• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اک نیا شوشہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اک نیا شوشہ

کیا حدیث مجتہدین کے اختلاف کا سبب بنی؟
٭…حدیث کی تخفیف کے لئے یہ بھی عجیب وغریب سا مفروضہ گھڑا گیا کہ مجتہدین کے اجتہادات ، استنباطات اور ان کے مختلف فقہی مسالک کی وجہ حدیث ِرسول ہی بنی ہے اس لئے کہ جب بھی کوئی حدیث ان کی نظر سے گذری تو ہر فقیہ نے اس حدیث کی روایت اور متن کے اعتبار سے اپنا علمی محاکمہ کیا اور پھر جو رائے دی وہ بعد میں اختلاف بن کر سامنے آئی۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ ذراآگے بڑھ کر یہ تک کہہ دیجئے کہ مسالک کا وجود بھی اسی حدیث کا مرہون ِمنت ہے۔ اختلافات میں شدید تعصب بھی اگر آیا تو اس میں بھی قصور حدیث کا تھا۔ فقہ یا اصول فقہ میںدرج شدید اختلاف بھی حدیث کا مرہون ِمنت ہے۔اجماع امت بھی ان احادیث کے آگے نہ چل سکا۔وغیرہ۔

٭…یہ حیران کن فلاسفی ہے کہ حدیث رسو ل پر اپنے فقہی اور اجتہادی اختلافات کو مسلط کرتی ہے؟ یہ کیسانظریہ ہے جو حدیث رسول کو اپنے میلانات ورغبات اور رجحانات کے تابع کررہا ہے مگر حدیث رسول کے تابع نہیں ہورہا۔اور اپنی اصلاح کرنے کی بجائے حدیث کو متہم کررہا ہے۔چاروں ائمہ کرام کو برحق مانتے ہوئے بھی جب اپنے ہی امام کی رائے دیگر ائمہ کرام کی رائے پر برتری اختیار کرلے تو پھر اختلاف کی سبیل تو نکل آئی مگر اس میں قصور کس کا؟ حدیث کا یا جمود کا؟کیا یہ سوچ دوسرے کو جرأت نہیں دلائے گی کہ قرآن کے بارے میں بھی وہ یہ کہہ اٹھے کہ امت مسلمہ کے اختلاف اور بطور خاص علماء و فقہاء کے مابین اختلاف کابڑا سبب اللہ کا کلام ہے۔جو جواب اس کا ہے وہی حدیث کی طرف سے بھی ہے۔

٭… ہماری عاجزانہ رائے یہی ہے کہ نہ مجتہدین کرام نے یہ چاہا کہ ہم اپنے رائے دے کر حدیث رسول سے اختلاف کریں اور نہ ہی انہوں نے اپنی رائے کو حدیث رسول کے مقابلے میں کوئی اہمیت دی۔ یہ سب متاخر غالی مزاج لوگوں کی باتیں ہیں جنہوں نے اپنے ذہنی رجحانات کے تحفظ کے لئے ایسا فسانہ گھڑا ہے اور افرادِ امت کے دماغوں پر مسلط ہونے کے لئے ایسی تھیا کریسی کو فروغ دیاہے۔دینی اصطلاح اطاعت واتباع کے مقابلہ میں اصطلاحِ تقلید بھی تو ایجادِ بندہ ہے۔

