانی‘ یہی ہے۔ یہ دعویٰ گمراہ کن ہے۔ مفتی صاحب نے حضرت تھانوی صاحب کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے محض ڈھال بنا کر پیش کیا۔ ہم پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ مولانا اشرف علی تھانوی﷫نے فتویٰ مذکورہ میں جن احوال و کوائف و شرائط کا ذکر کیا ہے، وہ مذکورہ صورت حال پر قابل اطلاق ہی نہیں ہیں۔کیا قاری محمد طاہر مولانا اَشرف علی تھانوی﷫ کے نقطۂ نظر کو قاری اَحمد میاں تھانوی صاحب سے زیادہ سمجھتے ہیں؟ قاری اَحمد میاں تھانوی صاحب حضرت تھانوی﷫ کے نواسے ہیں اور دور حاضر میں فن قراء ت میں ان کا شمار اَساتذہ میں ہوتا ہے۔ قاری محمد طاہر صاحب نے کیا ماہنامہ ’رُشد‘ کا پہلا صفحہ نہیں دیکھا جس میں مجلس مشاورت میں قاری احمد میاں تھانوی صاحب کا نام بھی شامل ہے۔
مفتی محمد طاہر مکی صاحب کو چاہئے تھا کہ وہ اپنے فتویٰ میں یہ بھی بتاتے کہ وہ مولانا اشرف علی تھانوی﷫ اور اَحناف کے دیگر بزرگوں کے عقائد، خیالات اور فتاویٰ پرکس قدر عمل کرتے ہیں؟ کیا وہ خود حنفی مسلک کے ترجمان ہیں؟ ظاہر ہے اگر وہ یہ سب کچھ لکھ دیتے تو پراپیگنڈہ کی فیکٹری کیسے قائم کرسکتے تھے۔ جن لوگوں کو معلوم نہیں ہے وہ یہ جان لیں کہ قبلہ علامہ محمد طاہر مکی صاحب، عامر عثمانی صاحب کے شاگرد رشید ہیں جو منکر حدیث ہونے کی وجہ سے مشہور (یا بدنام) ہیں۔ دیوبند مسلک کے بزرگوں نے ان سے بریت کا اعلان کردیا تھا۔ وہ انہیں راندۂ درگاہ اور مردود سمجھتے ہیں۔مفتی صاحب کے لیے ایک شعر ،وہ شاید اِسے عامیانہ قرار دیں مگر یہ ان کے حسب حال ہے: ؎
نہ تم طعنے دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے
نہ کھلتے راز سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مفتی طاہر مکی کا اصل مسئلہ
مفتی طاہر مکی صاحب کا سارا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ فتنہ انکار حدیث میں مبتلا ہیں۔ ماہنامہ ’رشد‘ میں اختلاف قراء ت کی اشاعت کے لیے صحیح احادیث کو جواز بنایا گیا ہے۔ ایک منکر حدیث کو مشتعل کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ کسی مسئلے کے جواز و عدم جواز کے لیے احادیث کوبطور دلیل کے پیش کردیا جائے۔
اختلاف قراء ت کے حق میں معروف احادیث درج ذیل ہیں:
(١)صحیح بخاری ، کتاب فضائل قرآن کی ایک حدیث میں سرور عالمﷺکا ارشاد ہے۔
’’إِنَّ ہٰذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلٰی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ فَاقْرَئُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ‘‘۔ (صحیح بخاری :۴۹۹۲)
’’ تحقیق یہ قرآن سات حروف پر نازل کیاگیا ہے پس پڑھو اس میں سے اس طریقے پر جو تمہارے لیے آسان ہو ۔‘‘
اس حدیث میں سات حروف پر قرآن کے نازل ہونے سے کیا مراد ہے؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) حضرت ابی بن کعب﷜فرماتے ہیں کہ سرور عالمﷺبنو غفار کے تالاب کے پاس تھے۔ آپ کے پاس حضرت جبرائیل﷤ حاضر ہوئے او رکہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ کی اُمت قرآن کو ایک حرف پر پڑھے آپ نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ سے معافی اوربخشش مانگتا ہوں میری اُمت یہ طاقت نہیں رکھتی پھر جبریل﷤ دوبارہ حاضر ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دے رہا ہے کہ آپ ﷺکی اُمت قرآن کودو حرفوں پر پڑھے۔ آپ نے فرمایا: ’’میں اللہ تعالیٰ سے معافی اور بخشش مانگتا ہوں میری اُمت میں اس قدر طاقت نہیں ہے‘‘ پھر وہ تیسری مرتبہ آئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اُمت کو تین حروف پر قرآن پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ آپ نے معافی اور مغفرت طلب کی کہ میری اُمت اس کی طاقت نہیں رکھتی حتی کہ فرمایا:
