• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اِنٹرویو قاری محمد اِبراہیم میر محمدی﷾

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) آپ سے جب کبھی کوئی کتاب فوٹو کاپی کیلئے مانگتا تو آپ فرماتے میں محمد (مجھے محمد کے نام سے پکارتے تھے) کو کہوں گا کہ وہ آپ کو فوٹو کرا کے دے گاکیونکہ وہ کتاب کی بہت ہی حفاظت کیا کرتے تھے میں جب فوٹو کرانے کے بعد کتاب واپس کرتا تو کتاب کی جلد بنا کر پیش کرتا تو بہت خوش ہوتے اور دُعائیں دیتے۔
(٥) اسی طرح آپ نے جب کبھی اپنی کتاب پر پلاسٹک کورکرانا ہوتا یا کوئی کتاب جلد کرانی ہوتی تو مجھے حکم دیتے اس لیے میں نے آپ کی لائبریری کی جمیع کتب کو پلاسٹ کور چڑھا دیا تھا۔
(٦) ان کی اَہلیہ محترمہ بھی میرے ساتھ بہت شفقت کرتی تھیں جس روز بھی ان کے ہاں اچھا کھانا پکتا تو اماں جی شیخ سے خصوصی طور پرکہتیں ’قل لمحمّد یتعشّ عندنا‘ اور عام ایام میں شیخ فرمایا کرتے: ’تفضل بالموجود یا محمّد!‘
(٧) دوران پڑھائی اکثر یہ ہوتا کہ مہمانوں کی آمد ورفت کا سلسلہ جاری رہتا، بعض دفعہ تو مہمان اس قدر آتے کہ پڑھنے کا وقت بالکل میسر نہ آتا جس سے میں قدرے پریشان ہوجاتا تو آپ میری پریشانی کو بھانپ لیتے اور ازراہِ شفقت فرماتے: ’یا ابنی زعلان‘ بیٹے ناراض ہو رہے ہو۔‘‘
(٨) آپ کے اِنتقال کے بعد ’ إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون‘ گھر والوں نے مجھے ہی حکم دیا تھا کہ میں شیخ کی لائبریری کو پیک کروں آپ کے بیٹے ہشام نے مجھے کہا جو کتاب آپ لینا چاہتے ہیں وہ لے لو لیکن میں نے مناسب نہ سمجھا۔ البتہ شیخ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی زمانہ طالب علمی کی کاپیاں جو کہ تحریرات طیبہ میں تھیں جن کو بچوں نے ردی میں ہی پھینکنا تھا وہ میں نے قبول کرلیں۔ اور بھائی ہشام سے لکھوایا کہ یہ ہم بطور ہدیہ دے رہے ہیں اس وجہ سے کہ کسی وقت کوئی دیکھ کریہ نہ کہے کہ یہ اس نے شیخ کی لائبریری سے چرائی ہیں۔ مجھے بڑا ہی صدمہ ہے کہ آپ ’الدرہ‘ کی بڑی ہی قیمتی شرح لکھ رہے تھے کاش کہ اس کی فوٹو کرا لیتا ، کیونکہ ابھی تک سننے میں نہیں آیا کہ کتاب چھپ گئی ہے ۔ چونکہ میرا شیخ کے ساتھ بڑا ہی گہرا اور طویل عرصہ گزرا ہے اور بہت سی باتیں کرنے کو دل چاہ رہا ہے لیکن طوالت سے بچتے ہوئے اسی پر اکتفا کرتاہوں۔ اللہ تعالیٰ شیخ کی قبر منور فرمائے اور قیامت کے روزجنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ اور ہمارا لکھنا پڑھنا ان کیلئے صدقہ جاریہ فرمائے اوران کی انسانی لغزشوں سے در گذر فرمائے۔ آمین!
