• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آرتھر جیفری اور کتاب المصاحف

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آرتھر جیفری نے انہیں صحابی﷜ بیان کیا ہے حالانکہ یہ صحابی﷜ نہیں تھے۔ اللہ کے رسولﷺکے زمانے میں پیدا ہو چکے تھے لیکن آپﷺسے ملاقات ثابت نہیں ہے۔ (سیر أعلام النبلاء: ۴؍۱۵۷) ابن أبی داؤد﷫نے بھی ان کو تابعین﷭ میں شمار کیا ہے۔ (کتاب المصاحف‘ باب و أما مصاحف التابعین فمصحف عبید بن عمیر)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف اسود بن یزید ﷫ (متوفی ۷۴ھ)
مصحف اسود بن یزیدنخعی﷫کے مصحف کی موجودگی کے بارے میں آرتھر جیفری نے ابن ابی داؤد کے بیان کو بطور دلیل بیان کیا ہے۔ آرتھر جیفری کا کہنا یہ ہے کہ ابن ابی داؤد نے چونکہ مصحف اسود کا نام لیا ہے لہٰذا اس نام کا کوئی مصحف بھی موجود تھا۔ یہ آرتھر جیفری کی وہ جہالت ہے جو اس کے لیے تلاش حق میں رکاوٹ بن گئی۔
ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ ابن ابی داؤد﷫ مختلف صحابہ﷢ اور تابعین﷭ کی قراء ات کو بھی مصحف کا نام دے دیتے ہیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ابن ابی داؤد﷫ کے نزدیک مصحف سے مراد مصحف ہی ہے تو پھر بھی اس مصحف کا وجود ثابت نہیں ہوتا کیونکہ ابن ابی داؤد﷫نے کوئی ایسی روایت نقل نہیں کی جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ ایسا کوئی مصحف کسی زمانے میں موجود تھا۔ ابن ابی داؤد﷫ نے مصحف اسود بن یزید﷫ کے عنوان کے تحت ایک ہی روایت نقل کی ہے۔ اس روایت کے مطابق اسود رحمہ اللہ ’صراط من أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم و غیر الضالین‘ پڑھتے تھے۔یہ قراء ت مصحف عثمانی کے بر خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہے۔ اس روایت میں ان کے کسی مصحف کا تذکرہ نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسود بن یزید﷫ کے اساتذہ میں حضرت عمر﷜ بھی شامل ہیں لہٰذایہ بات قرین قیاس ہے کہ انہوں نے یہ قراء ت حضرت عمر﷜ سے لی تھی اور حضرت عمر﷜ کے زمانے میں جمع عثمان﷜سے پہلے اس کی تلاوت کرتے تھے۔ یہ تلاوت ان مترادفات کے قبیل سے معلوم ہوتی ہے جو عرضۂ اخیرہ میں منسوخ ہو چکے تھے لیکن حضرت عثمان﷜کے زمانے تک نقل ہوتے رہے۔ ان احرف میں سے بھی ہو سکتی ہے جو جمع عثمانی میں نقل ہونے سے رہ گئے ہوں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف علقمہ بن قیس﷫ (متوفی مابعد ۶۰ھ)
