• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آخرت کے حق ہونے کی عقلی دلیل ؟

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ایسے دہریوں سے پوچھا جائے کہ وہ کس ” قیاس “ کی بناء پر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کو ” جنم “دینے والی کوئی اور نہیں بلکہ ان کی ” ماں“ ہے ؟ کیونکہ انہوں نے خود تو اپنے آپ کو ماں کے پیٹ سے ” جنم “ لیتے ہوئے نہیں دیکھا تو ماں کے پیٹ سے جنم لینے کو کو کس ” قیاس“ بناء پر ان لوگوں کی ” گواہی “ کو ” یقین “کے ساتھ ” بے چون وچرا “قبول کرتا ہے ؟
متفق
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ- الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ سوره الملک ١-٢

وہ ذات با برکت ہے جس کے ہاتھ میں سب حکومت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے- جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ دیکھا جائے کہ تم میں کس کے کام اچھے ہیں اور وہ غالب بخشنے والا ہے-

موت کے بعد کی زندگی کا تصور صرف مسلمانوں میں ہی نہیں یہود و نصاریٰ میں بھی ہے -

وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ سوره البقرہ ٨٠

اور (یہود و نصاریٰ) کہتے ہیں سوائے چند گنتی کے دنوں کے- دوزخ کی آگ نہیں چھوے گی- کہہ دو کیا تم نے الله سے کوئی عہد لے لیا ہے کہ الله اپنے عہد کا خلاف نہیں کرے گا یا تم الله پر وہ باتیں کہتے ہو جو تم نہیں جانتے-
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
زندگی بعد موت
موت کے بعد کوئی دوسری زندگی ہے یا نہیں؟ اور ہے تو کیسی ہے؟ یہ سوال حقیقت میں ہمارے علم کی رسائی سے دور ہے۔ ہمارے پاس وہ آنکھیں نہیں ہیں جن سے ہم موت کی سرحد کے اس پار جھانک کر دیکھ سکیں کہ وہاں کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ ہمارے پاس وہ کان نہیں ہیں جن سے ہم اُدھر کی کوئی آواز سن سکیں۔ ہم کوئی ایسا آلہ بھی نہیں رکھتے جس کے ذریعے سے تحقیق کے ساتھ معلوم کیا جا سکے کہ ادھر کچھ ہے یا کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا جہاں تک سائینس کا تعلق ہے، یہ سوال اس کے دائرے سے قطعی خارج ہے۔ جو شخص سائینس کا نام لے کر کہتا ہے کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے وہ بالکل ایک غیر سائینٹفک بات کہتا ہے۔ سائینس کی رو سے نہ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی زندگی ہے اور نہ یہ کہ کوئی زندگی نہیں ہے۔ جب تک ہم کوئی یقینی ذریعہ علم نہیں پاتے کم از کم اس وقت تک تو صحیح سائنٹفک رویہ یہی ہو سکتا ہے کہ ہم زندگی بعد موت کا نہ انکار کریں نہ اقرار۔
مگر کیا عملی زندگی میں ہم اس سائنٹفک رویے کو نباہ سکتے ہیں؟ شاید نہیں، بلکہ یقینًا نہیں۔ عقلی حیثیت سے تو یہ ممکن ہے جب ایک چیز کو جاننے کے ذرائع ہمارے پاس نہ ہوں تو اس کے متعلق ہم نفی اور اثبات دونوں سے پرہیز کریں، لیکن جب اسی چیز کا تعلق ہماری عملی زندگی سے ہو تو ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ یا تو انکار پر اپنا طرز عمل قائم کریں یا اقرار پر۔ مثلًا ایک شخص ہے جس سے آپ واقف نہیں ہیں۔ اگر اس کے ساتھ آپ کا کوئی معاملہ درپیش نہ ہو تو آپ کے لیے یہ ممکن ہے کہ اس کے ایمان دار ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کوئی حکم نہ لگائیں۔ لیکن جب آپ کو اس سے معاملہ کرنا ہو تو آپ مجبور ہیں کہ یا تو اسے ایمان دار سمجھ کر معاملہ کریں یا بے ایمان سمجھ کر۔ اپنے ذہن میں آپ ضرور یہ خیال کر سکتے ہیں کہ جب تک اس کا ایمان دار ہونا یا نہ ہونا ثابت نہ ہو جائے اس وقت تک ہم شک کے ساتھ معاملہ کریں گے۔ مگر اس کی ایمان داری کو مشکوک سمجھتے ہوئے جو معاملہ آپ کریں گے، عملًا اس کی صورت وہی تو ہو گی جو اس کی ایمان دار کا انکار کرنے کی صورت میں ہو سکتی تھی۔ لہٰذا فی الواقع انکار اور اقرار کے درمیان شک کی حالت صرف ذہن ہی میں ہو سکتی ہے۔ عملی رویہ کبھی شک پر قائم نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے یا تو اقرار یا انکار بہرحال ناگزیر ہے۔
عقیدہ حیات بعد الموت کی اہمیت
