• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آرتھر جیفری اور کتاب المصاحف

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آرتھر جیفری اور کتاب المصاحف

محمد زبیر تیمی​
رشد قراء ات نمبر حصہ اول میں قراء ات قرآنیہ کے بارے میں آرتھر جیفری کے نقطہ نظر کا ایک بھر پور علمی جائزہ جناب ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری صاحب نے اپنے مضمون ’اختلاف قراء ات قرآنیہ اور مستشرقین‘ میں لیا ہے۔ حافظ محمد زبیر جناب ڈاکٹر اکرم چوہدری صاحب کے براہ ِراست شاگرد ہیں۔
ڈاکٹر اکرم چوہدری صاحب کے مضمون میں آرتھر جیفری کے نقطہ نظر کا کافی وشافی اصولی و بنیادی رد موجود ہے۔ حافظ صاحب نے اپنے اُستاد محترم کے اس موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے آرتھر جیفری کے قرآن پر جزوی اور فروعی اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ آرتھر جیفری کے نقطہ نظر کا کافی وشافی اصولی و بنیادی رد موجود ہے۔ حافظ صاحب نے اپنے استاذ محترم کے اس موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے آرتھر جیفری کے قرآن پر جزوی اور فروعی اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ آرتھر جیفری نے ابن ابی داؤد کی کتاب ’کتاب المصاحف‘ پر تحقیقی کام کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ جس طرح عیسائیوں میں انجیل کے ایک سے زائد نسخے موجود ہیں اور موجودہ چار انجیلیں بھی تقریبا ۷۰ کے قریب اناجیل میں سے انتخاب ہیں۔ اس طرح صدر اول میں کئی قسم کے قرآن موجود تھے۔ آرتھر جیفری نے اپنی کتاب'Materials for the History of the Text of the Quran' میں ۱۵ صحابہ اور ۱۳ تابعین کے ۱۲۸ ایسے نسخوں کا تعارف کروایا ہے جومصحف عثمانی سے بھی مختلف تھے اور ان میں باہم ۲۴۰۰ اختلافات تھے۔ حافظ صاحب نے اس کتاب کا ایک تفصیلی جواب اپنے اس مضمون میں دیا ہے اور صحابہ و تابعین کی طرف منسوب ان مصاحف کی حقیقت کو واضح کیا ہے۔ (ارادہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابن ابی داؤد﷫ کا تعارف
ان کا نام عبد اللہ بن سلیمان بن اشعث بن بشیر بن شداد بن عمرو بن عمران ازدی سجستانی ہے۔ کنیت ابوبکر ہے۔ ۲۳۰ھ میں پیدا ہوئے۔ ۳۱۶ھ میں وفات پائی۔ جس دن ان کی وفات ہوئی ۳ لاکھ افراد ان کے جنازے میں شریک ہوئے اور تقریباً ۸۰ مرتبہ ان کا جنازہ پڑھا گیا۔ (کتاب المصاحف مع تحقیق الدکتور محب الدین واعظ: ۱۵۔۱۶)
ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد محترم امام ابو داؤد ﷫سے حاصل کی۔ امام ابو داؤد علم کے حصول کی خاطر سفر میں اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ امام صاحب اپنے بیٹے کو خراسان‘ اصبہان‘ فارس‘ بصرۃ‘ بغداد‘ کوفہ ‘ مکہ ‘ مدینہ‘ شام‘ مصر‘ جزیرہ‘ جبال اور ثغور کے علاقوں میں لے کر گئے جہاں وہ اساتذہ سے روایات سنتے بھی تھے اور لکھتے بھی تھے۔(أیضاً: ص ۱۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابن ابی داؤد ﷫ پر جرح و تعدیل
