• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اپنے بھائی کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظک اللہ!
صحیح بخاری کی درج ذیل حدیث کی شرح درکار ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أُتِيَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِسَكْرَانَ، فَأَمَرَ بِضَرْبِهِ، فَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُهُ بِيَدِهِ، وَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُهُ بِنَعْلِهِ، وَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُهُ بِثَوْبِهِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ رَجُلٌ مَالَهُ أَخْزَاهُ اللَّهُ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لاَ تَكُونُوا عَوْنَ الشَّيْطَانِ عَلَى أَخِيكُمْ ‏"‏‏.
اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نشہ میں لایا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مارنے کا حکم دیا ۔ ہم میں بعض نے انہیں ہاتھ سے مارا ، بعض نے جوتے سے مارا اور بعض نے کپڑے سے مارا ۔ جب مارچکے تو ایک شخص نے کہا ، کیا ہو گیا اسے ، اللہ اسے رسوا کرے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بھائی کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظک اللہ!
صحیح بخاری کی درج ذیل حدیث کی شرح درکار ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أُتِيَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِسَكْرَانَ، فَأَمَرَ بِضَرْبِهِ، فَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُهُ بِيَدِهِ، وَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُهُ بِنَعْلِهِ، وَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُهُ بِثَوْبِهِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ رَجُلٌ مَالَهُ أَخْزَاهُ اللَّهُ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لاَ تَكُونُوا عَوْنَ الشَّيْطَانِ عَلَى أَخِيكُمْ ‏"‏‏.
اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نشہ میں لایا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مارنے کا حکم دیا ۔ ہم میں بعض نے انہیں ہاتھ سے مارا ، بعض نے جوتے سے مارا اور بعض نے کپڑے سے مارا ۔ جب مارچکے تو ایک شخص نے کہا ، کیا ہو گیا اسے ، اللہ اسے رسوا کرے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بھائی کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو ۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
فی الحال اس کی شرح جناب صلاح الدین یوسف کی شرح ریاض الصالحین سے ملاحظہ فرمائیں :
لا تعينوا عليه.gif

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ریاض الصالحین کی عر بی شرح ’’ دلیل الفالحین ‘‘ میں علامہ ابن علان الصدیقی فرماتے ہیں :
(قال: لا تقولوا هكذا) أي مثل هذا الدعاء (لا تعينوا عليه الشيطان) جملة استئنافية لبيان حكمة النهي عن ذلك القول: أي ادعوا له بالتوفيق والنجاة من الخذلان ولا تكونوا بدعائكم عليه أعواناً عليه للشيطان ‘‘ انتہی
یعنی جب کسی نے اس شرابی کے متعلق کہا کہ :اللہ اسے رسوا کرے ۔۔تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا کہ ایسا مت کہو ،یعنی یہ بد دعاء نہ دو۔۔اور یہ جو فرمایا
کہ ’’ اس کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو ‘‘تو اس جملہ ایسی بد دعاء سے ممانعت کی حکمت بتائی کہ ایسے شخص کیلئے تو نیکی کی توفیق ،اور رسواکن نتائج سے نجات کی دعاء کرنی چاہئیے ۔نہ کہ اس کی رسوائی ، اور انجام بد کی دعاء ۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
صحیح بخاری کی درج ذیل حدیث کی شرح درکار ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أُتِيَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِسَكْرَانَ، فَأَمَرَ بِضَرْبِهِ، فَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُهُ بِيَدِهِ، وَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُهُ بِنَعْلِهِ، وَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُهُ بِثَوْبِهِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ رَجُلٌ مَالَهُ أَخْزَاهُ اللَّهُ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لاَ تَكُونُوا عَوْنَ الشَّيْطَانِ عَلَى أَخِيكُمْ ‏"‏‏.‏
اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نشہ میں لایا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مارنے کا حکم دیا ۔ ہم میں بعض نے انہیں ہاتھ سے مارا ، بعض نے جوتے سے مارا اور بعض نے کپڑے سے مارا ۔ جب مارچکے تو ایک شخص نے کہا ، کیا ہو گیا اسے ، اللہ اسے رسوا کرے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بھائی کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو ۔
اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ :
کسی جرم پر شرعی سزا کا مقصد مجرم کو گناہ سے پاک کرنا ہوتا ہے ۔اگر وہ شرعی سزا کو اپنے حق میں صحیح سمجھ کر ،اپنے جرم سے توبہ کرے تو وہ گناہ سے پاک ہوجاتا ہے
اسلئے دوران سزا اس کی زبانی تذلیل اور بد دعاء کی بجائے اس کیلئے دعاء کرنی چاہئے ۔۔آپ درج ذیل حدیث سے مزید اس مفہوم کا ادراک کر سکتے ہیں :
صحیح مسلم اور سنن ابی داود میں :
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّ امْرَأَةً، - قَالَ فِي حَدِيثِ أَبَانَ: مِنْ جُهَيْنَةَ -، أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ إِنَّهَا زَنَتْ، وَهِيَ حُبْلَى، فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلِيًّا لَهَا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَحْسِنْ إِلَيْهَا، فَإِذَا وَضَعَتْ فَجِئْ بِهَا»، فَلَمَّا أَنْ وَضَعَتْ جَاءَ بِهَا، فَأَمَرَ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشُكَّتْ عَلَيْهَا ثِيَابُهَا، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَرُجِمَتْ، ثُمَّ أَمَرَهُمْ فَصَلُّوا عَلَيْهَا، فَقَالَ عُمَرُ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، تُصَلِّي عَلَيْهَا وَقَدْ زَنَتْ؟ قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ قُسِّمَتْ بَيْنَ سَبْعِينَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَوَسِعَتْهُمْ، وَهَلْ وَجَدْتَ أَفْضَلَ مِنْ أَنْ جَادَتْ بِنَفْسِهَا» لَمْ يَقُلْ عَنْ أَبَانَ: فَشُكَّتْ عَلَيْهَا ثِيَابُهَا

سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور اس نے عرض کیا کہ اس نے زنا کیا ہے، اور وہ حاملہ ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ولی کو بلوایا، اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے ساتھ بھلائی سے پیش آنا، اور جب یہ حمل وضع کر چکے تو اسے لے کر آنا“ چنانچہ جب وہ حمل وضع کر چکی تو وہ اسے لے کر آیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اس کے کپڑے باندھ دیئے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا تو اسے رجم کر دیا گیا، پھر آپ نے لوگوں کو حکم دیا تو لوگوں نے اس کے جنازہ کی نماز پڑھی، عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اللہ کے رسول! ہم اس کی نماز جنازہ پڑھیں حالانکہ اس نے زنا کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ اہل مدینہ کے ستر آدمیوں میں تقسیم کر دی جائے تو انہیں کافی ہو گی، کیا تم اس سے بہتر کوئی بات پاؤ گے کہ اس نے اپنی جان قربان کر دی؟“۔ ابان کی روایت میں ”اس کے کپڑے باندھ دیئے گئے تھے“ کے الفاظ نہیں ہیں۔

صحیح مسلم/الحدود ۵ (۱۶۹۶)، سنن الترمذی/الحدود ۹ (۱۴۳۵)، سنن النسائی/الجنائز ۶۴ (۱۹۵۹)، سنن ابن ماجہ/الحدود ۹ (۲۵۵۵)، (تحفة الأشراف: ۱۰۸۷۹، ۱۰۸۸۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴ /۴۲۰، ۴۳۵، ۴۳۷، ۴۴۰)
 
Top