ملحوظہ! سوال میں صرف شیخ مرصفیa کے ساتھ تعلقات کی نوعیت پوچھی گئی تھی ورنہ میرا تعلق جمیع اَساتذہ سے بہت اچھا رہا جن میں سے دکتور محمود سیبویہ البدوی (جو کہ کلیہ کی بحث میں میرے مشرف تھے)، دکتور محمد سالم محیسن (جو کہ ایم - فل کے مقالہ میں میرے مشرف تھے) اور اسی طرح الشیخ عبدالرافع رضوان اور الشیخ محمود جادو المصری شامل ہیںیہ سب حضرات اپنے فن میں بڑے ہی متمکن تھے۔اورہر ایک مجھے بڑی شفقت کی نگاہ سے دیکھتے تھے کیونکہ میںہرایک کی خدمت کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا اور خرید وفروخت کیلئے بھی جاتا رہتا اور اس وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھتے کہ میں نے کلیۃ القرآن کے علاوہ شیخ مرصفی صاحب سے خصوصی اجازہ حاصل کی ہے اور ہر ایک کے ساتھ بڑی دیر تک إِذاعۃ القرآن کیلئے قراء تِ سبعہ کی ریکارڈنگ کراتا رہا ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد: کلیۃ میں آپ کی تعلیمی رپورٹ کیسی رہی؟
قاری صاحب: کلیۃ میں میری تعلیمی رپورٹ الحمد ﷲ مناسب رہی ہے۔ پہلے سال میں نے ۹۱فیصد، دوسرے سال ۸۹فیصد، تیسرے سال اور چوتھے سال میں ۸۴ فیصد نمبر حاصل کئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد: آپ کی تعلیمی رپورٹ بہت زیادہ اعلیٰ نہیں لیکن پھر بھی آپ کا ماجستیر میں داخلہ ہوگیا اس کا سبب کیا ہے؟
قاری صاحب: یقینا جامعہ اِسلامیہ میں ماجستیر میں داخلہ ہونا ایک بہت بڑی خوش قسمتی ہے اور مجھے اپنی کم مائیگی کا پورا اِحساس ہے اور میں ماجستیر میں داخلہ کو اپنی ذہانت و فطانت کا قطعاً شاہکار نہیں سمجھتا بلکہ یہ صرف اور صرف قرآن کی برکت ہے۔ جن دنوں میری کلیۃ سے فراغت ہوئی میں إذاعۃ القرآن میں ریکارڈنگ کرا رہا تھا۔ عمید الکلیۃ دکتور ابو مجاہد عبدالعزیز القاری یہ ارادہ رکھتے تھے کہ قرآن کریم کی ریکارڈنگ کسی نہ کسی طرح پوری ہوجائے جس قدر میں دراسات علیا میں داخلہ کا متمنی تھا اس سے بڑھ کر شیخ اس کے خواہاں تھے لہٰذا انہوں نے ماجستیر کی حد تک داخلہ میں خوب محنت کی اس کے علاوہ بھی دیگر جامعات کے عمائدین اور مدیران کے نام مجھے خصوصی تزکیے لکھ دیئے تاکہ میں اگر کسی وجہ سے مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ حاصل نہ کرپاؤں تو سعودیہ کی کسی بھی یونیورسٹی میں موقعہ حاصل کرسکوں۔