٭…علماء حدیث نے بڑے کڑے ضابطوں اور اصولوں سے صحیح حدیث کو ضعیف وموضوع ومنکر احادیث سے ممتاز کیا جس کی تائید اہل علم نے بھی کی۔ لیکن اگرہر مسلک نے ابتداء ہی سے یہ طے کرلیا ہو کہ بہرصورت اپنے ہی ہر استنباط واجتہاد کو ترجیح دیناہے تو وہاں صحیح حدیث یا حسن حدیث کیا کرے؟ اس کی قدرو قیمت ہی نہ رہی؟ جب کہ مجتہدین کرام کی طرف منسوب بیشتر اقوال وآراء مسئلہ تخریج کا نتیجہ ہیں نہ کہ ان کی اپنی کاوش ،جن میں زیادہ تر بلاسند بھی ہیں ۔ بے چاری حدیث اب کس کس کا مقابلہ کرے اور کسے صفائی دیتی پھرے۔محدثین کرام نے یہ اصول وضابطے کسی مسلک کی مخالفت میں نہیں بلکہ حدیث رسول کو ضعف اور وضع سے بچانے اور امت کو صحیح حدیث فراہم کرنے کے لئے بنائے تھے تاکہ قلب وذہن کی صفائی اور علمی دلیل کے ساتھ انہیں قبول کیا جائے۔ اور بلاسند یا بلاتحقیق حدیث یا قول کو محض عقیدت کی بناء پر قبول نہ کیا جائے۔یہ ضابطے درج ذیل تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
٭ …استنباطی یا اجتہادی اختلاف کو ختم کرنے کے لئے{ إِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ إِلَی اللّٰہِ َو الرَّسُوْلِ} کی آیت کو ہمیشہ پیش نظر رکھاجائے تاکہ امت ، شخصیات میں پڑنے کی بجائے براہ راست اسوۂ رسول سے مستفید ہونے کی خوگر بنے۔ اور یہ بھی اس کے ذہن میں پیوست ہو جائے کہ اختلاف انسانوں میں ہوتا ہے اللہ اور اس کے رسول کے قول میں نہیں ہوتا۔

٭… صحیح حدیث اگر ہو تو کسی ضعیف یا مرسل حدیث کا اس سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ان کے مابین کوئی موافقت کی کوئی سبیل نکل سکتی ہے۔ حل یہی ہے کہ ضعیف کو چھوڑ دیا جائے اور صحیح کو قبول کرلیا جائے۔

٭… ضعیف احادیث کو اپنے استنباط کا مرکز ومحور بنانافقاہت نہیں اور نہ ہی ایسی فقہ استنباط یا اجتہاد نام پا سکتی ہے۔

٭… جوبھی ضعیف وصحیح کے مابین اختلاف کو ثابت کرتا پھرے وہ دین کے فہم صحیح سے نابلد انسان ہے۔ اسے کسی علمی اصول سے غرض نہیں بلکہ اپنے خاص مقصد سے غرض ہے۔

٭…یہ سنت خلفاء راشدین ہی تھی کہ حدیثی معرفت حاصل ہوتے ہی وہ اپنے استنباط یا اجتہاد کو ترک کردیا کرتے تاکہ حدیث موردِ اختلاف نہ بن پائے۔

٭ـ…ان مجتہدین کا یا ان کے شاگردوں کا باہمی اختلاف کتنا ہی رہا ہو مگر وہ بھی حدیث کی صحت یا اس کے فہم وعمل پر اثر انداز نہ ہوسکا۔

٭ـ…ان اصولوں کافائدہ یہ ہوا کہ ہر محدث، فقیہ یا مجتہد حدیث سے استفادے کے وقت انہی اصولوں کا پابند ہوگیا اوراس کی ذاتی رائے ذاتی رائے ہی رہی مگر وہ حدیث رسول کو یا اس کی صحت کومتأثر نہ کرسکی۔

٭… فقہاء کرام کے اختلاف کا بنیادی سبب حدیث ہے؟ یہ جملہ تخفیف حدیث کے علاوہ بہت سی بدگمانیاں پیدا کرتا ہے۔ ہمیں ائمہ فقہاء کی اس نصیحت کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے جو انہوں نے اپنے ہر اجتہاد اور اختلافی قول کو صحیح حدیث کا مدمقابل پاتے وقت کی:

… امام مالک رحمہ اللہ کا یہ قول:

کُلٌّ یُرَدُّ إِلاَّ صَاحِبُ ہَذَا الْقَبْرِ۔

ہر ایک کی بات رد کی جاسکتی ہے سوائے اس قبر والے کی۔

… امام محترم سیدنا ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہ قول:
إِذَا صَحَّ الْحَدیثُ فَہْوَ مَذْہَبِی۔
جب حدیث صحیح ہو تو میرا بھی وہی مذہب ہے۔

