نمازی کے آگے سے بچوں کا گزرنا
حكم مرور الأطفال أمام المصلين
السؤال:
يقول: عندما أقوم إلى الصلاة تأتي بنتي وعمرها ثلاث سنوات وأخوها وعمره سنة ونصف، ويقومون بحركات الأطفال المعتادة، فكيف أتصرف معهم؟ وهل صلاتي صحيحة عندما يمرون من أمامي ومن حولي؟
سوال :
جب میں نماز کیلئے کھڑا ہوتا ہوں تو میری تین سال کی بیٹی ،اور ڈیڑھ برس کا بیٹا میرے سامنے بچوں کے کھیل کود شروع کردیتے ہیں ، تو کیا دوران نماز ان بچوں کا میرے آگے اور دائیں بائیں گزرنے سے میری نماز پر کوئی اثر پڑے گا ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب:
الصلاة صحيحة، وإذا تيسر منعهم - منع الأطفال - فهو المطلوب وهو المشروع، المشروع أن تمنع أن يمر أحد بين يديك سواء كان ذلك طفلًا أو بهيمة أو غير ذلك؛ لقوله ﷺ: إذا صلى أحدكم إلى شيء يستره من الناس فأراد أحد أن يجتاز .... فليدفعه، فإن أبى فليقاتله فإنه شيطان.
فالمقصود إذا تيسر منع الطفل أو الدابة فعليك أن تمنع ذلك حسب طاقتك، وإذا غلبك أولئك فلا حرج عليك، إلا أن يكون المار امرأة أو حمارًا أو كلبًا أسودًا فإنه يقطع الصلاة، هذه الثلاثة، لقوله ﷺ: يقطع صلاة المرء المسلم إذا لم يكن بين يديه مثل مؤخرة الرحل: المرأة والحمار والكلب الأسود رواه مسلم في الصحيح، أما غير هذه الثلاث فلا يقطع لكن ينقص الأجر، إذا مر رجل ينقص الأجر، أو مر طفل فينقص الأجر إذا لم تمنعه وأنت تستطيع، أو دابة غير الكلب الأسود ينقص الأجر لكن لا يقطع إلا هذه الثلاث هي التي تبطل الصلاة: المرأة إذا كانت تامة والحمار والكلب الأسود، أما الطفلة دون البلوغ فلا تقطع. نعم.
المقدم: جزاكم الله خيرًا.
https://binbaz.org.sa/fatwas/14365/
جواب :
بچے ہوں ،یا جانور یا کوئی بھی جس حد تک ان کو آگے سے گزرنے سے روکنا ممکن تھا اگر اس حد روکا ،تو نماز صحیح ہے ، کیونکہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (اگر تم میں کوئی سترہ کی آڑ میں نماز ادا کر رہا ہے ،اور کوئی آگے سے گزرنا چاہے تو اسے روکنا چاہیئے ،اگر پھر بھی گزرنے کی کوشش کرے تو اسے سختی سے روکے کیونکہ وہ شیطان ہے ۔
بہر صورت مقصود یہ ہے کہ نماز کے دوران آگے سے گزرنے والے بچے یا جانور کو حسب استطاعت روکنا ضروری ہے ،تمام کوشش کے باوجود اگر پھر بھی آگے گزرے تو نمازی پر کوئی گناہ نہیں ،
ہاں اگر سامنے سترہ نہ ہو اور آگے سے عورت ،گدھا ،سیاہ کتا گزرے گا تو نماز ٹوٹ جائے گی ،کیونکہ صحیح مسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے کیلئے کھڑا ہو اور اس کے سامنے پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی شے ہو تو وہ آڑ کیلئے کافی ہے۔ اگر اتنی بڑی (یا اس سے اونچی) کوئی شئے اس کے سامنے نہ ہو اور گدھا یا عورت یا سیاہ کتا سامنے سے گزر جائے تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔“
اور ان تینوں کے علاوہ کوئی آگے سے گزرے تو نماز تو نہیں ٹوٹے گی تاہم اجر میں کمی اور نقص لازم آئے گا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
صحیح مسلم اور دیگر کتب میں حدیث شریف ہے کہ :
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ يُصَلِّي، فَلَا يَدَعْ أَحَدًا يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَلْيَدْرَأْهُ مَا اسْتَطَاعَ، فَإِنْ أَبَى فَلْيُقَاتِلْهُ، فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو اپنے سامنے سے کسی کو نہ نکلنے دے بلکہ اس کو دفع کرے جہاں تک ہو سکے اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے کیونکہ وہ شیطان ہے۔“