• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آرتھر جیفری اور کتاب المصاحف

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف ربیع بن خیثم﷫ (متوفی ۶۳ھ)
اس مصحف کا تذکرہ ابن ابی داؤد﷫ نے نہیں کیا۔ آرتھر جیفری کا کہنا یہ ہے کہ علامہ آلوسی﷫ (متوفی۱۲۷۰ھ) نے اپنی تفسیر’روح المعانی‘ میں اس مصحف کا تذکرہ کیا ہے۔ علامہ آلوسی﷫ کا بیان یہ ہے:
وقال سفیان: نظرت في مصحف الربیع فرأیت فیہ ’’فمن لم یجد من ذلک شیئاً فصیام ثلاثۃ أیام متتابعات۔‘‘ (روح المعاني، المائدۃ : ۸۹)
اس روایت میں کسی سند کا تذکرہ نہیں ہے یعنی سفیان﷫ نے یہ بات کب اور کس سے کہی اور کس نے اسے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ اس کی کوئی تحقیق موجود نہیں ہے۔ لہٰذا ایک مجہول روایت کی بنیاد پر کسی تابعی﷫ کے لیے مصحف کے وجود کا اثبات کیسے ممکن ہے؟۔ اس روایت کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اگر اس کی کوئی سند موجود بھی ہو تو یہ ان تفسیری نکات کے قبیل سے ہے جنہیں صحابہ﷢ اور تابعین﷭ اپنے مصاحف میں لکھ لیتے تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف سلیمان الأعمش﷫(۶۱ھ تا ۱۴۸ھ)
مصحف سلیمان بن مھران الأعمش﷫ کے وجود کے بارے میں بھی آرتھر جیفری کا انحصار ابن ابی داؤد﷫ کے بیان پر ہے۔ ابن ابی داؤد﷫ نے اس عنوان کے تحت تین روایات نقل کی ہیں۔ ان روایات کے مطابق االأعمش﷫نے سورہ آل عمران میں ’الم اﷲ لا إلہ إلا ھو الحی القیام‘ اور سورۃ بقرۃ میں ’فیضاعفُہ‘ اور سورۃ انعام میں ’أنعام و حرث حرج‘ پڑھا ہے۔
پہلی روایت کی سند’ صحیح ‘ہے لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے یہ قراء ت غیر مقبول ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ یہ ان مترادفات کے قبیل میں سے ہے جو عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہو گئے تھے کیونکہ حضرت عمر﷜ سے بھی اس کی تلاوت ثابت ہے یا ان احرف میں سے ہے جو جمع عثمانی میں نقل ہونے سے رہ گئے۔دوسری روایت کی سند’ حسن‘ ہے اور یہ متواتر قراء ت ہے۔ یہ نافع‘ ابو عمرو‘ حمزہ ‘ کسائی اور خلف﷭ کی قراء ت ہے۔ تیسری روایت کی سند میں شعیب بن ایوب ’مدلس‘ راوی ہے اور ’عن‘ سے روایت کر رہا ہے لہٰذا ’ضعیف‘ ہے۔ علاوہ ازیں رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے بھی یہ قراء ت غیر مقبول ہے ۔یہ ان مترادفات کی قبیل سے ہو سکتی ہے جو منسوخ ہو چکے ہیں۔ ان روایات ِ ثلاثہ میں أعمش﷫ کے کسی مصحف کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف جعفر صادق﷫(۸۳ھ تا ۱۴۸ھ)
اس کا تذکرہ امام ابن ابی داؤد﷫ نے کتا ب المصاحف میں نہیں کیا ہے۔ آرتھر جیفری کے بیان کے مطابق مؤرخ ’زنجانی ‘نے’شہرستانی‘ کی تفسیر کے مقدمے سے امام جعفر صادق﷫ کے مصحف میں موجود سورتوں کی ترتیب نقل کی ہے جو مصحف عثمانی کی ترتیب کے خلاف ہے۔ علاوہ ازیں اس ترتیب میں پہلی سورت یعنی سورت فاتحہ بھی غائب ہے۔ کل ۱۱۳ سورتیں بیان ہوئی ہیں۔ شہرستانی کے بیان کے مطابق امام جعفر صادق﷫ کے مصحف کی سورتوں کی ترتیب مصحف عثمانی کے بالمقابل درج ذیل تھی:
" 96, 68, 73, 74, 111, 81, 87, 92, 89, 93, 94, 103, 100, 108, 102, 107, 109, 105, 113, 114, 112, 53, 80, 97, 91, 85, 95, 106, 101, 75, 104, 77, 50, 90, 86, 54, 38, 7, 72, 36, 25, 35, 19, 20, 56, 26, 27, 28, 17, 10, 11, 12, 15, 6, 37, 31, 34, 39, 40, 41, 42, 43, 44, 45, 46, 51, 88, 18, 16, 71, 14, 21, 23, 32, 52, 67, 69, 70, 78, 79, 82, 84, 30, 29, 83, 2, 8, 3, 33, 60, 4, 99, 57, 54, 13, 55, 76, 65, 98, 59, 110, 24, 22, 63, 58, 49, 66, 61, 62, 64, 48, 9, 5." (Materials: Codex of Ja'far Al-Sadiq)