ثم جائہ الرابعۃ فقال: ’’إِنَّ اﷲَ یَأْمُرُکَ أَنْ تُقْرِیئَ أُمَّتَکَ الْقُرْآنَ عَلَیٰ سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ فَأَیُّمَا حَرْفٍ قَرَئُ وا عَلَیْہِ فَقَدْ أَصَابُوا‘‘۔ (صحیح مسلم: ۱۹۰۶)
پھر وہ چوتھی بار آئے او رعرض کیا کہ اللہ تعالی نے آپ کوحکم دیا ہے کہ آپ کی امت قرآن حکیم کو سات حرفوں پر پڑھے۔ پس وہ جس حرف پر بھی پڑھیں گے ان کی قراء ت درست ہو گی ۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) حضرت ابی بن کعب ﷜ فرماتے ہیں:
’’کنت بالمسجد، فدخل رجل یصلي فقرأ قرائۃ أنکرتھا علیہ، ودخل آخر فقرأ قرائۃ سواء قرائۃ صاحبہ، فلما قضینا الصلوۃ، دخلنا جمیعا علی رسول اﷲ !۔ فقلت: إن ھذا قرأ قرائۃ أنکرتھا علیہ، ودخل آخر، فقرأ قرائۃ سویٰ قرائۃ صاحبہ، فأمرھما رسول اﷲ ! فقرأ فحسن النبي ! شأنھما فسقط في نفسي من التکذیب ولا إذ کنت في الجاھلیۃ، فلما رأی رسول اﷲ ! ما قد غشیني، ضرب في صدري ففضت عرقا، وکأنما أنظر إلی اﷲ فرقا۔ فقال لي: ’’ یَا أُبَيُّ! إِنَّ رَبِّيْ عَزَّوَجَلَّ أَرْسَلَ إِلَيَّ أَنْ أَقْرَأَ الْقُرْآنَ عَلـٰی حَرْفٍ، فَرَدَدْتُ إِلَیْہِ أَنْ ھَوِّنْ عَلـٰی أُمَّتِيْ فَرَدَّ إِلَيَّ الثَّانِیَۃَ، اِقَرأْہُ عَلـٰی حَرْفَیْنِ، فَرَدَدْتُ إِلَیْہِ أَنْ ھَوِّنْ عَلـٰی أُمَّتِي، فَرَدَّ إِلَيَّ الثَّالِثَۃَ، اِقْرَأہُ عَلـٰی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ۔‘‘ (صحیح مسلم: ۸۲۰)
’’میں مسجد میں تھا کہ ایک شخص داخل ہوکر نماز پڑھنے لگا، اس نے ایک ایسی قراء ت پڑھی جو مجھے اجنبی معلوم ہوئی، پھر ایک دوسرا شخص آیا اس نے پہلے شخص کی قراء ت کے سوا ایک اور قراء ت پڑھی، پس جب ہم نے نماز ختم کرلی تو ہم سب رسول اللہﷺکی خدمت میں پہنچے، میں نے عرض کیا ’’اس شخص نے ایک ایسی قراء ت پڑھی ہے جو مجھے اجنبی معلوم ہوئی‘‘ پھر ایک دوسرا شخص آیا اس نے پہلے شخص کی قراء ت کے سوا ایک دوسری قراء ت پڑھی، اس پر آپ ؐنے دونوں کو پڑھنے کا حکم دیا، ان دونوں نے قراء ت کی تو حضورﷺنے دونوں کی تحسین فرما ئی، اس پر میرے دل میں تکذیب کے ایسے وسوسے آنے لگے کہ جاہلیت میں بھی ایسے خیالات نہیں آئے تھے۔ پس جب رسول اللہﷺنے میری حالت دیکھی تو میرے سینے پرہاتھ مارا جس سے میں پسینہ میں شرابور ہوگیا اور خوف کی حالت میں مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے اللہ کو دیکھ رہا ہوں، پھر آپؐ نے فرمایا کہ اے اُبی میرے پروردگار نے میرے پاس پیغام بھیجا تھا، کہ میں قرآن کو ایک حرف پر پڑھوں، میں نے جواب میں درخواست کی کہ میری اُمت پر آسانی فرمائیے، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے دوبارہ پیغام بھیجا کہ میں قرآن دو حرفوں پر پڑھوں، میں نے جواب میں درخواست کی کہ میری اُمت پر آسانی فرمائیے، تو اللہ تعالیٰ نے تیسری بار پیغام بھیجا کہ میں اسے سات حرفوں پر پڑھوں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس روایت میں حضرت اُبی بن کعب﷜ دونوں اشخاص کے اختلاف تلاوت کو بار بار اختلاف قراء ت سے تعبیر فرما رہے ہیں اور اسی کو آنحضرتﷺ نے سات حروف کے اختلاف سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس سے صاف واضح ہے کہ قراء ت کے اختلاف اور حروف کے اختلاف کو عہد رسالت میں ایک ہی چیز سمجھا جاتا تھا اور اس کے خلاف کوئی دلیل ایسی نہیں جو دونوں کی جداگانہ حیثیت پردلالت کرتی ہو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی چیزہیں اور جب قراء ات کا محفوظ ہونا تواتر اور اجماع سے ثابت ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ احرف سبعہ آج بھی محفوظ ہیں۔
