• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اِنٹرویو قاری محمد اِبراہیم میر محمدی﷾

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِنٹرویو قاری محمد اِبراہیم میر محمدی﷾

انٹرویو پینل​
شیخ القراء قاری محمد ابراہیم میر محمدی؎ علم القراء ات کو نمایاں طور پر متعارف کروانے والی وہ نامور شخصیت ہیں کہ ان کی جہودِ طیبہ سے اب یہ علم پاکستان کے تمام حلقہ ہائے فکر میں بالعموم اور جماعت اہل حدیث میں بالخصوص زندہ ہوگیا ہے۔ آپ کلیۃ القرآن الکریم، مدینہ یونیورسٹی کے نمایاں فضلاء میں سے ہیں۔ کلیۃ القرآن الکریم، جامعہ لاہور الاسلامیہ کے بانی ومؤسس ہیں جن کے اخلاص اور محنت ِشاقہ کے نتیجہ میں جامعہ لاہور الاسلامیہ تجوید و قراء ات کے فروغ میں آج انتہائی اہم کردار اداکر رہا ہے۔ آپ کی زندگی ایک جہد ِمسلسل سے عبارت ہے۔ آپ ۱۹۹۲ء میں کلیۃ القرآن کے افتتاح کے بعد مسلسل درس وتدریس اور تصنیف وتالیف میں مشغول ہیں۔ مادِر ادارہ کلیۃ القرآن اور اس سے پھوٹنے والے دیگر تمام کلیات القرآن الکریم کے سینکڑوں فضلاء کی تمام تر عملی جدوجہد حقیقی معنوں میں حضرت شیخ ؎ کی مرہونِ منت ہے۔
آپکی شخصیت کے مذکورہ اوصاف کی نسبت سے رُشد قراء ات نمبر کی حالیہ اشاعت میں ہم آپکا انٹرویو شائع کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ کسی رسالے میں شائع ہونے والا آپ کا یہ پہلا انٹرویو ہے جو آ پکی شخصیت کی تمام جہتوں سے متعارف کرانے کے اعتبار سے انتہائی جامع ہے۔ انٹرویو پینل میں آپکے شاگرد قاری فہد اللہ مراد (فاضل کلیۃ القرآن، جامعہ لاہور اور بیٹے قاری عثمان مدنی (فاضل کلیۃ القرآن والتربیۃ الإسلامیۃ) شامل ہیں (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد: اپنا تفصیلی تعارف کرائیں؟
قاری صاحب: میرا نام محمد اِبراہیم بن حافظ محمد عبداللہ ہے، میر ی رجسٹرڈ تاریخ پیدائش یکم فروری ۱۹۶۰ء ضلع قصور کے معرو ف گاؤں میر محمدکی ہے۔ رجسٹرڈ کا اِضافہ اس لیے کیا ہے کہ میرے بڑے بھائی جناب مسعود اَحمد صاحب نے بعد اَزاں مجھے بتایا کہ میرے اَندازے کے مطابق آپ کی اصل تاریخ پیدائش ۱۹۵۸ء ہے۔ ہمارا گاؤں میر محمد اس اِعتبار سے ایک امتیازی حیثیت کا حامل ہے کہ ضلع قصور میں شاید سب سے پہلے کسی جگہ باقاعدہ مدرسہ کی بنیاد ڈالی گئی ہے تو وہ ہمارا گاؤں ہے۔
آج سے تقریباً ایک صدی قبل ۱۹۰۵ء ولی کامل حافظ محمد عظیم﷫ (حافظ محمد یحییٰ عزیز﷫کے والد ِگرامی ) نے اپنے مخلص ساتھیوں حاجی عبدالواحد، حاجی امام بخش المعروف خالد مجاہد، صوفی عبداللہ، مولوی نیک محمد ستوکی، حافظ عیسیٰ کوٹلی رائے ابو بکر، حاجی محمد یعقوب، حاجی حسن محمد (میرے دادا جان) اور دیگر مایہ ناز علماء کرام﷭ کے ہمراہ اس مدرسہ میں مسند تدریس کو رونق بخشی۔ ان میں قاری عزیر صاحب﷾ کے والد گرامی مولانا عبدالحق ، مولانا حافظ محمد بھٹوی اور مولانا عبدالرشید﷭ نے اس پورے علاقے کو فیض یاب کیا۔ ان کے نامور شاگردوں میں مولانا علی محمدسعیدی، مولانا محمدیوسف راؤ خانوالا، مولانا محمدشفیع گہلن ہٹھاڑ اور جماعت المجاہدین کی نشانی مولانا محمد دین مجاہد شامل تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد:اپنی اِبتدائی تعلیم کے متعلق بتائیں؟