یہ بات تھوڑے ہی غوروفکر سے آپ کی سمجھ میں آ سکتی ہے کی زندگی بعد موت کا سوال محض ایک فلسفیانہ سوال نہیں ہے بلکہ ہماری عملی زندگی سے اس کا بہت گہرا تعلق ہے۔ دراصل ہمارے اخلاقی رویے کا سارا انحصار ہی اس سوال پر ہے۔ اگر میرا یہ خیال ہو کہ زندگی جو کچھ ہے بس یہی دنیوی زندگی ہے اور اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے تو میرا اخلاقی رویہ ایک طرح کا ہو گا۔ اور اگر میں یہ خیال رکھتا ہوں کہ اس کے بعد ایک دوسری زندگی بھی ہے، جس میں مجھے اپنی موجودہ زندگی کا حساب دینا ہو گا، اور وہاں میرا اچھا یا برا انجام میرے یہاں کے اعمال پر منحصر ہو گا، تو یقینًا میرا اخلاقی طرز عمل بالکل ایک دوسری ہی طرح کا ہو گا۔ اس کی مثال یوں سمجھیے جیسے ایک شخص یہ سمجھتے ہوئے سفر کر رہا ہے کہ اسے بس یہاں سے کراچی تک جانا ہے اور کراچی پہنچ کر نہ صرف یہ کہ اس کا سفر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا بلکہ وہ وہاں پولیس اور عدالت اور ہر اس طاقت کی دسترس سے باہر ہو جائے گا جو اس سے کسی قسم کی باز پرس کر سکتی ہو۔ اور اس کے برعکس ایک دوسرا شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہاں سے کراچی تک تو اس کے سفر کی صرف ایک ہی منزل ہے، ا سکے بعد اسے سمندر پار ایک ایسے ملک میں جانا ہو گا جہاں کا فرمانروا وہی ہے جو پاکستان کا فرمانروا ہے اور اس کے دفتر میں میرے اس پورے کارنامے کا خفیہ ریکارڈ ہے جو میں نے پاکستان کے اس حصے میں انجام دیا ہے، اور وہاں میرے ریکارڈ کو جانچ کر فیصلہ کیا جائے گا کہ میں اپنے کام کے لحاظ سے کس درجے کا مستحق ہوں۔ آپ بآسانی اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان دونوں شخصوں کا طرز عمل کس قدر ایک دوسرے سے مختلف ہو گا۔ پہلا شخص یہاں سے کراچی تک کے سفر کی تیاری کرے گا اور دوسرے کی تیاری بعد کی طویل منزلوں کے لیے بھی ہو گی۔ پہلا شخص یہ سمجھے گا کہ نفع یا نقصان جو کچھ بھی ہے کراچی پہنچنے تک ہے، آگے کچھ نہیں، اور دوسرا یہ خیال کرے گا کہ اصل نفع و نقصان سفر کے پہلے مرحلے میں نہیں ہے، بلکہ آخری مرحلے میں ہے۔ پہلا شخص اپنے افعال کے صرف انہی نتائج پر نظر رکھے گا جو کراچی تک کے سفر میں نکل سکتے ہیں۔ لیکن دوسرے شخص کی نگاہ ان نتائج پر ہو گی جو سمندر پار دوسرے ملک میں پہنچ کر نکلیں گے۔ ظاہر ہے اس دونوں شخصوں کے طرز عمل کا یہ فرق براہ راست نتیجہ ہے ان کی اس رائے کا جو وہ اپنے سفر کی نوعیت کے متعلق رکھتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ہماری اخلاقی زندگی میں بھی وہ عقیدہ فیصلہ کن اثر رکھتا ہے جو ہم زندگی بعد موت کے بارے میں رکھتے ہیں۔ عمل کے میدان میں جو قدم بھی ہم اٹھائیں گے، اس کی صحت کا تعین اس بات پر منحصر ہو گا کہ آیا ہم اسی زندگی کو پہلی اور آخری زندگی سمجھ کر کام کر رہے ہیں یا کسی بعد کی زندگی اور اس کے نتائج کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ پہلی صورت میں ہمارا قدم ایک سمت اٹھے گا اور دوسرے صورت میں اس کی سمت بالکل مختلف ہو گی۔
اس سے معلوم ہوا کہ زندگی بعد موت کا سوال محض ایک عقلی اور فلسفیانہ سوال نہیں ہے۔ بلکہ عملی زندگی کا سوال ہے۔ اور جب بات یہ ہے تو ہمارے لیے اس معاملے میں شک اور تردد کے مقام پر ٹھیرنے کا کوئی موقع نہیں۔ شک کے ساتھ جو رویہ ہم زندگی میں اختیار کریں گے وہ بھی لا محالہ انکار ہی کے رویے جیسا ہو گا۔ لہٰذا ہم بہرحال اس امر کا تعین کرنے پر مجبور ہیں کہ آیا موت کے بعد کوئی اور زندگی ہے یا نہیں۔ اگر سائینس اس کے تعین میں ہماری مدد نہیں کرتی تو ہمیں عقلی استدلال سے مدد لینی چاہیے۔
عقلیت کی رسائی
اچھا، تو عقلی استدلال کے لیے ہمارے پاس کیا مواد موجود ہے؟ ہمارے سامنے ایک تو خود انسان ہے، اور دوسرے یہ نظامِ کائنات۔ ہم انسان کو اس نظام کائنات کے اندر رکھ کر دیکھیں گے ک جو کچھ انسان میں ہے آیا اس کے سارے مقتضیات اس نظام میں پورے ہو جاتے ہیں یا کوئی چیز بچی رہ جاتی ہے جس کے لیے کسی دوسری نوعیت کے نظام کی ضرورت ہو۔
دیکھیے، انسان ایک تو جسم رکھتا ہے، جو بہت سے معدنیات، نمکیات، پانی اور گیسوں کا مجموعہ ہے۔ اس کے جواب میں کائنات کےاندر بھی مٹی، پتھر، دھاتیں، نمک، گیسیں، دریا اور اسی جنس کی دوسری چیزیں موجود ہیں۔ ان چیزوں کو کام کرنے کے لیے جتنے قوانین کی ضرورت ہے وہ سب کائنات کے اندر کارفرما ہیں، اور جس طرح وہ باہر کی فضا میں پہاڑوں، دریاؤں اور ہواؤں کو اپنے حصے کا کام پورا کرنے کا موقع دے رہے ہیں، اسی طرح انسانی جسم کو بھی ان قوانین کے تحت کام کرنے کا موقع حاصل ہے۔
پھر انسان ایک ایسا وجود ہے جو گردوپیش کی چیزوں سے غذا لے کر بڑھتا اور نشوونما حاصل کرتا ہے۔ اسی جنس کے درخت، پودے اور گھاس پھونس کائنات میں بھی موجود ہیں، اور وہ قوانین بھی یہاں پائے جاتے ہیں جو نشوونما پانے والے اجسام کے لیے درکار ہیں۔
پھر انسان ایک زندہ وجود ہے جو اپنے ارادے سے حرکت کرتا ہے، اپنی غذا خود اپنی کوشش سے فراہم کرتا ہے، اپنے نفس کی آپ حفاظت کرتا ہے، اور ااپنی نوع کو باقی رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ کائنات میں اس جنس کی بھی دوسری بہت سے قسمیں موجود ہیں۔ خشکی، تری، اور ہوا میں بے شمار حیوانات پائے جاتے ہیں۔ اور وہ قوانین بھی تمام و کمال یہاں کارفرما ہیں جو ان زندہ ہستیوں کے پورے دائرہ عمل پر حاوی ہونے کے لیے کافی ہیں۔
