• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اِنٹرویو قاری محمد اِبراہیم میر محمدی﷾

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد: مجمع میں ریکارڈنگ کا طریقہ کار کیا تھا؟
قاری صاحب: یہاں ریکارڈنگ کروانا ایک مشکل اور خاصی ہمت والا کام تھا اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ورش کیلئے خاصے طویل سانس کی ضرورت تھی۔ اور جو سب سے بڑا مسئلہ تھا وہ یہ کہ دنیا کے کبار قراء کے سامنے پڑھنا ہوتا تھا جن میں(١) الشیخ العلامۃ احمد بن عبدالعزیز الزیات اعلیٰ القراء سنداً فی مصر، (٢) فضیلۃ الشیخ عامر بن السید بن عثمان عالم المصری مبرز في علم التجوید والقراء ات جن کے شاگردوں میں شیخ محمد خلیل الحصری، شیخ مصطفی اسماعیل، شیخ عبدالباسط عبدالصمد شامل ہیں (٣) الدکتور محمود بن سیبویہ البدوی المصری رئیس قسم القراء ات بکلیۃ القرآن، (٤) فضیلۃ الشیخ عبدالفتاح بن السید العجمی المرصفی، (٥) فضیلۃ الدکتور الشیخ محمود بن عبدالخالق جادو المصری،(٦) فضیلۃ الشیخ علی بن عبدالرحمن الحذیفی، شامل تھے۔ جمیع شیوخ اَداء میں ہر ایک شے کا پورا اہتمام کرتے اور کسی بھی چیز کو نظر اَنداز نہیں کیا جاتا تھا۔ بہرحال الحمدﷲ ساڑھے چارپارے ریکارڈ کروائے جس کا مجھے بہت زیادہ فائدہ ہوا۔ اس سے آگے کچھ ادارتی پیچیدگیوں کی وجہ سے مزید ریکارڈنگ نہیں ہو سکی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد: آپ نے پی ایچ ڈی کیلئے دیگر یونیورسٹیوں میں درخواستیں کیوں نہ دیں؟
قاری صاحب: میں نے دوسری یونیورسٹیوں میں بھی کاغذات جمع کروائے اور دکتور عبدالعزیز قاری نے باقاعدہ سفارشی لیٹر مدیر جامعہ اُم القریٰ کولکھا ، دکتور سیبویہ نے اور اسی طرح بعض اکابر شیوخ نے بہت اعلیٰ تزکیے لکھ کر دیئے لیکن داخلہ نہ ہوسکا۔
رُشد: آپ نے تدریس کیلئے جامعہ لاہور الاسلامیہ ہی کو کیوں منتخب کیا؟
قاری صاحب: میرے تدریس کے مواقع جامعہ ابی بکر کراچی، جامعہ اِسلامیہ العالمیہ اسلام آباد اور جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں زیادہ تھے اورسعودیہ کی طرف سے مبعوث ہونے کے اِمکانات تھے۔ لیکن میری خواہش یہ تھی کہ میں اپنے گاؤں کے قریب پڑھاؤں تاکہ اپنے عزیز و اَقرباء کو بھی دینی تعلیم سے روشناس کرواؤں اور دوسری میری یہ بھی خواہش رہی ہے کہ جہاں حضرت حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب پڑھائیں گے وہیں میں پڑھاؤں گا۔ ان دو اسباب کی وجہ سے میں نے جامعہ لاہور کو ترجیح دی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد : اِدارے نے آپ سے کس طرح رابطہ کیا تھا؟
