• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اپنے گھر میں قرار سے رہنے کی نصیحت

ابوحتف

مبتدی
شمولیت
اپریل 04، 2012
پیغامات
87
ری ایکشن اسکور
318
پوائنٹ
0
اے میری مسلمان بہن !
ایک’ نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “کا اس بات پر یقین ہوتا ہے کہ اس کے لیے محفوظ اور بہترین مقام اس کا گھر ہے، اس لیے وہ گھر سے باہر زیا دہ نہیں نکلتی ۔
” نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “کا اللہ کے کلام پر ایمان ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وقرن فی بیوتکن ﴾(الاحزاب:۳۳
یعنی تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو“اس آیت مبارکہ میں عورتوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں، اس میں خطاب تو ازوج مطہرات رضی اللہ عنہن کو ہے لیکن دوسری عورتیں بھی معنی و مفہوم کے اعتبار سے اس میں داخل ہیں، کیونکہ حکم عام ہے، تخصیص پر کوئی دلیل نہیں ہے شریعت مطہرہ تمام عورتوں کو اپنے گھر وں میں قرار سے رہنے کا حکم دیتی ہے اور بلا ضرورت گھر سے نکلنے سے منع کرتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ازواج نبی علیہ السلام کو بھی اپنے گھروں سے وابستہ رہنے کا حکم دیا اوران کو احتراماً اس حکم کا مخاطب بنایا ۔(تفسیر الجامع للقرطبی ۱/۱۱۷)
ابن کثیر رحمة اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ” یعنی اپنے گھروں سے وابستہ رہو، بلا ضرورت گھر سے نہ نکلو ۔ جیسے شرعی حاجات ، مثلاً مسجد میں شرط پائے جانے کی صورت میں نماز پڑھنا۔(تفسیر ابن کثیر۳/۸۲)
محمد بن سیر ین رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ ”مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے پوچھا کہ آپ حج اور عمرہ کیوں نہیں کرتیں جس طرح آپ رضی اللہ عنہا کی دوسری بہنیں حج و عمرہ کرتی ہیں ؟ حضرت سودہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ میں نے حج بھی کیا ہے اور عمرہ بھی کیا ہے ، میرے اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے گھر میں سکونت اختیار کروں ، پس خداکی قسم ! میں اپنے گھر سے نہیں نکلوں گی یہا ں تک کہ میں اللہ کو پیاری ہوجاوٴ ں “محمد بن سیر ین رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم !وہ اپنے حجر ے کے دروازے سے باہر نہیں نکلیں،یہاں تک کہ ان کا جنازہ وہیں سے نکالاگیا ۔(الدر المنثور۵/۱۹۲)
ابن عربی رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں: ” میں ایک ہزار سے زائد بستیوں میں گیاہوں میں نے نابلس (شہر )سے زیادہ کسی اور علاقے کی عورتوں کو زیادہ پاک دامن اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں دیکھا، میں وہاں مقیم رہا، میں نے دن کے وقت کسی راستہ میں کسی عورت کو نہیں دیکھا، سوائے جمعہ کے دن کے ، جمعہ پڑھنے کے لیے گھر سے نکلتی تھیں اور مسجد ان سے بھر جاتی تھی ، اور نماز ختم ہوتے ہی اپنے گھر وں کو واپس چلی جاتی تھیں ، پھر دوسرے جمعہ تک میری نگاہ کسی عورت پر نہیں پڑتی تھی ۔“
(تفسیر القرطبی ۱/۱۱۸)
علامہ کمال الدین الادھمی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : گھروں میں پابندہو کر رہنا خیر کا وہ دروازہ ہے کہ جو عورت اس دروازے سے داخل ہوجائے تو وہ اپنی جان ،مال ، عزت وآبرو اور شرافت کو محفوظ و مامون کر لیتی ہے، اور عورت عصمت و عفت کا اعلیٰ نمونہ بن جاتی ہے، گھر وہ جگہ ہے جہاں عورت اپنے گھر کے ضروری کام ، اپنے شوہر اور اولاد کی ذمہ داری اور دینی امور کو انجام دیتی ہے ان کاموں سے کوئی امر مانع نہیں ہوتا ، بلکہ اس کو عبادت وریاضت اور دینی و اخلاقی کتب پڑھنے کا کھلاوقت ملتا ہے ، یوں وہ زندگی کی حقیقی لذت سے بہر ہ یاب ہوتی ہے اور محسوس کرتی ہے کہ وہ سعادت و فلاح اور حقیقی نعمتوں سے فیض یاب اور مستفید ہورہی ہے ، کیوں نہ ہو؟ اس نے اپنے رب کو بھی اور اپنے خاوند کے حقوق ادا کرکے راضی کیا ہے، عورت کے لیے اس سے بڑی سعادت کی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ اس کارب اس سے راضی ہے اور اس کا شوہر بھی اس سے خوش ہے، آوارہ اور بے حیا عورت کا حال اس کے خلاف ہے، وہ اپنے گھر میں ایک لمحہ کے لیے بھی ٹکتی نہیں ہے بلکہ کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر دن رات گھومتی پھرتی ہے ہر ایک کے ساتھ اختلا ط کر تی ہے ، خو اہ وہ جا ئز ہو یا نا جا ئز جب گھر آتی ہے تو جو کچھ باہر دیکھا ہوتا ہے، اس کے دماغ میں ایک ایک چیز کی فرمائش موجود ہوتی ہے ، پھر وہ اپنے شوہر سے ہر فرمائش پوری کرنے پر اصرار کرتی ہے، حالانکہ بسااوقات شوہر کی حالت اس کی فرمائش پوری کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہوتی ، نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ دونوں میں اختلاف و نزاع کی آگ بھڑک اٹھتی ہے ، تم دیکھتے ہوکہ ایسی عورت کو گھر کے کاموں سے دلچسپی نہیں ہوتی اور نہ ہی اپنی اولا د کی تربیت کی پر واہ ہوتی ہے، اپنے رب اور اپنے شوہر کے حقوق ادا نہیں کرتی ، بلکہ ستم بالائے ستم یہ کہ وہ دین و ادب کی کتابوں کا بھی مذاق اڑاتی ہے اور اس کی ساری توجہ ، اخلاق سوز اور باغیا نہ لڑیچر پر مرکوز ہوتی ہے، انہیں کو وہ پڑھتی ہے۔ جب خاوند اس کو سمجھا نے کی کو شش کرتا ہے تو وہ اس کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتی ہے، اور اس پر سب وشتم کی بوچھاڑ کر دیتی ہے۔“
ہر وقت ایسی حیا باختہ عورت کو تنگ دل اور بد خلق دیکھو گے یہ اصل میں اس کے کیے کی اس کو سزا ہوتی ہے۔ اللہ جل شانہ ، فرماتے ہیں :
﴿ومن اعرض عن ذکر ی فان لہ معیشة ضنکا ونحشرہ یوم القیٰمة اعمی ﴾(طہ ۱۲)
یعنی ”جو شخص میری یاد سے منہ پھیرتا ہے اس کی زندگی تنگ ہو جاتی ہے اور قیامت کے دن ہم اس کو اندھا اٹھا ئیں گے۔“
یہ ساری خرابی عورت کے گھر سے نکلنے اور شرعی احکا م کی پا بند ی نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی گھر سے نکلنے کا پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ حاصل شدہ نعمت کو حقیر جاننے لگتی ہے اور اپنے شوہر کو استخفا ف کی نظر سے دیکھتی ہے ، اس لیے کہ جب وہ باہر نکلتی ہے تو گھر سے ز یادہ پر تعیش زندگی اور اپنے شوہر سے زیادہ دل کش انسان کو دیکھتی ہے، خصوصاً جبکہ اس کا خاوند عمر رسیدہ یا تنگ دستی کا شکار ہو، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان اختلاف و نزاع کی زہر آلودفضا پیدا ہونے لگتی ہے، جس کی وجہ سے بسا اوقات معاملہ طلاق و افتراق کی حد تک پہنچ جاتا ہے، پھر شادی ، آبادی کی بجائے بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔
جو عورت اپنے گھر سے وابستہ رہتی ہے وہ سب سے زیادہ خوش حال نظر آئے گی اور اپنے خاوند کے ساتھ بڑی اچھی ہو گی ، کسی اور کی طرف نگاہ نہیں اُٹھائے گی کسی نعمت کی نا شکری نہیں کرے گی ، خواہ وہ معمولی سی نعمت کیوں نہ ہو، شیطان کو بھی میاں بیوی کے درمیان اختلاف ڈالنے کا موقع نہیں ملتا وہ اپنے شوہر کے ساتھ خوش باش زندگی گزارتی ہے ، یہ ساری برکت گھر میں رہنے کی وجہ سے حاصل ہوئی ۔
اے میری مسلمان بہن!
اسلام یہ چاہتا ہے کہ نیک بیوی کی معاشرت بہتر سے بہتر ہو، وہ شک و شبہ کے مواقع سے دور رہے، اسی مقصد کے پیشِ نظر جب عورت اپنی کسی ضرورت کے لیے گھر سے باہر نکلے تو اس کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک بڑی چادر میں ڈھانپ لے ، نظر وں کو جھکاتے ہوئے بڑے ادب کے ساتھ چلے اور راستہ کے بیچ میں نہ چلے ۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” راستہ کے بیچ میں چلنا عورتوں کے لیے جائز نہیں ہے ۔
(البیہقی فی شعب الایمان ۷۸۲۱)
نیک بیوی راستہ کے کنارے کنارے چلتی ہے ،اس کے بیچ میں نہیں چلتی ، اگر راستہ کے بیچ میں چلے گی تو مردوں کی نظر یں اس پر لازماً پڑیں گیں ، اور عورت کا احترام و وقار بھی جاتا رہے گا۔ لیکن راستہ کی ایک جانب چلنے میں یہ قباحت بہت کم پیدا ہوگی ، نیز وہ شک و شبہ کے موقع سے بھی بچے گی ، کیونکہ وہ حجاب میں نکلی ہے اور احترام اور وقار کے ساتھ جارہی ہے، ہر ایسی چیز سے دور ہے جو اس کے لیے کسی قسم کے شبہات کو پیدا کر سکتی ہو۔
 
Top