ان سب سے اوپر انسان ایک اور نوعیت کا وجود بھی رکھتا ہے جس کو ہم اخلاقی وجود کہتے ہیں۔ اس کے اندر نیکی اور بدی کرنے کا شعور ہے، نیک اور بد کے تمیز ہے، نیکی اور بدی کرنے کی قوت ہے، اور ا س کی فطرت یہ مطالبہ کرتی ہے کہ نیکی کا اچھا اور بدی کا برا نتیجہ ظاہر ہو۔ وہ ظلم اور انصاف، سچائی اور جھوٹ، حق اور ناحق، رحم اور بے رحمی، احسان اور احسان فراموشی، فیاضی اور بخل، امانت اور خیانت اور اسی ہی مختلف اخلاقی صفات کے درمیان فرق کرتا ہے۔ یہ صفات عملًا اس کی زندگی میں پائی جاتی ہیں اور یہ محض خیالی چیزیں نہیں ہیں بلکہ بالفعل ان کے اثرات انسانی تمدن پر مرتب ہوتے ہیں۔ لہٰذا انسان جس فطرت پر پیدا ہوا ہے اس کا شدت کے ساتھ یہ تقاضا ہے کہ جس طرح اس کے افعال کے طبعی نتائج رونما ہوتے ہیں اسی طرح اخلاقی نتائج بھی رونما ہوں۔
مگر نظام کائنات پر گہری نگاہ ڈال کر دیکھیے، کیا اس نظام میں انسانی افعال کے اخلاقی نتائج پوری طرح رونما ہو سکتے ہیں؟ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہاں اس کا امکان نہیں ہے، اس لیے کہ یہاں کم از کم ہمارے علم کی حد تک کوئی دوسری مخلوق ایسی نہیں پائی جاتی جو اخلاقی وجود رکھتی ہو۔ سارا نظام کائنات طبعی قوانین کے ماتحت چل رہا ہے۔ اخلاقی قوانین اس میں کسی طرف کارفرما نظر نہیں آتے۔ یہاں روپے میں وزن اور قیمت ہے، مگر سچائی میں نہ وزن ہے یہ قیمت۔ یہاں آم کی گٹھلی سے ہمیشہ آم پیدا ہوتا ہے، مگر حق پرستی کا بیج بونے والے پر کبھی پھولوں کی بارش ہوتی ہے اور کبھی بلکہ اکثر جوتیوں کی۔ یہاں مادی عناصر کے لیے مقرر قوانین ہیں جن کے مطابق ہمیشہ مقرر نتائج نکلتے ہیں مگر اخلاقی عناصر کے لیے کوئی مقرر قانون نہیں ہے کہ ان کی فعلیت سے ہمیشہ مقرر نتیجہ نکل سکے۔ طبعی قوانین کی فرماں روائی کے سبب سے اخلاقی نتائج کبھی تو نکل ہی نہیں سکتے، کبھی نکلتے ہیں تو صرف اس حد تک جس کی اجازت طبعی قوانین دے دیں، اور بارہا ایسا بھی ہوتا ہے کہ اخلاق ایک فعل سےایک خاص نتیجہ نکلنے کا تقاضا کرتا ہے، مگر طبعی قوانین کے مداخلت سے نتیجہ بالکل برعکس نکل آتا ہے۔ انسان نے خود اپنے تمدنی و سیاسی نظام کے ذریعے سے تھوڑی سی کوشش اس امر کی کی ہے کہ انسانی اعمال کے اخلاقی نتائج ایک مقرر ضابطے کے مطابق برآمد ہو سکیں۔ مگر یہ کوشش بہت محدود پیمانے پر ہے اور بے حد ناقص ہے۔ ایک طرف طبعی قوانین اس کو محدود اور ناقص بتاتے ہیں، اور دوسری طرف انسان کی اپنی بہت سی کمزویاں اس انتظام کے نقائص میں اور زیادہ اضافہ کر دیتی ہیں۔
میں اپنے مدعا کی توضیح چند مثالوں سے کروں گا۔ دیکھیے، ایک شخص اگر کسی دوسرے شخص کا دشمن ہو اور اس کے گھر میں آگ لگا دے تو اس کا گھر جل جائے گا۔ یہ اس کے فعل کا طبعی نتیجہ ہے۔ اس کا اخلاقی نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ اس شخص کو اتنی ہی سزا ملے جتنا اس نے ایک خاندان کو نقصان پہنچایا ہے۔ مگر اس نتیجے کا ظاہر ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ آگ لگانے والے کا سراغ ملے، وہ پولیس کے ہاتھ آ سکے، اس پر جرم ثابت ہو، عدالت پوری طرح اندازہ کر سکے کہ آگ لگنے سے اس خاندان کو اور اس کی آئندہ نسلوں کو ٹھیک ٹھیک کتنا نقصان پہنچا ہے، اور پھر انصاف کے ساتھ اس مجرم کو اتنی ہی سزا دے۔ اگر ان شرطوں میں سے کوئی شرط بھی پوری نہ ہوتی ہو تو اخلاقی نتیجہ یا تو بالکل ہی ظاہر نہ ہو گا یا اس کا صرف ایک تھوڑا حصہ ظاہر ہو کر رہ جائیگا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے حریف کو برباد کر کے وہ شخص دنیا میں مزے سے پھلتا پھولتا رہے۔
اس سے بڑے پیمانے پر ایک اور مثال لیجیے۔ چند اشخاص اپنی قوم میں اثر پیدا کر لیتے ہیں اور ساری قوم ان کے کہے پر چلنے لگتی ہے اس پوزیشن سے فائدہ اٹھا کر وہ لوگوں میں قوم پرستی کا اشتعال اور ملک گیری کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ گردوپیش کی قوموں سے جنگ چھیڑ دیتے ہیں، لکھوکھا آدمیوں کو ہلاک کرتے ہیں، ملک کے ملک تباہ کر ڈالتے ہیں اور کروڑوں انسانوں کو ذلیل اور پست زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں۔ انسانی تاریخ پر اُن کی اِن کاروائیوں کا ایسا زبردست اثر پڑتا ہےجس کا سلسلہ آئندہ سینکڑوں برس تک پشت در پشت اور نسل در نسل پھیلتا چلا جائے گا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ چند اشخاص جس جرم عظیم کے مرتکب ہوئے ہیں اس کی مناسب اور منصفانہ سزا ان کو کبھی اس دنیوی زندگی میں مل سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ اگر ان کی بوٹیاں بھی نوچ ڈالی جائیں، اگر ان کو زندہ جلا ڈالا جائے یا کوئی اور ایسی سزا دی جائے جو انسان کے بس میں ہے تب بھی کسی طرح وہ اس نقصان کے برابر سزا نہیں پا سکتے جو انہوں نے کروڑوں انسانوں کو اور ان کی آئندہ بے شمار نسلوں کو پہنچایا ہے۔ موجودہ نظام کائنات جن طبعی قوانین پر چل رہا ہے ان کے تحت کسی طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے جرم کے برابر سزا پا سکیں۔