ابن ابی داؤد﷫ کے بارے جرح و تعدیل دونوں منقول ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابن ابی داؤد﷫کی تعدیل
جمہور ائمہ جرح و تعدیل اور محدثین نے ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کوثقہ راوی قرار دیا ہے:
٭ ابو حامد بن اسد﷫ فرماتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن سلیمان بن اشعث جیسا عالم نہیں دیکھا۔
٭ ابو الفضل صالح بن احمد الحافظ﷫ فرماتے ہیں: ابو بکر عبد اللہ بن سلیمان اہل عراق کا امام ہے۔ انہوں نے مختلف شہروں سے علم حاصل کیا، سلطان نے ان کیلئے ایک منبر بنایا ہے جس پر بیٹھ کر وہ اسکے سامنے حدیث بیان کرتے ہیں۔
خطیب بغدادی﷫ فرماتے ہیں: سمجھدار‘ عالم‘ حافظ اور زاہد آدمی تھے۔
٭ امام دارقطنی﷫ فرماتے ہیں: ثقہ تھے لیکن حدیث میں بہت زیادہ غلطیاں کرتے تھے۔
٭ ابن عدی﷫ فرماتے ہیں: اصحاب حدیث کے ہا ں مقبول ہیں۔ ان کے والد نے ان کے بارے میں جو کلام کیا ہے‘ مجھے نہیں معلوم انہوں نے اس میں کیا دیکھ کر اس کے بارے میں ایسی بات کی ہے۔
٭ خلیلی﷫کہتے ہیں: حافظ‘ امام وقت‘ نشان علم‘ متفق علیہ اور امام ابن امام تھے۔ (أیضاً: ۳۴،۳۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابن ابی داؤد پر جرح
بعض ائمہ سے ابن ابی داؤد﷫پر جرح بھی منقول ہے۔ ان میں انکے والد محترم امام ابو داؤد﷫ پیش پیش ہیں۔ امام ابو داؤد﷫ اپنے بیٹے کے بارے میں فرماتے ہیں: (ابني عبد اﷲ ھذا کذاب) یعنی میرا یہ بیٹا عبد اللہ جھوٹا ہے۔
٭ ابن صاعد﷫ کہتے ہیں:
ابن ابی داؤد﷫ کے بارے میں ہمیں وہی بات کافی ہے جو اس کے والد محترم نے اس کے بارے میں کہی ہے۔
ابراہیم اصبہانی﷫ نے بھی ابن ابی داؤد کو ’کذاب‘ کہا ہے۔ (سیر أعلام النبلاء: ۲۵؍۲۲۶‘ مؤسسۃ الرسالۃ)
ابن ابی داؤد﷫ کے بارے میں ابراہیم اصبہانی﷫ اور ابن صاعد﷫ کے اقوال کی بنیاد بھی امام ابو داؤد کا قول ہے۔ امام ذہبی﷫ فرماتے ہیں: ابن ابی داؤد﷫ کے بارے میں ابن صاعد﷫ اور ابن جریر﷫ کے اقوال کا اعتبار نہیں ہو گاکیونکہ ان میں عداوت و مخاصمت معروف تھی۔
امام ابو داؤد﷫ نے اپنے بیٹے پر کذب کی جو تہمت لگائی ہے اس کے کئی ایک جواب دیے گئے ہیں۔ امام ذہبی﷫ کا کہنا یہ ہے کہ اگر یہ تہمت صحیح سند سے ثابت ہو تو اس سے مراددنیاوی کلام میں جھوٹ ہے نہ کہ حدیث نبوی میں۔ اور امام صاحب کا یہ قول عبد اللہ کی جوانی کے وقت کا ہے ۔ بعد میں جب عبد اللہ خود امام اور شیخ بن گئے تو یہ بری عادت بھی ان سے جاتی رہی۔ (کتاب المصاحف مع تحقیق الدکتور محب الدین واعظ: ۲۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ڈاکٹر محب الدین واعظ کا کہنا ہے کہ امام صاحب﷫ نے اپنے بیٹے کے بارے میں یہ بات اس لیے کہی تھی کہ وہ اپنے علم کے بارے میں کچھ زیادہ ہی خوش فہم تھے اور اپنے علمی دعووں میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے تھے۔ اس کی تصدیق ابن ابی داؤد﷫ کے اس مکالمے سے بھی ہوتی ہے جو ان کے اور شیخ ابوزرعہ رازی﷫ کے مابین ہوا اور خود ابن ابی داؤد﷫ نے اس کو نقل کیا ہے۔ ابن ابی داؤد﷫ کہتے ہیں: میں نے ایک دن ابو زرعہ رازی﷫ سے کہا: مجھے امام مالک﷫ کے غرائب میں سے کوئی حدیث بیا ن کریں۔ شیخ ابو زرعہ﷫ نے وہب بن کیسان کی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کی : ’لا تحصی فیحصی علیک‘ اس روایت کو انہوں نے عبد الرحمن بن شیبہ سے بیان کیاحالانکہ وہ ’ضعیف‘ راوی ہے۔ میں نے اس پر شیخ ابوزرعہ﷫ سے کہا: آپ اس روایت کو مجھ سے نقل کریں: میں اسے احمد بن صالح سے‘ وہ عبد اللہ بن نافع اور وہ مالک﷫سے نقل کرتے ہیں۔ اس پر شیخ ابو زرعہ﷫ ناراض ہو گئے اور میرے والد سے شکایت کرتے ہوئے کہا: دیکھو ! تیرا بیٹا مجھے کیا کہتا ہے؟ (سیر أعلام النبلاء: ۲۵؍۲۲۵) ابن ابی داؤد﷫ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ابراہیم الحربی﷫ کو جتنی روایات یاد تھیں وہ سب انہیں بھی یاد تھیں اور ان کے پاس ابراہیم الحربی﷫ سے زیادہ علم تھا کیونکہ وہ ستاروں کا علم نہیں جانتے تھے۔ (أیضاً: ۲۲۳)
عبد الرحمن بن یحییٰ المعلمی﷫ کا کہنا ہے کہ ابن ابی داؤد﷫ اپنے آپ کو قضاء کا اہل بتلاتے تھے جس پر ان کے والد محترم نے انہیں جھوٹا کہا ہے۔ بظاہر ڈاکٹر محب الدین واعظ کی تاویل بہتر محسوس ہوتی ہے۔ واﷲ أعلم بالصواب۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابن ابی داؤد﷫ کا علمی مقام
علم دین کے معاملے میں بہت حریص تھے۔ ابن شاہین﷫ نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ جب وہ کوفہ آئے تو ان کے پاس ایک درہم تھا۔ اس درہم سے تیس مد لوبیا خریدا۔ ہر روز ایک مد کھا لیتے تھے اور اس کے بالمقابل ابو سعید اشج﷫سے ایک ہزار احادیث لکھتے تھے۔ اس طرح ایک مہینے میں تیس ہزار احادیث جمع کر لیں۔ ابو علی حسین بن علی الحافظ﷫ فرماتے ہیں کہ میں نے ابن ابی داؤد﷫ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ میں نے اصبہان میں ۳۶ ہزار احادیث اپنے حافظے سے بیان کیں۔ انہوں نے مجھے سات احادیث میں وہم کا الزام دیا۔ جب میں عراق واپس آیا تو ان سات میں پانچ کو میں نے اسی طرح اپنی کتاب میں لکھا دیکھا جیسا کہ میں نے انہیں بیان کیا تھا۔ (أیضاً: ۲۲۲)
کئی ایک کتابوں کے مصنف ہیں جن میں کتاب التفسیر‘ کتاب المصابیح فی الحدیث‘ کتاب نظم القرآن‘ کتاب فضائل القرآن‘ کتاب شریعۃ التفسیر‘ کتاب المصاحف‘ کتاب الناسخ و المنسوخ‘ کتاب البعث اور کتاب شریعۃ المقاری وغیرہ معروف ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کتاب المصاحف کا تعارف
