• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اک داعی کے کیا اوصاف ھونے چاھیں ؟

اسحاق

مشہور رکن
شمولیت
جون 25، 2013
پیغامات
894
ری ایکشن اسکور
2,131
پوائنٹ
196
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و بر کاتہ
میری معزز ممبران سے (خاص کر lovelyalltime بھائی اور اشماریہ بھائی) گزارش ھے کہ قران و سنت کی روشنی میں اک داعی کے اوصاف بیان کر دیں ۔
کچھ عرصے سے اس فورم میں مختلف قسم کے موضوعات کے ٹایٹل دیکھ کر ذھن گڈ مڈ سا ھو گیا ھے۔۔
جزاک اللہ خیرا
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و بر کاتہ
میری معزز ممبران سے (خاص کر lovelyalltime بھائی اور اشماریہ بھائی) گزارش ھے کہ قران و سنت کی روشنی میں اک داعی کے اوصاف بیان کر دیں ۔
کچھ عرصے سے اس فورم میں مختلف قسم کے موضوعات کے ٹایٹل دیکھ کر ذھن گڈ مڈ سا ھو گیا ھے۔۔
جزاک اللہ خیرا
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
محترم اسحاق بھائی
اگر ہم سیرت مصطفی ﷺ کی روشنی میں دیکھیں تو سب سے بنیادی چیز ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ داعی کو وقت کے لحاظ سے فیصلہ کرنا آنا چاہیے کہ کس وقت کیا انداز مناسب ہوگا۔
اسلام کے داعی اول ﷺ کہیں کفار کی دعوت میں شریک ہو کر اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں تو کہیں انہیں یہ کہتے ہیں کہ تم سرداری اپنے پاس رکھو اور میری صرف بات مان لو۔ کہیں سختی سے ان کی تمام باتوں کو رد کر دیتے ہیں تو کہیں نرمی سے انہیں سمجھاتے ہیں۔ کبھی پتھر کھا کر بھی دعا دیتے ہیں تو کبھی فوج لے کر مقابلے کے لیے نکل آتے ہیں۔ کبھی اپنے اور مسلمانوں کے ازلی دشمنوں کو لا تثریب علیکم الیوم کا مژدہ سناتے ہیں تو کہیں تمام مردوں کو قتل اور عورتوں و بچوں کو غلام بنا لیتے ہیں۔
یہ سب چیزیں وقت پر منحصر ہیں اور داعی کو یہ آتا ہو کہ اس نے کس وقت کس شخص کے ساتھ کیسا انداز اختیار کرنا ہے۔
واللہ اعلم
 

اسحاق

مشہور رکن
شمولیت
جون 25، 2013
پیغامات
894
ری ایکشن اسکور
2,131
پوائنٹ
196
بہت شکریہ ، جزاک اللہ خیرا
اگر حوالہ کے ساتھ اوصاف بیان کر دیے جایئں تو سمجھنے میں آسانی ھو گی خاص کر آج کے دور کے حوالے سے ۔
میرے کچھ سوالات ھیں اسی تناظر میں ۔
کیا داعی کو صرف حق بیان کرنا چاھیے اور باطل کا خود اندازہ ھو جائے گا؟
کیا داعی کو صرف باطل بیان کرنا چاھیے کہ اس کو دیکھ کر حق کو پہچانے ؟
کیا اک داعی کو کھل کر مذاق اڑانا چاھیے ؟ اگر ھے تو ایسے لوگوں کو حق کا داعی کہا جا سکتا ھے؟
کیا صحیح العقیدہ شخص دوسرے عقائد کا مزاق اڑا سکتا ھے؟ اس کی اجازت شریعت نے کہاں تک دی ھے؟
کیا دوسروں (چاھے غلط بھی ھوں) کا مذاق اڑانا صرف اپنی کسی انا کی تسکین مقصود ھوتا ھے یا اس کو داعی کے اوصاف میں گنا جا سکتا ھے؟
lovelyalltime
اشماریہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
بہت شکریہ ، جزاک اللہ خیرا
اگر حوالہ کے ساتھ اوصاف بیان کر دیے جایئں تو سمجھنے میں آسانی ھو گی خاص کر آج کے دور کے حوالے سے ۔
میرے کچھ سوالات ھیں اسی تناظر میں ۔
کیا داعی کو صرف حق بیان کرنا چاھیے اور باطل کا خود اندازہ ھو جائے گا؟
کیا داعی کو صرف باطل بیان کرنا چاھیے کہ اس کو دیکھ کر حق کو پہچانے ؟
کیا اک داعی کو کھل کر مذاق اڑانا چاھیے ؟ اگر ھے تو ایسے لوگوں کو حق کا داعی کہا جا سکتا ھے؟
کیا صحیح العقیدہ شخص دوسرے عقائد کا مزاق اڑا سکتا ھے؟ اس کی اجازت شریعت نے کہاں تک دی ھے؟
کیا دوسروں (چاھے غلط بھی ھوں) کا مذاق اڑانا صرف اپنی کسی انا کی تسکین مقصود ھوتا ھے یا اس کو داعی کے اوصاف میں گنا جا سکتا ھے؟
lovelyalltime
اشماریہ

