• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آرتھر جیفری اور کتاب المصاحف

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ آلوسی﷫ کی اس عبارت سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ’ابن الانباری﷫‘ کی روایت میں بھی ’مصحف زید بن ثابت﷜‘ کے الفاظ تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر مان لیا جائے کہ ’ابن الانباری﷫‘ نے مصحف زید بن ثابت﷜ کا تذکرہ کیا ہے تو پھر بھی یہ امکان ہے کہ ان کی مراد اس سے حضرت زید بن ثابت﷜ کی قرا ء ت ہو جیسا کہ ہم ابن ابی داؤد﷫ کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی کتاب میں جا بجا ’مصحف‘ بول کر قراء ت مراد لیتے ہیں۔تیسری بات یہ ہے کہ یہ روایت حضرت اعمش﷫(۶۱ تا ۱۴۸ھ) کی ہے اور ا ن کی ملاقات حضرت زید بن ثابت﷜( متوفی ۴۵ھ) سے ثابت نہیں ہے لہٰذا روایت ’منقطع‘ ہے۔
علاوہ ازیں اگر کوئی اس قسم کے مصاحف موجود بھی تھے تو وہ جمع عثمانی سے پہلے تھے۔ جمع عثمانی کے بعد ایسے تمام مصاحف جلا دیے گئے تھے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
و قال عثمان للرھط القرشیین الثلاثۃ: ’’إذا اختلفتم أنتم و زید بن ثابت في شيء من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش فإنما نزل بلسانھم۔‘‘ ففعلوا حتی نسخوا الصحف في المصاحف، فرد عثمان الصحف إلی حفصۃ، و أرسل إلی کل أفق بمصحف مما نسخوا و أمر بما سواہ من القرآن في کل صحیفۃ أو مصحف أن یحرق۔(صحیح البخاري‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب جمع القرآن)
مؤرخ أحمد بن إسحاق الیعقوبی(متوفی ما بعد ۲۹۲ھ) لکھتے ہیں:
’’وجمع عثمان القرآن و ألفہ‘ و صیر الطوال مع الطوال و القصار مع القصار من السور وکتب في جمع المصاحف من الآفاق حتی جمعت ثم سلقھا بالماء الحار و الخل و قیل أحرقھا فلم یبق مصحف إلا فعل بہ ذلک خلا مصحف ابن مسعود۔‘‘ (تاریخ یعقوبي‘ کتاب وفود العرب‘ باب أیام عثمان )
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف عبد اللہ بن زبیر﷜ (متوفی۷۳ھ)
اس مصحف کے وجود کے ثبوت کی دلیل کے طور پر آرتھر جیفری نے ابن ابی داؤد﷫ کے بیان کو نقل کیا ہے۔ ابن ابی داؤد﷫ نے ’مصحف عبد اللہ بن زبیر‘ کے عنوان کے تحت آٹھ روایات بیان کی ہیں۔
پہلی تین روایات کے مطابق انہوں نے سورۃ بقرۃ میں ’لاجناح علیکم أن تنتغوا فضلاً من ربکم فی مواسم الحج‘ پڑھا ہے۔ یہ ’حسن‘ درجے کی روایات ہیں لیکن یہ قراء ت رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہے اور غالب گمان یہی ہے کہ انہوں نے اسے بطور تفسیر پڑھا ہے نہ کہ قرآن۔
چوتھی روایت کے مطابق انہوں نے سورۃ انبیاء میں ’حرام علی قریۃ‘ اور سورۃ انعام میں ’و لیقولوا درست‘ اور سورۃ کہف میں ’في عین حامیۃ‘ پڑھا ہے۔ یہ تینوں قراء ات متواتر اور ثابت شدہ ہیں۔
پانچویں روایت کے مطابق انہوں نے سورۃ مدثر میں ’في جنات یتسائلون یا فلان ما سلکک فی سقر‘ پڑھا ہے۔ اس روایت کی سند ’صحیح‘ ہے لیکن یہ قراء ت رسم عثمانی کے خلاف ہے لہٰذا بطور قرآن اس کا پڑھنا جائز نہیں ہے۔ اور غالب گمان یہی ہے کہ بطور تفسیر قرآن پڑھا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چھٹی روایت کے مطابق ان کی قرا ء ت میں سورۃ مائدۃ میں ’فیصبح الفساق علی ما أسروا في أنفسھم نادمین‘ ہے۔ اس روایت کی سند’ صحیح‘ ہے لیکن یہ قراء ت رسم عثمانی کے خلاف ہے لہٰذا بطور قرآن ناقابل قبول ہے۔ اس کے بارے میں غالب گمان یہی ہے کہ بطور تفسیر قرآن پڑھا ہے۔
