محمدسمیرخان
مبتدی
- شمولیت
- فروری 07، 2013
- پیغامات
- 453
- ری ایکشن اسکور
- 924
- پوائنٹ
- 26
اگر احکام اللہ کے دین کے تابع نہ ہوں تو وہ جاہلیت کے احکام ہیں جو کسی کو گمراہی سے نہیں نکال سکتے کسی کو اندھے پن سے نجات نہیں دے سکتے
اللہ کا فرمان ہے۔
اَفَحُکْمَ الْجَاہِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اﷲِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ۔(مائدہ:۵۰)
کیا یہ لوگ جاہلیت کا حکم تلاش کررہے ہیں اللہ سے زیادہ بہتر قانون کس کا ہوسکتا ہے یقین کرنے والی قوم کے لیے ۔
یہ اس آیت اس بات واضح دلیل ہے کہ احکام وہی ہیں جو اللہ نے نازل اور اس کتاب میں محفوظ ہیں جس میں دائیں بائیں کہیں سے باطل نہیں آسکتا جو نور ہے ہدایت ہے دنیا وآخرت کی کامیابی کی ضمانت ہے ۔اسی طرح نبی ﷺسے صحیح سند کے ساتھ ثابت شدہ سنت بھی اللہ کے حکم کے بموجب واجب الاتباع ہے۔ اگر احکام اللہ کے دین کے تابع نہ ہوں تو وہ جاہلیت کے احکام ہیں جو کسی کو گمراہی سے نہیں نکال سکتے کسی کو اندھے پن سے نجات نہیں دے سکتے بلکہ یہ خود اندھے ہوتے ہیں بلکہ یہ اپنے ماننے والوں کو روشنی سے اندھیروں کی طرف لیجاتے ہیں بلکہ یہ تو اندھیروں پہ اندھیرے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
اَﷲُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَوْلِیٰٓؤُہُمُ الطَّاغُوْت یُخْرِجُوْنَہُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ(بقرہ:۲۵۷)
اللہ ایمان والوں کا دوست ہے انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے جبکہ کافروں کا دوست طاغوت ہے جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لیجاتا ہے ۔
جس نے اللہ کاحکم چھوڑ دیا وہ جاہلیت کے اندھے احکام کا محتاج ہوجاتا ہے چاہے وہ اس کا ارادہ کرے یا نہ کرے (چاہے یا نہ چاہے)علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس نے اللہ کا حکم چھوڑدیا اور دیگر قوانین کی طرف فیصلہ لے گیا تو ا س نے اللہ اور اس کے دین کے ساتھ کفر کرلیا۔
ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
انہوں نے کتاب الیاسق کا تذکرہ کیا جو چنگیز خان نے مرتب کی تھی اور اس کے بیٹوں نے اسے قانون بنالیا تھا اس کے مطابق حکومت کرتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلمان ہونے کے بھی دعویدار تھے ۔اللہ ان لوگوں کی مذمت کررہا ہے جو اللہ کے ان احکام کو ترک کرتے ہیں جن میں ہر قسم کی بھلائی موجود ہے اور ہر قسم کے شر سے پاک ہے اس کو چھوڑ کردیگر آراء وخواہشات کی طرف جاتا ہے جنہیں لوگوں نے شریعت کے سہارے کے بغیر وضع کیا ہے جس طرح کہ اہل جاہلیت ان گمراہ کن آراء واقوال کے مطابق فیصلے کرتے تھے ان کے اپنے وضع کردہ ہوتے تھے اور جس طرح کہ تاتاری چنگیز خان کی کتاب الیاسق پر عمل پیرا تھے جو کہ مختلف شرائع یہودیت،نصرانیت اور اسلام سے اخذشدہ قوانین پرمشتمل کتاب تھی ۔اس میں بہت سے احکام خالص چنگیزخان کے ذہن کی اختراع پر مشتمل تھے ۔اس کی تاتاری اتباع کرتے تھے اور اسے کتاب اللہ وسنت رسول اللہ پر مقدم رکھتے تھے ۔جس نے بھی ایسا کیا وہ کافر ہے اس سے قتال واجب ہے جب تک کہ اللہ ورسول ﷺکے حکم کی طرف نہ آجائے اور ہر چھوٹے بڑے معاملے میں انہی کی طرف رجوع کرے۔(ابن کثیر:۲/۱۰۷)
پھر ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
محمدحامد الفقی کہتے ہیں:ان سب میں انبیاء پر اللہ کی نازل کردہ شریعتوں کی مخالفت ہے ۔جس نے محمدﷺپر نازل شدہ محکم شریعت کو چھوڑدیا اور دیگر منسوخ شدہ شرائع کی طرف فیصلہ لے گیا تو وہ کافر ہوگیا ۔جب منسوخ شدہ آسمانی شریعتوں کی طرف فیصلہ لے جانا کفر ہے تو اس کے بارے میں کیا کہیں گے جو الیاسق کی طرف فیصلہ لیجاتا ہے ؟جس نے ایسا کیا وہ باتفاق مسلمین کافر ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