قاری صاحب:میں نے اپنے دوسرے بھائیوں کی بہ نسبت قدرے تاخیر سے پڑھائی کا آغاز کیا۔ تقریباً چھ سال کی عمر میں، میں نے اپنی باقاعدہ تعلیم کا آغاز والد ِگرامی حافظ عبداللہ﷫ کے ہاں کیا۔ والد ِگرامی کا یہ معمول تھا کہ وہ ابتدائی قاعدہ، جو ان دنوں یسرنا القرآن ہوا کرتا تھا، خود پڑھاتے اور اس کے بعد ایک پارہ ناظرہ پڑھاتے، آپ اس قدر محنت سے پڑھایا کرتے تھے کہ اس کے بعد بچہ باآسانی ناظرہ قران کریم پڑھ جاتا تھا۔ بالکل اسی طرح مجھے بھی یسرنا القرآن اور تقریبا ایک پارہ والد ِمحترم نے پڑھایا اور باقی قرآن کریم ناظرہ میں نے اپنی والدہ محترمہ کو سنایا ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد: کیا آپ نے سکول کی تعلیم سے اِبتدا نہیں کی حالانکہ ہمارے ہاں عموماً پہلے سکول ہی سے اِبتداء ہوتی ہے؟
قاری صاحب: چند اَیام کیلئے سکول گیا تھا لیکن والد محترم نے سکول سے ہٹا کر حفظ پر لگا دیا۔ اس کی بھی ایک خاص وجہ تھی۔ ہوا یوں کہ والد ِمحترم نے بڑے دونوں بھائیوں محترم محمود اَحمد اور مسعود اَحمد کو سکول میں داخل کروایا، سکول پڑھنے کے ساتھ ساتھ وہ باقی وقت حفظ کیا کرتے تھے۔ پرائمری تک تو یوں ہی چلتا رہا اور انہوں نے تقریباً پانچ چھ پارے حفظ بھی کرلیے، لیکن پرائمری کے بعد ہائی سکول ہمارے گاؤں میں نہیں تھا لہٰذا انہیں پڑھنے کے لیے ہمارے گاؤں سے دور جانا پڑتا جس کی وجہ سے سکول کے ساتھ ساتھ حفظ کرنا خاصا مشکل کام ہوگیا تھا اس وجہ سے انہوں نے حفظ ترک کردیا اور سکول کی تعلیم جاری رکھی اور میٹرک کے بعد وہ سکول ٹیچر بھرتی ہوگئے۔ والد محترم کو اس کا بڑا دکھ تھا کہ وہ عالم دین نہیں بن سکے اس لیے اُنہوں نے مجھے چند ہی دنوں بعد سکول سے ہٹا لیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد:آپ نے حفظ کب شروع کیا اور آپ کے اُستاد کون تھے؟
قاری صاحب: میں نے ۱۹۶۷ء میں تقریبا آٹھ سال کی عمر میں اپنے ہی گاؤں میر محمد میں مدرسہ محمدیہ (المعروف کھجور والی مسجد) میں محترم قاری صدیق الحسن﷫ کے ہاں حفظ شروع کیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد: آپ نے قاری صدیق الحسن﷫ کو بطور اُستاد کیسا پایا؟
قاری صاحب: قاری صدیق الحسن﷫ ایک انتہائی مشفق اور بہترین منتظم اُستاد تھے۔ میں نے شعبہ حفظ میں ان جیسا اُستاد آج تک نہیں دیکھا۔ یہ میں نے اس لیے کہا ہے کہ ان میں چند خصوصیات ایسی تھیں جو ان کو سب سے ممتاز رکھتی ہیں۔
(١) مثلاً ہماری کلاس میں تقریبا ۶۰، ۷۰ طلباء تھے آپ ہر ایک طالب علم پر یکساں نظر رکھتے تھے اور انتہائی باریک بینی سے اس کی عادات اَطوار کا جائزہ لیتے اور مناسب محل پر اس کی اصلاح بھی فرماتے ۔