ساتویں روایت کے مطابق انہوں نے سورۃ آل عمران میں ’و لتکن منکم أمۃ یدعون إلی الخیر یأمرون بالمعروف و ینھون عن المنکر و یستعینون اﷲ علی ما أصابھم‘ پڑھا ہے۔ یہ قراء ت بھی رسم عثمانی کے خلاف ہے لہذا بطور قرآن تلاوت جائز نہیں۔ آٹھویں روایت کے مطابق انہوں نے سورۃ فاتحہ میں ’صراط من أنعمت علیھم‘ پڑھا ہے۔ اس روایت کی سند کمزور ہے۔ عقبہ یشکری’ضعیف‘ راوی ہے۔ علاوہ ازیں ان مترادفات کے قبیل سے ہو سکتی ہے جو عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہو چکے ہوں۔ ان آٹھ روایات میں حضرت عبد اللہ بن زبیر﷜کے کسی مصحف کا تذکرہ نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف عبد اللہ بن عمرو﷜ (متوفی ۶۵ھ )
مصحف عبد اللہ بن عمرو﷜ کے وجود کے ثبوت میں آرتھر جیفری کی بنیاد کتاب المصاحف ہے۔کتاب المصاحف میں ’مصحف عبد اﷲ بن عمرو‘ کے عنوان کے ذیل میں ایک روایت بیان کی گئی ہے۔ اس روایت کے مطابق ابو بکر بن عیاش کو شعیب بن شعیب بن محمد بن عبد اللہ بن عمرو بن العاص نے اپنے پردادا کے مصحف سے چند ایسے حروف دکھائے جو مروجہ قراء ت کے خلاف تھے۔ اس روایت سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو ابن العاص﷜ کاکوئی مصحف تھا۔ روایت کے الفاظ ہیں:
حدثنا عبد اﷲ حدثنا محمد بن حاتم بن بزیع حدثنا زکریا بن عدي حدثنا أبو بکر بن عیاش قال: ’’قدم علینا شعیب بن شعیب بن محمد بن عبد اﷲ بن عمرو بن العاص فکان الذي بیني و بینہ۔ فقال یا أبا بکر: ألا أخرج لک مصحف عبد اﷲ بن عمرو بن العاص؟ فأخرج حروفاً تخالف حروفنا۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب مصحف عبداﷲ بن عمرو ﷜)
اس سے تو کسی کو بھی انکار نہیں ہے کہ بعض صحابہ﷢ کے پاس اپنے ذاتی جزوی مصاحف بھی تھے جو قرآن کی بعض سورتوں پر مشتمل تھے۔ غالب گمان یہی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ کے مصحف کے علاوہ مصاحف کو حضرت عثمان﷜ کے سرکاری نسخے کے اجراء کے بعد جلا دیا گیا تھا۔ بفرض محال اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ کے علاوہ بھی بعض صحابہ﷢ نے اپنے مصاحف دینے سے انکارکر دیا تھا یا انہیں چھپا لیا تھاتو پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ یہ امت میں رائج نہ ہو سکے اور مرور زمانہ کے ساتھ ناپید ہو گئے۔ علاوہ ازیں ان مصاحف میں درج شدہ قرا ء ات کی کوئی سند بھی موجود نہیں ہے جیسا کہ مصاحف عثمانیہ میں درج ہر لفظ کی تصدیق پہلے دو صحابہ﷢ سے کروائی گئی اور پھر اسے لکھا گیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا (متوفی ۵۸ھ)
اس مصحف کے وجود کے ثبوت کے لیے بھی آرتھر جیفری نے ابن ابی داؤد﷫ کی روایات کو دلیل بنایا ہے۔ ’کتاب المصاحف‘ میں مصحف عائشہ رضی اللہ عنہا کے عنوان کے تحت آٹھ روایات بیان کی گئی ہیں۔
تین روایات کے مطابق مصحف عائشہ رضی اللہ عنہا میں سورۃ بقرۃ میں ’حافظوا علی الصلوات والصلوۃ الوسطی وصلاۃ العصر‘ کے الفاظ تھے جبکہ دو روایات کے مطابق انہوں نے کاتب کو یہ ہدایت جاری کی کہ وہ ان کے ذاتی مصحف کو تیار کرتے وقت مذکورہ الفاظ لکھے۔ دو روایات کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عہد نبوی میں یہ قراء ت پڑھتی تھیں۔یہ کل سات روایات ہوئیں۔ ان روایات میں سے بعض طرق ’صحیح‘ ہیں۔ لیکن یہ قراء ات رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