اَفَحُکْمَ الْجَاہِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اﷲِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ۔(مائدہ:۵۰)
کیا یہ لوگ جاہلیت کا حکم تلاش کرتے ہیں کون ہے اللہ سے زیادہ بہتر حکم کرنے والا یقین کرنے والی قوم کے لیے ۔
فرمان ہے :
فَلاَ وَ رَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(نساء:۵۹-۶۵)
تیرے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک اپنے متنازعہ امور میں تجھے فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں اور پھر اپنے دلوں میں آپ کے فیصلے سے تنگی نہ پائیں اور مکمل طور پر تسلیم کرلیں ۔ (البدایہ والنھایۃ لابن کثیر ۳۱/۱۱۹)
اس بارے میں شیخ الفقی کہتے ہیں :اَفَحُکْمَ الْجَاہِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ آیت سے متعلق ابن کثیر رحمہ اللہ کی تفسیر کے بارے میں کہتے ہیں کہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے الیاسق کے مطابق حکومت وفیصلے کرنے کی وجہ سے تاتاریوں کو کافر کہا ہے ۔
احمد شاکررحمہ اللہ فرماتے ہیں:اس جیسا یا اس سے بدترین وہ لوگ ہیں جنہوں نے فرنگیوں کے قوانین اپنالیے ہیں اور جان ومال اور عزتوں کے فیصلے ان کے مطابق کرتے ہیں اور انہیں کتاب وسنت پرمقدم رکھتے ہیں تو یہ لوگ بلاشک وشبہ کافر ومرتدہیں جب تک ان احکام پر قائم ہیں اور اللہ کے نازل کردہ دین کی طرف رجوع نہیں کرتے ایسی حالت میں یہ لوگ خود کو کچھ بھی کہیں یا کوئی بھی ظاہری عمل کریں مثلاً نماز روزہ وغیرہ (کوئی فائدہ نہیں ہوگا)۔(حاشیہ فتح المجید:۴۰۶)
احمد شاکر کے اس واضح قول پر غورکریں تو وضعی طاغوتی قوانین کا حکم اور حقیقت سامنے آجاتی ہے اوران احکام وقوانین کو صحیح سمجھنے والوں کا حکم بھی معلوم ہوجاتا ہے ۔اسی طرح تاتاریوں اور موجودہ دور کے مسلمانوں کے درمیان موجود فرق بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اس دور کے مسلمان دین اسلام کو اپنائے ہوئے تھے اپنے عقیدے کو انہوں نے محفوظ رکھا تھا وہ خودساختہ قانون الیاسق پر عمل نہیں کرتے تھے صرف تاتاری اس پر عمل پیرا تھے جبکہ موجودہ دورکے حکمرانوں نے تمام لوگوں کو وضعی کفری قوانین پر عمل کرنے کے لیے مجبور کرلیا ہے اور اس قانون کو عدالتوں میں سب سے اعلیٰ قانون کا درجہ دے رکھا ہے حکومتیں بدلتی رہتی ہیں مگر قوانین میں تبدیلی نہیں ہوتی ہر حکومت ہی کفریہ قوانین جاری رکھتی ہے ۔جب موجودہ دور اور تاتاری دور کے لوگوں کا فرق معلوم ہوگیا تو یہ بھی ثابت ہوگیا کہ موجودہ دور کے لوگ شریعت اسلامی پر زیادہ ظلم کررہے ہیں اور جن تاتاریوں کے کفر پر علماء کا اجماع ہے ان سے زیادہ یہ لوگ کفر کررہے ہیں ۔(ابن کثیر رحمہ اللہ کے مذکورہ فتوی کے ضمن میں)کیا اس کے ساتھ یہ جائز ہے کہ شریعت محمدی کی موجودگی میں مسلمان اپنے ممالک میں بے دین یورپ کے قوانین اپنائیں جو صرف باطل آراء وخواہشات پرمبنی ہیں اور جب چاہتے ہیں جیسے چاہتے ہیں ان میں تبدیلی کرتے رہتے ہیں اس کی پرواہ کیے بغیر کہ یہ شریعت کے موافق ہیں یامخالف ۔تاریخ کے کسی دور میں مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا سوائے تاتاریوں کے دور کے جو کہ ظلم وجور کابدترین دور تھا ۔اس کے باوجود وہ مسلمان اس کے سامنے نہیں جھکے بلکہ تاتاریوں پر اسلام غالب آگیا اور وہ شریعت اسلام کے تابع ہوگئے ان تاتاریوں کے اس عمل کا اثر زائل ہوگیا اس لیے کہ مسلمان اپنے دین وشریعت پر قائم رہے یہ ظالمانہ حکم حکمرانوں کے ہاں رائج تھا عام مسلمانوں نے نہ اسے سیکھا نہ اس پر عمل کیا اس لیے یہ قانون (الیاسق کا)بہت جلد ی ختم ہوگیا۔