اسی طرح ان نیک انسانوں کو لیجیے جنہوں نے نوع انسانی کو حق اور راستی کی تعلیم دی اور ہدایت کی روشنی دکھائی، جن کے فیض سے بےشمار انسانی نسلیں صدیوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں اور نہ معلوم آئندہ کتنی صدیوں تک اٹھاتی چلی جائیں گے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کی خدمات کا پورا صلہ ان کو اس دنیا میں مل سکے؟ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ موجودہ طبعی قوانین کی حدود کے اندر ایک شخص اپنے اس عمل کا پورا صلہ حاصل کر سکتا ہے جس کا ردعمل اس کے مرنے کے بعد ہزاروں برس تک اور بے شمار انسانوں تک پھیل گیا ہو؟
جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں، اول تو موجودہ نظام کائنات جن قوانین پر چل رہا ہے ان کے اندر اتنی گنجائش ہی نہیں ہے کہ انسانی افعال کے اخلاقی نتائج پوری طرح مرتب ہو سکیں، دوسرے یہاں چند سال کی زندگی میں انسان جو عمل بھی کرتا ہے اس کے ردعمل کا سلسلہ اتنا وسیع ہوتا ہے اور اتنی مدت تک جاری رہتا ہے کہ صرف اسی کے پورے نتائج وصول کرنے کے لیے ہزاروں بلکہ لاکھوں برس کی زندگی درکار ہے، اور موجودہ قوانین قدرت کے ماتحت انسان کو اتنی زندگی ملنی ناممکن ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسانی ہستی کے خاکی، عضوی اور حیوانی عناصر کے لیے تو موجودہ طبعی دنیا (Physical World) اور اس کے طبعی قوانین کافی ہیں، مگر اس کے اخلاقی عنصر کے لیے یہ دنیا بالکل ناکافی ہے۔ اس کےلیے ایک دوسرا نظام عالم درکار ہے جس میں حکمران قانون (Covering law)اخلاق کا قانون ہو اور طبعی قوانین اس کے ماتحت محض مددگار کی حیثیت سے کام کریں۔ جس میں زندگی محدود نہ ہو بلکہ غیر محدود ہو۔ جس میں وہ تمام اخلاقی نتائج جو یہاں مترتب ہونے سے رہ گئے ہوں، یا الٹے مترتب ہوئے ہوں، اپنی صحیح صورت میں پوری طرح مترتب ہو سکیں۔ جہاں سونے اور چاندی کے بجائے نیکی اور صداقت میں وزن اور قیمت ہو۔ جہاں آگ صرف اس چیز کو جلائے جو اخلاقًا جلنے کی مستحق ہو، جہاں عیش اس کو ملے جو نیک ہو اور مصیبت اس کے حصے میں آئے جو بد ہو۔ عقل چاہتی ہے، فطرت مطالبہ کرتی ہے کہ ایک ایسا نظامِ عالم ضرور ہونا چاہیے۔
قرآنی روشنی
جہاں تک عقلی استدلال کا تعلق ہے وہ ہم کو صرف “ہونا چاہیے” کی حد تک لے جا کر چھوڑ دیتا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ آیا واقعی کوئی ایسا عالم ہے بھی، تو ہماری عقل اور ہمارا علم دونوں اس کا حکم لگانے سے عاجز ہیں۔ یہاں قرآن ہماری مدد کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تمہاری عقل اور تمہاری فطرت جس چیز کا مطالبہ کرتی ہے فی الواقع وہ ہونے والی ہے۔ موجودہ نظامِ عالم جو طبعی قوانین پر بنا ہے ایک وقت میں توڑ ڈالا جائے گا۔ اس کے بعد ایک دوسرا نظام بنے گا جس میں زمین و آسمان اور ساری چیزیں ایک دوسرے ڈھنگ پر ہوں گی۔ پھر اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو جو ابتدائے آفرینش سے قیامت تک پیدا ہوئے تھے دوبارہ پیدا کر دے گا، اور بیک وقت ان سب کو اپنے سامنے جمع کرے گا۔ وہاں ایک ایک شخص کا، ایک اک قوم کا اور پوری انسانیت کا ریکارڈ ہر غلطی اور ہر فرگذاشت کے بغیر محفوظ ہو گا۔ ہر شخص کے ایک ایک عمل کا جتنا ردعمل دنیا میں ہوا ہے ا س کی پوری روداد موجود ہو گی۔ وہ تمام نسلیں گواہوں کے کٹہرے میں حاضر ہوں گی جو اس ردعمل سے متاثر ہوئیں۔ ایک ایک ذرہ جس پر انسان کے اقوال اور افعال کے نقوش ثبت ہوئے تھے اپنی داستان سنائے گا۔ خود انسان کے ہاتھ اور پاؤں اور آنکھ اور زبان اور تمام اعضاء شہادت دیں گے کہ ان سے اس نے کس طرح کام لیا۔ پھر اس روداد پر وہ سب سے بڑا حاکم پورے انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا کہ کون کتنے انعام کا مستحق ہے اور کون کتنی سزا کا۔ انعام اوریہ سزا دونوں چیزیں اتنے بڑے پیمانے پر ہوں گی جس کا کائی اندازہ موجودہ نظامِ عالم کی محدود مقداروں کے لحاظ سے نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں وقت اور جگہ کے معیار کچھ اور ہوں گے۔ وہاں کی مقداریں کچھ اور ہوں گی۔ وہاں کے قوانین قدرت کسی اور قسم کے ہوں گے۔ انسان کی جن نیکیون کے اثرات دنیا میں ہزاروں برس چلتے رہے ہیں، وہاں وہ ان کا بھرپور صلہ وصول کر سکے گا بغیر اس کے کہ موت اور بیماری اور بڑھاپا اس کے عیش کا سلسلہ توڑ سکیں۔ اور اسی طرح انسانوں کی جن برائیوں کے اثرات دنیا میں ہزار ہا برس تک اور بے شمار انسانوں تک پھیلتے رہے، وہ ان کی پوری سزا بھگتے گا، بغیر اس کے کہ موت اور بے ہوشی آ کر اسے تکلیف سے بچا سکے۔