ابو الفتح شہرستانی (متوفی ۵۴۸ھ) ایک شیعہ مفسر اور عالم دین ہیں۔ ان کی تفسیر کا نام ’مفاتیح الأسرار و مصابیح الأبرار‘ ہے۔ ہمارے علم کی حد تک یہ تفسیر تاحال غیر مطبوع ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس تفسیر کے مقدمے میں امام جعفرصادق﷫ کی طرف اس مصحف کی نسبت کی سند دیکھنی چاہیے ۔ آرتھر جیفری نے اس روایت کی کوئی سند بیان نہیں کی اور نہ ہی اس کا تذکرہ کیا ہے۔ بغیر سند کے کوئی روایت کسی مفسر کے محض بیان کر دینے سے کیسے قبول کی جا سکتی ہے؟جبکہ معاملہ بھی قرآن کا ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اگر یہ ثابت ہو بھی جائے کہ امام جعفر صادق﷫ کا کوئی مصحف اس ترتیب پر مبنی تھا تو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بعض سلف صالحین کے بارے میں یہ مروی ہے کہ انہوں نے قرآن کو ترتیب نزولی کے مطابق جمع کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس ترتیب کو دیکھ کر پہلی نظر میں ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ صاحب مصحف ترتیب نزولی کے مطابق قرآن کو جمع کرنا چاہتا ہے۔ آج بھی اگر کوئی شخص ذاتی طور پر ترتیب نزولی کے مطابق قرآن کو جمع کرے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جبکہ وہ مصحف عثمانی کی ترتیب کے مطابق ہی مصحف کی تلاوت ا ور نشر و اشاعت کا قائل ہو۔ قرآن کی سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے یا اجتہادی۔ اس مسئلے میں سلف صالحین کا اختلاف ہے۔ جمہور کی رائے کے مطابق سورتوں کی ترتیب بھی توقیفی ہے اور اس کے دلائل بھی قوی ہیں۔ لیکن اگر کوئی اس ترتیب کو اجتہادی مانتا ہے تو اس سے گمراہی لازم نہیں آتی۔ اور اگر مصحف عثمانی کی سورتوں کی ترتیب کو اجتہادی مان لیا جائے تو اس ترتیب سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ (الاتقان‘ النوع الثامن عشر من جمعہ و ترتیبہ: ص ۲۱۶۔۲۱۹) یہ واضح رہے کہ اس بارے علمائے اسلام کا اجماع ہے کہ آیات کی ترتیب توقیفی ہے۔ (أیضاً: ص ۲۱۱۔۲۱۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف صالح بن کیسان﷫(متوفی ما بعد ۱۴۰ھ)
اس مصحف کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے بھی آرتھر جیفری نے ابن ابی داؤد﷫ کے بیان کا سہارا لیا ہے۔ ابن ابی داؤد﷫ نے اس عنوان کے تحت ایک روایت نقل کی ہے۔ اس روایت کے مطابق صالح بن کیسان نے آل عمران میں ’جائھم البینت‘ اور ’جاء تھم البینات‘ دونوں طرح پڑھا ہے ۔ علاوہ ازیں انہوں نے سورہ مریم میں ’یکاد السموات‘ اور ’ تکاد السموات‘ دونوں طرح پڑھا ہے۔ دوسری قراء ت ثابت نہیں ہے جبکہ باقی تینوں متواتر ہیں۔ دوسری قراء ت رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے غیرمقبول ہے۔ ان روایات میں صالح بن کیسان﷫ کے کسی مصحف کا تذکرہ نہیں ہے۔ امام حاکم﷫ کی روایت کے مطابق ان کی عمر ۱۶۰ سال سے زائد تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف حارث بن سوید﷫ متوفی(مابعد۷۰ ھ)
ابن ابی داؤد﷫ نے اپنی کتاب میں اس مصحف کا تذکرہ نہیں کیا۔ آرتھر جیفری کے بیان کے مطابق ایک تفسیری روایت سے ہمیں ا س مصحف کا علم ہوتا ہے جسے مفسرین نے سورۃ فتح کی آیت ۲۶ کے تحت نقل کیا ہے۔
٭ علامہ زمخشری﷫ لکھتے ہیں:
’’وفی مصحف الحرث بن سوید صاحب عبد اﷲ: ’و کانوا أھلھا وأحق بھا۔‘ وھو الذي دفن مصحفہ أیام الحجاج۔‘‘ (الکشاف، الفتح : ۲۶)
اس روایت کی کوئی سند ہمیں نہ مل سکی۔ لہٰذا بغیر سند کے یہ روایت مجہول اور ناقابل قبول ہے۔ علاوہ ازیں خود روایت میں موجود ہے کہ ان کا مصحف دفن کر دیا گیا تھالہٰذا وہ حجت کیسے بن سکتا ہے؟۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف محمد بن ابی موسی
اس مصحف کا تذکرہ آرتھر جیفری نے نہیں کیا ہے اگرچہ ابن ابی داؤد﷫ نے اس نام سے عنوان باندھا ہے ۔ کتاب المصاحف میں اس عنوان کے تحت ایک روایت منقول ہے۔ اس روایت کے مطابق ابن ابی موسی نے سورۃ مائدۃ میں ’و لکن الذین یفترون علی اﷲ الکذب و أکثرھم لا یفقھون‘ پڑھا ہے۔محمد بن ابی موسی کے بارے میں ابن حجر﷫کا کہنا ہے کہ’ مجہول‘ راوی ہے۔ امام عراقی﷫ نے ’غیر معروف‘ کہا ہے لہٰذا روایت کی سند کمزور ہے۔ محمد بن ابی موسی کا وجود ہی مشکوک ہے چہ جائیکہ ان کے کسی مصحف کا وجود اس روایت سے ثابت کیا جائے۔
٭_____٭_____٭
 
Top