قاری صاحب: محترم حافظ عبدالرحمن مدنی﷾ سے جب بھی مدینہ منورہ ملاقات ہوتی تو بعد اَز فراغت جامعہ میں آنے کا کہتے اور جن دنوں میرا وہاں سے آنے کا پروگرام تھا۔ خود مدنی صاحب نے مجھے بذریعہ خط آنے کی دوبارہ دعوت دی اور کہا کہ آپکے بارے میں وِزارۃُ الاوقاف سے بھی بات کرچکے ہیں آپ دکتور حکمی سے مل لیں۔ اَلبتہ مجھے دکتور حکمی سے ملنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا،اس کے باوجود میں ۱۹۹۰ء میں جامعہ لاہور الاسلامیہ میں آگیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد : کیا یہاں آتے ہی آپ نے باقاعدہ کلیۃ کا آغاز کردیا تھا؟
قاری صاحب: جب میں یہاں آیا تو جامعہ میں صرف کلیّۃ الشریعہ ہی تھا میں مختلف کلاسز میں تجوید کے اَسباق پڑھاتا تھا ایک سال تک یہی سلسلہ رہا۔ سال کے آخر میں حضرت قاری یحییٰ صاحب نے بغرضِ امتحان مجھے ساہیوال بلایا اور پوچھا کہ کیا کلیّۃ القرآن کے سلسلہ میں کوئی پیش رفت ہوئی۔ میں نے نفی میں جواب دیا تو انہوں نے باقاعدہ خط کے ذریعہ توجہ دلائی۔ جس پر رمضان کے شروع میں ہی مجلس الجامعہ کا پہلا اجلاس ہوا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد: پہلی میٹنگ میں کیاطے کیا گیا؟
قاری صاحب: اس میں یہ طے ہوا کہ کلیۃ کو باقاعدہ جاری کرنے کیلئے کن کن حضرات سے مشاورت کی ضرورت ہے تاکہ باقاعدہ نصاب ترتیب دے کر کلیۃ القرآن کا آغاز ہوسکے۔ لہٰذا یہ طے پایا کہ بنیادی مشاورت میں، حافظ محمد یحییٰ میر محمدی﷫، حافظ ثناء اللہ مدنی﷾، مولانا عبدالسلام فتح پوری﷾ ، قاری محمد اسلم صاحب﷫، قاری محمد یحییٰ رسولنگری﷾، قاری محمد اِدریس العاصم﷾، مولانا قاری محمد عزیر﷾، مولانا عبدالستار حماد﷾، مولانا عبدالغفار اَعوان﷾، اور مولانا قاری نعیم الحق نعیم کوبلایا جائے اور ان کے علاوہ میٹنگز میں جامعہ کے کبار اَساتذہ مولانا شفیق مدنی﷾، مولانا عبدالسلام فتح پوری﷾ ،قاری عبدالحلیم﷾، مولانا محمد رمضان سلفی﷾، مولانا طاہر محمود﷾ اور مولانا عبدالقوی لقمان﷾ شامل تھے۔
ملحوظہ! میں نے ذاتی طور پر بھی محترم مدیر الجامعہ کو خصوصی طور پر جماعت کے چار اکابر قراء اور فن تجوید و قراء ات کے ماہرین کا نام پیش کیاتھاتاکہ ہر ایک کلیۃ القرآن کو اپنا ذاتی اِدارہ سمجھ کراسکی ترقی کیلئے دعائیں فرماتے رہیں اور سب کے طلباء اِتحاد کے ساتھ علوم قرآن کے مشن کو آگے بڑھا سکیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد:ان مجالس کے ذریعے آپ کوئی لائحہ عمل طے کرنا چاہ رہے تھے یا کلیۃ کا خاکہ پہلے ہی آپ کے ذہن میں موجود تھا؟
