رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے بھائی کے ساتھ شماتت اعداء نہ کرو،
صحیح بخاری اور دیگر کئی کتب حدیث میں واضح حدیث شریف ہے کہ :
ہمارے محسن جناب رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم فرمایا ہے کہ ہم چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کریں…یعنی یہ دعاء کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پناہ اور امان میں لے کر ان چار چیزوں سے بچائے…وہ چار چیزیں یہ ہیں
نمبر۱۔ جہد البلاء
نمبر۲۔ درک الشقاء
نمبر۳۔ سوء القضاء
نمبر۴۔ شماتۃِ الاعداء
صحیح بخاری شریف (6616 )میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے…نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ جَهْدِ البَلاَءِ، وَدَرَكِ الشَّقَاءِ، وَسُوءِ القَضَاءِ، وَشَمَاتَةِ الأَعْدَاءِ»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ سے پناہ مانگا کرو آزمائش کی مشقت، بدبختی کی پستی، برے خاتمے اور دشمن کے ہنسنے سے۔
اور صحیح بخاری 6347 ہی میں دوسری روایت یہ ہے کہ :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ مِنْ جَهْدِ البَلاَءِ، وَدَرَكِ الشَّقَاءِ، وَسُوءِ القَضَاءِ، وَشَمَاتَةِ الأَعْدَاءِ»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مصیبت کی سختی، تباہی تک پہنچ جانے، قضاء و قدر کی برائی اور دشمنوں کے خوش ہونے سے پناہ مانگتے تھے"
چار الفاظ کی تشریح
نمبر۱۔ جہد البلاء: ہر ایسی مصیبت،سختی اور تکلیف جس کی انسان میں طاقت نہ ہو… ایسے فتنے جن کے آنے پر انسان موت مانگنے لگے…ایسے امراض جو ناقابل برداشت اور ناقابل علاج ہوں…ایسے قرضے جو کمر توڑ دیں …ایسی خبریں جو غم میں ڈبو دیں…ایسے غم جو خون نچوڑ لیں یا اولاد کی کثرت اور ساتھ مال کی بے حد کمی
نمبر۲۔ درک الشقاء: شقاوت یعنی بد نصیبی،بد بختی … شقاوت ضد ہے سعادت کی اور شقاوت کی دو قسمیں ہیں…پہلی دنیوی شقاوت اور وہ یہ کہ انسان کا دل اور جسم گناہوں میں غرق ہو جائے اور نیک کاموں کی توفیق نہ ملے…اور دوسری اخروی شقاوت کہ کوئی انسان نعوذ باللہ جہنم میں ڈال دیا جائے
نمبر۳۔ سوء القضاء: بری تقدیر،برا فیصلہ…یعنی ایسے حالات من جانب اللہ پیش آئیں کہ جن سے انسان کو نقصان اور تکلیف پہنچے… یا انسان خود کوئی ایسے غلط فیصلے کر بیٹھے جن میں گناہ ہو، ظلم ہو اور دنیا و آخرت کا نقصان ہو… یا انسان کے بارے میں کوئی حاکم یا قاضی ظالمانہ فیصلہ سنا دے
نمبر۴۔ شماتۃ الاعداء:
’’شماتتِ اَعداء‘‘کا کیا مطلب ہے؟ہم پر کوئی ایسی حالت یا مصیبت آئے کہ اسے دیکھ کر ہمارے دشمن خوش ہوں اور وہ ہمارا مذاق اڑائیں…اسے کہتے ہیں ’’شماتتِ اَعداء‘‘۔
قال النووي شماتة الأعداء فرحهم ببلية تنزل بالمعادي
یعنی کسی مصیبت یا مشکل میں دشمن کا خوش ہونا ۔
ہر آدمی کے دشمن بھی ہوتے ہیں اور حاسدین بھی…اگر اس انسان پر کوئی ایسی حالت اور مصیبت آ جائے جس سے اس کے دشمن اور حاسدین خوش ہوں اور وہ اس کا مذاق اڑائین تو اسے ’’شماتۃ الاعداء‘‘ کہتے ہیں…
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حدیث اور دعاء سے معلوم ہوا کہ کسی مومن کی بدحالی اور مصیبت پر خوش ہونے والا مومن کا دشمن ہوتا ہے ،اور مومن سے دشمنی اللہ تعالی کے ہاں کتنی ناپسندیدہ ہے یہ محتاج بیان نہیں ،
اپنےپیارے نبی ﷺ حکم پورا کریں اور یہ دعاء پڑھ لیں…
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ جَہْدِ الْبَلَاء وَدَرَکِ الشَّقَاء وَسُوْئِ الْقَضَائِ وَشَمَاتَۃِ الْاَعْدَاء
یااللہ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں…سخت آزمائش سے،بد بختی اور بد نصیبی سے، بری تقدیر اور غلط فیصلے سے اور دشمنوں کے خوش ہونے سے ؛