(٢) طلباء کے سبق ، سبقی اور منزل کا بہت اِہتمام کرتے مثلاً اگر کسی لڑکے نے صبح سبق یا سبقی نہیں سنایاتو دوپہر میں اس کی چھٹی بند کردیتے تاوقتیکہ وہ سبق یا سبقی یاد نہ کرلے ایسے ہی کوئی طالب علم منزل نہ سنا پاتا تو عصر کے بعد جب خود چہل قدمی کیلئے نکلتے تو اُسے بھی ساتھ لے لیتے۔ سیر بھی ہو رہی ہے اور ساتھ ساتھ اس کی منزل بھی سنی جارہی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) طلباء کی نگرانی اس قدر سختی سے کرتے تھے کہ خود کہیں چلے بھی جاتے تو کلاس اس طرح منہمک ہوکر پڑھتی جیسے خود تشریف فرما ہوں، اس کیلئے ان کا طریقہ کار یہ تھا کہ کسی کام کی غرض سے کہیں جانا ہوتا تو کہہ کر چلے جاتے کہ وہاں جارہا ہوں، لیکن اچانک پروگرام منسوخ کردیتے اور کلاس میں آکر بیٹھ جاتے۔ اس سے طلباء کا تاثر یہ ہوتا کہ قاری صاحب کسی بھی وقت آسکتے ہیں لہٰذا کھیل کود میںوقت ضائع نہیں کرنا۔
(٤) جب کسی طالب کو اس کی غلطی پر سزا دیتے تو فوراً اس کی مختلف طریقوں سے دلجوئی فرماتے، اس کی خدمت کرتے، کھلاتے پلاتے تاکہ اس کے دل میں اُستاد کے خلاف نفرت نہ پیدا ہونے پائے۔
(٥) اسی طرح جب کوئی طالب علم درمیان میں ہی پڑھائی چھوڑ کر چلا جاتا تو اسکے پیچھے گھر جاتے اس کو اور اس کے والدین کو سمجھاتے بجھاتے یہاں تک کہ وہ طالب علم خود اور اس کے والدین دوبارہ پڑھائی پر آمادہ ہوجاتے۔
(٦) طلباء کی منزلیں یاد کروانے کا بھی ان کا ایک نرالا اَنداز تھا، کہ حفاظ کو تہجد کے وقت اُٹھا لیتے اور مسجد کی چھت پر ان سے نوافل میں قرآن پڑھنے کا کہتے اور ساتھ ساتھ خود سماعت فرماتے۔ مجھے وہ دن یاد ہیں کہ جب طلباء رات کے پچھلے پہر اس خاموش فضاء کو تلاوتِ قرآن سے معطر کرتے تھے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٧) قاری صاحب﷫ بعض مواقع پرطلباء سے خوش طبعی بھی فرمایا کرتے تھے جس سے ماحول بوجھل نہیں ہوتا تھا۔
(٨) جن طلبا کو اللہ رب العزت نے خوش آوازی سے نواز رکھا تھا ان کیلئے خاص اِہتمام اس طرح کرتے کہ ان کو باقاعدہ مشق کرواتے غنہ وغیرہ پر نشان لگا کر دیتے اور ان سے باقاعدہ اِمامت کرواتے تاکہ جھجھک ختم ہو اور پڑھنے کا سلیقہ آئے، مجھے بھی دورانِ حفظ کئی مرتبہ نماز کروانے کا موقع دیا گیا۔
(٩) ان کی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ اپنے شاگردوں کو عزت و احترام سے نوازتے۔ ان کی اعلیٰ ظرفی کا ایک واقعہ ہے کہ جب عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کیلئے گئے تو میرے پاس تشریف لائے (میں اس وقت جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ میں پڑھ رہا تھا۔) میں نے عرض کیا حضرت میں آپ کے سر پر تیل لگا دیتا ہوں، تو فرمانے لگے: شرمندہ نہ کرو، میں نے جب بہت زیادہ اصرار کیا تو اجازت مرحمت فرما دی جب میں فارغ ہوا تو فرمانے لگے آؤ بھئی اب میں آ پ کے سر پرتیل لگاتا ہوں۔ رحمہ اﷲ رحمۃً واسعۃً