قاری صاحب: الحمدﷲ میرے ذہن میں کلیۃ القرآن کا خاکہ پہلے ہی موجود تھا، کیونکہ میں مدینہ یونیورسٹی میں پڑھ کر آیا تھا اس لیے میں تو بالکل واضح تھا البتہ مجالس کا یہ مقصد تھا کہ درس نظامی کے مروّجہ نصاب میں کس کس جگہ تبدیلی کرکے قراء ات و علوم القرآن کا نصاب شامل کیا جاسکتاہے۔ کون سی ایسی کتب یا علوم ہیں جن کے نکالنے سے طالب علم کا کوئی زیادہ نقصان بھی نہیں ہوگا اور ہمارا مقصود بھی حاصل ہوجائے اور وہ اَساتذہ جو قراء ات کی باقاعدہ تعلیم دے رہے تھے وہ یہ بتائیں کہ یہ کام ممکن بھی ہے یا نہیں۔ بہرحال جمیع علماء کرام نے اپنی قیمتی آراء سے نوازا۔ مثلاً قاری یحییٰ صاحب کا کہنا تھا کہ یہ کام شروع کرنابہت مشکل اَمر ہے کیونکہ تجوید کا ذوق رکھنے والے طلباء اتنا بوجھ برداشت نہیں کریں گے اور قاری اِدریس صاحب نے فرمایا کہ شروع تو کیا جاسکتا ہے لیکن جو اَساتذہ قراء ات اور علوم قرآن کے اَسباق پڑھائیں وہی درس نظامی کے دیگر اسباق پڑھائیں تاکہ طلبہ میں کسی قسم کی ذہنی کشمکش شروع نہ ہونے پائے۔
بہرحال ان مجالس میں یہ طے پاگیا کہ کن کتب کو چھوڑ کر نئی کتب داخل کی جائیں بالفاظ دیگروفاق المدارس کے نصاب میں کچھ ترامیم کرکے علوم قرآن مثل تجوید وقراء تِ سبعہ وعشرہ اضافہ کرکے کلیۃ القرآن کا نصاب طے پاگیا اور الحمدﷲ ہم نے نئے سال میں کلیۃ القران کا باقاعدہ آغاز کردیا۔جس کا فارغ التحصیل مستند عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر قاری بھی ہوتا ہے اور اب بحمد اللہ یہ کلیہ ایک ’جامع علمی تحریک ‘شکل اختیار کر چکا ہے اور عام وخاص میں اس کے فضلا کو پذیرائی ملی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مستشرقین اور ان کے فکر کے حاملین کے نام نہاد ’اِصلاحی فکر ‘کے پھیلائے ہوئے غلط نظریات کی بیخ کنی بھی ہو رہی ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد: کلیۃ القرآن کے قیام کا مقصد کیا تھا؟
قاری صاحب: اگر کلیۃ القرآن کا مقصد آپ چند الفاظ میں سننا چاہ رہے ہیں تو وہ یہ ہے :
(١) عالم غیر قاری اور قاری غیر عالم کا تصور ختم کرنا۔
(٢) عوام اور علماء میں یہ شعور بیدار کرناکہ تجوید القرآن سیکھنا کوئی فن نہیں بلکہ قرآن مجید کی تلاوت نماز کا اَہم رکن ہے، اس کی مجرد تلاوت بھی عبادت ہے او رہر عبادت کے لیے اصول وضوابط اور مخصوص کیفیات ہوتی ہیں جن کو بجا لانے سے ہی عبادت قبول ہوتی ہے ۔
(٣) قرآن ٹھیک پڑھنا یہ کسی خاص طبقہ کا امتیاز نہیں بلکہ ہر مسلمان پر شرعی طور پر واجب ہے اور علماء کیلئے تو نہایت ہی ضروری ہے۔
(٤) تجوید وقراء ت پر ادھر اُدھر سے جو اعتراض کیے جاتے ہیں کلیۃ کے فضلا ان کا شافی جواب دے سکیں۔
(٥) کلیہ کے فضلا ایسے لوگوں کو راہ راست پر لانے کیلئے پیش خیمہ ہوں جو مستشرقین کے غلط نظریات کے زیر اثر احادیث سے بدظنی کے باعث تنوع قراء ت کے ’معجزۂ قرآنی‘کے منکر ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رُشد: کیا آپ سمجھتے تھے کہ درسِ نظامی کے ساتھ یہ کام ممکن ہے؟