بہرحال ماجستیر کے انٹرویو کا لیٹر موصول ہوگیا۔ جب میں مجلس المقابلہ کے سامنے پیش ہوا تو وہاں اکابر علما سعودی عرب تشریف فرما تھے، جن میں محدث کبیر شیخ حماد الانصاری، فضیلۃ الشیخ عبدالمحسن العباد، فضیلۃ الدکتور عبدالعزیز القاری، شیخ امان اوردیگر آٹھ دس شیوخ موجود تھے۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ سب سے پہلے سوال کون کرے ہر شیخ دوسرے سے کہہ رہے تھے۔ آخر کار مجھ سے پوچھا گیا کہ پاکستان میں آپ کا کس جامعہ سے تعلق ہے؟ میں نے جامعہ سلفیہ کا ذکر کیا تو تمام شیوخ کی نظریں شیخ عبدالمحسن العباد کی طرف اُٹھیں،کیونکہ ان کا جامعہ سلفیہ سے ایک خاص تعلق تھا بہرحال شیخ نے پہلا سوال میری اکیڈمک رپورٹ کے بارے میں کیا۔ میں نے بتایا پہلے سال تو ممتاز رہا ہوں، لیکن باقی تین سال جید جداً آتا رہا ہوں اس پر شیخ نے سوال کیا کہ اس کا سبب کیا ہے؟ تو میرے بجائے دکتور عبدالعزیز القاری﷾ نے جواب دیا کہ انہیں دوسرے سال میں پڑھائی کے علاوہ قراء اتِ عشرہ کی ریکارڈنگ کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی جس سے تعلیمی رپورٹ پر اثر پڑا۔ اس کے بعد شیخ حماد الانصاری نے سوال کیا کہ سورۃ الفاتحہ سے توحید کی اَقسام ثلاثہ کے دلائل نکالیں۔ اس کے بعد کئی دیگر سوالات کے علاوہ قراء اتِ شاذہ کے متعلق بھی سوال ہوا جس پر پھر دوبارہ دکتور عبدالعزیزالقاری نے بحث میں حصہ لیا، انٹرویو کے بعد مجھے کامیابی کی خبر سنائی گئی جس سے میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد: ماجستیر میں کن شیوخ سے استفادہ کی سعادت ملی؟
قاری صاحب: ماجسیتر میں ہمیں شیخ ابوبکر الجزائری ’تفسیر موضوعی‘، دکتور عبدالعزیز عثمان سوڈانی’تفسیر تحلیلی‘، دکتور عبدالعزیز القاری ’علوم القرآن‘ اور شیخ دکتور اکرم ضیاء العمری ’مناہج البحث‘ پڑھایا کرتے تھے۔
رُشد: طلباء عموماً خطۃ البحث کے مسئلہ میں کافی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں کیا آپ کو بھی ان مراحل سے گزرنا پڑا؟
قاری صاحب: یہ مرحلہ واقعی بہت کٹھن ہوتا کہ طلباء انتہائی محنت سے ایک خطہ تیار کرتے، جبکہ مجلس اُسے رد کردیتی اور کئی کئی مرتبہ خطۃ البحث تیار کرنا پڑتا۔ بہر حال اپنے موضوع کے متعلق کتب کی ورق گردانی اور اہل فن کی طرف مراجعت اورمکتبات اور رسائل کے اِستفادہ سے مشکلات حل ہو جاتی ہیں۔اگر طالب علم کیلئے ابتداء ہی سے کسی وسیع المطالعہ کو متعین کردیا جائے تو اس میں طالب علم کیلئے بہت آسانی ہوسکتی ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد: آپ نے بحث کیلئے کس طرح کے موضوع کاانتخاب کیا؟
قاری صاحب: یقیناً ماجسیتر اور دکتوراہ کی سطح پر کوئی تحقیقی یاموضوعاتی بحث کا انتخاب کرنا پڑتاہے۔ میرا اس سلسلہ میں موضوعی کے بجائے تحقیقی کام کرنے کا ارادہ تھا جو کہ عموماً مخطوطات پر ہی ہوتاہے جس کے لیے میں نے علامہ جعبري کی کتاب ’خلاصۃ الأبحاث فی شرح نہج القراء ات الثلاث‘ اَساتذہ کے مشورے سے منتخب کی جو کہ مجلس الجامعہ نے منظور کرلیا اور اِشراف کی ذمہ داری دکتور محمد سالم محیسن کے سپرد کی گئی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد: بحث کے دوران آپ کو کیا مشکلات پیش آئیں اور کن شیوخ کی معاونت رہی؟
