• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آرتھر جیفری اور کتاب المصاحف

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بائیسویں روایت کے مطابق ابن عباس﷜نے سورۃ بقرۃ میں ’حافظوا علی الصلوات والصلوٰۃ الوسطی وصلاۃ العصر‘ پڑھا ہے۔ اس روایت کی سند’حسن‘ درجے کی ہے لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے بطور قراء ت غیر مقبو ل ہے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ’الصلوۃ الوسطی‘ کی تفسیر ’صلاۃ العصر‘ سے کی تھی۔ (صحیح البخاري‘ کتاب التفسیر ‘ باب حافظوا علی الصلوات والصلوۃ الوسطی) محسوس یہی ہوتا ہے کہ اسے بعض صحابہ﷢ نے غلطی سے تلاوت سمجھ کر نقل کر دیا۔ بہر حال جمع عثمانی میں ان الفاظ کو مصحف میں نہیں رکھا گیا تھاجو ان کے غیر قرآن ہونے کا بین ثبوت ہے۔
تئیسویں روایت کے مطابق ابن عباس﷜نے سورۃ نساء میں ’طیبات کانت أحلت لھم‘ پڑھا تھا۔ اس روایت کی سند ’صحیح ‘ ہے لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے بطور قراء ت غیر مقبو ل ہے۔روایت کے الفاظ سے بظاہر محسوس ہوتا ہے یہ ان کی تفسیر ہے یعنی قرآنی آیت کے معنی و مفہوم میں زمانے کا تعین کر رہے ہیں۔
اگلی چار روایات کے مطابق ابن عباس﷜نے سورۃ نساء میں ’فما استمتعتم بہ منھن إلی أجل مسمی‘ پڑھا ہے۔ اس روایت کی سند’صحیح ‘ ہے لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے غیر مقبول ہے۔ ان مترادفات کے قبیل سے معلوم ہوتی ہے جو عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہو چکے ہیں اسی لیے حضرت عثمان﷜ نے اسے اپنے مصاحف میں نقل نہیں کروایا۔ ان احرف کے قبیل سے بھی ہو سکتی ہے جو جمع عثمانی میں نقل ہونے سے رہ گئے ہوں۔ابن عباس﷜ کی روایت کے الفاظ ہیں:
’’حدثنا عبداﷲ نا حماد بن الحسن نا الحجاج یعني ابن نصیر نا شعبۃ عن أبی سلمۃ عن أبي نضرۃ قال: قرأت علی ابن عباس: فما استمتعتم بہ منھن فقال ابن عباس: إلی أجل مسمی قال: قلت: ما ھکذا أقرؤھا۔ قال: واﷲ لقد نزلت معھا، قالھا ثلاث مرات۔‘‘ (أیضاً)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آخری روایت کے مطابق ابن عباس﷜نے مغرب کی نماز میں ’إذا جاء فتح اﷲ و النصر‘ پڑھا۔اس روایت کی سند ’حسن‘ درجے کی ہے لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے بطور قرآن غیر مقبول ہے۔روایت کے الفاظ ہیں:
’’عن أبی نوفل بن أبی عقرب قال سمعت ابن عباس یقرأ فی المغرب: إذا جاء فتح اﷲ والنصر۔‘‘ (أیضاً)
ان احرف کے قبیل سے ہو سکتے ہیں جو جمع عثمانی میں نقل ہونے سے رہ گئے ہوں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف ابو موسیٰ الاشعری﷜(متوفی ۴۴ھ)
اس مصحف کا تذکرہ ابن ابی داؤد﷫نے اپنی کتاب میں کسی عنوان کے تحت نہیں کیا ہے۔ بعض رویاات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو موسی اشعری﷜ کا بھی کوئی مصحف تھا۔ آرتھر جیفری نے اس مصحف کے وجود کے ثبوت کے طور پر ’کتاب المصاحف‘ کی تین روایات کو بنیاد بنایا ہے جو کہ درج ذیل ہیں:
پہلی روایت یزید بن معاویہ ﷫ سے ہے لیکن اس میں صرف ابو موسی اشعری﷜ کی قراء ت کا تذکرہ ہے۔ ان کے کسی مصحف کا ذکر نہیں ہے۔ (کتاب المصاحف‘ باب اتفاق الناس مع عثمان علی جمع المصاحف)
دوسری روایت یہ ہے:
’’حدثنا عبد اﷲ قال حدثنا ابراہیم بن عبد اﷲ بن أبي شیبۃ قال حدثنا ابن أبی عبیدۃ قال حدثنا أبی عن الأعمش عن حبیب بن أبی ثابت عن أبی الشعثاء قال: کنت جالسا عند حذیفۃ وأبي موسی وعبد اﷲ بن مسعود فقال حذیفۃ: أھل البصرۃ یقرؤون قرائۃ أبي موسی‘ وأھل الکوفۃ یقرؤون قرائۃ عبد اﷲ‘ أما واﷲ أن لو قد أتیت أمیر المؤمنین لقد أمرتہ بغرق ھذا المصاحف‘ فقال عبد اﷲ: إذا تغرق في غیر ماء۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب کراھیۃ عبد اﷲ ابن مسعود ذلک)
اس روایت کا دارومدار حبیب بن ابی ثابت پر ہے اور وہ تیسرے درجے کا ’مدلس‘راوی ہے اور عنعنہ سے روایت کر رہا ہے لہٰذا روایت ’ضعیف‘ ہے۔ (کتاب المصاحف مع تحقیق الدکتور محب الدین واعظ: ص ۱۸۱)
اس روایت کے نفس مضمون کی تائید بہت سی دوسری صحیح روایات سے بھی ہوتی ہے۔ اس روایت کے بارے میں اپنا تبصرہ ہم پچھلے صفحات میں نقل کر چکے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تیسری روایت درج ذیل ہے:
حدثنا عبداﷲ قال حدثنا زیاد بن یحی أبو الخطاب الحسانی حدثنا کثیر یعني ابن ھشام حدثنا جعفر حدثنا عبدالأعلی بن الحکم الکلابي قال: ’’أتیت دار أبي موسی الأشعري فإذا حذیفۃ بن الیمان وعبد اﷲ بن مسعود وأبوموسی الأشعري فوق أجار لھم فقلت: ھؤلاء واﷲ الذین أرید فأخذت أرتقي إلیھم، فإذا غلام علی الدرجۃ فمنعني فنازعتہ، فالتفت إلي بعضھم۔ قال: خل عن الرجل، فأتیتھم حتی جلست إلیھم، فإذا عندھم مصحف أرسل بہ عثمان وأمرھم أن یقیموا مصاحفھم علیہ۔ فقال أبوموسی: ما وجدتم في مصحفي ھذا من زیادۃ فلا تنقصوھا وما وجدتم من نقصان فاکتبوہ۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب ما کتب عثمان من المصاحف)
اس روایت کی سند میں عبد الاعلی بن الحکم الکلابی کے بارے کوئی جرح و تعدیل مروی نہیں ہے لیکن نفس مضمون کی تائید میں کئی ایک اورروایات بھی موجو دہیں۔ حضرت ابو موسی اشعری﷜ کے بارے یہ معروف ہے کہ حضرت عمر﷜نے انہیں اپنے زمانے میں بصرۃ کا امیر بنا کر بھیجا تھا۔ابراہیم نخعی﷫ کی روایت میں بھی جمع عثمان سے پہلے اہل بصرہ کے مصحف کا تذکرہ ہے اور اس روایت کی سند کو ابن حجر﷫ نے ’صحیح ‘کہا ہے۔ اس لیے حضرت ابو موسی اشعری﷜ کے لیے کسی مصحف کا وجود ماننے میں کوئی تأمل نہیں ہونا چاہیے لیکن ان کی طرف منسوب قراء ت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ صحیح سند ہی سے مروی ہوں تو ان کی نسبت ان کی طرف کی جائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف اُم المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا (متوفی ۴۵ھ)
اس مصحف کے وجود کے ثبوت کے لیے بھی آرتھر جیفری کی بنیاد کتاب المصاحف ہے۔ ابن ابی داؤد﷫ نے ’کتاب المصاحف‘ میں مصحف حفصہ رضی اللہ عنہا کے تحت سات روایات بیان کی ہیں۔ ان میں سے بعض طرق’ صحیح‘ اور بعض ’ضعیف ‘ہیں۔ ان روایات کے مطابق حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے اپنے لیے ایک مصحف تیار کرواتے وقت کاتب کو یہ ہدایت جاری کی کہ وہ سورہ بقرہ میں ’حافظوا علی الصلوات و الصلوۃ الوسطی و صلاۃ العصر‘ لکھے۔ایک روایت کے الفاظ ہیں:
حدثنا عبد اﷲ حدثنا أبو الطاھر قال: أخبرنا ابن وھب قال: أخبرنی مالک عن زید بن أسلم عن عمرو بن رافع أنہ قال: ’’کنت أکتب مصحفاً لحفصۃ أم المؤمنین فقالت: إذا بلغت ھذا الآیۃ فآذني ’’ حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلـٰوۃِ الْوُسْطٰی ‘‘ قال: فلما بلغتھا آذنتھا۔ فأملت: حافظوا علی الصلوات و الصلاۃ الوسطی وصلاۃ العصر وقوموا ﷲ قانتین۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب مصحف حفصۃ زوج النبي ﷺ)
ہم اس کے بارے یہ واضح کر چکے ہیں کہ درحقیقت تفسیر رسولﷺتھی جو غلطی سے بطور قرا ء ت نقل ہو گئی۔ ایسی ہی روایات مصحف عائشہ رضی اللہ عنہا اور مصحف ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ذیل میں بھی ابن ابی داؤد﷫ لائے ہیں جس سے اس روایت کی حقیقت مزید مشتبہ ہوجاتی ہے یعنی ایک ہی واقعہ تین ازواج کی طرف منسوب کیا گیا جس سے محسوس ہوتا ہے کہ اس روایت کے متن میں اضطراب ہے۔ آرتھر جیفری کے انتقاد اعلیٰ کے اصول کو بھی سامنے رکھا جائے تو اس واقعے کا ثبوت مشتبہ قرار پاتا ہے کیونکہ ایک ہی واقعے کی نسبت تین مختلف ازواج مطہرات کی طرف کی جا رہی ہے۔علاوہ ازیں اگر اس روایت کو ’صحیح‘ قرار بھی دیا جائے تو یہ مصحف در حقیقت مصحف عثمانی ہی کی ایک نقل تھاسوائے ایک مقام کے اختلاف کے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف اَنس بن مالک ﷜ (متوفی ۹۳ھ)
اس مصحف کا تذکرہ ابن ابی داؤد﷫ نے نہیں کیا ہے۔ آرتھر جیفری کے بیان کے مطابق ابن جزری﷫ کی کتاب’النشر‘میں یہ موجود ہے کہ یہ صحابی﷜ بھی ان صحابہ﷢ میں سے ایک تھے جنہوں نے اللہ کے رسولﷺکے زمانے میں قرآن جمع کیا تھا۔ آرتھر جیفری نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس روایت کی سند کمزور ہے لیکن اس نے وہ روایت نقل نہیں کی۔ (Materials: Codex of Anas bin Malik)
ہمارے خیال میں یہ تو کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ ان کے پاس کوئی ایسا مصحف تھا جو مصحف عثمانی کے رسم و قراء ت کے مخالف تھا۔ مجرد اس بنیاد پر کہ کسی صحابی﷜ کے بارے میں یہ مروی ہو کہ وہ اللہ کے رسولﷺکے زمانے میں قرآن جمع کرتے تھے ‘ یہ کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ ان کا مصحف ‘ مصحف عثمانی سے علیحدہ کوئی اور ہی مصحف تھا۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
’’إن زید بن ثابت قال: أرسل إلي أبوبکر ÷ قال: إنک کنت تکتب الوحي لرسول اﷲ ﷺ فاتبع القرآن فتتبعت۔‘‘(صحیح البخاري‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب کاتب النبي ﷺ)