مصحف علقمہ بن قیس نخعی﷫ کے وجود کے بارے میں بھی آرتھر جیفری کا کل اعتماد و مصدر کتاب المصاحف پر ہے۔ امام ابن ابی داؤد﷫ نے اس عنوان کے تحت ایک روایت بیان کی گئی ہے۔ اس روایت کے مطابق علقمہ﷫ سورہ فاتحہ میں ’صراط من أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم و غیر الضالین‘ پڑھتے تھے۔یہ قراء ت مصحف عثمانی کے بر خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہے۔ علاوہ ازیں اس روایت میں ان کے کسی مصحف کا تذکرہ نہیں ہے۔ یہ قراء ت حضرت عمر﷜ سے بھی ثابت ہے۔ علقمہ﷫ کے اساتذہ میں بھی حضرت عمر﷜ کا نام ملتا ہے لہٰذا قوی طور پر یہ امکان موجود ہے کہ انہوں نے یہ قراء ت حضرت عمر﷜ سے حاصل کی ہو اور جمع عثمانی سے پہلے ان کے زمانے میں اس کی تلاوت کرتے ہوں۔ جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ یہ قراء ت ان مترادفات کے قبیل سے ہے جو عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہو چکے تھے لیکن حضرت عثمان﷜ کے جمع قرآن تک بعض صحابہ﷢ و تابعین﷭ ان کی تلاوت کرتے رہتے تھے۔
آرتھر جیفری نے ’کتاب المصاحف‘ کی ایک اور روایت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ جس سے علقمہ﷫کے مصحف کا اشارہ ملتا ہے۔ ابن ابی داؤد﷫ اپنی کتاب میں درج ذیل روایت لائے ہیں:
’’حدثنا عبد اﷲ حدثنا شعیب بن أیوب حدثنا یحی حدثنا الحسن بن ثابت قال سمعت الأعمش یقول: أخرج إلینا ابراہیم مصحف علقمۃ فإذا الألف والیاء فیہ سواء۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب اختلاف خطوط المصاحف)
اس روایت میں حسن بن ثابت راوی ’صدوق‘ ہے اور غریب حدیثیں بیان کرتا ہے۔ ڈاکٹر محب الدین واعظ کے بیان کے مطابق اس روایت کا کوئی متابع موجود نہ ہونے کی وجہ سے یہ روایت’ ضعیف‘ ہے۔
آرتھر جیفری نے اس روایت کو مصحف علقمہ﷫ کی دلیل کے طور پر نقل توکر دیا لیکن وہ اس کے معنی و مفہوم سے نا واقف تھا۔ ا س روایت کا معنی یہ ہے کہ سورۃ طہ میں ’ إن ھذان لسحران‘ میں الف اور یاء دونوں کے ساتھ قراء ت درست ہے۔ یاء کے ساتھ یہ قراء ت ’إن ھذین لسحران‘ بنے گی جو ابن عامر شامی﷫ کی متواتر قراء ت ہے۔ لہٰذا یہ آیت مبارکہ الف کے ساتھ ہو یا یاء کے ساتھ‘ دونوں صورتوں میں متواتر قراء ت کے مطابق ہو گی۔ پس اس روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت علقمہ﷫ کے پاس کوئی ایسا مصحف تھا جو مصحف عثمانی کی قراء ت کے خلاف تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف حطان بن عبد اللہ رقاشی﷫(متوفی مابعد ۷۰ ھ)
مصحف حطان بن عبد اللہ رقاشی﷫ کے وجود کے بارے میں بھی آرتھر جیفری نے ابن ابی داؤد﷫ کے بیان کو ہی بطور دلیل نقل کیا ہے۔ آرتھر جیفری کا کہناہے‘ چونکہ ابن ابی داؤد﷫نے اپنی کتاب میں مصحف حطان کے الفاظ کا تذکرہ کیا ہے لہٰذا اس نام سے کوئی مصحف بھی ضرور موجود تھا۔ ابن ابی داؤد﷫ نے اپنی کتاب میں اس عنوان کے تحت بھی ایک ہی روایت بیان کی ہے۔ اس روایت کے مطابق حطان بن عبد اللہ ’سورۃ آل عمران میں ’و ما محمد إلا رسول قد خلت من قبلہ رسل‘ پرحلف اٹھاتے تھے۔ اس روایت کی سند’صحیح‘ ہے۔