قاری صاحب: دوران بحث قراء ات کے مشکل مسائل میں حضرت شیخ مرصفی سے رہنمائی لیتا اور کتاب چونکہ لغوی اعتبار سے کافی مشکل تھی اس کے لیے دکتور محمود سیبویہ کی مشفقانہ راہنمائی بھی شامل حال رہی۔
اس کے علاوہ جو مجھے سب سے بڑی مشکل پیش آئی وہ یہ تھی کہ دراسۃ المؤلف کا مسئلہ حل نہیں ہورہا تھا، کیونکہ علامہ جعبری کے حالات پر ایک یمنی طالب علم دستوراہ کی سطح پر تفصیلی دراستہ پیش کرچکا تھا۔ اب مشکل یہ تھی کہ اگر اسی ترتیب پر انہی معلومات کو جمع کردیا جاتا تو یہ واضح سرقہ تھا، اگرچہ میں معلومات تو اس کے علاوہ بھی کافی اکٹھی کرچکا تھا لیکن کوئی ترتیب نہیں سوجھ رہی تھی۔ میں نے بارگاہ ایزدی میں التجا کی کہ کوئی سبیل نکالے اللہ رب العزت نے دعا قبول فرمائی اور اس موقع پر مجھے آیت ’’ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوْئَ٭ ‘‘ (النمل:۶۲) کا حقیقی مفہوم سمجھ میں آیا۔
ہوا یوں کہ میری نظر سے ابن حجر کی کتاب تغلیق التعلیق گزری اس کی ترتیب مجھے بہت پسند آئی میں نے اسی اسلوب پر اپنی جمع کردہ معلومات کو مرتب کردیا اللہ کی توفیق سے اس قدر اعلیٰ دراسہ مرتب ہوگیاکہ میرے مشرف دکتور محمد سالم محیسن ﷫نے تعجب کے اَنداز میں مجھے کہاکہ کیا یہ آپ نے ہی لکھا ہے ؟ اور فرمایا کہ اس کی ایک کاپی مجھے بھی دینا۔بہرحال بتوفیق الٰہی بحث تیار ہوگئی اور بحمداﷲ درجہ ممتاز میں ماجسیتر پاس کیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد: ہماری اطلاعات کے مطابق ماجسیتر میں جو شخص ممتاز نمبروں سے پاس ہو اس کا داخلہ خود بخود ہی دکتورہ میں ہوجاتا ہے آپ کا کیوں نہیں ہوا؟
قاری صاحب: جامعہ کا واقعی یہ قانون تھا کہ جو بھی طالب علم ماجسیتر میں ممتاز ہوگا اُسے پی ایچ ڈی میں داخلہ ملے گا لیکن میرے ساتھ ایک حادثہ ہوگیا جس کی وجہ سے میرا داخلہ نہ ہوسکا۔ ہوا یوں کہ میرا امتحان لینے والوں میں سے داخلی مناقش شیخ مرصفی﷫ بھی تھے ، مناقشہ سے چند روز قبل ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ یہ ذی القعدہ ۱۴۰۹ھ کی بات ہے جس سے میرا مناقشہ گیارہ ماہ لیٹ ہوگیا اور آئندہ سال شوال میں ہوا۔ اس دوران ایک تو ہمارا کام بھی آگے نکل چکا تھا دوسرا یہ ہوا کہ ایک سال لیٹ ہونے کی وجہ سے ادارتی پیچیدگیاں پیدا ہوگئیں جس کی وجہ سے داخلہ نہ ہو سکا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد: آپ نے القراء ات العشر الکبریٰ کب پڑھی تھیں اور کیا آپ نے اس میں اجازت حاصل کی ؟