حضرت زید بن ثابت﷜ اللہ کے رسولﷺکے کاتب بھی تھے اور حضرت ابوبکر﷜ اور حضرت عثمان﷜ کے زمانے میں جمع قرآن کے مرکزی کردار بھی۔ پس اگر کچھ ضعیف اور منقطع روایت میں یہ بات مذکور ہو کہ حضرت زید بن ثابت﷜ نے کچھ حروف قرآنیہ کورسم عثمانی کے خلاف تلاوت کیا تو کیا ان منقطع روایات کو حضرت زید بن ثابت﷜ کے اس مصحف کے بالمقابل قبول کر لیاجائے جو انہوں نے حضرت عثمان﷜ کے دور میں جمع کیا جبکہ جمع عثمانی کی ان کی طرف نسبت بھی قطعیت سے ثابت ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
واقعہ یہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺکے زمانے میں بہت سے صحابہ﷜ اللہ کے رسولﷺکے حکم سے بھی اور اپنے طور پربھی قرآن کو لکھتے تھے اور صحابہ﷜ کی ایک بڑی جماعت کے پاس آپؐ کے زمانے میں لکھے ہوئے نا مکمل مصاحف موجود تھے۔ حضرت ابوبکر﷜کے زمانے میں انہی جزوی مصاحف ہی سے تو ایک مکمل مصحف کی تیاری ہوئی تھی۔ جمع صدیقی میں یہ بات بطور شرط مقرر کی گئی تھی کہ کسی بھی صحابی﷜سے اس وقت تک آیات قرآنیہ نہیں لی جائیں گی جب تک کہ وہ دو صحابہ﷜کی گواہی اس بات پر نہ پیش کر دے کہ اس نے یہ آیات اللہ کے رسولﷺکے زمانے میں ہی لکھی تھیں۔ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ حضرت زید بن ثابت﷜ فرماتے ہیں:
’’فتتبعت القرآن أجمعہ من العسب واللخاف وصدور الرجال۔‘‘ (صحیح البخاري‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب جمع القرآن)
’’حدثنا عبد اﷲ قال حدثنا أبو الطاھر قال: أخبرنا ابن وھب أخبرني ابن أبي الزناد عن ھشام ابن عروۃ عن أبیہ قال: لما استحر القتل بالقرائ، یومئذ فرق أبوبکر علی القرآن أن یضیع۔ فقال لعمر بن الخطاب و لزید بن ثابت: اقعدا علی باب المسجد فمن جائکما بشاھدین علی شيء من کتاب اﷲ فاکتباہ۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب جمع أبی بکر الصدیق﷜فی المصحف)
اس روایت کی سند ’منقطع‘ ہے کیونکہ عروۃ بن زبیر﷫ کی ملاقات حضرت ابو بکر صدیق﷜ سے ثابت نہیں ہے۔حضرت عروۃ فقہائے مدینہ میں سے ہیں اور ان کی پیدائش تقریباً ۲۳ھ میں ہوئی۔ اس روایت کے جمیع راویوں کو ابن حجر﷫ نے فتح الباری میں’ ثقہ‘ قرار دیا ہے۔ بہرحال تابعی﷫ کے ایک قول کے طور پر اس روایت کی سند مضبوط ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام سخاوی﷫نے اس روایت کا معنی یہ بیان کیا ہے:
’’ومعنی ھذا الحدیث و اﷲ أعلم من جائکم بشاھدین علی شيء من کتاب اﷲ الذی کتب بین یدي رسول اﷲ ﷺ وإلا فقد کان زید جامعاً للقرآن۔‘‘ (کتاب المصاحف مع تحقیق الدکتور محب الدین واعظ: ص ۱۵۷ - الإتقان‘ باب النوع الثامن عشر في جمعہ و ترتیبہ: ص ۲۰۵۔۲۰۶)
ابن حجر﷫نے اس روایت کا معنی یہ بیان کیا ہے:
’’وکأن المراد بالشاھدین: الحفظ والکتاب، أو المراد: أنھما یشھدان علی أن ذلک المکتوب کتب بین یدی رسول اﷲ ﷺ، أو المراد: أنھما یشھدان علی أن ذلک من الوجوہ التي نزل بھا القرآن‘ و کان غرضھم أن لا یکتب إلا من عین ما کتب بین یدي النبي ﷺ لا من مجرد الحفظ۔‘‘ (فتح الباري: ۹؍۱۴۔۱۵)
امام سیوطی﷫کہتے ہیں:
’’أو المراد: أنھما یشھدان علی أن ذلک مما عرض علی النبي ﷺ عام وفاتہ۔‘‘ (الإتقان‘ باب النوع الثامن عشر في جمعہ وترتیبہ: ۲۰۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف عمربن خطاب﷜(متوفی ۲۳ھ)