ابن کثیر نے آٹھویں صدی میں بنائے جانے والے قانون کے خلاف کتنا مضبوط موقف اپنایا ہے وہ قانون جو اسلام کے دشمن چنگیزخان نے بنایا تھا آٹھویں صدی کے اس چنگیزی قانون کی طرح ہم چودہویں صدی میں مسلمانوں کا حال دیکھ رہے ہیں دونوں ادوار میں فرق یہ ہے کہ اس آٹھویں صدی میں یہ خودساختہ قانون صرف حکمرانوں تک محدود تھا اس لیے جلدی ختم ہوگیا اس کے مسلمان مزید ظالم ہوگئے اور اندھیروں میں بھٹک گئے کہ انہوں نے کافروں کے قوانین کو اپنالیا جو الیاسق کی طرح ہی کافر کے بنائے ہوئے ہیں ۔یہ جو قوانین لوگوں کے بنائے ہوئے ہیں خود کو مسلمان کہتے ہیں اور مسلمان ہی انہیں سیکھتے ہیں اور نسل درنسل اس پر فخر کرتے آرہے ہیں اپنے تمام امور کے فیصلے انہی قوانین کے مطابق کرتے ہیں اور اپنے مخالفین کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں جو لوگ شریعت اسلامی اور دین کو اپنائے ہوئے ہیں انہیں یہ لوگ جامد اور رجعت پسند کہتے ہیں ان لوگوں نے توباقی ماندہ اسلامی احکام میں بھی مداخلت شروع کررکھی ہے انہیں بھی اپنے جدید الیاسق سے بدلنا چاہتے ہیں اس کے لیے مختلف حیلے بہانے اور تراکیب اختیار کررہے ہیں حالانکہ انہیں اس بات پر شرم نہیں آتی کہ یہ حکومت کو دین سے دور کرتے جارہے ہیں کیا کسی مسلمان کے لیے ایسی حالت میں اس طرح کا دین جدید کو اپنانا جائز ہے؟یعنی موجودہ خود ساختہ نئے قوانین ؟ یا کسی باپ کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کو ان قوانین کو سیکھنے کے لیے بھیجے ؟یا ان کو اپنانے ان کا اعتقاد رکھنے ان پر عمل کرنے کے لیے کہے ؟کیاایسا کرنے والاباپ جاہل نہیں ہوگا؟یا کسی مسلمان کے لیے جائز ہے کہ اس دور کے یاسق کے لیے قاضی کاعہدہ قبول کرے اس پر عمل کرے اور شریعت اسلامی سے اعراض کرے ؟میرا نہیں خیال کہ کوئی ایسا مسلمان جو اپنے دین سے واقفیت رکھتا ہواور اس پراجمالی وتفصیلی ایمان رکھتا ہوکہ یہ قرآن اللہ نے اپنے نبی ﷺپر نازل کیا ہے اس میں کہیں سے باطل نہیں آسکتا اور یہ بھی ایمان رکھتا ہوکہ نبیﷺکی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور یہ ہرحال میں واجب ولازمی ہے ۔میراخیال ہے کہ یہ کام وہی مسلمان کرسکتا ہے جو اسلام کے بارے میں متردد ہو یا تاویل کرنے والا ہو ورنہ تو ان حالات میں قاضی کا عہدہ قبول کرنا بہت ہی غلط اور ناحق کام ہے جس کو کسی بھی لحاظ سے صحیح اور جائز قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ان وضعی قوانین میں کفر صریح واضح طور پر نظر آتا ہے کسی مسلمان کے لیے ان پر عمل کرنے میں کوئی عذر نہیں ہے لہٰذا ہر شخص کو ان سے اجتناب کرنا چاہیے ہر شخص اپنے آپ کا ذمہ دار ہے ۔علماء کو چاہیے کہ بغیر کسی خوف وملامت کے ڈر کے واضح طور پر بیان کریں اور اللہ کا صحیح دین لوگوں تک پہنچائیں اس میں کوتاہی نہ کریں ۔(عمدۃ التفسیر:۴/۱۷۳-۱۷۴)
سید قطب شہیدرحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
ایسے لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو دعویٰ اسلام کا کرتے ہیں مگر انہوں نے شریعت اسلامی کو حالات کے تقاضوں کا بہانہ کرکے ترک کردیا ہے۔ یہ کس طرح جائز ہے کہ لوگ دعویٰ مسلمان ہونے کا کرتے ہیں حالانکہ وہ اپنے گلے سے اسلام کا پٹہ اتارچکے ہیں اور شریعت اسلامی کو مکمل طور پر چھوڑ چکے ہیں اللہ کی شریعت کو چھوڑ کر گویا انہوں نے اس کی الوہیت کو چھوڑدیا ہے زندگی کے تمام معاملات سے شریعت کا خاتمہ کرلیا ہے۔(الظلال:۲/۹۰۱-۹۰۲)