اس کتاب کے دو نسخے معروف ہیں۔ ایک نسخہ ظاہریہ اور دوسرا نسخہ شستربیتی۔ پہلا نسخہ ’دارالکتب الظاہریۃ‘ مصر میں موجود ہے۔ کاتب اور تاریخ کتابت کا علم نہیں ہے کیونکہ مخطوطے کاپہلا صفحہ غائب ہے۔کتاب کی قراء ت سے متعلقہ سماعت کی اسناد سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ یہ نسخہ ۵۴۱ھ سے پہلے لکھا گیا تھا۔ سماعت ِ کتاب کی اسناد اور تواریخ نسخے میں موجود ہیں۔ یہ نسخہ ۹۸ اوراق پر مشتمل ہے۔ ہر ورق میں ۲۰ سے ۲۳ ستریں ہیں۔
دوسرا نسخہ آرتھر جیفری کے بیان کے مطابق اس کی لائبریری میں موجود ہے۔ اس کے اوراق کی تعداد ۸۳ ہے۔ ہر ورق میں تقریباً ۲۱ ستریں ہیں۔ اس نسخے کے کاتب محمد المقدسی نابلسی ہیں۔ تاریخ کتابت سے فراغت ۱۹ ذی القعدہ ۱۱۵۰ھ میں ہوئی ۔ آرتھر جیفری کے بیان کے مطابق یہ نسخہ بھی نسخہ ظاہریہ سے منقول ہے جبکہ ڈاکٹر محب الدین واعظ کا کہنا ہے کہ یہ نسخہ ایک دوسرا نسخہ ہے جو نسخہ ظاہریہ سے منقول نہیں ہے کیونکہ اس میں شروع کا صفحہ موجود ہے اور کئی ایک مقامات پر نسخہ ظاہریہ سے اختلافات بھی موجود ہیں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ نسخہ بھی کسی دوسرے مستقل نسخے سے منقول ہے۔ بذاتہ یہ کوئی مستقل نسخہ نہیں ہے کیونکہ یہ ۱۱۵۰ھ میں لکھا گیاہے۔
پہلے نسخے سے مزید دو نسخے تیار کیے گئے۔ ان میں سے ایک ۱۳۴۲ھ میں تیار ہوا اور ’دارالکتب المصریۃ‘ مصرمیں موجود ہے اور دوسرا ۱۳۴۶ھ میں تیار ہوا جو ’مکتبۃ علمیۃ عالیۃ ‘ پاکستان میں موجود ہے۔ لیکن ڈاکٹر محب الدین واعظ کے بقول ان دونوں نسخوں میں کتابت کی کافی اغلاط موجود ہیں۔ علاوہ ازیں اصل یعنی نسخہ ظاہریہ کی موجودگی میں ان کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ اس بحث کا خلاصہ کلام یہی ہے کہ اصل نسخہ ‘ نسخہ ظاہریہ ہی ہے۔ ڈاکٹر محب الدین واعظ نے اپنی تحقیق میں اسی نسخے کو بنیاد بنایا ہے۔
ابن ندیم‘ حاجی خلیفہ‘ زرکلی ‘ رضا کحالہ اور فواد سیزگین نے اس کتاب کی امام ابن ابی داؤد﷫ کی طرف نسبت کو صحیح قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں اس کتاب کے نسخہ ظاہریہ کے ہر جزء کے آخر میں اس کتاب کی سماعت کی اسناد موجود ہیں جو اس کتاب کی صحیح نسبت کی بہترین دلیل ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کتاب المصاحف کا منہج تالیف