اس مصحف کے وجود کے ثبوت کے لیے آرتھر جیفری نے کتاب المصاحف کے بیانات و روایات کو دلیل بنایا ہے۔ ابن ابی داؤد﷫ نے ’کتاب المصاحف‘ میں ’مصحف عمر بن خطاب ﷜‘ کے عنوان کے تحت ۱۱ روایات بیان کی ہیں جن میں تین مقامات قرآنیہ پر حضرت عمر﷜ کے اختلاف ِ قراء ت کو نقل کیا گیا ہے۔
ان ۱۱؍ روایات میں سے کسی ایک روایت میں بھی یہ بات منقول نہیں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب﷜ کا کوئی خاص مصحف تھا جس سے وہ قرآن کی تلاوت کرتے تھے ۔ ان روایات سے بس اتنا معلوم ہوتا ہے کہ تین مقامات پر حضرت عمر ﷜نے متواتر قراء ات کے خلاف تلاوت کی ہے۔
سورۃ فاتحہ میں حضرت عمر﷜ نے ’صراط من أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم و غیر الضالین‘ سورہ آل عمران میں ’الم اﷲ لا إلہ إلا ھو الحی القیام‘ اور سورہ مدثر میں ’فی جنت یتسائلون یا فلان ما سلکک في سقر‘ پڑھاہے۔ پہلی روایت کی سند ’صحیح‘ دوسری روایت ’حسن لغیرہ‘ اور تیسری ’ضعیف‘ ہے۔
پہلی اور دوسری روایت کثرت طرق سے مروی ہے اور کئی ایک مفسرین نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے لہٰذا حضرت عمر﷜ کے اس فعل کو منسوخ حروف کی تلاوت پر محمول کیا جائے گایا یہ ان احرف میں سے بھی ہو سکتے ہیں جو جمع عثمانی میں نقل ہونے سے رہ گئے ہوں۔تیسری روایت کی توضیح و توجیح کی ضرورت نہیں ہے‘ اس کے الفاظ ہی یہ بتلانے کے لیے کافی ہیں کہ قرآن نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف زید بن ثابت﷜(متوفی ۴۵ھ)
اس مصحف کا تذکرہ ابن ابی داؤد﷜ نے نہیں کیا ہے۔ آرتھر جیفری نے اس مصحف کے وجود کے ثبوت کے طور پر امام ابن قتیبہ﷫ (متوفی ۲۷۶ھ) کے ایک قول کو بنیاد بنایا ہے۔ ابن قتیبہ﷫ اپنی تاریخ’ المعارف‘ میں لکھتے ہیں:
’’وکان آخر عرض رسول اﷲ ﷺ القرآن علی مصحفہ وھو أقرب المصاحف من مصحفنا۔‘‘ (المعارف‘ کتاب أخبار الصحابۃ ﷢‘ باب زید بن ثابت )
یہ ابن قتیبہ﷫ کا مجرد ایک بیان ہے جس کی تائید میں انہوں نے کسی مصدر یا حوالے کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔ علاوہ ازیں اس بیان سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ان کا یہ مصحف رسم و قراء ت میں‘ مصحف عثمانی سے مختلف تھا۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت زید بن ثابت﷜ اللہ کے رسولﷺکے لیے وحی لکھا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب کاتب النبي ﷺ) لہٰذا اللہ کے رسولﷺکے دور میں ان کا مصحف سرکاری مصحف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق﷜ اور حضرت عثمان﷜ نے اپنے زمانے میں جمع قرآن کے انہیں منتخب کیا۔
آرتھر جیفری نے اس مصحف کے ثبوت کے لیے دوسرا حوالہ علامہ آلوسی﷫ (متوفی۱۲۷۰ھ) کی ایک عبارت کو بنایا ہے۔ علامہ آلوسی﷫ کے الفاظ درج ذیل ہیں:
’’وکذا ظاھر ما في مصحف عبد اﷲ وزید بن ثابت کما أخرج ابن الأنباري في المصاحف عن الأعمش ما أفاء اﷲ علی رسولہ من أھل القری فللہ و للرسول و لذي القربی و الیتامی و المساکین و ابن السبیل۔‘‘ (روح المعاني، الحشر: ۱۰)
 
Top