ایسی ایک زندگی اور ایسے ایک عالم کو جو لوگ ناممکن سمجھتے ہیں، مجھے ان کے ذہن کی تنگی پر ترس آتا ہے۔ اگر ہمارے موجودہ عالم کا موجودہ قوانین قدرت کے ساتھ موجود ہونا ممکن ہے تو آخر ایک دوسرےنظامِ عالم کا دوسرے قوانین کے ساتھ وجود میں آنا کیوں ناممکن ہوا؟ البتہ یہ بات کہ واقع میں ایسا ضرور ہو گا، تو اس کا یقین نہ دلیل سے ہو سکتا ہے اور نہ علمی ثبوت سے۔ اس کے لیے ایمان بالغیب کی ضرورت ہے۔
("اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات" از مودودی صاحبؒ)
 
Last edited:
شمولیت
مئی 20، 2012
پیغامات
128
ری ایکشن اسکور
257
پوائنٹ
90
زندگی بعد موت
موت کے بعد کوئی دوسری زندآگی ہے یا نہیں؟ اور ہے تو کیسی ہے؟ یہ سوال حقیقت میں ہمارے علم کی رسائی سے دور ہے۔ ہمارے پاس وہ آنکھیں نہیں ہیں جن سے ہم موت کی سرحد کے اس پار جھانک کر دیکھ سکیں کہ وہاں کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ ہمارے پاس وہ کان نہیں ہیں جن سے ہم اُدھر کی کوئی آواز سن سکیں۔ ہم کوئی ایسا آلہ بھی نہیں رکھتے جس کے ذریعے سے تحقیق کے ساتھ معلوم کیا جا سکے کہ ادھر کچھ ہے یا کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا جہاں تک سائینس کا تعلق ہے، یہ سوال اس کے دائرے سے قطعی خارج ہے۔ جو شخص سائینس کا نام لے کر کہتا ہے کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے وہ بالکل ایک غیر سائینٹفک بات کہتا ہے۔ سائینس کی رو سے نہ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی زندگی ہے اور نہ یہ کہ کوئی زندگی نہیں ہے۔ جب تک ہم کوئی یقینی ذریعہ علم نہیں پاتے کم از کم اس وقت تک تو صحیح سائنٹفک رویہ یہی ہو سکتا ہے کہ ہم زندگی بعد موت کا نہ انکار کریں نہ اقرار۔
مگر کیا عملی زندگی میں ہم اس سائنٹفک رویے کو نباہ سکتے ہیں؟ شاید نہیں، بلکہ یقینًا نہیں۔ عقلی حیثیت سے تو یہ ممکن ہے جب ایک چیز کو جاننے کے ذرائع ہمارے پاس نہ ہوں تو اس کے متعلق ہم نفی اور اثبات دونوں سے پرہیز کریں، لیکن جب اسی چیز کا تعلق ہماری عملی زندگی سے ہو تو ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ یا تو انکار پر اپنا طرز عمل قائم کریں یا اقرار پر۔ مثلًا ایک شخص ہے جس سے آپ واقف نہیں ہیں۔ اگر اس کے ساتھ آپ کا کوئی معاملہ درپیش نہ ہو تو آپ کے لیے یہ ممکن ہے کہ اس کے ایمان دار ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کوئی حکم نہ لگائیں۔ لیکن جب آپ کو اس سے معاملہ کرنا ہو تو آپ مجبور ہیں کہ یا تو اسے ایمان دار سمجھ کر معاملہ کریں یا بے ایمان سمجھ کر۔ اپنے ذہن میں آپ ضرور یہ خیال کر سکتے ہیں کہ جب تک اس کا ایمان دار ہونا یا نہ ہونا ثابت نہ ہو جائے اس وقت تک ہم شک کے ساتھ معاملہ کریں گے۔ مگر اس کی ایمان داری کو مشکوک سمجھتے ہوئے جو معاملہ آپ کریں گے، عملًا اس کی صورت وہی تو ہو گی جو اس کی ایمان دار کا انکار کرنے کی صورت میں ہو سکتی تھی۔ لہٰذا فی الواقع انکار اور اقرار کے درمیان شک کی حالت صرف ذہن ہی میں ہو سکتی ہے۔ عملی رویہ کبھی شک پر قائم نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے یا تو اقرار یا انکار بہرحال ناگزیر ہے۔
عقیدہ حیات بعد الموت کی اہمیت
یہ بات تھوڑے ہی غوروفکر سے آپ کی سمجھ میں آ سکتی ہے کی زندگی بعد موت کا سوال محض ایک فلسفیانہ سوال نہیں ہے بلکہ ہماری عملی زندگی سے اس کا بہت گہرا تعلق ہے۔ دراصل ہمارے اخلاقی رویے کا سارا انحصار ہی اس سوال پر ہے۔ اگر میرا یہ خیال ہو کہ زندگی جو کچھ ہے بس یہی دنیوی زندگی ہے اور اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے تو میرا اخلاقی رویہ ایک طرح کا ہو گا۔ اور اگر میں یہ خیال رکھتا ہوں کہ اس کے بعد ایک دوسری زندگی بھی ہے، جس میں مجھے اپنی موجودہ زندگی کا حساب دینا ہو گا، اور وہاں میرا اچھا یا برا انجام میرے یہاں کے اعمال پر منحصر ہو گا، تو یقینًا میرا اخلاقی طرز عمل بالکل ایک دوسری ہی طرح کا ہو گا۔ اس کی مثال یوں سمجھیے جیسے ایک شخص یہ سمجھتے ہوئے سفر کر رہا ہے کہ اسے بس یہاں سے کراچی تک جانا ہے اور کراچی پہنچ کر نہ صرف یہ کہ اس کا سفر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا بلکہ وہ وہاں پولیس اور عدالت اور ہر اس طاقت کی دسترس سے باہر ہو جائے گا جو اس سے کسی قسم کی باز پرس کر سکتی ہو۔ اور اس کے برعکس ایک دوسرا شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہاں سے کراچی تک تو اس کے سفر کی صرف ایک ہی منزل ہے، ا سکے بعد اسے سمندر پار ایک ایسے ملک میں جانا ہو گا جہاں کا فرمانروا وہی ہے جو پاکستان کا فرمانروا ہے اور اس کے دفتر میں میرے اس پورے کارنامے کا خفیہ ریکارڈ ہے جو میں نے پاکستان کے اس حصے میں انجام دیا ہے، اور وہاں میرے ریکارڈ کو جانچ کر فیصلہ کیا جائے گا کہ میں اپنے کام کے لحاظ سے کس درجے کا مستحق ہوں۔ آپ بآسانی اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان دونوں شخصوں کا طرز عمل کس قدر ایک دوسرے سے مختلف ہو گا۔ پہلا شخص یہاں سے کراچی تک کے سفر کی تیاری کرے گا اور دوسرے کی تیاری بعد کی طویل منزلوں کے لیے بھی ہو گی۔ پہلا شخص یہ سمجھے گا کہ نفع یا نقصان جو کچھ بھی ہے کراچی پہنچنے تک ہے، آگے کچھ نہیں، اور دوسرا یہ خیال کرے گا کہ اصل نفع و نقصان سفر کے پہلے مرحلے میں نہیں ہے، بلکہ آخری مرحلے میں ہے۔ پہلا شخص اپنے افعال کے صرف انہی نتائج پر نظر رکھے گا جو کراچی تک کے سفر میں نکل سکتے ہیں۔ لیکن دوسرے شخص کی نگاہ ان نتائج پر ہو گی جو سمندر پار دوسرے ملک میں پہنچ کر نکلیں گے۔ ظاہر ہے اس دونوں شخصوں کے طرز عمل کا یہ فرق براہ راست نتیجہ ہے ان کی اس رائے کا جو وہ اپنے سفر کی نوعیت کے متعلق رکھتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ہماری اخلاقی زندگی میں بھی وہ عقیدہ فیصلہ کن اثر رکھتا ہے جو ہم زندگی بعد موت کے بارے میں رکھتے ہیں۔ عمل کے میدان میں جو قدم بھی ہم اٹھائیں گے، اس کی صحت کا تعین اس بات پر منحصر ہو گا کہ آیا ہم اسی زندگی کو پہلی اور آخری زندگی سمجھ کر کام کر رہے ہیں یا کسی بعد کی زندگی اور اس کے نتائج کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ پہلی صورت میں ہمارا قدم ایک سمت اٹھے گا اور دوسرے صورت میں اس کی سمت بالکل مختلف ہو گی۔
اس سے معلوم ہوا کہ زندگی بعد موت کا سوال محض ایک عقلی اور فلسفیانہ سوال نہیں ہے۔ بلکہ عملی زندگی کا سوال ہے۔ اور جب بات یہ ہے تو ہمارے لیے اس معاملے میں شک اور تردد کے مقام پر ٹھیرنے کا کوئی موقع نہیں۔ شک کے ساتھ جو رویہ ہم زندگی میں اختیار کریں گے وہ بھی لا محالہ انکار ہی کے رویے جیسا ہو گا۔ لہٰذا ہم بہرحال اس امر کا تعین کرنے پر مجبور ہیں کہ آیا موت کے بعد کوئی اور زندگی ہے یا نہیں۔ اگر سائینس اس کے تعین میں ہماری مدد نہیں کرتی تو ہمیں عقلی استدلال سے مدد لینی چاہیے۔
عقلیت کی رسائی
اچھا، تو عقلی استدلال کے لیے ہمارے پاس کیا مواد موجود ہے؟ ہمارے سامنے ایک تو خود انسان ہے، اور دوسرے یہ نظامِ کائنات۔ ہم انسان کو اس نظام کائنات کے اندر رکھ کر دیکھیں گے ک جو کچھ انسان میں ہے آیا اس کے سارے مقتضیات اس نظام میں پورے ہو جاتے ہیں یا کوئی چیز بچی رہ جاتی ہے جس کے لیے کسی دوسری نوعیت کے نظام کی ضرورت ہو۔
دیکھیے، انسان ایک تو جسم رکھتا ہے، جو بہت سے معدنیات، نمکیات، پانی اور گیسوں کا مجموعہ ہے۔ اس کے جواب میں کائنات کےاندر بھی مٹی، پتھر، دھاتیں، نمک، گیسیں، دریا اور اسی جنس کی دوسری چیزیں موجود ہیں۔ ان چیزوں کو کام کرنے کے لیے جتنے قوانین کی ضرورت ہے وہ سب کائنات کے اندر کارفرما ہیں، اور جس طرح وہ باہر کی فضا میں پہاڑوں، دریاؤں اور ہواؤں کو اپنے حصے کا کام پورا کرنے کا موقع دے رہے ہیں، اسی طرح انسانی جسم کو بھی ان قوانین کے تحت کام کرنے کا موقع حاصل ہے۔
پھر انسان ایک ایسا وجود ہے جو گردوپیش کی چیزوں سے غذا لے کر بڑھتا اور نشوونما حاصل کرتا ہے۔ اسی جنس کے درخت، پودے اور گھاس پھونس کائنات میں بھی موجود ہیں، اور وہ قوانین بھی یہاں پائے جاتے ہیں جو نشوونما پانے والے اجسام کے لیے درکار ہیں۔
پھر انسان ایک زندہ وجود ہے جو اپنے ارادے سے حرکت کرتا ہے، اپنی غذا خود اپنی کوشش سے فراہم کرتا ہے، اپنے نفس کی آپ حفاظت کرتا ہے، اور ااپنی نوع کو باقی رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ کائنات میں اس جنس کی بھی دوسری بہت سے قسمیں موجود ہیں۔ خشکی، تری، اور ہوا میں بے شمار حیوانات پائے جاتے ہیں۔ اور وہ قوانین بھی تمام و کمال یہاں کارفرما ہیں جو ان زندہ ہستیوں کے پورے دائرہ عمل پر حاوی ہونے کے لیے کافی ہیں۔
ان سب سے اوپر انسان ایک اور نوعیت کا وجود بھی رکھتا ہے جس کو ہم اخلاقی وجود کہتے ہیں۔ اس کے اندر نیکی اور بدی کرنے کا شعور ہے، نیک اور بد کے تمیز ہے، نیکی اور بدی کرنے کی قوت ہے، اور ا س کی فطرت یہ مطالبہ کرتی ہے کہ نیکی کا اچھا اور بدی کا برا نتیجہ ظاہر ہو۔ وہ ظلم اور انصاف، سچائی اور جھوٹ، حق اور ناحق، رحم اور بے رحمی، احسان اور احسان فراموشی، فیاضی اور بخل، امانت اور خیانت اور اسی ہی مختلف اخلاقی صفات کے درمیان فرق کرتا ہے۔ یہ صفات عملًا اس کی زندگی میں پائی جاتی ہیں اور یہ محض خیالی چیزیں نہیں ہیں بلکہ بالفعل ان کے اثرات انسانی تمدن پر مرتب ہوتے ہیں۔ لہٰذا انسان جس فطرت پر پیدا ہوا ہے اس کا شدت کے ساتھ یہ تقاضا ہے کہ جس طرح اس کے افعال کے طبعی نتائج رونما ہوتے ہیں اسی طرح اخلاقی نتائج بھی رونما ہوں۔