محترم اسحاق بھائی
حوالہ آپ سیرت کی کسی بھی کتاب سے دیکھ سکتے ہیں۔ سیرت ابن ہشام میں دیکھ لیں تو ان شاء اللہ یہ تمام واقعات مل جائیں گے۔ میں نے اپنے مطالعہ کی روشنی میں یہ عرض کیا ہے۔

آپ کے استفسارات کا جواب دینے سے پہلے یہ عرض کر دوں کہ یہ میری رائے ہے اور غلط بھی ہو سکتی ہے لیکن میں اسے درست سمجھتا ہوں۔ آپ مناسب جانیں تو اس کا رد فرما سکتے ہیں۔ میں مشکور ہوں گا۔
دوسری بات ذرا غور فرمائیے گا تو اس رائے میں بہت سے علمائے دیوبند بھی آئیں گے۔ مجھے ان سے اس سلسلے میں واقعی اختلاف ہے۔ البتہ میں یہ درست نہیں جانتا کہ ایک چیز میں اختلاف ہو تو دوسری چیزوں کو بھی ترک کر دیا جائے۔
کیا داعی کو صرف حق بیان کرنا چاھیے اور باطل کا خود اندازہ ھو جائے گا؟
کیا داعی کو صرف باطل بیان کرنا چاھیے کہ اس کو دیکھ کر حق کو پہچانے؟

جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ موقع کو دیکھنا چاہیے، مخاطبین کو اور موضوع کو دیکھنا چاہیے۔ بسا اوقات صرف مٹھاس سے وہ کام ہو جاتا ہے جو ذرا سی کڑواہٹ ڈالیں تو ناممکن ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بسا اوقات کڑواہٹ سے وہ کام ہوتا ہے جو ذرا بھی مٹھاس لائیں تو خراب ہو جائے۔
قرآن کریم میں دونوں طرز دکھائے گئے ہیں۔ سورہ مدثر دیکھیں تو ساری کی ساری ہی رد باطل پر ہے۔ سخت انداز و الفاظ ہیں۔
اور سورہ رحمان دیکھیں تو دو تین آیات کے سوا سب جنت کا ذکر ہے۔
اس لیے داعی کو وقت و موقع کے لحاظ سے دیکھنا چاہیے۔ اور اگر وہ اتنی صلاحیت نہیں رکھتا تو پھر حق بیان کرنا اور باطل کا رد پیار و محبت کے انداز میں بہت کم کرنا زیادہ مناسب ہے۔ عموما ڈائریکٹ رد کی ضرب کے بجائے حق کی میٹھی تلوار کا وار سہنا آسان ہوتا ہے۔

کیا اک داعی کو کھل کر مذاق اڑانا چاھیے ؟ اگر ھے تو ایسے لوگوں کو حق کا داعی کہا جا سکتا ھے؟
ہرگز نہیں۔ اس سے نفرتیں بڑھتی ہیں صرف۔ اور کچھ نہیں۔
اس داعی کی نیت تو ہوسکتا ہے درست ہو لیکن نتیجہ غلط ہی نکلتا ہے الا ماشاء اللہ۔ نیت کی بنیاد پر داعی تو کہہ سکتے ہیں لیکن اس سے بچنا اور دوسروں کو اس سے دور رکھنا زیادہ مناسب ہے۔

