• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اپنے گھروں کو قبرستان مت بناو :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
11063796_1087827424565080_1523212248945665321_n.jpg


بسم اللہ الرحمن الرحیم


اپنے گھروں کو قبرستان مت بناو :


حدیثِ شریف : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :

’’ لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا ، وَلَا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا ، وَصَلُّوا عَلَيَّ ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ كُنْتُمْ ‘‘۔


( سنن أبوداود: 2042 ، المناسك – مسند أحمد :2/367 – الطبراني الأوسط :8026 ، 9/16 )

ترجمہ :

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ اپنے گھروں کو قبرستان مت بناو اور میری قبر کو عیدگاہ [ میلہ گاہ ] مت بناو ، اور میرے اوپر درود پڑھو ، اس لئے کہ تم جہاں کہیں بھی ہو تمہارا درود مجھے پہنچایا جاتا ہے ‘‘۔

{ سُنن ابو داود ، مسند احمد ، الطبرانی الاوسط}۔

تشریح :

زمانہِ جاہلیت میں لوگ بغرضِتبرکایسے مقامات کا قصد کرتے تھے جو ان کے گمان کے مطابق مبارک ہوتے ، وہ مقام کبھی کسی بزرگ کیقبرہوتی کبھی کسی بندہٴ الہٰی کی عبادت گاہ ہوتی اور کبھی وہ صرف ایک موہوم سی چیز ہوتی تھی ، چونکہ اس سےغیر اللہکی عبادت کا دروازہ کھلتا تھا اور لوگوں کےشرکمیں مبتلا ہونے کا شدید امکان ہوتا تھا لہذا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سختی سےمنع
فرمایا ، ارشاد نبوی ہے :

’’ لوگو ! کان کھول کر سن لو، تم سے پہلی اُمّتوں نے اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروں کو عبادت گاہ بنالیا تھا ، میں تم کو اس سے روکتا ہوں‘‘۔

{ صحیح مسلم }

نیز فرمایا :’’ اللہ تعالٰی یہود و نصاری پر لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنالیا تھا ‘‘

{ صحیح بخاری ، صحیح مسلم }

اس فرمان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کا مقصد اُمّت کے سامنے گور پرستی اورقبرپرستیکا دروازہ بند کرنا تھا ، تاکہ امت مسلمہ یہود و نصاری کی طرح اپنے نبی اور بزرگوں کی قبروں کو مسجد ، سجدہ گا ہ اور عبادت و تبرک کی جگہ نہ بنالے ، یہی وجہ ہے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اس امت کے افضل ترین دو ولیوں کی قبر کو ایک بند کمرے میں بنایا گیا اور عام مسلمانوں کی قبروں کی طرح انہیں کھلے میدان میں دفن نہ کیا گیا -

چنانچہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ آپ کی قبر کو بھی عبادت گاہ بنالیا جائےگا تو آپ کی قبر بھی کسی کھلے میدان میں ہوتی ۔{ صحیح بخاری و صحیح مسلم }

قبروں کیعبادت گاہ بنانے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ جمعہ، حج یا عید کی طرح سال ، ہفتہ یا مہینہ میں اس کاقصدکیا جائے ، اس پراجتماعکیا جائے ، ثواب و اجر اور مراد براری کی نیت سے اس کاسفرکیا جائے ، اس کے لئےنذرمانی جائے ، نام نہاد ولیوں اور بعض موہوم بزرگوں کی قبروں کے ساتھ جن کا نام مزار رکھ لیا گیا ہے زیارت کیا جاتا ہے ، یہ سب وہی جاہلانہ بدعتیں ہیں جو زمانہ جاہلیت میں پائی جاتی تھیں اور دیگر بت پرست و توہم پرست قوموں کا شعار رہا ہے ، حالانکہ اِسلام میں قبر کا تصور مسجد کے تصور سے بالکل مختلف چیز ہے ،مسجد عبادت الٰہی کی جگہ ہے ، ذکر و تلاوت قرآن کا مقام ہے ، مسجدوں کو صاف ستھرا رکھنے اور اس میں خوشبو و روشنی کے اہتمام کا حکم دیا گیا ہے ، ان کی حفاظت و تعمیر کی تاکید کی گئی ہےجب کہ قبرستان میں نماز پڑھنے وہاں ذکر و تلاوت کرنے ، وہاں عمارت تعمیر کرنے ، اس پر کچھ لکھنے اور چراغاں کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن وحدیث میں انبیاء کی عبادت گاہوں اور مسجدوں کا ذکر تو ملتا ہے اور ان میں سے بعض کی جگہیں محفوظ بھی ہیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی نبی اور آپ سے پہلے کسی ولی کی قبر سے متعلق کوئی صحیح معلومات نہیں ہے کیونکہ کسی بھی دین ِسماوی میں قبروں کیتعظیمکا حکم نہ تھا ۔ زیر بحث حدیث میں بھی یہی چیز مذکور ہے ، چنانچہ:

اولاً:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ اپنے گھروں کو قبرستان مت بناو کہ جس طرح قبرستان نہ نماز پڑھنے کی جگہ ہے نہ وہاں تلاوتِ قرآن کا اہتمام ہوتا ہے اور نہ ہی قبروں میں مدفون لوگ اللہ تعالٰی کی عبادت و ذکر کرتے ہیں تم لوگ اپنے گھروں کو ایسا نہ بناو اور نہ ہی تم مُردوں کی طرح ہوجاو کہ گھر میں نماز کا اہتمام نہ ہو اور نہ ہی ذکر و تلاوت کی جائے بلکہ اپنے گھروں کو نفلی نمازوں اور ذکر و تلاوت سےآبادرکھو ، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر اور قبرستان کے فرق کو واضح کیا کہ قبر یا قبرستان عبادت و سجدہ اور تلاوت قرآن کی جگہ نہیں ہے جب کہ گھر میں یہ چیزیںضروریہیں تاکہ اللہ تعالٰی کی برکت سے گھر آباد رہے اور شیطان کے شر سےمحفوظ
بھی رہے ایک حدیث میں ہے :

’’ اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناو { بلکہ اس میں نماز پڑھا کرو ، قرآن مجید کی تلاوت کیا کرو } کیونکہ جس گھر میں سورۃ البقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے اس گھر سے شیطان بھاگ کھڑا ہوتا ہے ‘‘ ۔{ صحیح مسلم }

ثانیا :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری قبر کومیلہ گاہیا عیدگاہ نہ بنالو ، یعنی جس طرح عید کے لئے لوگ اکٹھا ہوکر جاتے ہیں ، سال میں ایک دوبار عید مناتے ہیں ، وہاں جمع ہوکر کھیل تماشا اور شور شرابا کرتے ہیں ، دیر تک وہاں جمع رہتے ہیں ، میری قبر کو انخُرافاتسے پاک رکھو ، اور یاد رکھو کہ میری قبر پر آنے کا سب سے اہم مقصد مجھ پر سلام پڑھنا یا میرے اوپر دُرود
بھیجنا ہے ، لیکن اس کے لئے ضروری نہیں ہے کہ تم لوگ میری قبر ہی پر آکر میرے اوپر درود و سلام بھیجو بلکہ اس کے لئے اللہ تعالٰی نے یہ آسانی رکھی ہے کہ تم جہاں کہیں سے بھی میرے اوپر درود و سلام بھیجو گے اللہ تعالی کے فرشتے مجھ تک تمہارا درود پہنچادیں گے ۔ لہذا اس کے لئے سفر کی مشقت اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے ، حدیث کا یہی صحیح مفہوم ہے جو اہل بیت اور دیگر علماء نے سمجھا ہے چنانچہ حضرت علی بن حسین زین العابدین رحمہ اللہ نے ایک شخص کو دیکھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے قریب کھڑے ہوکر دیوار کے شگاف میں اپنا منہ ڈال کر دعا کررہا ہے تو اسے بلایا اور کہا :

’’کیا میں تمہیں ایک ایسی حدیث نہ سناوں جسے میں نے اپنے والد { حسین بن علی رضی اللہ عنہما } سے سنا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے نانا { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم } کو فرماتے سنا کہ میری قبر کو میلہ گاہ نہ بناو اور جہاں کہیں بھی ہو وہیں سے میرے اوپر درود بھیجو ، تمہارا درود مجھ تک پہنچ جاتا ہے‘‘۔{ مُصنف ابن شیبہ وغیرہ }

اس حدیث کی روشنی میں علماء کہتے ہیں کہ بزرگوں کی قبروں پر جو یومیہ ، ہفتہ واری اور ماہانہ اجتماع ہوتے ہیں یا سال میں جمع ہوکر ان کی یوم پیدائش یا ان کاعُرسمناتے ہیں ، وہاں قسم قسم کے کھانوں کا انتظام کیا جاتا ہے اور رقص و سرور کی مجلس منعقد کی جاتی ہے سببدعتاور شرعاًمنعہے{ فتح القدیر للمناوی }

فوائد :

۱- قبرستان نماز اورتلاوت قرآن کی جگہ نہیں ہے ۔

۲- بزرگوں کا یومِ عُرس منانا بدعت اور غیر قوموں کی مشابہت ہے ۔

۳- نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کے سفر کی مشقت اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔

۴- اللہ تعالٰی نے کچھ فرشتوں کو خاص کر رکھا ہے جو اُمّتیوں کا سلام و درود نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے ہیں ۔


فضیلۃ الشیخ/ابوکلیم مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
الغاط، سعودی عرب
 
Top