’’حدثنا عبد اﷲ حدثنا أبو طاھر قال أخبرنا ابن وھب قال أخبرني مالک عن زید بن أسلم عن القعقاع بن حکیم عن أبي یونس مولی عائشۃ أم المؤمنین أنہ قال: أمرتني عائشۃ + أن أکتب لھا مصحفا ثم قالت: ’’إذا بلغت ھذہ الآیۃ: ’’ حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلـٰوۃِ الْوُسْطٰی ‘‘ فآذنی۔‘‘ فلما بلغتھا، آذنتھا۔ فأملت علي: ’’حافظوا علی الصلوات و الصلاۃ الوسطی وصلاۃ العصر وقوموا ﷲ قانتین۔‘‘ ثم قالت: ’’سمعتھا من رسول اﷲ ﷺ۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب مصحف عائشۃ زوج النبي ﷺ)
اس روایت اور کتاب المصاحف کی دوسری روایات سے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مصحف سوائے ایک مقام کے مصحف عثمانی ہی کی نقل تھا کیونکہ انہوں نے مصحف کی تیاری کا کام کاتب پر چھوڑ دیا تھا اور صرف ایک مقام پر کاتب کو خود املاء کروائی تھی۔ اب کاتب نے بقیہ مصحف کہاں سے تیار کیا ہے؟۔ ظاہری بات ہے مصحف عثمانی ہی سے نقل کیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جہاں تک سورۃ بقرۃ کے اختلاف کا معاملہ ہے تویہ درحقیقت اللہ کے رسولﷺ کی تفسیرہے‘ جسے بعض ازاوج نے بطور قرآن نقل کر دیا۔ حضرت عثمان﷜کے سرکاری نسخے کے اجراء کے بعدایسی تفاسیر رسولﷺجو بطور قراء ت رائج ہو گئی تھیں‘ ختم ہو گئیں۔
اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس تفسیررسولﷺ کو بطور تفسیر ہی قرآن میں باقی رکھا ہوجیسا کہ بعض صحابہy کا یہ معمول تھا کہ وہ تفسیری نکات کو اپنے مصاحف میں باقی رکھتے تھے۔محدثین کی اصطلاح میں اس کو ’إدراج‘ کہتے ہیں۔ حدیث پڑھنے پڑھانے والے اس اصطلاح سے خوب اچھی طرح واقف ہیں۔
آٹھویں روایت کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مصحف میں سورۃ احزاب میں ’إن اﷲ و ملائکتہ یصلون علی النبي و الذین یصلون الصفوف الأول‘ تھا۔ اس روایت کی سند ’ضعیف ‘ہے۔ سند میں ابن ابی حمید راوی’ ضعیف‘ ہے اور راویہ حمیدہ’ مجہول ‘ہے۔ علاوہ ازیں متن میں اضطراب بھی ہے۔ علاوہ ازیں محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہ بھی کوئی تفسیر ہی تھی نہ کہ قراء ت۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف سالم﷜(متوفی ۱۲ھ)
اس مصحف کا تذکرہ ابن ابی داؤد﷫ نے نہیں کیا ہے۔ آرتھر جیفری کے بیان کے مطابق بعض ضعیف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا بھی کوئی مصحف تھا۔ آرتھر جیفری نے اس روایت کا تذکرہ نہیں کیالیکن اس روایت کو امام سیوطی﷫ نے ’الاتقان‘ میں ابن اشتہ﷫ کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ امام سیوطی﷫ نے ابن اشتہ﷫ کی اس روایت کو بیان کرتے وقت اسے ’غریب ‘اور ’منقطع‘ قرار دیا ہے۔امام سیوطی﷫ لکھتے ہیں:
’’قلت: و من غریب ما ورد في أول من جمعہ ما أخرجہ ابن أشتۃ في کتاب المصاحف من طریق کھمس عن ابن بریدۃ قال: أول من جمع القرآن في مصحف سالم مولی أبي حذیفۃ… إسنادہ منقطع أیضاً و ھو محمول علی أنہ کان أحد الجامعین بأمر أبي بکر۔‘‘ (الإتقان‘ النوع الثامن عشر في جمعہ وترتیبہ: ص ۲۰۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا (متوفی ۶۲ھ)
اس مصحف کے ثبوت کے بارے میں آرتھر جیفری کی بنیاد ابن ابی داؤد﷫ کی بعض روایات ہیں ۔ابن ابی داؤد﷫ نے مصحف ام سلمہ﷫ کے عنوان کے تحت چار روایات نقل کی ہیں۔
ان روایات کے مطابق حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے لیے ایک مصحف تیار کرواتے وقت کاتب کو یہ ہدایت جاری کیں کہ وہ سورہ بقرہ میں ’حافظوا علی الصلوات و الصلوۃ الوسطی و صلاۃ العصر‘ لکھے۔ بعض روایات’ صحیح ‘اور بعض’ ضعیف‘ ہیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
