- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,747
- پوائنٹ
- 1,207
اک نیا شوشہ
کیا حدیث مجتہدین کے اختلاف کا سبب بنی؟
٭…حدیث کی تخفیف کے لئے یہ بھی عجیب وغریب سا مفروضہ گھڑا گیا کہ مجتہدین کے اجتہادات ، استنباطات اور ان کے مختلف فقہی مسالک کی وجہ حدیث ِرسول ہی بنی ہے اس لئے کہ جب بھی کوئی حدیث ان کی نظر سے گذری تو ہر فقیہ نے اس حدیث کی روایت اور متن کے اعتبار سے اپنا علمی محاکمہ کیا اور پھر جو رائے دی وہ بعد میں اختلاف بن کر سامنے آئی۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ ذراآگے بڑھ کر یہ تک کہہ دیجئے کہ مسالک کا وجود بھی اسی حدیث کا مرہون ِمنت ہے۔ اختلافات میں شدید تعصب بھی اگر آیا تو اس میں بھی قصور حدیث کا تھا۔ فقہ یا اصول فقہ میںدرج شدید اختلاف بھی حدیث کا مرہون ِمنت ہے۔اجماع امت بھی ان احادیث کے آگے نہ چل سکا۔وغیرہ۔
٭…یہ حیران کن فلاسفی ہے کہ حدیث رسو ل پر اپنے فقہی اور اجتہادی اختلافات کو مسلط کرتی ہے؟ یہ کیسانظریہ ہے جو حدیث رسول کو اپنے میلانات ورغبات اور رجحانات کے تابع کررہا ہے مگر حدیث رسول کے تابع نہیں ہورہا۔اور اپنی اصلاح کرنے کی بجائے حدیث کو متہم کررہا ہے۔چاروں ائمہ کرام کو برحق مانتے ہوئے بھی جب اپنے ہی امام کی رائے دیگر ائمہ کرام کی رائے پر برتری اختیار کرلے تو پھر اختلاف کی سبیل تو نکل آئی مگر اس میں قصور کس کا؟ حدیث کا یا جمود کا؟کیا یہ سوچ دوسرے کو جرأت نہیں دلائے گی کہ قرآن کے بارے میں بھی وہ یہ کہہ اٹھے کہ امت مسلمہ کے اختلاف اور بطور خاص علماء و فقہاء کے مابین اختلاف کابڑا سبب اللہ کا کلام ہے۔جو جواب اس کا ہے وہی حدیث کی طرف سے بھی ہے۔
٭… ہماری عاجزانہ رائے یہی ہے کہ نہ مجتہدین کرام نے یہ چاہا کہ ہم اپنے رائے دے کر حدیث رسول سے اختلاف کریں اور نہ ہی انہوں نے اپنی رائے کو حدیث رسول کے مقابلے میں کوئی اہمیت دی۔ یہ سب متاخر غالی مزاج لوگوں کی باتیں ہیں جنہوں نے اپنے ذہنی رجحانات کے تحفظ کے لئے ایسا فسانہ گھڑا ہے اور افرادِ امت کے دماغوں پر مسلط ہونے کے لئے ایسی تھیا کریسی کو فروغ دیاہے۔دینی اصطلاح اطاعت واتباع کے مقابلہ میں اصطلاحِ تقلید بھی تو ایجادِ بندہ ہے۔
٭…علماء حدیث نے بڑے کڑے ضابطوں اور اصولوں سے صحیح حدیث کو ضعیف وموضوع ومنکر احادیث سے ممتاز کیا جس کی تائید اہل علم نے بھی کی۔ لیکن اگرہر مسلک نے ابتداء ہی سے یہ طے کرلیا ہو کہ بہرصورت اپنے ہی ہر استنباط واجتہاد کو ترجیح دیناہے تو وہاں صحیح حدیث یا حسن حدیث کیا کرے؟ اس کی قدرو قیمت ہی نہ رہی؟ جب کہ مجتہدین کرام کی طرف منسوب بیشتر اقوال وآراء مسئلہ تخریج کا نتیجہ ہیں نہ کہ ان کی اپنی کاوش ،جن میں زیادہ تر بلاسند بھی ہیں ۔ بے چاری حدیث اب کس کس کا مقابلہ کرے اور کسے صفائی دیتی پھرے۔محدثین کرام نے یہ اصول وضابطے کسی مسلک کی مخالفت میں نہیں بلکہ حدیث رسول کو ضعف اور وضع سے بچانے اور امت کو صحیح حدیث فراہم کرنے کے لئے بنائے تھے تاکہ قلب وذہن کی صفائی اور علمی دلیل کے ساتھ انہیں قبول کیا جائے۔ اور بلاسند یا بلاتحقیق حدیث یا قول کو محض عقیدت کی بناء پر قبول نہ کیا جائے۔یہ ضابطے درج ذیل تھے۔