• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اِختلاف قراء ت پر مبنی مصحف کی اِشاعت کے خلاف منفی پراپیگنڈہ … حقائق کیا ہیں؟

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) ’’ وَلَا یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَلَا یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا ہُمْ یُنْصَرُوْنَ‘‘(البقرۃ:۴۸)
اس آیت مبارکہ کے لفظ ’ ولایقبل منہا ‘میں دوقراء تیں ہیں: امام ابن کثیر، ابو عمرو بصری اور یعقوب ’ وَلَا تُقْبَلُ مِنْہَا‘ جبکہ دیگر قراء ِکرام ’لَایُقْبَلُ مِنْہَا‘ پڑھتے ہیں۔
(٥) ’’فَأَزَلَّہُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْہَا فَــأَخْرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِ‘‘ (البقرۃ:۳۶)
اس آیت مبار کہ کے لفظ ’فأزلہما‘ میں دو قراء تیں ہیں: امام حمزہ ’فَــأَزَالَہُمَا‘ باقی ’فَأَزَلَّہُمَا‘ پڑھتے ہیں۔
وزارت مذہبی امور کے ذمہ داران سے بھی گزارش ہے کہ وہ اس موضوع کو علمی انداز میں دیکھیں اور پھر اپنی رائے قائم کریں۔اگر وہ اب تک اختلاف قراء ت کو قرآن کے متن میں تحریف یا تبدیلی سمجھتے آئے ہیں تو اب ان کی غلط فہمی دور ہونی چاہئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اُردو اَدب سے اختلاف قراء ت کی مثالیں
جن لوگوں نے برصغیر پاک و ہند میں اُردو زبان و ادب کے ارتقاء اور تاریخ کو دیکھ رکھا ہے، انہیں بخوبی معلوم ہے کہ گذشتہ سات سو برسوں میں اُردو زبان میں مروّج بہت سے الفاظ یا تو متروک ہوگئے یا پھر ان کی املا میں تبدیلی آگئی۔ بعض الفاظ کی صوتی ہیئت میں بھی تبدیلی واقع ہوگئی۔ عربی زبان بھی اس اصول سے کلیتاً مستثنیٰ نہیں ہے۔ عربوں کی قبائلی زندگی سے واقف مؤرخین نے ان کے لسانی میلانات و اظہار ی پیرایوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اگرچہ قرآن مجید قریش کی زبان میں نازل ہوا لیکن حدیث سے یہ ثابت ہے کہ بعض الفاظ مختلف قراء ت میں بھی نازل ہوئے۔ اس میں حکمتِ بالغہ شاید یہی تھی کہ قریش کے علاوہ دیگر قبائل بھی قرآن مجید کے الفاظ کے ساتھ لسانی انس محسوس کریں اور انہیں اس کے مطالب سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔
ڈاکٹر جمیل جالبی کی ’تاریخ ادب اردو‘ ایک مستند تاریخی حوالے کی کتاب ہے۔ جالبی صاحب نے دکن میں اُردو کے ارتقاء پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ دکنی شعراء کے کلام کے نمونے دیئے ہیں۔ ان میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کی آج بدلی ہوئی صورتیں مروّج ہیں۔ مثلاً ’مجھ‘ کو ہی دیکھئے۔ دکن کے شعراء کے کلام میں یہ ’مج‘ اور ’منجھ‘ بیان ہوا ہے۔ مثلاً:
شاہ برہان الدین جانم کی مثنوی (صفحہ نمبر ۳۰۱) کا ایک شعر ہے۔
مرشد کوں او پوچھیا بات
دکھلا دیو مُج حق ذات​
دکن کے قدیم شاعر شاہ داول کا شعر دیکھئے۔
پوچھیا مرشید کوں یک سوال
گزریا اَج رات منجھ پر حال​
اس شعرمیں ’پوچھیا‘ کی جگہ اب ’پوچھا‘، ’مرشید‘ کی جگہ ’مرشد‘، ’کوں‘ کی بجائے ’کو‘، ’گذریا‘ کی بجائے ’گذرا‘ لکھا جاتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شاہ داول کی مثنوی کا یہ شعر بھی غور طلب ہے۔