ڈاکٹر محب الدین واعظ کے بیان کے مطابق کتاب المصاحف کے نسخہ شربیتی میں ’رسل‘ کی بجائے ’الرسل‘ کے الفاظ ہیں جو متواتر قراء ت کے مطابق ہیں۔ لہٰذا کسی تاویل کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔البتہ نسخہ ظاہریہ کے الفاظ ’رسل‘ کے ہیں جو رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہیں۔ پس نسخہ ظاہریہ کے الفاظ کو کاتب کی غلطی پر محمول کیا جائے گا۔ اس روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حطان بن عبد اللہa کا کوئی مصحف بھی تھا۔ روایت کے الفاظ درج ذیل ہے:
’’حدثنا عبد اﷲ حدثنا عبد اﷲ بن سعید حدثنا ابن علیۃ عن أبی ھارون الغنوی قال: کان حطان بن عبد اﷲ یحلف علیھا ’’و ما محمد إلا رسول قد خلت من قبلہ رسل۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب مصحف حطان بن عبداﷲ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف سعید بن جبیر﷫ ( ۴۵ھ تا ۹۵ھ)
مصحف سعید بن جبیر﷫ کے وجود کے بارے میں بھی آتھر جیفری نے ’کتاب المصاحف‘ ہی کے بیان کو دلیل بنایا ہے۔ ابن ابی داؤد﷫ نے اس عنوان کے تحت تین روایات کا تذکرہ کیا ہے۔ ان روایات کے مطابق حضرت سعید بن جبیر﷫ نے سورہ بقرۃ میں ’و علی الذین یطوّقونہ‘ اور سورۃ مائدۃ میں ’أحل لکم الطیبات و طعام الذین أوتوا الکتاب من قبلکم‘ اور سورۃ اعراف میں ’فإذا ھی تلقم ما یأفکون‘ پڑھا ہے۔
پہلی روایت کی سند ’صحیح‘ دوسری کی سند میں ایک راوی محمد بن زکریا’مجہول‘ اور تیسری میں حسن بی ابی جعفر’ ضعیف‘ ہے۔ تینوں روایات رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہیں۔ ان روایات میں حضرت سعید بن جبیر﷫ کے کسی مصحف کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔ حضرت سعید بن جبیر﷫ کے اساتذہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس﷜ کا نام کثرت سے ملتا ہے۔ ’یطوّقونہ‘ والی قراء ت حضرت عبد اللہ بن عباس﷜ کی بھی تھی۔ اس لیے اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ انہوں نے یہ قراء ت ان سے لی ہو۔پہلی قراء ت ان قرا ء ات میں سے معلوم ہوتی ہے جو عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہو چکی تھیں یا پھر ان احرف میں سے بھی ہو سکتی ہے جو جمع عثمانی میں نقل ہونے سے رہ گئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف طلحہ بن مصرف﷫(متوفی ۱۱۲ھ)
مصحف طلحہ بن مصرف الیامی﷫ کے ثبوت میں بھی آرتھر جیفری نے کتاب المصاحف ہی کو بنیاد بنایا ہے۔ اس عنوان کے تحت ابن ابی داؤد نے کسی روایت کو نقل نہیں کیا ہے۔ آرتھر جیفری کے خیال میں نسخہ ظاہریہ کے کاتب سے کچھ سہوہوا ہے اور اس نے کتاب المصاحف کے کچھ اوراق نقل نہیں کیے۔ بہر حال ابن ابی داؤد﷫ نے اس عنوان کے تحت کوئی ایسی روایت نقل نہیں کی جس سے طلحہ بن مصرف﷫ کے کسی مصحف یا اختلاف قراء ت کا علم حاصل ہوتا ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف عکرمہ﷫ مولیٰ ابن عباس﷜(۲۵ھ تا ۱۰۵ھ)