… امام محترم سیدنا امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول:
اُتْرُکُوا قَولِی بِخَبَرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ۔
میری بات کو خبر رسول کے مقابلے میں ترک کردو۔

٭… ایک مسئلے پر اگرایک ہی امام مجتہد کے دو یا تین اقوال ہوں۔ نیز امام کے تلامذہ کا بھی اپنے شیخ سے اختلاف ہو تو اس میں حدیث رسول کا کیا قصور؟

٭… خلفاء اور ائمہ ہدی کا قرآن وسنت کی صحت کے بارے میں نظریہ بڑا ٹھوس تھا۔ ان کی نظر اپنے اختلاف پر تھی ۔ قرآن وسنت میں وہ اختلاف کو تلاش نہیں کرتے پھرتے تھے۔ اس لئے یہ کہنا ہی ازخود غلط ہے : حدیث مجتہدین کے اختلاف کا سبب بنی ہے!!!۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
٭… صحیح حدیث کی موجودگی میں اختلاف ہوناممکن ہی نہیں۔کیونکہ اس میں صحت کی تمام شروط موجود ہیں۔ جب کہ اس سے مختلف قول، فتوی یااجتہاد ایسی صحت کی شرائط نہیں رکھتا۔ پھر اگر اختلاف ہو تو اس میں حدیث رسول کا کیا قصور؟ کیونکہ اختلاف اب حدیث رسول میں نہیں بلکہ کسی کے فہم یاذاتی سوچ میں ہوسکتا ہے ۔ رسول اکرم ﷺ کے الفاظ جامع اور واضح ہوا کرتے تھے۔ آپ عرب تھے، فصیح تھے اور مبین قرآن تھے۔ آپ ﷺ کے کسی پیغام میں کوئی الجھن یا گنجلک نہیں۔ مجتہدین حضرات کے تو ایک ہی مسئلے میں کئی اقوال ہیں جو ان کا ذاتی علم وفہم ہے ۔ پھرحدیث کیسے اختلاف کا سبب بن گئی؟

٭…کتب ِفقہ کو پڑھ کر محسوس یہی ہوتا ہے کہ ائمہ اربعہ کے اپنے تلامذہ اپنے امام محترم کی تقلید کے ہر گز قائل نہ تھے۔جس کا مطلب دین میں فکر وفہم کی آزادی کو قرآن وسنت کے دائرہ میں ہی رکھنا ہے خواہ یہ اختلاف ائمہ اربعہ تو کیا شیخین سے ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وہ اصل بات ہے جس سے ہٹاکر حدیث کو ہی مورد الزام بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ائمہ مجتہدین اوران کے ارشد تلامذہ کے مابین اختلاف ہی باور کرا رہا ہے کہ ائمہ مجتہدین تمام تر احترام کے باوجود اپنا محدود علم رکھتے تھے اور کسی مسئلہ میں ان کے دو دویا تین تین اقوال بھی ان کی علم کی بدلتی حالت کا اشارہ دیتے ہیں یا صحیح صورتحال کا ان سے وقتی طور پر اوجھل ہونا ہے جو ان کے بعض شاگردوں کوصحیح حدیث کے مل جانے کے بعد ختم ہوجاناچا ہئے ۔نیز مجتہدین کرام کے اقوال بالا ، حدیث کی اہمیت اور اس کی مزاج شناسی کی دلیل ہیں کہ وہ اپنی رائے یا استنباط کو حدیث کی موجودگی میں ذرہ برابر اہمیت نہیں دے رہے۔ اسی لئے کتب فقہ میں ائمہ مجتہدین اور ان کے شاگردوں میں اختلاف ِرائے خاصا نمایاں کیا گیا تاکہ بعد کی نسلیں ا س اختلاف کو علمی اختلاف سمجھیں اور مسلکی دوڑ میں نہ پڑیں۔ اوراس کی گنجائش رکھتے ہوئے تعصب سے دور رہیں۔

٭٭٭٭٭

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم -حقیقت، اعتراضات اور تجزیہ
 
Top