مگر نظام کائنات پر گہری نگاہ ڈال کر دیکھیے، کیا اس نظام میں انسانی افعال کے اخلاقی نتائج پوری طرح رونما ہو سکتے ہیں؟ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہاں اس کا امکان نہیں ہے، اس لیے کہ یہاں کم از کم ہمارے علم کی حد تک کوئی دوسری مخلوق ایسی نہیں پائی جاتی جو اخلاقی وجود رکھتی ہو۔ سارا نظام کائنات طبعی قوانین کے ماتحت چل رہا ہے۔ اخلاقی قوانین اس میں کسی طرف کارفرما نظر نہیں آتے۔ یہاں روپے میں وزن اور قیمت ہے، مگر سچائی میں نہ وزن ہے یہ قیمت۔ یہاں آم کی گٹھلی سے ہمیشہ آم پیدا ہوتا ہے، مگر حق پرستی کا بیج بونے والے پر کبھی پھولوں کی بارش ہوتی ہے اور کبھی بلکہ اکثر جوتیوں کی۔ یہاں مادی عناصر کے لیے مقرر قوانین ہیں جن کے مطابق ہمیشہ مقرر نتائج نکلتے ہیں مگر اخلاقی عناصر کے لیے کوئی مقرر قانون نہیں ہے کہ ان کی فعلیت سے ہمیشہ مقرر نتیجہ نکل سکے۔ طبعی قوانین کی فرماں روائی کے سبب سے اخلاقی نتائج کبھی تو نکل ہی نہیں سکتے، کبھی نکلتے ہیں تو صرف اس حد تک جس کی اجازت طبعی قوانین دے دیں، اور بارہا ایسا بھی ہوتا ہے کہ اخلاق ایک فعل سےایک خاص نتیجہ نکلنے کا تقاضا کرتا ہے، مگر طبعی قوانین کے مداخلت سے نتیجہ بالکل برعکس نکل آتا ہے۔ انسان نے خود اپنے تمدنی و سیاسی نظام کے ذریعے سے تھوڑی سی کوشش اس امر کی کی ہے کہ انسانی اعمال کے اخلاقی نتائج ایک مقرر ضابطے کے مطابق برآمد ہو سکیں۔ مگر یہ کوشش بہت محدود پیمانے پر ہے اور بے حد ناقص ہے۔ ایک طرف طبعی قوانین اس کو محدود اور ناقص بتاتے ہیں، اور دوسری طرف انسان کی اپنی بہت سی کمزویاں اس انتظام کے نقائص میں اور زیادہ اضافہ کر دیتی ہیں۔
میں اپنے مدعا کی توضیح چند مثالوں سے کروں گا۔ دیکھیے، ایک شخص اگر کسی دوسرے شخص کا دشمن ہو اور اس کے گھر میں آگ لگا دے تو اس کا گھر جل جائے گا۔ یہ اس کے فعل کا طبعی نتیجہ ہے۔ اس کا اخلاقی نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ اس شخص کو اتنی ہی سزا ملے جتنا اس نے ایک خاندان کو نقصان پہنچایا ہے۔ مگر اس نتیجے کا ظاہر ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ آگ لگانے والے کا سراغ ملے، وہ پولیس کے ہاتھ آ سکے، اس پر جرم ثابت ہو، عدالت پوری طرح اندازہ کر سکے کہ آگ لگنے سے اس خاندان کو اور اس کی آئندہ نسلوں کو ٹھیک ٹھیک کتنا نقصان پہنچا ہے، اور پھر انصاف کے ساتھ اس مجرم کو اتنی ہی سزا دے۔ اگر ان شرطوں میں سے کوئی شرط بھی پوری نہ ہوتی ہو تو اخلاقی نتیجہ یا تو بالکل ہی ظاہر نہ ہو گا یا اس کا صرف ایک تھوڑا حصہ ظاہر ہو کر رہ جائیگا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے حریف کو برباد کر کے وہ شخص دنیا میں مزے سے پھلتا پھولتا رہے۔
اس سے بڑے پیمانے پر ایک اور مثال لیجیے۔ چند اشخاص اپنی قوم میں اثر پیدا کر لیتے ہیں اور ساری قوم ان کے کہے پر چلنے لگتی ہے اس پوزیشن سے فائدہ اٹھا کر وہ لوگوں میں قوم پرستی کا اشتعال اور ملک گیری کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ گردوپیش کی قوموں سے جنگ چھیڑ دیتے ہیں، لکھوکھا آدمیوں کو ہلاک کرتے ہیں، ملک کے ملک تباہ کر ڈالتے ہیں اور کروڑوں انسانوں کو ذلیل اور پست زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں۔ انسانی تاریخ پر اُن کی اِن کاروائیوں کا ایسا زبردست اثر پڑتا ہےجس کا سلسلہ آئندہ سینکڑوں برس تک پشت در پشت اور نسل در نسل پھیلتا چلا جائے گا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ چند اشخاص جس جرم عظیم کے مرتکب ہوئے ہیں اس کی مناسب اور منصفانہ سزا ان کو کبھی اس دنیوی زندگی میں مل سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ اگر ان کی بوٹیاں بھی نوچ ڈالی جائیں، اگر ان کو زندہ جلا ڈالا جائے یا کوئی اور ایسی سزا دی جائے جو انسان کے بس میں ہے تب بھی کسی طرح وہ اس نقصان کے برابر سزا نہیں پا سکتے جو انہوں نے کروڑوں انسانوں کو اور ان کی آئندہ بے شمار نسلوں کو پہنچایا ہے۔ موجودہ نظام کائنات جن طبعی قوانین پر چل رہا ہے ان کے تحت کسی طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے جرم کے برابر سزا پا سکیں۔
اسی طرح ان نیک انسانوں کو لیجیے جنہوں نے نوع انسانی کو حق اور راستی کی تعلیم دی اور ہدایت کی روشنی دکھائی، جن کے فیض سے بےشمار انسانی نسلیں صدیوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں اور نہ معلوم آئندہ کتنی صدیوں تک اٹھاتی چلی جائیں گے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کی خدمات کا پورا صلہ ان کو اس دنیا میں مل سکے؟ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ موجودہ طبعی قوانین کی حدود کے اندر ایک شخص اپنے اس عمل کا پورا صلہ حاصل کر سکتا ہے جس کا ردعمل اس کے مرنے کے بعد ہزاروں برس تک اور بے شمار انسانوں تک پھیل گیا ہو؟
جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں، اول تو موجودہ نظام کائنات جن قوانین پر چل رہا ہے ان کے اندر اتنی گنجائش ہی نہیں ہے کہ انسانی افعال کے اخلاقی نتائج پوری طرح مرتب ہو سکیں، دوسرے یہاں چند سال کی زندگی میں انسان جو عمل بھی کرتا ہے اس کے ردعمل کا سلسلہ اتنا وسیع ہوتا ہے اور اتنی مدت تک جاری رہتا ہے کہ صرف اسی کے پورے نتائج وصول کرنے کے لیے ہزاروں بلکہ لاکھوں برس کی زندگی درکار ہے، اور موجودہ قوانین قدرت کے ماتحت انسان کو اتنی زندگی ملنی ناممکن ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسانی ہستی کے خاکی، عضوی اور حیوانی عناصر کے لیے تو موجودہ طبعی دنیا (Physical World) اور اس کے طبعی قوانین کافی ہیں، مگر اس کے اخلاقی عنصر کے لیے یہ دنیا بالکل ناکافی ہے۔ اس کےلیے ایک دوسرا نظام عالم درکار ہے جس میں حکمران قانون (Covering law)اخلاق کا قانون ہو اور طبعی قوانین اس کے ماتحت محض مددگار کی حیثیت سے کام کریں۔ جس میں زندگی محدود نہ ہو بلکہ غیر محدود ہو۔ جس میں وہ تمام اخلاقی نتائج جو یہاں مترتب ہونے سے رہ گئے ہوں، یا الٹے مترتب ہوئے ہوں، اپنی صحیح صورت میں پوری طرح مترتب ہو سکیں۔ جہاں سونے اور چاندی کے بجائے نیکی اور صداقت میں وزن اور قیمت ہو۔ جہاں آگ صرف اس چیز کو جلائے جو اخلاقًا جلنے کی مستحق ہو، جہاں عیش اس کو ملے جو نیک ہو اور مصیبت اس کے حصے میں آئے جو بد ہو۔ عقل چاہتی ہے، فطرت مطالبہ کرتی ہے کہ ایک ایسا نظامِ عالم ضرور ہونا چاہیے۔
قرآنی روشنی
جہاں تک عقلی استدلال کا تعلق ہے وہ ہم کو صرف “ہونا چاہیے” کی حد تک لے جا کر چھوڑ دیتا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ آیا واقعی کوئی ایسا عالم ہے بھی، تو ہماری عقل اور ہمارا علم دونوں اس کا حکم لگانے سے عاجز ہیں۔ یہاں قرآن ہماری مدد کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تمہاری عقل اور تمہاری فطرت جس چیز کا مطالبہ کرتی ہے فی الواقع وہ ہونے والی ہے۔ موجودہ نظامِ عالم جو طبعی قوانین پر بنا ہے ایک وقت میں توڑ ڈالا جائے گا۔ اس کے بعد ایک دوسرا نظام بنے گا جس میں زمین و آسمان اور ساری چیزیں ایک دوسرے ڈھنگ پر ہوں گی۔ پھر اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو جو ابتدائے آفرینش سے قیامت تک پیدا ہوئے تھے دوبارہ پیدا کر دے گا، اور بیک وقت ان سب کو اپنے سامنے جمع کرے گا۔ وہاں ایک ایک شخص کا، ایک اک قوم کا اور پوری انسانیت کا ریکارڈ ہر غلطی اور ہر فرگذاشت کے بغیر محفوظ ہو گا۔ ہر شخص کے ایک ایک عمل کا جتنا ردعمل دنیا میں ہوا ہے ا س کی پوری روداد موجود ہو گی۔ وہ تمام نسلیں گواہوں کے کٹہرے میں حاضر ہوں گی جو اس ردعمل سے متاثر ہوئیں۔ ایک ایک ذرہ جس پر انسان کے اقوال اور افعال کے نقوش ثبت ہوئے تھے اپنی داستان سنائے گا۔ خود انسان کے ہاتھ اور پاؤں اور آنکھ اور زبان اور تمام اعضاء شہادت دیں گے کہ ان سے اس نے کس طرح کام لیا۔ پھر اس روداد پر وہ سب سے بڑا حاکم پورے انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا کہ کون کتنے انعام کا مستحق ہے اور کون کتنی سزا کا۔ انعام اوریہ سزا دونوں چیزیں اتنے بڑے پیمانے پر ہوں گی جس کا کائی اندازہ موجودہ نظامِ عالم کی محدود مقداروں کے لحاظ سے نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں وقت اور جگہ کے معیار کچھ اور ہوں گے۔ وہاں کی مقداریں کچھ اور ہوں گی۔ وہاں کے قوانین قدرت کسی اور قسم کے ہوں گے۔ انسان کی جن نیکیون کے اثرات دنیا میں ہزاروں برس چلتے رہے ہیں، وہاں وہ ان کا بھرپور صلہ وصول کر سکے گا بغیر اس کے کہ موت اور بیماری اور بڑھاپا اس کے عیش کا سلسلہ توڑ سکیں۔ اور اسی طرح انسانوں کی جن برائیوں کے اثرات دنیا میں ہزار ہا برس تک اور بے شمار انسانوں تک پھیلتے رہے، وہ ان کی پوری سزا بھگتے گا، بغیر اس کے کہ موت اور بے ہوشی آ کر اسے تکلیف سے بچا سکے۔
ایسی ایک زندگی اور ایسے ایک عالم کو جو لوگ ناممکن سمجھتے ہیں، مجھے ان کے ذہن کی تنگی پر ترس آتا ہے۔ اگر ہمارے موجودہ عالم کا موجودہ قوانین قدرت کے ساتھ موجود ہونا ممکن ہے تو آخر ایک دوسرےنظامِ عالم کا دوسرے قوانین کے ساتھ وجود میں آنا کیوں ناممکن ہوا؟ البتہ یہ بات کہ واقع میں ایسا ضرور ہو گا، تو اس کا یقین نہ دلیل سے ہو سکتا ہے اور نہ علمی ثبوت سے۔ اس کے لیے ایمان بالغیب کی ضرورت ہے۔
("اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات" از مودودی صاحبؒ)
آپ کا بھی یہ مضمون اپنے فیس بک پر شئر کر رھا ھو امید ہے آپ برا نہیں مانے گے ۔۔
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
‏دنیا کی ہر وہ چیز بے فائدہ ہے جو آخرت کیلئے کسی طور بھی فائدہ مند نہیں!!
 
Top