قاری صاحب: یقینا میں متعین طور پر یہ سمجھتا تھا کہ درس نظامی میں ایسی وسعتیں موجود ہیں کہ جس میں یہ ایڈجسٹ ہوسکتا ہے لیکن اگر کچھ کمی رہ بھی جاتی ہے تو بے شمار فوائدکے حصول کی خاطر اس کمی کوبرداشت کیا جاسکتا ہے۔
رُشد: کلیۃ القرآن کے قیام میں آپ کو کیا مشکلات پیش آئیں؟
قاری صاحب: کلیۃ کے قیام میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑھا جنہیں ترتیب سے ذکر کرتا ہوں:
(١) پہلی مشکل یہ پیش آئی کہ کلیۃ القرآن پاکستان کی سطح پر ایک بالکل نیا سیٹ اَپ تھا۔ اس لیے طلباء اس میں داخلے سے کتراتے تھے اور ویسے بھی درسِ نظامی کے ساتھ قراء ات کا پورا سلیبس انہیں سنتے ہی غیر معمولی محسوس ہوتا تھا۔ دوسرا یہ کہ شعبہ تجوید و قراء ات میں عموماً ایسے طلبا داخلہ لیتے تھے جن کی آوازیں اچھی ہوں اور جن کو اللہ نے یہ خوبی عطا نہیں کی وہ اسے پڑھنا وقت کا ضیاع سمجھتے تھے۔ اس لیے شروع میں طلبا ہی مہیا نہیں ہو رہے تھے جامعہ میں داخلہ کیلئے جب بھی کوئی حافظ طالب ِعلم آتا تو میں طالب علم اور اس کے والدین کو کلیہ کی افادیت کا احساس دلاتالیکن پھر بھی پہلے سالوں میں بہت کم داخلہ ہوا۔ اس کمی کو اس طرح پورا کیا گیا کہ دیگر کلاسوں میں جو حفاظ طلبا پڑھتے تھے انہیں کلیۃ القرآن میں داخل کر لیا گیا، اس سے کچھ طلبا تو میسر آگئے لیکن ایک مشکل اور کھڑی ہوگئی کہ ان طلبا کے اسباق کو کس طرح سیٹ کیا جائے کیونکہ مختلف کلاسز میں جن اَسباق کو ہم ترک کرانا چاہ رہے تھے وہ ایک وقت میں نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کے مختلف پیریڈز تھے۔ اس سلسلہ میں مولانا محمد شفیق مدنی﷾ کا خصوصی تعاون شامل حال رہا وہ بہت ہی محنت سے پیریڈز کو ترتیب دے کر قراء ات کے طلباء کیلئے وقت نکالتے۔ اللہ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ کلیۃ القرآن اور کلیۃ الشریعہ کی کلاسزکے اَوقات ایک وقت پر تھے، لہٰذا جن پیریڈز میں قراء ات کے طلبہ علیحدہ ہوجاتے تھے اس میں ہمارے پاس کوئی کلاس روم نہیں ہوتے تھے اس لیے کچھ کلاسیں ڈائننگ ہال میں ہوتیں کچھ رہائشی ہال میں۔ ان دنوں رہائشی ہال میں نہ تو فرش تھا اور نہ ہی کھڑکیاں تھیں اور خصوصاً ظہر کے بعد جب کلاسز لگتیں تو بہت ہی بُرا حال ہوتا، طلبا شدید گرمی میں نڈھال ہوجاتے۔ اس کا سدباب مدیر الجامعہ جناب حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب نے یوں کیا کہ ان طلبا کیلئے روزانہ تربوز کا اہتمام کیا اور بعد اَزاں شربت روح افزا بھی پلایا جاتار ہا۔