کیا صحیح العقیدہ شخص دوسرے عقائد کا مزاق اڑا سکتا ھے؟ اس کی اجازت شریعت نے کہاں تک دی ھے؟
میں نے کہیں نہیں دیکھا کہ شریعت نے کسی کے عقیدے کا مذاق اڑایا ہو۔ مجھے اس کی کوئی مثال قرآن و سنت میں نہیں ملی۔ اس میں رد ہے اس قسم کا جس میں مخالفین کے عقائد پر اعتراض کیا گیا ہے لیکن خالصتا اخلاص کی زبان میں۔ ایسے الفاظ میں جو جھنجھوڑتے تو ہیں لیکن توڑتے نہیں۔
بنیادی دینی عقائد کے علاوہ جن عقائد پر آج کل بہت سے جھگڑے ہیں ان میں تو "صحیح العقیدہ" جاننا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اس پر اگر کوئی مذاق اڑائے تو یہ کیسے درست ہو سکتا ہے۔ پھر مذاق اڑانے سے اکثر یہی ہوتا ہے کہ مخاطب اگر بات پہلے سننا بھی چاہتا ہے تو پھر نہیں سنتا۔

کیا دوسروں (چاھے غلط بھی ھوں) کا مذاق اڑانا صرف اپنی کسی انا کی تسکین مقصود ھوتا ھے یا اس کو داعی کے اوصاف میں گنا جا سکتا ھے؟
اس کا دارومدار نیت پر ہے جس سے ہم واقف نہیں۔ لیکن اگر اس سے نقصان زیادہ ہو تو اوصاف میں تو نہیں ذم میں ضرور گنا جا سکتا ہے۔
واللہ اعلم
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ایک داعی میں مندرجہ ذیل اوصاف ہونا ضروری ہے۔اگر ان با توں کو مد نظر رکھتے ہوئے دعوت کے کام کو کیا جائے گا تو ان شاءاللہ کامیابی حاصل ہوگی۔

ہر داعی کو یہ معلوم رہنا چاہیے کہ اعمال کادارو مدار نیت پر ہے اگر نیت صحیح ہوگی اور خالص اللہ کی رضا مندی کے لئے کوئی عمل ہوگا تو من جانب اللہ کامیابی بھی ملے گی اور اللہ کی نصرت شامل حال رہے گی اور اسی عمل پر اللہ کی طرف سے اجر کا وعدہ ہے اس لیے دعوت وتبلیغ کاکام کرنے والے کیلئے سب سے پہلے نیت کا خالص ہونا ضرور ی ہے ، اگر دنیاوی مقاصد مال ومتاع یا شہرت حاصل کرنامقصود ہو تو پھر دنیا اور آخرت میں ناکامی کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہو گا، یاد رہے نام و نمود والا کام زیادہ دن نہیں چلا کرتا اور بہت جلد ضائع ہوجاتا ہے ۔جس کی وجہ دنیامیں بھی شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے اور آخرت کی ذلت ورسوائی وہ الگ ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے : ۔

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۝۰ (سورہ بینہ:۵)

اور ان کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں

'إنَّما الأَعمالُ بالنِّیَّات، وإِنَّمَا لِکُلِّ امرئٍ مَا نَوَى ، فمنْ کانَتْ هجْرَتُهُ إِلَى الله ورَسُولِهِ فهجرتُه إلى الله ورسُولِه، ومنْ کاَنْت هجْرَتُه لدُنْیَا یُصیبُها، أَو امرَأَةٍ یَنْکحُها فهْجْرَتُهُ إلى ما هَاجَر إلیْهِ (متَّفَقٌ عَلَیْہ)

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور آدمی کو وہی کچھ ملتا ہے ۔ جس کی اس نے نیت کی ۔ جس کی ہجرت اپنی نیت کے اعتبار سے اللہ اور اس کی رسول کی طرف ہوگی تو [ اجر اور قبولیت کے اعتبار سے بھی ] اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا یا کسی عورت سے نکاح کی عرض سے ہوگی تو اس کی ہجرت اسی طرف ہوگی جس کی اس نے نیت کی ۔ ( بخاری ۔ مسلم )
 
Top