اگر حدیث و سنت سے محبت کرنے والے کچھ مسلمانوں نے اختلاف قراء ت کو ’محفوظ‘ کرنے کی نیت سے اس کی اشاعت کا پروگرام بنایا ہے، تو اس میں اعتراض کی گنجائش کہاں ہے اور اس کی مخالفت میں خوامخواہ فتویٰ بازی اور درخواست نویسی کامشغلہ کیوں اختیار کیا جائے؟مجھے ذ۱تی طور پر یہ تسلیم کرنے میں بھی تامل ہے کہ سبعہ اَحرف کی تلاوت تو جائز ہے مگر اس کی اِشاعت جائز نہیں ہے۔ اس دلیل میں داخلی تضادموجود ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کیا ماہنامہ’رشد‘ نے نئی ’بدعت‘ ایجاد کی ہے؟
مفتی طاہر مکی نے علمی بددیانتی کا ارتکاب کرتے ہوئے سارے حقائق اور تفصیلات پیش نہیں کیں۔اُس نے ’رشد‘ کے اختلاف قراء ت پر مبنی مصاحف کی اشاعت کو ’تاریخ اسلام میں نئی بدعت‘ قرار دیتے ہوئے پراپیگنڈہ کا طومار باندھنے کی کوشش کی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عالم اسلام میں اختلاف قراء ت پر مبنی مصاحف کی اشاعت بہت عرصہ سے ہورہی ہے۔ ماہنامہ’رشد‘ کی جون ۲۰۰۹ء کی خصوصی اشاعت میں ایسے ۲۱ مصاحف کے پہلے صفحہ کے عکس بھی شائع کردیئے گئے ہیں۔ کیا مفتی صاحب کی نگاہ سے یہ صفحات نہیں گذرے؟ کیا اسے تجاہل عارفانہ کہیں یا صریح دروغ گوئی اور بیہودہ پراپیگنڈے کا سفلی مذاق؟ عالم اسلام میں الجزائر، لیبیا، تیونس، لبنان، مراکش، سوڈان، سعودی عرب، شام، پاکستان میں اختلاف قراء ت پر مبنی مصاحف اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔ خدا کا شکر ہے اس سے کسی طرح کی گمراہی یا فساد پیدا ہوا، نہ ہی اب تک یہود و نصاریٰ نے اس بناء پر مسلمانوں کو مطعون کیا ہے تو پھر یہ کراچی کے مفتی طاہر مکی کیوں نچلے نہیں بیٹھ سکتے؟ وہ غلط بیانی کرکے کیوں اپنی عاقبت خراب کررہے ہیں؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِختلاف قراء ت کی مثالیں
وہ صاحبان جو ’اختلاف قراء ت‘ کا حقیقی مفہوم سمجھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے لیے قرآن مجید کے درج ذیل مقامات اور الفاظ کے متعلق اختلاف قراء ت کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ وہ خود دیکھ سکتے ہیں کہ اس سے قرآن مجید کے متن یا مفہوم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
(١) ’’مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ (الفاتحہ:۳)
اس آیت مبارکہ کے لفظ ’ملک‘ میں دو قراء تیں ہیں: امام عاصم، کسائی ، یعقوب اور خلف العاشر ’ مٰلِکِ‘ جبکہ دیگر قرائِ کرام ’مَلِکِ‘ پڑھتے ہیں۔
(٢) ’’یُخٰدِعُوْنَ اﷲَ وَالَّذِیْنَ ئَامَنُوْا وَمَا یَخْدَعُوْنَ إِلَّا أَنْفُسَہُمْ ‘‘(البقرۃ:۹)
اس آیتِ مبارکہ کے لفظ ’وما یخدعون‘ میں دو قراء تیں ہیں: امام نافع، ابن کثیر مکی اور ابو عمرو بصری’وَمَا یُخٰدِعُوْنَ‘ جبکہ دیگر قراء کرام ’وَمَا یَخْدَعُوْنَ‘ پڑھتے ہیں۔
(٣) ’’وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ‘‘ (البقرۃ:۱۰)
اِس آیت مبارکہ کے لفظ ’ یکذبون‘ میں دو قراء تیں ہیں: امام نافع، ابن کثیر مکی، ابو عمر وبصری، ابن عامر شامی، ابو جعفر اور یعقوب ’یُکَذِّبُوْنَ‘ جبکہ دیگر قراء کرام ’یَکْذِبُوْنَ‘ پڑھتے ہیں۔
 
Top