یقینا ہمارے سلف ایسی ہی صفات کے مالک تھے۔ اس پر قاری صاحب نے امام نافع﷫ اور ابن جماز﷫ کا واقعہ بھی سنایا۔ فرماتے ہیں۔ امام نافع﷫ اور امام ابن جماز﷫ دونوں امام ابوجعفر یزید بن قعقاع﷫ کے یہاں پڑھا کرتے تھے۔ بعد میں جب باری تعالیٰ نے امام نافع﷫ کو مدینہ منورہ میں مسند اِمامت پر فائز فرمایا تو امام ابن جماز﷫ نے بھی ان پر دوبارہ قراء ت کرنے کا ارادہ فرمایا تو جب امام ابن جماز﷫ ان سے پڑھنے ان کے حلقہ درس میں تشریف لاتے تو سیدنا نافع اپنی مسند سے اٹھتے اور آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرتے اور ان کو اپنے ساتھ اپنی مسند پر بٹھاتے۔
اس کے بعدقاری صاحب نے انتہائی تاسف سے فرمایا: کہ آج ہم اپنے اساتذہ خصوصاً حفظ کے اساتذہ میں طلبا کے بارے میں اس قدر خیرخواہی کا جذبہ نہیں پاتے ہمیں چاہئے کہ سبیل قرآن کے ان روشن میناروں کو اپنے لیے راہنما قرار دے کر ان کے نقش پا کی پیروی کریں تاکہ ہماری محنتیں بھی ثمر آور ثابت ہوں اور نورِ قرآن ہماری کوششوں سے گھر گھر میں روشنی بکھیرے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد: دوران حفظ کن اَحباب کی رفاقت آپ کو میسر رہی؟
قاری صاحب: میرے حفظ کے ساتھیوں میں سے حافظ محمد شریف صاحب مدیر مرکز التربیۃ الاسلامیہ فیصل آباد، مولانا حافظ عبدالغفار روپڑی مدیرجامع قدس لاہوراور قاری محمد صادق رحمانی صاحب کنگن پوری شامل ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد: آپ کی تکمیل حفظ کب ہوئی اور ان اَیام میں پڑھائی کے علاوہ آپ کن مشاغل کو پسند کرتے تھے؟
قاری صاحب: میں ۱۹۷۱ء میں منزل یاد کرکے حفظ سے فارغ ہوگیا تھا۔ باقی رہی پڑھائی کے علاوہ مشاغل کی بات تو میں گھر سے باہر مشاغل میں دیگر بچوں کی طرح شرکت نہیں کرتا تھا۔ فارغ اَوقات میں گھر کے اَندر ہی بعض مشاغل میں منہمک رہتا تھا اور والدین زبردستی مجھے گھر سے باہر جانے کو کہتے تھے، ان میں بعض اَوقات میں گڑیاؤں کے ساتھ بھی کھیلا کرتا تھا لیکن میرا سب سے زیادہ محبوب مشغلہ یہ تھا کہ کوئی بھی خوبصورت چیز دیکھی تو اس کا آرٹیفیشل نمونہ تیار کرنا جن میں جو چیزیں ابھی بھی مجھے یاد ہیں وہ یہ ہیں: ان دنوں گھروں میں بیڈوں کا رواج نہ تھا بلکہ ایک بڑی چارپائی کو ٹیک لگا کر شادی بیاہ کے موقع پر جہیز میں دیا جاتا تھا جسے پلنگ کا نام دیا جاتا تھاایسا ہی ایک پلنگ میرے دیکھنے میں آیا جس کی ٹیک میں بہت خوبصورت نقش و نگار تھے جن میں شیشہ کاری کی ہوئی تھی میں نے اُسے دیکھا تو اُس جیسا کانوں کا خوبصورت ٹیک والا پلنگ تیار کرلیا، ایسے ہی میں نے ایک مرتبہ مٹی کی مسجد بھی بنائی تھی، ایک مرتبہ تو یوں ہوا کہ ہمارے گاؤں میں ایک بہت خوبصورت گھر تعمیر ہوا تو میں نے اس جیسا مٹی کا گھر تیار کر دیا جسے بعد اَزاں گھر آکر انہی راج گیروں نے دیکھا اور بہت خوش ہوئے، بعض نے یہ بھی کہا کہ اس کی بنی ہوئی چیزوں کو صنعتی نمائش میں پیش کیا جائے تو کافی انعام کا حقدار ٹھہر سکتا ہے۔
 
Top