قاری صاحب: مناقشہ کے بعد جن دنوں میں پی ایچ ڈی کے داخلہ کیلئے کوشش کررہا تھا انہی دنوں شیخ عبد الرازق﷫ سے عشرہ کبری (طیبہ) بھی شروع کردی۔ جب مجھے یہ حتمی پتہ چل گیا کہ یہاں داخلہ نہیں ہونے والا تومجھے دکتوراہ کے بجائے ’طیبہ‘ کی فکر زیادہ لاحق ہوئی لیکن جامعہ ہر دم یہی تقاضا کررہا تھا کہ میں سفر کر جاؤں لہٰذا میں عمید المکتبات (الدکتور عبدالرحمن بن الشیخ عبدالعزیز امام وخطیب مسجد نبوی)کے پاس گیا۔ انہوں نے کوشش کی اور ساتھ دکتور عبدالرازق﷫ نے بھی ایک درخواست لکھی، لیکن مدیر الجامعہ جو کہ پہلے اِنکار کرچکے تھے میرے سفر پر ہی مصر رہے۔ آخر کار میں عمید المکتبات کی وساطت سے ’مدیر استقدام والترحیل‘ (جو سفر کے لیے بندوبست کرتے ہیں) کے پاس گیا۔ انہیں جب یہ پتہ چلا کہ میں پڑھنا چاہتا ہوں اور مخلص بھی ہو ں تو انہوں نے مجھے سات ماہ کی رخصت دے دی، اور میں نے سورۃ الانعام کے آخر تک اجراء جمع الجمع کے ساتھ پڑھ لیا۔ اب مدیر استقدام الترحیل بھی مجھے مزید رُخصت نہیں دے سکتے تھے، لہٰذا پھر مدیر کو مشیر گورنر مدینہ کی سفارش کروائی لیکن وہ نہ مانا، البتہ کئی اورجہات سے تدریس کیلئے پیشکش پیش کی گئی۔ جامعہ والے مجھے ’برونائی‘ میں بھیجناچاہتے تھے۔ جامعہ ام القری مکہ مکرمہ میں رئیس قسم القرا ء ات کی پیشکش تھی اورمدینہ کے قریب ’بدر‘ کے مقام پرایک مدیر المدرسہ نے کہا کہ ہمارے پاس آ جاؤ او ر ہم خود ہی نقل کفالہ کروالیں گے، لیکن یہ مجھے منظور نہ تھا، کیونکہ میں پاکستان کام کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے میں وہاں مزید نہ رکا اور ’طیبہ‘ مکمل کیے بغیر واپس لوٹنا پڑا،لیکن الشیخ عبدالرازق﷫ نے قراء اتِ عشرہ کبریٰ کا وثیقہ عطا کردیا اوربڑے ہی قیمتی اَلفاظ اس میں تحریر فرما دیئے، جس کا میں اپنے آپ کو اہل نہیں سمجھتا۔ فرماتے ہیں:
’’ونسأل اللّٰہ عزوجل أن یجمعنا بہ علی خیر لیتم ھذہ الختمۃ المبارکۃ أو یرزقہ اﷲُ بمن یقرأ علیہ القرآن الکریم کلَّہ من طریق الطیبۃ‘‘۔
ثم قال : ’’وقد تبین لي من حال الشیخ المذکور أثناء قراء تہ أنہ بلغ فی معرفۃ طرق القراء وتحریرات المحرّرین ما یبشر بأنہ سیکون ــ إن شاء اﷲ تعالیٰ ــ من القراء المشھود لھم بالإتقان فی ھذا الفن، لذا، أدعو اللّٰہ عزّ وجلّ لہ أن یوفقہ لإتمام ھذہ القراء ات وأن ییسر لہ أمرہ‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
استادِ محترم کی دُعا کا اثر اَب ظاہر ہوا، جس کی مدتِ مدید سے تمنا تھی۔ ویسے تو کلِّیۃ القرآن جامعہ لاہور الاسلامیہ میں کئی مرتبہ قراء ا تِ عشرہ کبریٰ پڑھانا شروع کیں، لیکن یہ سلسلہ پوری طرح قائم نہ ہو سکا۔ اب عرصہ ایک سال سے بتوفیق اللہ قراء اتِ عشرہ کبریٰ کا اہتمام باقاعدہ طور پر شروع ہوچکاہے۔ کلیۃ القرآن والتربیۃ الإسلامیۃ میں ۱۳؍ طلباء پر مشتمل ایک جماعت ایک پارے کا اجراء جمع الجمع بمع تحریرات متولّی پڑھ چکی ہے اورکلیہ القرآن جامعہ لاہور سے میرے قابل قدر شاگردوں میں سے قاری انس مدنی اور قاری حمزہ مدنی اپنے ہونہار شاگردوں کی معیت میں ہر جمعرات کو مرکز میں آکر قراء اتِ عشرہ کبریٰ پڑھتے ہیں اور تین پارے جمع الجمع کے ساتھ مکمل کر چکے ہیں۔ اسی طرح میرے نہایت ہی قابل قدر شاگرد قاری ریاض احمد جو اس وقت جامعہ سلفیہ میں کلیّۃ القرآن کی باگ ڈورسنبھالے ہوئے ہیں، وہ وقتاً فوقتاً آتے رہتے ہیں اور کبھی فون کے ذریعے پڑھ لیتے ہیں۔ ایک پارہ انہوں نے بھی مکمل کر لیا ہے۔ اسی طرح میری دوبیٹیاں اور ایک نسبتی بیٹا سید علی القاری قراء اتِ عشرہ کبریٰ کے آغاز میں ہیں۔
اوپر جو تفصیل ذکر کی گئی ہے وہ تو مجھ سے براہ راست پڑھنے والوں سے متعلق ہے، البتہ میری معنوی اولاد نے اس سلسلہ کو بذاتِ خود آگے بڑھانے کا سلسلہ بھی مستقلاً شروع کر رکھا ہے۔ قاری انس مدنی اور قاری حمزہ مدنی، جنہوں نے قبل ازیں مجھ سے عشرہ صغریٰ کی اجازت حاصل کر رکھی ہے اور اب محترم قاری محمد ادریسd اور مجھ سے عشرہ کبریٰ پڑھ رہے ہیں، انہوں نے گذشتہ رمضان کے بعد اپنے دو اداروں میں تدریس عشرہ کبریٰ کا آغاز کر رکھا ہے، چنانچہ جامعہ لاہور الاسلامیہ ( رحمانیہ) میں دونوں عزیز القدر شاگرد ادارۃ الاصلاح کی طرح تدریس عشرہ کبریٰ میں مشغول ہیں اور الحمد للہ اب تک ۲۰ طلباء پر مشتمل ایک کلاس میں طیبۃ النشرکے اُصول مکمل پڑھا چکے ہیں اور جمع الجمع کے ساتھ ایک پارہ عملاً تطبیق کے ساتھ پورا کرچکے ہیں، نیز تحریراتِ طیبہ کے ضمن میں الشیخ احمد عبد العزیز الزیات کی تنقیح فتح الکریم شرح وتوضیح کے ساتھ تقریباً ابتدائی ربع مکمل کرچکے ہیں۔ اسی طرح جامعہ لاہور الاسلامیہ کی نئی شاخ مدرسہ البیت العتیق میں قاری حمزہ مدنی نے بعض اساتذہ وطلبہ پر مشتمل ایک کلاس میں عشرہ کبریٰ کی تدریس کا آغاز کر رکھا ہے۔ اللہ تعالی سے دُعا ہے کہ اللہ تعالی تینوں اداروں میں اس سلسلہ کو یوں آگے بڑھائے کہ طلبہ تکمیل عشرہ کبریٰ کے ساتھ ساتھ اس سلسلہ کو دیگر مدارس میں بھی شروع کریں۔ واللہ ولی التوفیق
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد: ہم نے سنا ہے آپ نے مجمع ملک فہد میں کوئی ریکارڈنگ کروائی ہے، اس کی کیا تفصیلات ہیں؟
قاری صاحب: یہ ۱۴۰۸ھ کی بات ہے کہ ایک صبح میرا دروازہ کھٹکا میں نے دروازہ کھولا تو دروازے پر شیخ عبدالرحمن حذیفی (امام وخطیب مسجد نبوی)﷾ کو پایابہت حیرت ہوئی کہ شیخ صاحب کیسے تشریف لائے ہیں فرمانے لگے کل مجمع آؤ وہاں روایت ورش میں آپ کی ریکارڈنگ کرانی ہے اگلے روز میں وہاں گیا تو وہاں شیوخ کی موجودگی میں میرا ٹیسٹ لیا گیا، ٹیسٹ کے بعد انہوں نے وزارت کو فائل روانہ کردی کہ آئندہ رِوایت ورش کی ریکارڈنگ الشیخ محمد ابراہیم باکستانی کرائیں گے۔
 
Top