’’حدثنا عبد اﷲ حدثنا أبو الطاھر حدثنا ابن نافع عن داؤد بن قیس عن عبد اﷲ بن رافع مولی أم سلمۃ أنھا قالت لہ: اکتب لي مصحفا فإذا بلغت ھذہ الآیۃ فأخبروني ’’ حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلـٰوۃِ الْوُسْطٰی ‘‘ قال: فلما بلغتھا آذنتھا، فقالت: اکتب ’’حافظوا علی الصلوات و الصلاۃ الوسطی و صلاۃ العصر۔‘‘(کتاب المصاحف‘ باب مصحف أم سلمۃ رضی اللہ عنہا زوج النبي ﷺ)
اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مصحف حضرت عثمان﷜ ہی کے مصحف کی ایک نقل تھی کیونکہ ام سلمہ﷫ نے کاتب کو مصحف تیار کرنے کا کہاہے اور صرف ایک جگہ اختلاف نقل کرنے کا حکم دیا ہے۔ یعنی اس ایک مقام کے علاوہ کاتب اس مصحف کی کتابت میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رہنمائی نہیں لے رہا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا یہ مصحف حضرت عثمان﷜ ہی کے مصحف کی ایک نقل تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اسے تفسیر رسولﷺکے طور پر اپنے مصحف میں باقی رکھا ہو کیونکہ روایت میں اس کی وضاحت نہیں ہے کہ ان الفاظ کی زیادتی کی وجہ کیا تھی؟۔صحابہ﷢کا عموماً یہ معمول تھا کہ وہ اپنے مصاحف میں تفسیری نکات کو بھی قلمبند کر لیتے تھے۔دوسرا احتمال اس کے بار ے یہ بھی ہے کہ یہ تفسیر رسولﷺ تھی جو غلطی سے بطور قرا ء ت نقل ہو گئی اور بعض صحابیات و صحابہ﷢ جمع عثمانی کے بعد بھی اس کو بطور قراء ت نقل کرتے رہے ۔ خلاصہ کلام یہی ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا مصحف‘ مصحف عثمانی سے علیحدہ کوئی مصحف نہیں تھابلکہ یہ اس کی نقل اور کاپی تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف عبید بن عمیراللیثی﷫(متوفی ۷۴ ھ)
ان کے مصحف کے وجود کی دلیل کے طور پر آرتھر جیفری نے کتاب المصاحف کے بیان کو بنیاد بنایا ہے۔ ’کتاب المصاحف‘میں ابن ابی داؤد﷫ نے ’مصحف عبید اللہ بن عمیر‘ کے نام سے عنوان تو باندھا ہے لیکن اس کے تحت کوئی ایسی روایت نقل نہیں کی جس سے ان کے مصحف کے وجود کے بارے میں کوئی اشارہ ملتا ہو ۔
ابن ابی داؤد﷫نے مصحف عبید بن عمیر اللیثی﷫کے تحت ایک ہی روایت نقل کی گئی ہے۔ حضرت عمرو بن دینار﷫ فرما تے ہیں:
’’سمعت عبید بن عمر یقول: أول ما نزل من القرآن ’’ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَکَ ‘‘‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب و أما مصاحف التابعین فمصحف عبید بن عمیر اللیثي)
اس کی سند ’حسن‘ درجے کی ہے لیکن اس روایت سے نہ تو ان کے کسی مصحف کے وجود کا ثبوت ملتا ہے اور نہ ہی کسی قراء ت کے ثبوت کا۔حضرت عبید﷫ در اصل قرآن کی سب سے پہلے نازل ہونے والی سورت کے بارے میں بتلانا چاہتے ہیں یعنی قرآن نقل نہیں کر رہے بلکہ سورت کا نام نقل کرنا چاہتے ہیں اور سورتوں کو کوئی سا بھی مناسب نام دینے میں کیا اختلاف ہو سکتا ہے؟۔
انہوں نے ’سورۃ العلق‘ کو اس نام سے پکارا ہے جو اس کی پہلی آیت کے مترادفات کے قبیل سے ہے۔ متقدمین عموماً کسی سورت کے نام کے طور پر اس کی پہلی آیت وغیرہ کو نقل کر دیتے تھے۔یہاں انہوں نے سورت کے نام کے طور پر پہلی آیت کے مترادف کو نقل کیا ہے جس میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اسے ’اقرأ باسم ربک الذی خلق‘ کہتے تو احسن و احوط تھا۔
 
Top