اندلا اگر مجذوب ہے، صورت طبع ناخوب ہے
جیسا اچھو محبوب ہے پیو باج کوئی پیارا نہیں​
اس شعر میں ’اچھا‘ کے لیے ’اچھو‘ استعمال ہوا ہے۔ یہاں ’پیو‘ کا مطلب ’باپ‘ نہیں بلکہ شوہر ہے۔ آج یہ لفظ ہندی اور پنجابی میں بولا جاتا ہے، اس کی املا نہیں بدلی مگر اس کا مطلب بدل گیا ہے۔
اسی دور کے ایک شاعر کا یہ مصرعہ بھی توجہ کا طالب ہے۔
کہتے ہیں مجہ منجم اب تجہ خطر ہے جئوکا​
یہ ’مجھ‘ کے لیے تیسری املا ’مجہ‘ اور’تجھ‘ کو ’تجہ‘ لکھا گیا ہے۔
دکنی شاعر غلام قادر شاہ کی غزل کا ایک شعر۔
نہ جاگے روزِمحشر کے اُوسے پھر کیا جگانا ہے
پیا جن جام وحدت کا نہ راکھے خوف سلولی کا​
اس زمانے میں ’اُسے‘ کو ’اُوسے‘ اور ’رکھے‘ کو ’راکھے‘ لکھتے تھے۔ یہ اختلاف املاء ہی اختلاف قراء ت کی صورت ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہمارا موضوع اُردو زبان و ادب نہیں ہے ورنہ اس پر مفصل حوالہ جات پیش کیے جاسکتے تھے۔ جس طریقے سے دکن، دہلی اور لاہور کی اُردو میں شروع شروع میں اختلاف املا تھا، اسی طرح عرب کے قدیم معاشرے کے مختلف قبائل کی زبان میں بعض الفاظ کی املا اور صوت میں معمولی فرق ہوا کرتا تھا، اسی طرح ’اختلاف قراء ت‘ کی رعایت کی گئی۔ اگر آج کچھ لوگ اس سے قرآن مجید کے متن میں تحریف کا مطلب نکالتے ہیں، تو ایسے لوگوں کو اپنی عقل کا علاج کرانا چاہئے نہ کہ ان لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنانا چاہئے جو صحیح احادیث کی روشنی میں ’سبعہ احرف‘ پر تحقیقی کام کررہے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آخری گذارش
مفتی محمد طاہر مکی صاحب اگر واقعی عالم دین ہیں اور اِس مسئلے کے متعلق اُن کی پریشانی کا محرک ’انکار حدیث‘ کا جذبہ نہیں ہے، تو انہیں چاہئے تھا کہ فتویٰ بازی، خطوط نویسی اور منفی پراپیگنڈہ کی مہم برپا کرنے سے پہلے وہ ماہنامہ ’رشد‘ کے اَکابرین سے رابطہ کرتے اور اپنے ذہنی ابہام کے متعلق وضاحت طلب کرتے۔ اگر وہ مطمئن نہ ہوتے تو پھر اس کا طریقۂ یہی تھا کہ علمی دیانت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی معروضات کو بیان کردیتے۔
بات طویل ہوگئی ہے۔ اس مضمون کو تحریرکرنے کا مقصود یہی ہے کہ ماہنامہ ’رشد‘ میں اختلاف قراء ت پر مبنی مصاحف کی اشاعت کے اعلان کو بنیاد بنا کر مفتی محمد طاہر مکی اوربعض دیگر افراد کی طرف سے جو منفی پراپیگنڈہ کیا گیا ہے، اس کے پس پردہ مقاصد کا پردہ چاک کیا جائے اور اس علمی مسئلے کی حقیقت کواس کی اصل صورت میں بیان کردیا جائے تاکہ کسی کے ذہن میں خوامخواہ کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو۔ ہمیں یہ خوش اعتقادی تو نہیں ہے کہ مفتی محمد طاہر صاحب اپنے منفی پراپیگنڈہ کی مہم سے باز آکر کسی شرمندگی کا اظہار کریں گے لیکن ہمارا خیال ہے کہ انہیں یہ احساس ضرور ہو جائے گا کہ آج کی دنیا میں حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرنے سے رائے عامہ کو گمراہ نہیں کیا جاسکتا۔

وما علینا إلا البلاغ​
 
Top