مذکورہ کتاب پانچ اجزاء پر مشتمل ہے۔ ہر جزء کو مصنف نے کئی ایک ابواب میں تقسیم کیاہے۔ مصنف کا طریقہ کار یہ ہے کہ شروع میں کسی باب کے لیے ایک عنوان باندھتے ہیں۔ اس کے بعد اس باب سے متعلق اپنی سند سے ان احادیث اور آثار کا تذکرہ کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے اساتذہ اور شیوخ سے نقل کی ہیں۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ مصنف نے کوئی باب باندھا ہے اور اس کے تحت کوئی روایت یا اثر نقل نہیں کیا۔ جیسا کہ مصاحف تابعین کے باب کے ذیل میں انہوں نے ’مصحف طلحۃ بن مصرف الأیامی‘ کے نام سے باب باندھا ہے لیکن اس کے تحت کسی روایت یا اثر کو نقل نہیں کیا۔ شاید ان کے نزدیک اس مصحف کے بارے میں کوئی ثابت شدہ روایت موجود نہ ہو۔ واللہ اعلم۔
مصنف صحابہ﷢ اور تابعین﷭ سے مروی قراء ات کو مصحف کے عنوان کے تحت نقل کرتے ہیں۔ مثلاً مصنف نے ’مصحف علی بن ابی طالب‘ کے نام سے ایک باب باندھا ہے اور اس کے ذیل میں حضرت علی﷜ سے منسوب ایک قراء ت بایں الفاظ نقل کر دی ہے:
حدثنا عبد اﷲ حدثنا محمد بن عبد اﷲ المخرمي حدثنا مسھر بن عبد الملک حدثنا عیسی ابن عمر عن عطاء بن السائب عن أبي عبدالرحمن عن علي أنہ قرأ:’’اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ أُنْزِلَ إِلَیْہِ وَ آمَنَ الْمُؤْمِنُوْنَ ‘‘۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح مصنف نے ’مصحف الأسود بن یزید و علقمۃ بن قیس النخعیین‘ کے عنوان کے تحت درج ذیل روایت نقل کی ہے:
حدثنا أبوبکر عبد اﷲ بن أبی داؤد حدثنا یعقوب بن سفیان حدثنا عبید اﷲ عن شیبان عن الأعمش عن إبراہیم قال: کان علقمۃ و الأسود یقرآنھا ’’صراط من أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم و غیر الضالین‘‘۔
ایسا بھی کثرت سے ہوتا ہے کہ مصنف کوئی عنوان باندھنے کے بعد اس کے ذیل میں صرف ایک ہی روایت نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جیسا کہ انہوں نے مصحف عليٍ بن أبي طالب رضي اﷲ عنہ‘ مصحف عبد اﷲ بن عمرو ﷜‘ مصحف عبید بن عمیر اللیثي‘ مصحف عطاء بن أبي رباح‘ مصحف مجاہد بن جبیر‘ مصحف أسود بن یزید وعلقمہ بن قیس نخعیین‘ مصحف محمد بن أبي موسی شامي‘ مصحف حطان بن عبد اﷲ رقاشي بصري اورمصحف صالح بن کیسان مدیني رحمہم اﷲ کے ذیل میں صرف ایک ایک ہی روایت نقل کی ہے۔
مصنف نے جو کچھ کتاب میں نقل کیا ہے وہ سب ان کی اپنی رائے نہیں ہے جیسا کہ صحابہ﷢ اور تابعین﷭کے مصاحف کے اختلافات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ہم اپنے پاس موجود مصحف عثمانی ہی کااعتبار کریں گے اور جو روایات صحابہ و تابعین﷭ کے اختلاف قراء ات کے بارے میں منقول ہیں‘ ان سے مصحف عثمانی میں کمی بیشی جائز نہ ہو گی۔مصنف علام﷫ فرماتے ہیں:
قال عبد اﷲ بن أبی داؤد: لا نری أن نقرأ القرآن إلا لمصحف عثمان الذي اجتمع علیہ أصحاب النبي ﷺ فإن قرأ الإنسان بخلافہ في الصلاۃ أمرتہ بالإعادۃ۔
کتاب ہذا میں مؤلف ایک عنوان باندھنے کے بعد اس کو ثابت کرنے کے لیے ہر قسم کی روایات نقل کر دیتے ہیں مثلاً مرفوع‘ مرسل‘ مقطوع‘ صحیح‘ حسن‘ ضعیف‘ منقطع وغیرہ۔
 
Top