(٣) ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ کلیۃ القرآن کے طلباء کیلئے سکول پڑھنا ممکن نہیں ہوتا تھا، کیونکہ صبح سے مسلسل عصر تک پڑھنے کے بعد دوبارہ بعد از عصر سکول پڑھنا ایک بہت بڑا بوجھ تھا۔ اس کا حل یوں نکالا گیا کہ جو طلبا سکول کے خواہشمند ہوتے انہیں عصر سے ایک گھنٹہ پہلے ہی رخصت دے دی جاتی اور ایک مرتبہ کلیۃ القران کے بعض طلبا نے محنت کرکے عشاء کے بعد کلیۃ کے طلبا کیلئے جانثار کالج کے نام سے سکول کا اہتمام کیا۔
(٤) اس میں ایک مسئلہ طلبا کی منزل کا بھی ہوتا تھا، کیونکہ ہم بغیر کسی امتیاز کے صرف حافظ طلبا کو داخل کررہے تھے اس لیے منزل کا کوئی خیال نہیں کیا گیا تھا جس کیلئے طلبا کو خاصی محنت بھی کرنا پڑتی اور جب تک حدر مکمل نہیں ہوتا تھا ہم تجوید کی سند نہیں دیتے تھے۔ اس وجہ سے بعض سینئر طلبا بھی اَسناد سے محروم رہے اور ویسے بھی تجوید کے اَساتذہ منزل سننے کیلئے بھی تیار نہ ہوتے بہرحال انہیں سمجھا بجھا کر آمادہ کرنے کی کوشش کرتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٥) ایک بہت بڑی کمی یہ تھی کہ قراء ات کے اَساتذہ موجود نہ تھے اور میں اکیلا جمیع کلاسز کو پڑھا نہیں سکتا تھا اس کا حل یوں نکالا گیا کہ بعض منتہی کلاسز کے سینئر طلبا کو ابتدائی کلاسز کے اسباق دئیے گئے جن میں قاری سلمان میر محمدی﷾، قاری محمد فیاض﷾ اور قاری صہیب احمد میر محمدی﷾ شامل تھے۔ اس پر ہمیں بعض حضرات کی جانب سے ’ہمی مکتب ہمی ملا‘ کے تند و تیز جملے بھی سننے پڑے لیکن اللہ رب العزت کام چلاتے رہے۔
(٦) پھر ایک مسئلہ وفاق کے امتحانات کا بھی تھا کہ طلباء کلیۃ القرآن کا نصاب پڑھتے تھے جس کی وجہ سے وفاق کی بعض کتب کو چھوڑنا پڑتا تھا، ان کی تیاری اور اس کے علاوہ وفاق میں بعض سکول کے مضامین بھی تھے جس وجہ سے ایک وقت میں دو امتحان دینا کہ وفاق کے بھی امتحان دیں اور جامعہ کے امتحانات کی بھی تیاری کریں، ایک مشکل کام تھا اس کیلئے میں ذمہ داران وفاق کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں باقاعدہ نصاب بھی بنا کردیا۔ انہوں نے اس شرط کے ساتھ منظوری کا وعدہ دیا کہ ہم جماعت کے جمیع قراء اور اَکابر علماء کو یہ خط بھیج کر ان سے رائے لیں گے پھر ان کی رائے کے موافق عمل کریں گے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ لیکن ان خطوط کا کسی طرف سے کوئی جواب نہ آیا اور بالآخر وفاق سے یہ بات طے پائی کہ جامعہ کی قراء اتِ عشرہ کی سند کے ساتھ آپ ہمارے طلباء کا عالمیہ کا امتحان لے لیں۔ جو انہوں نے منظورکرلیا اور اب(بحمداللہ) وفاق نے کلیۃ القران کا ایک باقاعدہ نصاب منظور کرلیا ہے اور پورے طور پر اب کوئی طالب کلیۃ القرآن کا امتحان دے سکتا ہے اور وفاق انہیں تجوید، قراء اتِ سبعہ اور عشرہ کی الگ اسناد بھی جاری کرتا ہے۔
 
Top