مصحف عکرمہ مولیٰ ابن عباس﷜کے وجود کے بارے میں بھی آرتھر جیفری کا مصدر و ماخذ کتاب المصاحف ہی ہے۔ اس عنوان کے تحت ابن ابی داؤد﷫ نے دو روایات کا تذکرہ کیاہے۔ پہلی روایت میں حضرت عمران بن حدیر ؒکہتے ہیں: ’عن عکرمۃ أنہ کان یقرؤھا: و علی الذین یطوّقونہ۔‘ دوسری روایت میں عاصم الأحول کہتے ہیں: عن عکرمۃ أنہ کان یقرأ ھذا الحرف : قَتْل فیہ۔
ان دونوں روایات میں عکرمہ﷫ کے کسی مصحف کا تذکرہ نہیں ہے بلکہ حضرت عکرمہ﷫ کی دو قراء ات کی طرف اشارہ ہے۔سورۃ بقرۃ میں انہوں نے ’و علی الذین یطوقونہ‘ اور ’قَتْل فیہ‘ پڑھا ہے جبکہ متواترقراء ات ’یطیقونہ‘ اور ’یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ‘ ہے۔ یہ ’حسن‘ درجے کی روایات ہیں لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہیں۔ ان روایات میں حضرت عکرمہ﷫ کے کسی مصحف کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔
علاوہ ازیں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب کسی روایت میں یہ الفاظ نقل کیے جاتے ہیں کہ فلاں تابعی﷫ قرآن کے فلاں لفظ کو یوں پڑھتے تھے یا انہوں نے یوں پڑھا تو اس میں دونوں امکانات موجود ہیں ۔ ایک یہ کہ انہوں نے اسے بطور قرآن پڑھا ہو اور دورسرا یہ کہ اسے بطور علم پڑھا ہو۔ جیساکہ آج کے زمانے میں اگر کوئی مقری اپنے شاگردوں کو قراء ات شاذہ بطور علم پڑھائے تو یہ جائز ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف مجاہدبن جبر﷫(۲۰ھ تا ۱۰۳ھ)
مصحف مجاہد﷫کے وجود کے ثبوت میں آرتھر جیفری نے ابن ابی داؤد﷫ کے بیان کو نقل کیا ہے۔ ابن ابی داؤد﷫ نے اس عنوان کے تحت بھی ایک ہی روایت کا تذکرہ کیا ہے۔ حمید﷫ فرماتے ہیں: عن مجاہد أنہ کان یقرأ ’فلا جناح علیہ ألا یطوف بھما‘۔
اس روایت میں حضرت مجاہد﷫ کے کسی مصحف کا تذکرہ نہیں ہے بلکہ ایک قراء ت کا بیان ہے جو رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہے۔ ڈاکٹر محب الدین سبحان کے مطابق اس کی سند میں دو راوی یوسف بن عبد الملک اور معمر’مجہول ‘ہیں۔ یہ قراء ت حضرت عبد اللہ بن عباس﷫ سے بھی مروی ہے۔ حضرت مجاہد﷫ نے انہی سے لی ہے۔ کیونکہ مجاہد﷫‘ ابن عباس﷜ کے شاگرد بھی ہیں۔ یہ قراء ت ان حروف میں سے ہو سکتی ہے جوجمع عثمانی میں نقل ہونے سے رہ گئے ہوں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف عطاء بن ابی رباح﷫ (۲۷ھ تا۱۱۵ھ)
مصحف عطاء بن ابی رباح﷫ کے وجود کے بارے میں بھی آرتھر جیفری کی کل دلیل کتاب المصاحف کا بیان ہی ہے۔ ابن ابی اؤد﷫ نے اس عنوان کے تحت بھی ایک ہی روایت نقل کی ہے۔ طلحہ بن عمرو﷫کہتے ہیں: عن عطاء أنہ قرأ ’یخوفکم أولیائہ۔‘ یعنی حضرت عطاء ﷫نے سورہ آل عمران میں ’یخوفکم أولیائہ‘ پڑھا ہے۔
اس روایت سے ان کے کسی مصحف کا ثبوت نہیں ملتا۔ ہاں ان کی ایک قراء ت کی طرف اشارہ ضرورہے۔ ڈاکٹر محب الدین واعظ کے بیان کے مطابق اس روایت کی سند انتہائی درجے’ ضعیف‘ ہے۔سند میں طلحہ بن عمرو ’متروک‘ راوی ہے۔ علاوہ ازیں یہ قراء ت مصاحف عثمانیہ کے رسم کے خلاف ہونے کی وجہ سے غیر مقبول ہے۔
 
Top